کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
رخصتی سے قبل نکاح ٹوٹنے کا خطرناک رجحان
لاہور (خصوصی رپورٹ) گیلپ سروے کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں طلاق کی شرح میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے منگنی کا رجحان پہلے سے کہیں زیادہ کم ہو گیا ہے اور اس کی جگہ رخصتی سے قبل نکاح نے لے لی ہے۔
منگنی میں تو چونکہ دونوں فریقین کے مابین انگوٹھیوں کا تبادلہ ہوتا تھا، بغیر کسی کاغذی کارروائی کے صرف ایک زبانی معاہدہ ہوتا تھا اس لئے اسے اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی لہذا اسے توڑنا بہت آسان ہوتا ہے اگر فریقین آگے چل کر اس رشتے سے مطمئن نہیں ہوتے تو جھٹ اس رشتے کو توڑنے کا اعلان کردیتے ہیں اور یوں انگوٹھیاں واپس آ جاتی ہیں اور قطع تعلق ہوجاتا ہے۔
یہ صورت حال عموماً لڑکی والوں کیلئے کافی پریشان کن ثابت ہوتی ہے۔ منگنی کے وقت سے انہیں شادی تک یہی خدشات لاحق رہتے ہیں کہ کہیں لڑکے والے منگنی نہ توڑ دیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ بعض اوقات لڑکے والوے چھوٹی چھوٹی باتوں کو سنگین بنا کر منگنیاں توڑ دیا کرتے یا پھر کوئی باہر کا فریق انہیں بہکا کر منگنی توڑنے پر مجبور کر دیتا لہذا نتیجتاً خاص طور پر لڑکی کے والدین منگنی کے بجائے نکاح کرنے کو ترجیح دینے لگے کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں نکاح توڑنا یا ختم کرنا ایک مشکل فیصلہ اور عمل ہے لہذا منگنی کا رجحان اب بہت کم ہو گیا ہے اور نکاح کی روایت بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے مگر جہاں نکاح کے فائدے ہیں دکھائی دیئے وہاں منگنی سے کہیں زیادہ نقصانات نظر آئے کیونکہ نکاح ٹوٹنے کے منفی اثرات لڑکے پر زیادہ مرتب نہیں ہوتے مگر لڑکی کی حیثیت ”طلاق یافتہ“ کی ہوجاتی ہے۔ ایسے میں لڑکی کی زندگی مکمل طور پر تباہ ہو کر رہ جاتی ہے اور والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ بات جس قدر ممکن ہو لوگوں سے مخفی رکھی جائے۔ دوسری جانب معاشرہ بھی ایسی صورتحال میں لڑکی پر ہی انگلی اٹھاتا ہے کہ ضرور لڑکی ہی غلط ہو گی جو اسے گھر بیٹھے بٹھائے طلاق مل گئی۔ خاص طور پر لڑکی کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کی بچی کا مستقبل محفوظ ہو اور اسی تحفظ اور رشتے کی مضبوطی کیلئے وہ رخصتی سے قبل نکاح پر راضی ہو جاتے ہیں۔
اب چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے شاید ہی ایسا کوئی فرد ہو جس کے پاس موبائل، انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہ ہو۔ لہذا جیسے ہی لڑکے اور لڑکی کا نکاح ہوتا ہے وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں رہی۔ والدین بھی ایسے میں یہ سوچ کر پابندی نہیں لگاتے کہ اب اس رشتے کی شرعی حیثیت موجود ہے یوں ایک دوسرے کی عادات وصفات کو سمجھنے کیلئے وہ موبائل، سکائیپ، واٹس ایپ اور وائبر الغرض ہر ذریعہ ابلاغ کو استعمال کرتے ہیں اور جب بات شروع ہوتی ہے تو غلط فہمیاں بھی جنم لیتی ہیں، اگر ایک فریق کا دل دوسرے سے بھر جائے یا اس کی خامیاں اس کی برداشت سے باہر ہونے لگیں یا پھر اسے اس سے بہتر شخصیت نظر آ جائے تو خاص طور پر لڑکا یہ سوچنے لگتا ہے کہ ”ابھی تو رخصتی نہیں ہوئی یا ابھی لڑکی رخصت ہو کر میرے گھر تو نہیں آئی لہذا ابھی اس بندھن سے باآسانی آزاد ہوا جا سکتا ہے“ ایسی صورتحال میں جب رشتہ ٹوٹتا ہے تو نہ صرف لڑکی کو ٹھکرائے جانے کا غم سہنا پڑتا ہے، بلکہ معاشرہ بھی ایسی لڑکی کو عزت اور حیثیت نہیں دیتا۔ بہت سی لڑکیوں کو رخصتی سے پہلے طلاق ہو جانے کے بھیانک اور تلخ تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب فلموں اور ڈراموں میں بھی ایسی آسان اور پرآسائش زندگی دکھائی جاتی ہے کہ لڑکیاں امید کرتی ہیں کہ ان کی زندگی بھی ایسی ہی خیالی اور حسین ہو گی لیکن حقیقی زندگی ڈراموں اور افسانوں سے مختلف ہے۔ ایسے میں جب لڑکی کو تلخ تجربات یا مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ گھبرا جاتی ہیں اور اس رشتے کو ختم کرنے میں ہی عافیت جانتی ہیں۔ اس حوالے سے مذہبی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اسلام میں رخصتی سے قبل نکاح کی مکمل اجازت ہے۔ لیکن نکاح کے بعد رخصتی جس قدر جلدی ممکن ہوسکے کر دینی چاہیے۔
ابلاغ کے ذرائع کے توسط سے نکاح کے بعد لڑکا اور لڑکی جب بات چیت کرتے ہیں تو بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہو جانے کے امکانات ہوتے ہیں اگر انسان سامنے ہو تو بہت ساری غلط فہمیوں سے بچ سکتا ہے۔ لیکن چونکہ جسمانی قربت نہیں ہوتی اس لئے بات بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ طلاق تک نوبت آپہنچتی ہے۔ معاشرے میں مادہ پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ رشتوں کی مٹھاس اور اہمیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ نکاح بھی ایک عہد ہے جسے ہم اللہ تعالی کو حاضر وناظر جان کر نبھاتے ہیں لیکن لوگوں کا اپنی زبان پر اعتبار کم ہو گیا ہے پہلے ایک زمانہ تھا جب لوگ اپنی کہی ہوئی بات پر قائم رہتے تھے اور اپنی زبان پر سب کچھ داؤ پر لگا دیتے تھے۔
اگر ہم قرآن پاک میں نکاح سے متعلق احکامات کو دیکھیں تو سوزة نسا کی پہلی آیت، سورة العمران اور سورة احزاب میں جب جب نکاح کا ذکر آیا ہے ساتھ تقوی کا بھی بیان ملتا ہے۔ اور تقوی سے مراد اللہ تعالی کی موجودگی کا احساس رکھنا ہے۔ دو اجنبی اللہ کے نام پر ہی اس رشتے کا آغاز کرتے ہیں اور اس تقوی کی بدولت ہی اس رشتے میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو امہات المومنین کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ کس طرح حضرت خدیجہ عرب کی مالدار خاتون ہونے کے باوجود آپ ﷺ کے ساتھ مشکل حالات میں بھی رہیں اور بھوک میں سوکھا چمڑا تک انہیں چوسنا پڑا لیکن انہوں نے کبھی شکایت نہیں کی۔ دوسری جانب آپ ﷺ نے بھی اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو کس قدر عزت اور احترام سے رکھا۔ والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت ایسی کریں کہ انہیں رشتوں کے تقدس کا پوری طرح خیال ہو۔
ماہرین قانون کا کہنا تھا کہ ہم قانونی طور پر کسی کو پابند نہی کر سکتے کہ وہ طلاق دے یا نہ دے۔ اس سلسلے میں یہ ہوسکتا ہے کہ نکاح تب ہی کیا جائے جب رخصتی کرنا مقصود ہو، نکاح اور رخصتی کے درمیان زیادہ وقفہ نہ رکھا جائے۔ اور والدین بھی اچھی طرح چھان بین کر کے اپنے بچوں کے رشتے کریں۔ نکاح کا بندھن انتہائی پاکیزہ اور حساس ہوتا ہے گوکہ یہ انتہائی نازک ہوتا ہے مگر اس کے ٹوٹ جانے کے ثمرات بہت گمبھیر وسنگین ہوتے ہیں خاص طور پر لڑکیوں کے مستقبل پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنی بیٹی کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کی غرض سے منگنی کے بجائے نکاح پر آمادہ ہیں تو یہ اقدام کافی سوچ بچا اور صلاح ومشورے کے بعد اٹھایئے اور یہ بات بھی اپنے ذہن میں رکھیں کہ خدانخواستہ منگنی کی طرح نکاح بھی ٹوٹ سکتا ہے اور چونکہ منگنی کے مقابلے میں نکاح کی ایک مضبوط شرعی وقانونی حیثیت بھی ہے، لہذا ایسے میں آپ کی بیٹی کو کن مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اس بات کو ضرور اپنے ذہن میں رکھیں۔ کہیں آپ کا ایک غلط فیصلہ آپ کی بیٹی کا مستقبل تباہ نہ کرے۔
ح