تحذیر الناس کی عبارت کے بارے میں اس کے متعلقہ تھریڈ میں عرض کر چکا ہوں۔
کاش کہ آپ کو عربی آتی اور آپ ملا علی قاری رح کی پوری بحث پڑھتے۔ لیکن مجھے یقین ہو چلا ہے کہ آپ تب بھی صرف اپنی مرضی کا حصہ اٹھا کر دیدیتے۔
ایک محدث یا فقیہ جو سمجھتا ہے وہ بیان کر دیتا ہے۔ اگر آپ درست نہ سمجھیں تو اس پر رد کر سکتے ہیں لیکن اس طرح جیسے محقق نے کیا ہے۔ نہ کہ اس طرح اس کے مفہوم کا ہی ستیاناس کر دیں۔
قاری رح نے حدیث کے "اگر" کو باقی رکھتے ہوئے اس کے صحیح ہونے کی صورت میں آیت سے اس کی موافقت کو ظاہر کیا ہے۔ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا لیکن اگر یہ حدیث صحیح ہو تو مفہوم یہ ہوگا کہ وہ نبی شریعت محمدی کا تابع ہوگا۔
یہ نہیں کہا جائے کہ حدیث موضوع ہے اور پھر بھی ایسی تاویل کی جارہی ہے کیوں کہ اولا تو وضع یا ضعف کا حکم ظن غالب کی بنیاد پر لگتا ہے قطعیت کی نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ کئی بار ایسے ہوتا ہے کہ کسی حدیث کو موضوع کسی علت کی بنا پر قرار دیا جا رہا ہوتا ہے اور بعد میں وہ علت کمزور محسوس ہوتی ہے۔