عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
سوال: کیا رزق اور شادی كے بارے میں بھی لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے؟
جواب: قلم کی پیدائش سے لے کر قیامت كے دن تک کی ہر چیز کو اللہ تعالی نے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے. اللہ تعالی نے جب سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا تو اسے حکم دیا:
اكْتُبْ، فَقَالَ: مَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبِ الْقَدَرَ مَا كَانَ، وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَد
لکھو، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے.
(ترمذی: 2155 اور 3319، ابو داؤد: 4700، مسند احمد: 5/317 بالفاظ مختلفة)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيد
تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے.
(صحیح بخاری: 3208، صحیح مسلم: 2643)
رزق بھی لکھا ہوا ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی. ہاں البتہ طلبِ رزق كے جو اسباب انسان اختیار کرتا ہے ان میں سے اک سعی وکوشش بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے.
(سورۃ الملک: 15)
انہیں اسباب میں سے ایک صلہ رحمی یعنی والدین سے نیکی کرنا اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَه
جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے
(صحیح بخاری: 5986، صحیح مسلم: 2557)
اور انہیں اسباب میں سے ایک تقویٰ بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا۞ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ
جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے. اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو
(سورۃ الطلاق: 2 اور 3)
لیکن آپ یہ نہ کہیں کہ رزق تو لکھا ہوا اور محدود ہے لہذا میں حصولِ رزق كے لیے اسباب اختیار نہیں کروں گا کیونکہ یہ تو عجز ودرماندگی ہے اور عقل واحتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ رزق اور دین ودنیا کا فائدہ حاصل کرنے كے لیے کوشش کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ
عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کر لے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے
(ترمذی: 2459، ابن ماجہ: 4260، مسند احمد: 4/124) (کئی محدثین نے اسکو ضعیف کہا ہے)
جس طرح رزق لکھا ہوا اور اسباب كے ساتھ مقدر ہے اسی طرح شادی کا معاملہ بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے میاں بیوی میں سے ہر ایک كے لیے یہ لکھا ہوا ہے كہ اس کی شادی اس سے ھوگی اور اللہ تعالی سے تو آسمانوں اور زمین کی کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے.
شیخ ابن عثیمین
{فتاوی اسلامیہ (اردو): 3/133}
جواب: قلم کی پیدائش سے لے کر قیامت كے دن تک کی ہر چیز کو اللہ تعالی نے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے. اللہ تعالی نے جب سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا تو اسے حکم دیا:
اكْتُبْ، فَقَالَ: مَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبِ الْقَدَرَ مَا كَانَ، وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَد
لکھو، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے.
(ترمذی: 2155 اور 3319، ابو داؤد: 4700، مسند احمد: 5/317 بالفاظ مختلفة)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيد
تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے.
(صحیح بخاری: 3208، صحیح مسلم: 2643)
رزق بھی لکھا ہوا ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی. ہاں البتہ طلبِ رزق كے جو اسباب انسان اختیار کرتا ہے ان میں سے اک سعی وکوشش بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے.
(سورۃ الملک: 15)
انہیں اسباب میں سے ایک صلہ رحمی یعنی والدین سے نیکی کرنا اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَه
جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے
(صحیح بخاری: 5986، صحیح مسلم: 2557)
اور انہیں اسباب میں سے ایک تقویٰ بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا۞ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ
جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے. اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو
(سورۃ الطلاق: 2 اور 3)
لیکن آپ یہ نہ کہیں کہ رزق تو لکھا ہوا اور محدود ہے لہذا میں حصولِ رزق كے لیے اسباب اختیار نہیں کروں گا کیونکہ یہ تو عجز ودرماندگی ہے اور عقل واحتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ رزق اور دین ودنیا کا فائدہ حاصل کرنے كے لیے کوشش کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ
عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کر لے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے
(ترمذی: 2459، ابن ماجہ: 4260، مسند احمد: 4/124) (کئی محدثین نے اسکو ضعیف کہا ہے)
جس طرح رزق لکھا ہوا اور اسباب كے ساتھ مقدر ہے اسی طرح شادی کا معاملہ بھی تقدیر میں لکھا ہوا ہے میاں بیوی میں سے ہر ایک كے لیے یہ لکھا ہوا ہے كہ اس کی شادی اس سے ھوگی اور اللہ تعالی سے تو آسمانوں اور زمین کی کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے.
شیخ ابن عثیمین
{فتاوی اسلامیہ (اردو): 3/133}