• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسک مینجمنٹ کی شرعی حیثیت معلوم کرنے سے پہلے رسک

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
رسک مینجمنٹ (Risk Management) کی شرعی حیثیت معلوم کرنے سے پہلے رسک اور رسک مینجمنٹ کی مختصر سی وضاحت کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

رسک:

کسی بھی متوقع خطرے کو رسک (Risk) کہتے ہیں، اس کو عربی میں ”خطر“ یا ”مخاطرۃ“ کہا جاتا ہے، لیکن تاجروں کے عرف میں اور مالی معاملات میں جس رسک کو مینج کیا جاتا ہے اس سے مراد وہ نامعلوم واقعات ہوتے ہیں جو مستقبل میں مالی اثرات اور نقصانات میں کافی اور قابلِ توجہ اَثر ڈال سکتے ہیں۔


”پرنسپل آف انشورنس لوما“ میں ”رسک“ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ:

Risks are uncertain events, which cause some material/ significant change/ impact in the financial. (Principles of insurance LOMA)

”رسک اُن نامعلوم حوادث کا نام ہے جو ایک معتد بہ مقدار میں جسمانی ومالی اثرات اور تبدیلی کا سبب بنے۔“

ایک اور قاموس (فرنچ، عربی، انگلش) میں رسک کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:


Possibility of meeting danger or suffering harm, loss, etc

(قاموس فرنسي، عربي، إنجليزي (1/ 2525)

”کسی خطرے، بیماری اور نقصان کے مکان کو رسک کہتے ہیں۔“

اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے، مثلا ًمیں نے شیئرز خریدے، اب مستقبل میں کئی قسم کے نامعلوم واقعات یا حالات پیش آسکتے ہیں، جیسے شیئرز کی قیمت میں اضافہ ہو، یا شیئرز کی قیمت بحال رہے یا شیئرز کی قیمت کم ہو جائے، پہلی صورت میں مجھے نفع ہو گا، دوسری صورت میں مجھے نہ نفع ہو گا نہ نقصان اور تیسری صورت میں مجھے نقصان ہو گا۔ اس قسم کے خطرات کو ”رسک“ کہتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جس ”رسک“ میں نقصان کے پہلو کے ساتھ ساتھ نفع کی امید بھی ہوتی ہے، اس کو ”تخمینی رسک“ (Speculative Risk) کہتے ہیں، جس کی تعریف ماہرین نے ان الفاظ میں کی ہے کہ : ”A probability of a loss or gain“ (یعنی نقصان یا نفع کا امکان)۔ کچھ رسک ایسے ہوتے ہیں، جن میں نفع کی امید نہیں ہوتی، بلکہ صرف نقصان کا احتمال ہوتا ہے، جیسے آگ، سیلاب اور زلزلہ وغیرہ کے واقعات، اس قسم کے رسک کو ”خالص رسک“ (Pure Risks) کہتے ہیں۔
(مجلۃ مجمع الفقہ الإسلامي (2/ 25722)


رسک مینجمنٹ:

رسک مینجمنٹ (Risk Management) کو اُردو میں ”خطرات کی تدبیروانتظام کرنا“ اور عربی میں ”ادارۃ المخاطر“ کہتے ہیں۔ رسک مینجمنٹ ایسے سسٹم اورنظام کو کہتے ہیں جس کے ذریعے متوقع خطرات سے بچا جاتا ہے یا واقع ہونے والے خطرات کو ختم یا کم کیا جاتا ہے۔


”لانگ مین ڈکشنری“ میں رسک مینجمنٹ کی تعرفی اس طرح کی گئی ہے:

A system to prevent or reduce dangerous accidents or mistakes. (Longman Dictionary of contemporary English)

”ایسا نظام جس کے ذریعے خطرناک حوادث یا غلطیوں سے بچا جائے یا اُنہیں کم کیا جائے۔“

عربی کے ایک رسالے میں رسک مینجمنٹ کی وضاحت یوں کی گئی ہے:

إدارة المخاطر: هي عملية تحديد وتحليل والاستجابة للمخاطر وتتبعها ورفع تقارير عنها
(خطة إدارة المخاطر ص:3)

یعنی ایسا طریقہ کار جس میں رسک کی شناخت اور تجزیہ کیا جاتا ہے اور رسک کے حل کا جواب اور اس سے متعلق رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔


رسک مینجمنٹ کے کچھ طریقے (Techniques) ہیں، مثلا ً:
  1. Avoiding Risks
  2. Controlling Risks
  3. Accepting Risks
  4. Transferring Risks
  5. Risk Share

تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے، البتہ اتنا ذہن میں رہنا کافی ہے کہ

  1. پہلی قسم (Avoiding Risks) میں کسی ایسی سرگرمی میں ملوث ہونے سے ہی احتراز کیا جاتا ہے جس میں رسک اور خطرہ ہو۔
  2. دوسری قسم (Controlling Risks) میں ادارہ خود اس طرح کی سرگرمی میں ملوث ہو کر رسک معلوم کر کے اس سے بچنے اور اُسے کم کرنے کے لیے طریقہ کار طے کیا جاتا ہے۔
  3. تیسری قسم (Accepting Risks) میں ادارہ رسک اور مالی خطرات کی ذمہ داری خود قبول کر لیتا ہے۔
  4. چوتھی قسم (Transferring Risks) میں رسک کسی دوسرے ادارے کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ انشورنس میں ہوتا ہے۔
  5. پانچویں قسم (Risk Share) میں کسی ادارے کے افراد رسک اور مالی خطرات کو آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔

رسک مینجمنٹ کا مقصد:

رسک مینجمنٹ کا مقصد صرف مالی نقصانات سے بچنا نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعے کوئی بھی شخص، ادارہ یا بینک اپنا فائنانشل ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے اور ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے ادارے کو کسٹمرز اور عوام کی نظروں میں قابلِ اعتماد بنا سکتا ہے۔


رسک مینجمنٹ شریعت کی نظر میں:

رسک مینجمنٹ، بالفاظِ دیگر مالی خطرات ونقصانات کو ختم یا کم کرنے کو شریعت نے بھی تسلیم کیا ہے، بشرطیکہ مینجمنٹ کا طریقہ کار جائز ہو اور شرعی اصولوں کے خلاف نہ ہو، باری تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورتِ بقرہ کی آیت نمبر 282 میں یہ اہم ہدایت دی ہے کہ اگر کوئی اُدھار کسی کے ذمے واجب ہو رہا ہو تو اُسے ایسی تحریر لکھنی یا لکھوانی چاہیے جو معاملے کی نوعیت کو واضح کر دے،اس ہدایت کا اصل مقصد یہ ہے کہ مقروض شخص قرض کی ادائیگی سے انکار نہ کر سکے اور قرض خواہ متوقع خطرے اور قرض کے ضائع ہونے کے رسک سے محفوظ رہے۔

امامِ ترمذیؒ نے ایک حدیث نقل کی ہے، جس میں ایک شخص رسول اللہ ﷺ سے پوچھتا ہے کہ یا رسول اللہ! میں اپنا اونٹ باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اُسے کُھلا چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ رکھوں؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا کہ اونٹ کو باندھ کر اللہ پر بھروسہ رکھو۔

(سننِ ترمذی4/ 668، حدیث نمبر: 2517)

اس حدیث سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خطرات سے بچنے کے لیے کوئی تدبیر کرنا نہ توکل کے خلاف ہے اور نہ ہی شرعاً ناجائز ہے، بلکہ یہی توکل کی حقیقت ہے کہ انسان خطرات سے بچنے کے لیے وسائل واسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ پر بھروسہ رکھے۔

اسی طرح فقہ اسلامی میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں رسک کو مینج کیا جاتا ہے:

ضمان خطر الطریق:


یہ ٹرانسفرنگ رسک کی مثال ہے، اس کی صورت فقہاء نے یہ لکھی ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے کہ اس راستے پر چلو، یہ محفوظ ہے، اگر تمہارا مال چھین لیا گیا تو میں ذمہ دار ہوں، وہ شخص اس کی ضمانت کی بنیاد پر اس راستے پر چلا، لیکن آگے جا کر اس کو مالی نقصان لاحق ہو گیا،ا س کا مال چھین لیا گیا تو رسک قبول کرنے والا شخص شرعاً ضامن ہوگا۔

(ردالمحتار 5/291)

ضمان الدرک:


ضمان الدرک کی صورت کتبِ فقہ میں یہ مذکور ہے کہ مثلا زید، عمر سے زمین خریدنا چاہتا ہے، لیکن اُسے یہ ڈر ہے کہ کہیں اس زمین میں عمر کے علاوہ کسی اور کا حصہ نہ ہو تو خالد زید کو یہ اطمینان دلاتا ہے کہ یہ زمین جو تم عمر سے خرید رہے ہو اگر اس میں کوئی مستحق نکل آیا تو اس کی قیمت لوٹانے کا میں ضامن ہوں گا۔ ایسی صورت میں اگر زمین میں کوئی مستحق نکل آتا ہے تو گارنٹی دینے والا (خالد) ذمہ دار ہو گا، یہاں بھی رسک کو ٹرانسفر کیا گیا۔ (قواعد الفقہ - ضمان الدرك (1 / 359)


عاقلہ:


اگر کوئی شخص قتل کر دے اور اس کی وجہ سے قاتل پر دیت واجب ہو جائے تو بعض صورتوں میں قاتل خود دیت اداء نہیں کرتا، بلکہ اس کی عاقلہ یعنی برادری دیت اداء کرتی ہے، اس کی تفصیلات کتبِ فقہ میں موجود ہیں۔

(بخاری، حدیث نمبر: 6740)

عقدِ موالات:


اس سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا اور اُسی شخص سے یا کسی اور سے یہ عقد کر لیا کہ میرے مرنے کے بعد میری میراث تمہاری ہو گی اور اگر مجھ سے کوئی جنایت ہو گئی تو اس کی دیت تم اور تمہاری عاقلہ اداء کرے گی، ایسی صورت میں اگر اس شخص نے زندگی میں کوئی جرم کیا تو اس کا ضمان عقد کرنے والے شخص پر لازم ہو گا۔

(الفتاوى الهنديہ (6/ 271)

حوالہ وکفالہ :


حوالہ اور کفالہ دو ایسے عقود ہیں جن کے ذریعے قرض خواہ کا رسک کم ہو جاتا ہے، اگر قرض خواہ چاہے تو اپنا قرض اصل مقروض سے کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل کر دے، جس سے قرض وصول کرنا آسان ہو، اس کو حوالہ کہتے ہیں، یا مقروض کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے شخص کو بھی ضامن بنا دے، پھر چاہے تو اصل مقروض سے قرض کا مطالبہ کرے یا ضامن (کفیل) سے مطالبہ کرے، یہ دونوں معاملات شریعت نے رسک کم کرنے کے لیے مشروع کیے ہیں۔

(تحفۃ الفقہاء 3/ 237و247)

رہن:


رہن کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کا دوسرے کے ذمہ کوئی مالی حق واجب ہو تو صاحبِ حق اس شخص کی کوئی چیز اپنے پاس رکھ سکتا ہے، تاکہ اگر وہ شخص حق کی ادائیگی سے انکار کر دے، یا ادائیگی میں ٹال مٹول کرے تو صاحبِ حق اس کی چیز سے اپنا حق وصول کر سکے، رہن کے ذریعے صاحبِ حق کے رسک کم ہو جاتے ہیں، اس عقد کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے، سورتِ بقرہ کی آیت نمبر 283 میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ
(اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے تو کوئی چیز بطورِ رہن قبضہ میں دیدو)۔

درج بالا تفصیل سے یہ معلوم ہو گیا کہ شریعت نے رسک مینجمنٹ کو تسلیم کیا ہے، لیکن اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ کسی بھی رسک مینجمنٹ کے ٹول کو اپلائی کرنے میں کوئی شرعی خرابی لازم نہ آئے، ورنہ رسک مینجمنٹ کا وہ طریقہ شرعا ً درست نہ ہو گا۔

رسک مینجمنٹ کے شرعی اصول:

شرعی حدود کی رعایت:


شریعت نے ہر عقد یا معاملے میں معاملہ کرنے والوں (Parties) کی کچھ ذمہ داریاں اور کچھ حقوق مقرر کیے ہیں، معاملہ کرنے والے ہر فریق کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور کچھ اس کے حقوق ہوتے ہیں، لہذا رسک کو مینج کرنے کے دوران اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ شریعت کی بیان کردہ ذمہ داریاں (Responsibilities) اور حقوق (Rights) میں خلل واقع نہ ہو۔


مثلا شرکت کے عقد میں تمام شرکاء کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر شریک اپنے لگائے ہوئے سرمایہ کی حد تک نقصان میں بھی شریک ہو گا، مضاربت میں اگر مضارب کی غفلت و کوتاہی کے بغیر نقصان ہو جائے تو اس کی ذمہ داری رب المال (سرمایہ فراہم کرنے والے) پر عائد ہوتی ہے، اب اگر کوئی شریک نقصان کسی دوسرے شریک پر ڈال کر خود اس رسک سے نکل جاتا ہے تو یہ جائز نہ ہو گا، اسی طرح رب المال کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نقصان کی ذمہ داری بہر صورت مضارب پر ڈال دے، کیونکہ اس سے شریعت کی بیان کردہ ذمہ داری متاثر ہوتی ہے۔

استصناع اور سلم کے علاوہ ہر قسم کے خرید وفروخت کے معاملے میں شریعت نے خریدار کو یہ حق دیا ہے کہ وہ خریدی ہوئی چیز پر فی الفور قبضہ کرے، اب اگر معاملہ ہو جانے کے بعد فروخت کنندہ اُس کا یہ حق سلب کر کے کہتا ہے کہ میں کچھ عرصہ بعد چیزفراہم کروں گا تو یہ جائز نہ ہو گا، جس کو ”بیع مضاف الی المستقبل“ (Forward Sale) کہتے ہیں۔


نفع، ذمہ داری کے ساتھ:


فقہاء نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے :

”الخراج بالضمان“
”نفع، ذمہ داری کے بدلے ملتا ہے۔“

(الأشباه والنظائرص: 151)

یعنی جو چیز انسان کے ضمان میں اس طرح آجائے کہ اس چیز کی ہلاکت یا نقصان کی ذمہ داری وہ شخص برداشت کرے تو اس چیز کا نفع بھی اُسی شخص کو ملے گا، اس سے معلوم ہوا کہ ہر نفع (Benefit) کے مقابلے میں شریعت نے کچھ ذمہ داریاں (Responsibilities) مقرر کی ہیں، اگر وہ ذمہ داریاں پوری کی جائیں گی تو نفع بھی ملے گا، ورنہ نہیں، اسی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کسی چیز کی ذمہ داری یا رسک ایک آدمی برداشت کرے اور اس کا نفع کسی دوسرے شخص کو ملے۔


تین ناگزیر چیزیں:


اسی طرح فقہاء نے نفع کے استحقاق کے لیے ایک اور ضابطہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ :

”يستحق الربح إما بالمال وإما بالعمل وإما بالضمان“
”یعنی انسان اپنا مال خرچ کر کے یا عمل کر کے یا ذمہ داری وضمانت برداشت کر کے ہی نفع کا مستحق بنتا ہے۔“

(بدائع الصنائع (6/ 62)

لہذا یہ تین قسم کے رسک ہیں، اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ ان میں سے کوئی ایک رسک بھی خود برداشت نہ کرے، تینوں قسم کے رسک مینج کر کے کسی دوسرے پر ڈال دے تو وہ نفع کا مستحق بھی نہ ہو گا۔

غرر (Uncertainty) سے خالی ہو:


کسی بھی ایسے رسک میں ملوث ہونا یا رسک مینجمنٹ کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس کی وجہ سے غررِ کثیر لازم آئے، یہ جائز نہیں ہے۔ غرر (Uncertainty) ایسی جہالت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے معاملے کا انجام نامعلوم ہو جائے اور غررِ کثیر اتنی زیادہ جہالت کو کہتے ہیں جو عموماً نزاع اور جھگڑے کا ذریعہ بنے۔
(غرر کی صورتیں، ص:52)


ذیل میں چند ایسے رسک کی مثالیں دی جاتی ہیں جن میں غررِ کثیر ہے:

  1. Risk in Existence (بیع معدوم) کسی چیز کو وجود میں آنے سے پہلے فروخت کرنا۔
  2. Risk in Ownership (بیع غیر مملوک) کسی چیز کو ملکیت میں آنے سے پہلے فروخت کرنا۔
  3. Risk in taking Possession (بیع قبل القبض) کسی چیز کو خریدنے کے بعد قبضہ میں آنے سے پہلے آگے فروخت کرنا۔
  4. Risk in Quantity جس چیز کی خرید وفروخت ہو رہی ہے، اس کی مقدار معلوم نہ ہو۔
  5. Risk in Quality بیچی جانے والی چیز کی کوالٹی اور صفات مجہول ہوں۔
  6. Risk in Time of Payment اُدھار کے معاملے میں ادائیگی کا وقت متعین نہ ہو۔
  7. Risk in delivery بیچی ہوئی چیز کو خریدار کے قبضہ میں دینا ممکن نہ ہو۔
  8. Insurance مروجہ انشورنس، جس میں رسک کسی ادارے کی طرف ٹرانسفر کیا جاتا ہے، لیکن اس کے لیے جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس میں سود کے ساتھ ساتھ غررِ کثیر بھی پایا جاتا ہے کہ پریمیم اداء کرنے والے کو کوئی حادثہ لاحق ہو گا یا نہیں؟ اس کو اضافی رقم ملے گی یا خود اس کی رقم ہی ڈوب جائے گی وغیرہ۔

دلیل
۱۵ اگست ۲۰۱۷
 
Top