ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 578
- ری ایکشن اسکور
- 186
- پوائنٹ
- 77
رمضان المبارک کا مہینہ کیسے گزاریں؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوْ يَعْلَمُ الْعِبَادُ مَا رَمَضَانُ لَتَمَنَّتْ أُمَّتِي أَنْ يَكُونَ السَّنَةَ كُلَّهَا
اگر لوگوں کو معلوم ہو کہ رمضان میں کیا خیر و برکات ہیں؛ تو میری اُمت تمنا کرتی کاش پورا سال رمضان ہی ہو۔ [صحيح ابن خزيمة، ج: ٣، ص: ١٩٠، حديث: ١٨٨٦]
تمام مسلمانوں کو یہ عزت و شرف اور رحمت والا مہینہ مبارک ہو۔ گزشتہ روز مسلمان امت کا پہلا روزہ تھا جبکہ وطن پرست امت کا آج پہلا روزہ ہے اور کل کا روزہ یک بد بخت وطن کی محبت اور عیسائیوں فرنگیوں کی کھینچی لکیروں کی غلامی میں ہڑپ کر گئے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَالضَّابِطُ أَنَّ مَدَارَ هَذَا الْأَمْرِ عَلَى الْبُلُوغِ لِقَوْلِهِ {صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ} فَمَنْ بَلَغَهُ أَنَّهُ رُئِيَ ثَبَتَ فِي حَقِّهِ مِنْ غَيْرِ تَحْدِيدٍ بِمَسَافَةٍ أَصْلً
ضابطہ اس معاملہ میں یہی ہوگا کہ وجوب کا دارومدار علم روئیت کے پہنچنے پر ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق ہے کہ روزہ چاند دیکھ کر رکھو۔ پس جس کو یہ اطلاع پہنچ گئی کہ چاند دیکھ لیا گیا ہے ، تو اس کے حق میں بغیر کسی مسافت کی حد بندی کے روزے کا فرض ہوجانا ثابت ہوگیا۔ [مجموع الفتاوى، ج: ٢٥، ص: ١٠٧]
بہرحال یہ مہینہ ایک اور چانس ہے سدھرنے کا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور اپنے رب کو راضی کرنے کا ، کونکہ اگلا رمضان کس کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے یہ صرف اللہ تعالی کو پتہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَرَضَ لِي، فَقَالَ : بُعْدًا لِّمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَہٗ، قُلْتُ : آمِینَ
جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا: اُس شخص کیلئے ہلاکت ہو، جو رمضان کو پائے، لیکن اُس کی مغفرت نہ ہوسکے؛ میں نے آمین کہہ دیا۔ [المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ۱۵۳/۴]
امام ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كم مِمَّن أَمَّلَ أَنْ يَصُومَ هذا الشهرَ فخَانَهُ أَمَلُه، فصارَ قبلَهُ إلى ظُلْمَةِ القَبْرِ. كم من مُسْتقبِلٍ يومًا لا يستكمِلُه، ومؤمِّلٍ غدًا لا يدرِكُه
کتنے ہی ایسے لوگ تھے، جو یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے، کہ وہ اِس مہینے کے روزے رکھیں گے؛ لیکن اُن کی اُمید نے اُن کو دهوکہ دے دیا، اب وہ قبر کے اندهیروں میں پڑے ہیں؛
کتنے ہی دن کا آغاز کرنے والے دن کو ختم نہیں کر پاتے، اور کتنے ہی کل کی آس لگانے والے کل کو نہیں پہنچ پاتے۔ [لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف، ص: ٢٨١]
ایک عمومی رجحان ہند و خراسان کے لوگوں میں یہ ہے کہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن ختم کرنے کی ریس لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میں نے بڑا تیر مار لیا ہے، اگرچہ قرآن کی نہ ان کو سمجھ آتی ہے نہ اس میں تدبر کرتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں ظاہر ہے جب تدبر اور سمجھ نہیں ہوگی تو عمل تو ویسے بھی نہیں ہوسکتا۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَيسَ شَيْءٌ أَنْفَعُ لِلْعَبْدِ فِيْ مَعَاشِهِ وَمَعَادهِ وَأقرَبُ إلى نَجَاتِه مِنْ تَدَبُّرِ القُرآنِ
تدبر قرآن سے بڑھ کوئی دوسری شے نہیں جو آدمی کیلئے دنیا و آخرت میں نافع تر ہو اور اس کی نجات کیلئے کارگر ہو۔ [مدارج السالكين، ج: ١، ص: ٤٥٠]
اس لئے قرآن کے ختم کے ڈھیر جمع کرنے کے بجائے اس میں تدبر کریں اس پر غور کریں اس پر عمل کی کوشش کریں اور اس کے احکامات کو اپنی زندگی پر لاگو کرنے کی کوشش کریں۔
اس کےلئے اگر آپ روزانہ ایک آیت بھی پڑھیں تو وہ ان ۱۰ ختم سے بہتر ہے جس میں آپ نے نہ تدبر کیا نہ اس کو سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اس پر عمل کا ارادہ کیا۔
نوافل میں بھی یہی اصول ہے کہ اصل چیز عبادت میں عاجزی اور خشوع و خضوع ہے اگر آپ ۱۰ رکعات، ۲۰ رکعات یا ۴۰ رکعات قیام الیل کرتے ہیں لکن اس میں خشوع اور اللہ تعالی کی طرف توجہ نہیں ہے تو اس سے بہتر ہے کہ آپ صرف ۸ ایسی رکعات ادا کریں جس میں سجدہ رکوع قیام ہر چیز میں سکون ہو اللہ کے سامنے عاجزی ہو زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر اور دعائیں ہوں تو یہ ۸ رکعات ان جیسی ایک ہزار رکعات سے بہتر ہے جس کا یہاں عمومی طور پر رواج ہے نہ اس میں خشوع ہوتا ہے نہ توجہ۔
امام ابن الوردي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صليت خلف ابن تيمية رحمه الله التراويح في رمضان؛ فرأيت على قراءته خشوعًا ورأيت على صلاته رِقَّة، تأخذ بمجامع القلوب
میں نے رمضان میں شیخ الاسلام ابن تيمية رحمہ اللہ کے پیچھے تراویح اَدا کی؛ میں نے آپ کی تلاوت میں ایسا خشوع اور نماز میں ایسی رقت دیکھی، جو دل کے اَنگ اَنگ پر اَثر انداز ہوتی تھی۔ [تاريخ ابن الوردي ج: ٦، ص: ٢٧٢]
تیسری بات یہ کہ روزہ آپ پر فرض ہے یہ آپ کا اپنے گھر کی خواتین، بچوں، پڑوسیوں، دوستوں اور ملازمین میں سے کسی پر احسان نہیں ہے اس لئے ان کو اس مہینے میں آنکھیں دکھانے اور ان پر غرانے سے پرہیز کریں بد اخلاقی تو ویسے ہی بہت گندی شے ہے رمضان میں تو اور بھی قبیح ہے۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْصِنِي، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کچھ وصیت فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو، اور بُرے کام کے بعد نیکی کرو کہ وہ اس بُرائی کو مٹا دے گی، اور لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ [معجم صغير للطبراني، حديث: ٦٩٤]