رجب کے کونڈوں کی بدعت
بشکریہ: دین خالص ڈاٹ نیٹ
دین میں بدعت ایک ایسا کام ہے ۔ جو دین کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے اور وہ دین جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے پیش کیا اس میں اضافہ کر دیتا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں دین اسلام مکمل ہو گیا اور اسمیں کسی قسم کی کمی نہیں رہ گئی حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکمیل دین کی خوش خبری سنائی
چنانچہ ارشاد فرمایا ۔
جب شریعت کے محل کی تکمیل ہو گئی اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ بھی باقی نہیں رہی تو پھر جو شخص اس میں اپنی طرف سے اینٹ لگانے کی کوشش کرے گا ۔ تو وہ بہت بڑا مجرم ہو گا ۔ گویا کہ اس کے نزدیک وہ دین جو اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھلایا اور حکم دیا کہ اپنی امت کو اس کی تبلیغ کرےں نامکمل ہے اور اس کی تکمیل کرنا چاہتا ہے اس طریقے سے وہ ایسا کام کرنا چاہتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اس صورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام آتا ہے کہ آپ نے شریعت کو نامکمل چھوڑ دیا یا پھر شریعت کے بعض احکام جن کا آپ کو علم تھا قصداً لوگوں تک نہیں پہنچائے ( نعوذ باللہ من ذالک ) حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مکمل شریعت نازل کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل شریعت لوگوں تک پہنچا دی ۔الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ( المائدہ )
” آج میں نے دین اسلام کو تمہارے لیے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت قرآن پاک کی بھی تکمیل کر دی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لیے پسند فرمایا ۔ “
حجۃ الوداع کے موقعہ پر لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ۔ الاھل بلغت ۔ لوگو ! کیا میں نے تم کو اللہ کے احکام پہنچا دئیے سب نے کہا ہاں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر خطبہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے : ” شرا الامور محدثاتھا “ سب سے برا کام دین میں نئے امور جاری کرنا ہے ایک موقعہ پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا ، ایاکم ومحدثات الامور دین میں نئے کام ایجاد کرنے سے بچو.... تو گویا کہ بدعت بہت برا کام ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا موجب بنتا ہے اور بدعتی کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ملک میں جس قدر بدعات اور رسومات کو فروغ حاصل ہے ۔ اتنا شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہو ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہر سال صرف دو تہوار عیدالفطر اور عیدالاضحی منائے ہیں لیکن آج شکم کے پجاریوں نے خدا جانے کتنے تہوار بنا رکھے ہیں بڑے پیر کی گیارہویں تو ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو کھیر پکا کر ضرور کرتے ہیں اس کے علاوہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ اسلام میں نئی عید ایجاد کر کے اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی مول لیتے ہیں عوام کالا نعام کو کیا علم ہوتا ہے وہ تو علما سو اور پیٹ پرست مولویوں کے کہنے پر سب کچھ کرتے ہیں ۔
اسی طرح ہمارے ملک میں ایک بدعت حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے کونڈوں کی بھی جاری ہے جو 22 رجب کو کی جاتی ہے گیارہویں کی طرح یہ بھی علماءسو کے لیے شکم پروری کا بہانہ ہے ۔ اس موقعہ پر خوب حلوہ پوڑی کھاتے ہیں ۔ کونڈے بھرنے والوں کو جب سمجھایا جاتا ہے کہ یہ کام بدعت اور ناجائز ہے تو وہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت داستان جو لوگوں سے سنی سنائی ہوتی ہے بیان کرتے ہیں جس کا کوئی ثبوت ہے نہ سند ۔
یہ داستان منشی جمیل احمد کا منظوم کلام ہے اس میں ایک لکڑ ہارے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو مدینہ میں تنگدستی کی زندگی بسر کرتا تھا اور کے بیوی بچے اکثر فاقے کرتے تھے وہ بارہ سال تک در در دھکے کھاتا رہا لیکن فقر و فاقہ اور تنگدستی کی زندگی ہی گزارتا رہا.... یہ لکڑ ہارا ایک دن وزیر کے محل کے پاس سے گزرا اس کی بیوی مدینہ میں وزیر کی نوکری کرتی تھی وہ ایک دن جھاڑو دے رہی تھی کہ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے ساتھیوں سمیت وہاں سے گزرے وہ وزیر کے محل کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ساتھیوں سے پوچھتے ہیں ؟ آج کونسی تاریخ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آج رجب کی بائیس 22 تاریخ ہے امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے فرمایا اگر کسی حاجت مند کی حاجت پوری نہ ہوتی ہو یا کسی مشکل میں پھنسا ہو اور مشکل کشائی کی کوئی سبیل نظر نہ آتی ہو تو اس کو چاہئیے کہ بازار سے نئے کونڈے لائے اور ان میں حلوہ اور پوڑیاں بھر کر میرے نام کی فاتحہ پڑھے پھر میرے وسیلے سے دعا مانگے اگر اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی نہیں ہوتی تو وہ قیامت کے روز میرا دامن پکڑ سکتا ہے ۔
یہ ایک بالکل من گھڑت قصہ ہے ۔ جو شکم کے پجاریوں اور علماءسوءنے اپنے کھانے کا بہانہ بنا رکھا ہے اس کی کوئی سند اور ثبوت نہیں اور کسی مستند کتاب میں بھی اس کا ذکر نہیں اس کے جھوٹے اور غلط ہونے پر کئی دلائل ہیں ۔ مدینہ طیبہ میں کبھی بادشاہ ہوا ہے نہ وزیر ۔
حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی پیدائش 22 رجب کو نہیں ہوئی بلکہ ایک روایت کے مطابق 8 رمضان المبارک 80ھ میں ہوئی دوسری روایت کے مطابق 17 ربیع الاول 83ھ کو ہوئی ۔ ان کی وفات 15 شوال 148ھ کو ہوئی ۔ ان کی زندگی کے تقریبا 52 سال بنو امیہ کے دور میں گزرے اور ان کا دارالخلافہ بغداد تھا لوگ مدینہ منورہ کا واقعہ بیان کرتے ہیں بنا بریں یہ واقعہ بالکل من گھڑت اور جھوٹا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ 22 رجب حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی پیدائش کا دن ہے نہ وفات کا بس یونہی لوگوں نے ان کی طرف منسوب کر دیا تاریخ حوالہ جات کے مطابق اس دن حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اہل تشیع نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ دن خوشی سے منایا تھا بعد ازاں انہوں نے حضرت جعفر رحمہ اللہ کی طرف منسوب کر دیا کہ یہ ان کی پیدائش کا دن ہے پس ان کی اس رسم کو آہستہ آہستہ اہلسنت کا عقیدہ رکھنے والوں نے اپنا لیا ۔
بہرحال یہ قصہ بالکل بے بنیاد اور غلط ہے اس کا سر ہے نہ پاؤں پیٹ پرست اور شکم پروری کرنے والے علماءنے اسے خوب رواج دیا حتیٰ کہ لوگوں نے اسے دین کا اہم جزو تصور کیا اور رزق کی کشائش اور فقر و تنگدستی دور کرنے کا بہترین نسخہ تصور کیا ۔ چنانچہ اکثر تنگدست لوگ اپنی تنگدستی اور فقر و فاقہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے رجب کے کونڈے کرتے ہیں ۔ اگر بالفرض ہم یہ بات درست مان لیں کہ اسی دن امام جعفر رحمہ اللہ پیدا ہوئے تو پھر بھی یہ کام ناجائز اور شرک کے زمرہ میں آتا ہے کیونکہ مشکل کشاءاور حاجت روا اللہ تعالیٰ ہے نہ کہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ ۔ بنابریں ان کا وسیلہ بھی جائز نہیں مکہ کے مشرک بتوں کو خدا نہیں مانتے تھے بلکہ وہ کہتے تھے کہ یہ ہمارے سفارش کنندہ ہیں ۔ ہم ان کو خدا تصور نہیں کرتے ہم تو صرف ان کے وسیلہ سے اللہ سے مانگتے ہیں ۔
جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے ۔
قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ مشرکین مکہ کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تمام کائنات کا خالق اور پروردگار ہے وہ سمجھتے تھے کہ اللہ وہ واحد ہستی ہے ۔ جس کے ہاتھ میں تمام کائنات کی تدبیر اور تصرف ہے اس کے باوجود قرآن پاک ان کو مشرف کہہ رہا ہے ۔ويعبدون من دون اللہ ما لا يضرہم ولا ينفعہم ويقولون ھولآء شفعآونا عند اللہ ( یونس : 18 )
” یہ ( مشرکین عرب ) اللہ کے سوا ایسے لوگوں کی عبادت کرتے ہیں جن کو ان کے نفع و نقصان کا کوئی اختیار نہیں وہ اس بات کا خود اعتراف کرتے ہیں کہ ہم ان کو خدا نہیں سمجھتے تمام امور کا کرنے والا اللہ ہی ہے لیکن یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ “
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اللہ کو اپنا خالق و رازق اور مالک تسلیم کرتے ہیں تو ان کو مشرک کیوں کہا گیا ؟ یہی وہ نکتہ ہے جس پر غور کرنے سے شرک کی حقیقت پوری طرح کھل کر سامنے آ جاتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرکین عرب نے اللہ کے ماسوا جن ہستیوں کو معبود اور دیوتا بنایا ہوا تھا وہ ان کو اللہ کی مخلوق اور اس کے بندے ہی تسلیم کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے ہم جو کچھ مانگتے ہیں اللہ سے ہی مانگتے ہیں لیکن ان کے وسیلہ سے مانگتے ہیں ہم ان کی پوجا پاٹ نہیں کرتے اور نہ ہم ان کو خدائی اختیارات کے حامل تصور کرتے ہیں بلکہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ان کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں ۔
الغرض رجب کے کونڈوں کا کوئی ثواب نہیں بلکہ یہ بدعت اور شرک کے زمرہ میں آتے ہیں کونڈوں کا قصہ جو امام جعفر کی طرف منسوب ہے بالکل غلط ہے اس میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی توہین ہے کہ آپ نے لوگوں کو اس نیکی کے کام سے آگاہ نہیں کیا ۔ امام جعفر صادق رحمہ اللہ خالق توحید کے داعی تھے ۔ وہ ایسی بات جس میں شرک کی بو آئے یا بدعات کے زمرہ میں شمار ہو بھلا کب لوگوں کو کہہ سکتے ہیں ۔
میرے بھائیو ! اس قبیح رسم اور بدعت سے باز آجاؤ کونڈوں کا حلوہ پوڑی مت کھاؤ اپنے لیے حلال کی روزی تلاش کرو اور صرف اللہ کے نام پر صدقہ خیرات دو غیر اللہ کے نام پر صدقہ خیرات دے کر اپنی نیکی مت ضائع کرو ۔ کتاب و سنت کے مطابق نذر و نیاز دو تا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر راضی ہو جائیں ۔ جب ان کی رضا حاصل ہو گئی تو پھر کسی ولی بزرگ اور امام کے وسیلہ اور رضا کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو کتاب و سنت پر عمل کرنے اور بدعات سے بچنے کی توفیق دے ۔