• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رب کی پہچان

شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
94
رب کی پہچان

اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا وہ اول بھی ہے وہ آخر بھی ہے کوئی بھی اس کی برابری کا نہیں، کائنات کی تخلیق سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا،

فرمان باری تعالیٰ ہے

وَ هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَ يَّامٍ وَّكَانَ عَرۡشُهٗ عَلَى الۡمَآءِ۔۔۔

ترجمہ:
اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔۔۔
(سورۃ ھود آیت 7)

پھر بلند ہوا اور عرش پر جلوہ افروز ہوا، اس کے عرش کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں ایک فرشتے کی کان کی لو سے لے کر کندھے تک کی مسافت سات سو برس کی ہے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے
سنن ابي داود، حدیث نمبر: 4727 (صحيح)

فرمان باری تعالیٰ ہے

اَلَّذِيۡنَ يَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ وَمَنۡ حَوۡلَهٗ يُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَيُؤۡمِنُوۡنَ بِهٖ وَيَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا‌ ۚ رَبَّنَا وَسِعۡتَ كُلَّ شَىۡءٍ رَّحۡمَةً وَّعِلۡمًا فَاغۡفِرۡ لِلَّذِيۡنَ تَابُوۡا وَاتَّبَعُوۡا سَبِيۡلَكَ وَقِهِمۡ عَذَابَ الۡجَحِيۡمِ ۞

ترجمہ:
جو لوگ عرش کو اٹھائے ہوئے اور جو اس کے گردا گرد (حلقہ باندھے ہوئے) ہیں (یعنی فرشتے) وہ اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور مومنوں کے لئے بخشش مانگتے رہتے ہیں۔ کہ اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیرے رستے پر چلے ان کو بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچالے (سورۃ غافر آیت 7)

وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ
اور تیرے پروردگار کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے (69-الحاقة:17)

(اس آیت مبارکہ میں فرشتوں کی تعداد کا ذکر ہے کہ روز قیامت آٹھ فرشتے رب کے عرش کو اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہونگے ۔)

شبہات کا ازالہ
کچھ لوگوں نے من گھڑت باتیں لوگوں میں پھیلا رکھی ہیں کہ فرشتے سدرہ المنتہیٰ کے آگے نہیں جاتے کیونکہ ان کے پر جل جاتے ہیں
فرشتے کبھی بھی اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے جو انہیں حکم دیا جاتا ہے وہ وہی کرتے ہیں، پَر تو تب جلیں جب وہ اپنے رب کی نافرمانی کرنے والے ہوں۔

وہ سنتا ہے کہ اس کی مثل کوئی سن نہیں سکتا وہ دیکھتا ہے کہ اس کی مثل کوئی دیکھ نہیں سکتا وہ عرش پر ہوتے ہوئے بھی اپنی مخلوقات کے دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں تک کا جاننے والا ہے وہ باریک بین ہے کہ کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ، اگر ایک ہی وقت میں اس کی تمام کی تمام مخلوقات سوال کرے تو وہ اسی وقت سب کی حاجتیں پوری کرنے پر قادر ہے اور اس کے خزانوں میں کبھی کچھ کمی نہیں ہو سکتی

حدیث قدسی میں فرمان باری تعالیٰ ہے

اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، آدمی اور جنات سب ایک میدان میں کھڑے ہوں، پھر مجھ سے مانگنا شروع کریں اور میں ہر ایک کو جو مانگے سو دوں تب بھی میرے پاس جو کچھ ہے وہ کم نہ ہو گا مگر اتنا جیسے دریا میں سوئی ڈبو کر نکال لو۔۔

اس نے فرشتے پیدا کئے جن کی تعداد انسانوں سے کئی گنا زیادہ ہے اور کوئی بھی اس کی نافرمانی نہیں کر سکتا

جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر قیامت تک ان کی باری نہیں آئے گی ۔ ( صحیح مسلم 416)

اسے کسی نے نہیں دیکھا ہاں اس کا دیدار جنتوں کیلئے خاص ہے

فرمان باری ہے

قَالَ لَنْ تَرَانِي (تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے)
(سورۃ الاعراف 143)

(جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کو دیکھنے کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے)

فرمان باری تعالیٰ ہے

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ

اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے مگر الہام (کے ذریعے) سے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے تو وہ اللہ کے حکم سے جو اللہ چاہے القا کرے۔ بےشک وہ عالی رتبہ (اور) حکمت والا ہے۔

(یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی پیغمبر کے روبرو ہو کر بات نہیں بلکہ پردے کی پیچھے سے کی یا الہام کے ذریعے یا فرشتہ بھیج کر پیغام پہنچایا ۔)

مسروق کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا: اے ابو عائشہ! تین امور ہیں، ان میں سے ایک کا قائل ہونے کا مطلب اللہ تعالیٰ پر جھوٹا الزام لگانا ہو گا۔ میں نے کہا وہ کون سے امور ہیں؟ انہوں نے کہا جس آدمی کا یہ خیال ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ربّ کو دیکھا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا۔ میں ٹیک لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور کہا: اے ام المؤمنین! ذرا مجھے مہلت دیجئے اور جلدی مت کیجئیے، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ‏‏‏‏

وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ
اور تحقیق اس نے اس کو واضح افق میں دیکھا۔“ (۸۱-التكوير:۲۳)

وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى
اور تحقیق اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔“ (۵۳-النجم:۱۳)

(‏‏‏‏ان آیات سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کو دیکھا ہے)؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس امت میں میں نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آیات کے بارے میں سوال کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ جواب دیا ”یہ تو جبریل تھا، میں نے اسے اس کی اصلی حالت میں دو مرتبہ دیکھا، میں نے اسے آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، اس کی بڑی جسامت نے آسمان و زمین کے درمیانی خلا کو بھر رکھا تھا۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا:

لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

آنکھیں اس اللہ کا ادراک نہیں کر سکتیں، لیکن وہ آنکھوں کا ادراک کر لیتا ہے اور وہ تو باریک بیں اور باخبر ہے۔“ (۶-الأنعام:۱۰۳) نیز آپ نے یہ ارشاد باری تعالیٰ نہیں سنا:

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ

‏‏‏ ”اور ناممکن ہے کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جو چاہے وحی کرے، بیشک وہ برتر ہے حکمت والا ہے۔“ (۴۲-الشورى:۵۱)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اور جس نے یہ گمان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے بعض احکام چھپائے ہیں تو اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹا الزام دھر دیا،

حالانکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

”‏‏‏‏اے رسول! جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تیری طرف نازل کیا گیا، اسے آگے پہنچا دو، اگر تم نے ایسے نہ کیا تو (‏‏‏‏اس کا مطلب یہ ہو گا کہ) تم نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔“ (۵-المائدة:۶۷)

پھر انہوں نے کہا: اور جس نے یہ گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ کل میں ہونے والے امور کی خبر دیتے ہیں تو اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ”کہہ دیجئیے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی غیب نہیں جانتا۔“ (۲۷-النمل:۶۵)۔

سلسله احاديث صحيحه، حدیث نمبر: 3801

شبہات کا ازالہ
کچھ جہل قسم کے علماء نے یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ملاقات مسروق سے ہوئی اس وقت وہ بہت چھوٹی تھیں ، حالانکہ کہ مسروق ایک تابعی تھے یعنی ان کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر مبارک تقریباً تائیس سال تھی اور یہ ملاقات تو اس کے بعد ہی کسی برس میں ہوئی۔

اللہ تعالیٰ نے ایسی ایسی مخلوقات پیدا کی جہنیں ہم دیکھ سکتے ہیں اور جنہیں نہیں بھی دیکھ سکتے سب کو وہی کھلا پلا رہا ہے۔

کوئی اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کر سکتا
فرمان باری تعالیٰ ہے

مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَشۡفَعُ عِنۡدَهٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِهٖ‌ؕ

کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے۔ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 255)

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرنے والا ہے اور یہ محبت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں انبیاء ورسل اور صالحین کو اپنے بندوں کے حق میں سفارش کی اجازت دے گا تانکہ انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے ورنہ کوئی بھی اپنی مرضی سے کسی کی سفارش نہ کر سکتا۔

اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔

فرمان باری تعالیٰ ہے
قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الا اﷲ

کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں

شبہات کا ازالہ
کچھ لوگوں نے پیغمبروں اور اولیاء اللہ کو عالم الغیب سمجھا اور قرانی آیات کا غلط مطلب نکال کر لوگوں کو گمراہ کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں واضح طور پر فرما رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور پیغمبروں کی زبانوں سے بھی کہلوا رہا ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے یہ تو مشرکین نے مشہور کر رکھا تھا کہ یہ پیغمبر غیب جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی باتوں کا رد کر رہے ہیں کہ یہ غیب نہیں جانتے بلکہ ان کی طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی جا رہی ہے۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ جہلاء کن آیات کا غلط مطلب نکال کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں

فرمان باری تعالیٰ ہے
’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ - ‘‘(آل عمران:۱۷۹)

اور القرآن - سورۃ نمبر 3 آل عمران
آیت نمبر 179

ترجمہ:
اور الله تم کوغیب کی باتوں سے بھی مطلع نہیں کرے گا البتہ اللہ اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے انتخاب کرلیتا ہے۔

اس آیت کا مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے صرف پیغمبروں کو وحی کے ذریعے خبر دی ہے کہ آنے والے وقت میں کیا ہو گا قبر میں کیا ہو گا جہنم میں کیا ہو گا جنت میں کیا ہو گا عام لوگوں کو ان باتوں سے آگاہ نہیں کیا
وحی کی مختلف قسمیں ہیں جن کے ذریعے اس نے پیغمبروں کو مطلع فرمایا تانکہ وہ لوگوں کو آنے والے عذاب سے آگاہ کر دیں اور لوگ یقین کر لیں کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو عالم الغیب بنا دیا زیادتی ہو گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں متعدد بار فرما چکا ہے کہ اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور پیغمبر بھی فرما چکے ہیں کہ ہمیں غیب کا علم نہیں بلکہ ہماری طرف وحی کی جاتی ہے

اللہ تعالیٰ نے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اور آخری نبی بنایا ان پر عظیم کتاب نازل کی انہیں رحمت العالمین بنایا انہیں نبیوں کا سردار بنایا انہیں مقام محمود اور حوض کوثر عطا کیا دنیا اور آخرت میں ان پر رحمت و سلامتی نازل کی ان کے علاوہ بہت کچھ عطاء کیا اور کرتا رہے گا، عالم الغیب نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی شان میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔

ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

عٰلِمُ الۡغَيۡبِ فَلَا يُظۡهِرُ عَلٰى غَيۡبِهٖۤ اَحَدًا، اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰى مِنۡ رَّسُوۡلٍ

غیب (کی بات) جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا ،ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے

سورۃ نمبر 72 الجن آیت نمبر 26،27

اوپر والی آیت میں لفظ یطلع استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے اطلاع دینا یعنی وحی کے ذریعے غیب کی باتوں کی اطلاع دینا ماضی میں کیا ہوا جیسے انبیاء کرام کے واقعات کا ذکر مستقبل میں کیا ہو گا جیسے عذاب قبر عذاب جہنم اور جنت کی نعمتوں کا ذکر وغیرہ اور اس آیت میں لفظ یظھر استعمال ہوا ہے جس کا مطلب غیب کو آنکھوں کے سامنے کر دینا اللہ تعالیٰ نے مختلف موقعوں پر غیب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے ظاہر کر دیا۔

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”جب قریش نے مجھے جھوٹا قرار دیا تو میں حطیم میں کھڑا ہوا۔ میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا گیا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔ صحيح بخاري، حديث نمبر:4710

صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے جس کا مختصر یہ ہے کہ

لوگوں نے کہا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے اپنے کھڑےہونے کی اس جگہ پر کوئی چیز لینے کی کوشش کی، پھرہم نے دیکھاکہ آپ رک گئے۔آپ نے فرمایا: "میں نے جنت دیکھی اور میں نے اس میں سے ایک گچھہ لینا چاہا اور اگر میں اس کو پکڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے رہتے (اور) میں نے جہنم دیکھی، میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا
صحيح مسلم، حدیث نمبر: 2109

اسی طرح شب معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے ظاہر کر دیا ۔

ایک اور آیت جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ‘‘(التکویر: ۲۴)
یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں ۔
اس آیت کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ نے جو بھی غیب کی باتیں آپ صلی الل
ہ علیہ وسلم کو بتائیں آپ نے اس میں بخل سے کام نہیں لیا بلکہ اسے امت تک پہنچا دیا تانکہ لوگ آخرت کی تیاری کر سکیں۔

واللہ اعلم بالصواب

(️اویس تبسم راجہ)
 
Top