محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
ذہن سازی
انسان کی ذہنیت ہی دوسروں کو اسکی اوقات کا پتہ دیتی ہے۔
انسان کی ذہنیت پر اس کے ماحول کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کی ذہنت ان پانچ افراد کی اوسط ذہنیت کی مساوی ہوتی ہے جن کے ساتھ وہ اپنا زیادہ وقت گزارتا ہے۔ چیونکہ انسان اپنے گھرانے اور دوست احباب کے درمیان ہی زیادہ وقت گزارتا ہے اس لئے اس کی ذہنیت ان سے اوپر سطح پر نہیں پہنچ پاتی، الا یہ کہ وہ اپنی ذہن سازی خود ہی کرے۔ یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں، بس آپ کو اچھے لوگوں کے درمیان زیادہ وقت گزارنا ہے اور ہر حال میں مثبت سوچ اپنانا ہے۔
اسلام وہ دین ہے جو انسان کو ہر حال میں مثبت سوچ اپنانے اور اچھے لوگوں کے درمیان رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اس لئے مسجد کو سب سے بہتر جگہ قرار دیا گیا چہاں مثبت ماحول میں اللہ کی عبادت اور انسان کی ذہن سازی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک فرمان ہے کہ ”شہروں میں پیاری (بہترین) جگہ اللہ کے نزدیک مساجد ہیں اور سب سے بری جگہ اللہ کے نزدیک بازار ہیں۔“ "(صحيح مسلم ،كتاب المساجد ومواضع الصلاة وصحيح ابن خزيمة 129، وصحيح ابن حبان 1600)
اسی طرح آپ ﷺ نے جن سات قسم کے لوگوں کے بارے میں قیامت کے دن عرش الٰہی کے سائے میں جگہ ملنے کی بات کی ہے، ان میں ایک وہ شخص ہوگا جس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہو یعنی جب وہ مسجد سے نکلے تو دوبارہ مسجد میں چانے کیلئے بے قرار رہے، یہاں تک کہ دوبارہ مسجد میں پہنچ جائے۔ (سنن ترمذي، حدیث نمبر: 2391)
الحمد للہ آج بھی ہماری مساجد میں بازار کے مقابلے میں اچھے لوگ ہی آتے ہیں۔ لہذا جو بندہ زیادہ وقت مسجد میں لگائے گا وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے سے بہتر لوگوں کے درمیان گزارے گا۔ لہذا اس کی ذہنیت کی سطح بلند ہوگی۔ اس کے علاوہ چیونکہ مسجد میں کوئی بیہودہ بات نہیں کرتا بلکہ نماز اور ذکر و اذکار میں ہی وقت گزارتا ہے اس لئے مسجد میں بیٹھے بندے کے ذہن میں منفی خیالات کا حملہ بہت کم ہوتا ہے اور اس کی سوچ مثبت ہی ہوتی ہے۔
قرآن و سنت میں انسان کو ہر حال میں مثبت سوچ اپنانے کی تعلیم دی گئی ہے، کسی مرحلے پر بھی کسی قسم کی کوئی منفی سوچ نہیں دی گئی۔
آج کورونا وائرس کی وبا میں گھرے انسان کے اذہان پر جب ہر طرف سے منفی سوچ کا غلبہ ہے جس کی وجہ کر مغربی اقوام کے بعض افراد خودکشی کر رہے ہیں، ایسے حالات میں بھی اسلام اپنے ماننے والوں کو مثبت سوچ دیتا ہے۔ درج ذیل حدیث میں غور کیجئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر کسی شخص کی بستی میں وبا پھیل جائے اور وہ صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے وہیں ٹھہرا رہے کہ ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا‘‘۔ (صحيح البخاري، حدیث نمبر: 3474)
ایک اور موقعے پر آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’طاعون (وبائی امراض) میں مر جانے والا شہید ہے‘‘۔ (سنن ابی داود، حدیث نمبر:3111)
دیکھئے! غور کیجئے!
اور قربان جائیے اپنے پیارے نبی ﷺ پر، کورونا وائرس جیسی وبا میں گھرے انسانیت کیلئے یہ جملے کتنے تسلی، تشفی اور اطمینان و سکون دلانے والے ہیں۔ یہ آخرت پر یقین رکھنے والوں کے اذہان سے منفی سوچ اور خوف نکالنے کیلئے تریاق کا کام کرتا ہے۔ ان باتوں سے انسان کے اذہان میں مثبت اور تعمیری سوچ پیدا ہوتی ہیں جن کے سہارے وبا میں گھِرا انسان ڈپریسن یا ذہنی دباؤ سے نکل کر اپنی زندگی سنوارنے میں لگ جاتا ہے۔
پیارے رسول اللہ ﷺ یہ باتیں لبِ مرگ انسان کے دل میں بھی امید کی کرن جگاتی ہیں۔ ایک بسترِ مرگ پر پڑا شخص بھی بے خوف اور اپنے رب سے پُر امید رہتا ہے کہ موت کی صورت میں اسے بطورِ شہید رب کی مہمانی اور رب کی جنت میں داخلے کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
اور بطورِ شہید اللہ کی مہمانی کیا ہے، یہ رب تعالیٰ سے سنئے:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿١٦٩﴾ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١٧٠﴾ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٧١﴾ سورة آل عمران
’’ جو لوگ اللہ کی راه میں شہید کئے گئے ہیں ان کو ہرگز مرده نہ سمجھیں، بلکہ وه زنده ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں (169) اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے (170) وه خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس سے بھی کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے اجر کو برباد نہیں کرتا (171)‘‘ سورة آل عمران
االلہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کی ان بشارت اور خوشخبری پر غور کیجئے اور کورونا وائرس کی اس وبا کے وقت اپنے ذہن منفی سوچ آنے نہ دیجئے بلکہ مثبت اور تعمیری سوچ کے ذریعے اپنی مستقبل کی تعمیر کیجئے۔ یاد رکھئے مومن کی مستقبل اللہ کی رضا اور اللہ کی جنت کا حصول ہے۔
لہذا اللہ تعالیٰ نے اس وبا کی وجہ کر جو فرصت کے لمحات عطا کئے ہیں اسے مثبت اور تعمیری کام میں لگائیے اور اس کے بارے میں سن سن کر یا سوچ سوچ کر اپنا نقصان کرنے سے بچئے۔
یاد رکھئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں:
(1) صحت و تندرستی اور
(2) فرصت و فراغت ‘‘
(یعنی ان ایام کی قدر نہیں کرتے اور یوں ہی ضائع کر دیتے ہیں)۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ دونوں نعمتیں (صحت و تندرستی اور فرصت و فراغت) آج ہمارے پاس ہے
آج ہمیں کچھ فارغ اوقات مل گئے ہیں اور الحمد للہ! ہمیں صحت و تندرستی کی نعمت بھی ملی ہوئی ہے۔ لہذا ہم اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کی باتوں کو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔۔
اس کورونا وائرس کی وبا سے ہمیں، سارے مسلمانوں کو اور ساری دنیا کو محفوظ کر دے۔ آمین
فقظ اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے۔ محمد اجمل خان کو
تحریر: محمد اجمل خان
۔
انسان کی ذہنیت ہی دوسروں کو اسکی اوقات کا پتہ دیتی ہے۔
انسان کی ذہنیت پر اس کے ماحول کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کی ذہنت ان پانچ افراد کی اوسط ذہنیت کی مساوی ہوتی ہے جن کے ساتھ وہ اپنا زیادہ وقت گزارتا ہے۔ چیونکہ انسان اپنے گھرانے اور دوست احباب کے درمیان ہی زیادہ وقت گزارتا ہے اس لئے اس کی ذہنیت ان سے اوپر سطح پر نہیں پہنچ پاتی، الا یہ کہ وہ اپنی ذہن سازی خود ہی کرے۔ یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں، بس آپ کو اچھے لوگوں کے درمیان زیادہ وقت گزارنا ہے اور ہر حال میں مثبت سوچ اپنانا ہے۔
اسلام وہ دین ہے جو انسان کو ہر حال میں مثبت سوچ اپنانے اور اچھے لوگوں کے درمیان رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اس لئے مسجد کو سب سے بہتر جگہ قرار دیا گیا چہاں مثبت ماحول میں اللہ کی عبادت اور انسان کی ذہن سازی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک فرمان ہے کہ ”شہروں میں پیاری (بہترین) جگہ اللہ کے نزدیک مساجد ہیں اور سب سے بری جگہ اللہ کے نزدیک بازار ہیں۔“ "(صحيح مسلم ،كتاب المساجد ومواضع الصلاة وصحيح ابن خزيمة 129، وصحيح ابن حبان 1600)
اسی طرح آپ ﷺ نے جن سات قسم کے لوگوں کے بارے میں قیامت کے دن عرش الٰہی کے سائے میں جگہ ملنے کی بات کی ہے، ان میں ایک وہ شخص ہوگا جس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہو یعنی جب وہ مسجد سے نکلے تو دوبارہ مسجد میں چانے کیلئے بے قرار رہے، یہاں تک کہ دوبارہ مسجد میں پہنچ جائے۔ (سنن ترمذي، حدیث نمبر: 2391)
الحمد للہ آج بھی ہماری مساجد میں بازار کے مقابلے میں اچھے لوگ ہی آتے ہیں۔ لہذا جو بندہ زیادہ وقت مسجد میں لگائے گا وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے سے بہتر لوگوں کے درمیان گزارے گا۔ لہذا اس کی ذہنیت کی سطح بلند ہوگی۔ اس کے علاوہ چیونکہ مسجد میں کوئی بیہودہ بات نہیں کرتا بلکہ نماز اور ذکر و اذکار میں ہی وقت گزارتا ہے اس لئے مسجد میں بیٹھے بندے کے ذہن میں منفی خیالات کا حملہ بہت کم ہوتا ہے اور اس کی سوچ مثبت ہی ہوتی ہے۔
قرآن و سنت میں انسان کو ہر حال میں مثبت سوچ اپنانے کی تعلیم دی گئی ہے، کسی مرحلے پر بھی کسی قسم کی کوئی منفی سوچ نہیں دی گئی۔
آج کورونا وائرس کی وبا میں گھرے انسان کے اذہان پر جب ہر طرف سے منفی سوچ کا غلبہ ہے جس کی وجہ کر مغربی اقوام کے بعض افراد خودکشی کر رہے ہیں، ایسے حالات میں بھی اسلام اپنے ماننے والوں کو مثبت سوچ دیتا ہے۔ درج ذیل حدیث میں غور کیجئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر کسی شخص کی بستی میں وبا پھیل جائے اور وہ صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے وہیں ٹھہرا رہے کہ ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا‘‘۔ (صحيح البخاري، حدیث نمبر: 3474)
ایک اور موقعے پر آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’طاعون (وبائی امراض) میں مر جانے والا شہید ہے‘‘۔ (سنن ابی داود، حدیث نمبر:3111)
دیکھئے! غور کیجئے!
اور قربان جائیے اپنے پیارے نبی ﷺ پر، کورونا وائرس جیسی وبا میں گھرے انسانیت کیلئے یہ جملے کتنے تسلی، تشفی اور اطمینان و سکون دلانے والے ہیں۔ یہ آخرت پر یقین رکھنے والوں کے اذہان سے منفی سوچ اور خوف نکالنے کیلئے تریاق کا کام کرتا ہے۔ ان باتوں سے انسان کے اذہان میں مثبت اور تعمیری سوچ پیدا ہوتی ہیں جن کے سہارے وبا میں گھِرا انسان ڈپریسن یا ذہنی دباؤ سے نکل کر اپنی زندگی سنوارنے میں لگ جاتا ہے۔
پیارے رسول اللہ ﷺ یہ باتیں لبِ مرگ انسان کے دل میں بھی امید کی کرن جگاتی ہیں۔ ایک بسترِ مرگ پر پڑا شخص بھی بے خوف اور اپنے رب سے پُر امید رہتا ہے کہ موت کی صورت میں اسے بطورِ شہید رب کی مہمانی اور رب کی جنت میں داخلے کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
اور بطورِ شہید اللہ کی مہمانی کیا ہے، یہ رب تعالیٰ سے سنئے:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿١٦٩﴾ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١٧٠﴾ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٧١﴾ سورة آل عمران
’’ جو لوگ اللہ کی راه میں شہید کئے گئے ہیں ان کو ہرگز مرده نہ سمجھیں، بلکہ وه زنده ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں (169) اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے (170) وه خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس سے بھی کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے اجر کو برباد نہیں کرتا (171)‘‘ سورة آل عمران
االلہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کی ان بشارت اور خوشخبری پر غور کیجئے اور کورونا وائرس کی اس وبا کے وقت اپنے ذہن منفی سوچ آنے نہ دیجئے بلکہ مثبت اور تعمیری سوچ کے ذریعے اپنی مستقبل کی تعمیر کیجئے۔ یاد رکھئے مومن کی مستقبل اللہ کی رضا اور اللہ کی جنت کا حصول ہے۔
لہذا اللہ تعالیٰ نے اس وبا کی وجہ کر جو فرصت کے لمحات عطا کئے ہیں اسے مثبت اور تعمیری کام میں لگائیے اور اس کے بارے میں سن سن کر یا سوچ سوچ کر اپنا نقصان کرنے سے بچئے۔
یاد رکھئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں:
(1) صحت و تندرستی اور
(2) فرصت و فراغت ‘‘
(یعنی ان ایام کی قدر نہیں کرتے اور یوں ہی ضائع کر دیتے ہیں)۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ دونوں نعمتیں (صحت و تندرستی اور فرصت و فراغت) آج ہمارے پاس ہے
آج ہمیں کچھ فارغ اوقات مل گئے ہیں اور الحمد للہ! ہمیں صحت و تندرستی کی نعمت بھی ملی ہوئی ہے۔ لہذا ہم اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کی باتوں کو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔۔
اس کورونا وائرس کی وبا سے ہمیں، سارے مسلمانوں کو اور ساری دنیا کو محفوظ کر دے۔ آمین
فقظ اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے۔ محمد اجمل خان کو
تحریر: محمد اجمل خان
۔