محمد زاہد بن فیض
سینئر رکن
- شمولیت
- جون 01، 2011
- پیغامات
- 1,957
- ری ایکشن اسکور
- 5,787
- پوائنٹ
- 354
کیا ہی خوش نصیب ہے یہ اُمت محمدیہ ﷺ،جسے رؤف ورحیم،غمخوار، افرادِ اُمت کی خیر خواہی کے متعلق حریص نبی ورسول محمد ﷺ بطور مقتداء اور رہنما کے ملا۔
کیا ہی لائق رشک ہے وہ اُ مت جسے قرآن مقدس جیسی عظیم،بابرکت،انقلابی کتاب عطا ہوئی۔کس قدر مہربان ہے رب العالمین ،اَلرحم الرٰحمین اس اُ مت پر جس کو رمضان المبارک جیسا رحمتوں اور برکتوں سے بھر پور ماہِ مُبارک انعام فرمایا۔۔۔مگر۔۔۔۔افسوس صدافسوس!اُمت کی روش پرجو دردِ دل ہادی کی تعلیمات وہدایات سے منہ مُوڑے ہوئے ہے۔ دلوں کی دُنیا کو بد ل دینے والی کتاب مبین سے بے اعتنائی برت رہی ہے۔اور رمضان جیسے انمول بے مثال اور قیمتی ترین تحائف الٰہیہ کی بہاروں کے مزے لوٹنے سے خود کو محروم رکھے ہوئے ہے۔اے کاش!!!! اگرمعلوم ہوجائے!!!اگر آج ہی محمد ﷺ کے نام لیوا یقین کرلیں کہ روزِ قیامت اسوہ محمد ﷺ کے بغیر کامیابی ناممکن ہوگی۔منشورِ قُرآن سے ہٹ کر زندگی گزارنے والوں کو خسارہ ہوگا۔اور رمضان کی بے حُرمتی کرنے والے بدنصیب ہوں گے۔تو شائد ہمارے معاشرے کا نقشہ موجودہ کی بجائے اسلامی ہدایات کے تقاضوں کے مطابق ہوتا۔اس میں شک نہیں کہ آج بھی ہر گھر میں خدارسیدہ ،فکر آخرت رکھنے والے کچھ لوگ موجود ہیں۔جن کا دن روزے میں اور رات قیام میں گزرتی ہے۔وہ فرائض کے اہتمام کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی تسلسل قائم رکھتے ہیں۔فرض زکواۃ ادا کرلینے کے بعد بھی حسبِ استطاعت مصارف خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔بندگا ن الٰہی کیلئے سحری کے ساتھ افطاری کے بھی وافر انتظامات کرواتے ہیں۔قرآن مجید کی تلاوت خود کرنے کے ساتھ علماء کرام کی زبانی معانی ومفاہیم کو بھی سمجھنے کی جستجو رکھتے ہیں۔بلکہ مجھے ایسے بھی بزرگو ں اور ذمہ دار بھا ئیوں سے ملاقات کا شرف حا صل ہے جو فر ما ن الٰہی کے مطابق اپنے آپ کو نا ر جہنم سے بچا نے کے سا تھ ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی بچانے کی کو شش کرتے ہیں۔اوروہ یہ سب کچھ حصول رضا ئے الٰہی کے جذبا ت سے سر شا ر ہو کرکر تے ہیں ۔کیونکہ اِخلاص نیت کے بغیر ان اعمال کا کچھ بھی فا ئدہ نہیں ۔اللہ تعا لیٰ ان کے تمام کا ر ہا ئے حسنہ کو شر ف قبو لیت سے نو ازے آمین!!!قارئین کرا م لیکن معا ملہ مذکو رہ چند افرا د کے سنورے و سلجھے ہونے کا نہیں بلکہ ہر فرد کے اصلا ح پا جا نے پر ہی اجتما عی معا شرہ میں ایما ن و خیر کے مظا ہر دیکھنے کو ملیں گے۔معلو م نہیں کیا وجہ ہے کہ مسلما ن بھی دین واحکامِ دین سے اجنبیت محسوس کرنے لگے ہیں۔ رمضان کے دنوں میں بھی ماکولات کے دلدادہ جبکہ بھوک سے وحشت میں ہوتے ہیں۔مشروبات کے رسیا مگر پیاس سے ناواقف ہوٹلنگ سے مانوس جبکہ مسجد سے دور دوستوں کی مجلسوں میں وہی ٹھٹھ کے ٹھٹھ اور تنہائی میں ذکر اللہ وتعلق باا للہ سے یکسر عاری ڈش ،کیبل پر وہی رش مگر نماز تراویح میں مساجد ویران کرکٹ میچ پر T-V کے سامنے چوکوں چوراہوں اور گھروں میں ہمہ تن گوش مگر روز جزا کے حساب وکتاب سے غافل بعض اوقات بوقت افطاری بھی بڑے بڑے کٹھ مگر بہت سارے بے روزہ ہاں دن بھر کھاتے پیتے رہنے کی مشق جاری رکھنے کی وجہ سے آب بھی کھانے پینے میں خوب آگے البتہ انداز بہت معصومانہ !!ہماری دعا ہے اللہ ان روزہ خوروں کو ہدایت عطافرمائے۔آمین
آیئے !اپنے اپنے دل کو ٹٹولیں۔ کیونکہ ہمارے جسم سے زیادہ ہمارا دل بھوکا پیاسا تڑپ رہا ہے۔ روحانیت وایمان کی بھوک سے بلبلا رہا ہے۔کئی ایک ایسے بھی ہوں گے جن کے دل مُردہ ہوچکے ہوں گے۔اور بعض کے قریب المرگ مزید وضاحت کے لئے ایک مثال بیان کروں گا۔
’’ہم میں سے کون ہے جس کو سفرسے واسطہ نہ پڑا ہو۔پھر کتنی مرتبہ ایسا ہو اکہ سڑک زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے ٹریفک یکطرفہ ہوچکی ہوتی ہے۔ایک طرف سے آنے والی گاڑیوں کو روک کر دوسری طرف کی گاڑیوں کو گزارا جاتاہے۔اورتھوڑی دیر بعد دوسری سمت میں موجود لائن لگی گاڑیوں کی باری آتی ہے۔بعینہ کچھ یہی صورت حال جسم وجان کی غذا کے متعلق ہے۔پورے گیارہ ماہ جسم کو غذا ملتی ہے مگر ماہ رمضان المبارک کا مہینہ دل کو غذا دینے کے لئے خصوصاًمقرر کیا گیا ہے۔اب ہم خود ہی فیصلہ کریں کہ ٹریفک پولیس والے اگر دوسری سمت کی گاڑیوں کو ہی راستہ دے کر گزارتے رہیں ہماری گاڑی کی لائن بند رکھیں تو ہمارا احتجاج کس قدر شدید ہوگا۔مظلومانہ انداز میں ظالمانہ رویہ بھی دکھائیں گے۔ٹریفک پولیس و انتظامیہ کے لئے بے انصاف ہونے کی خبر شائع کروائیں گے۔پتہ نہیں کیا کچھ کریں گے۔لیکن دوسری طرف ہم بھی ہیں،کہ جسم کو ہی کھلائے پلائے جارہے ہیں۔جبکہ ہمارا دل بھوک پیاس کی شدت سے نڈھال ہوکر آخری سانسوں میں ہے۔خواہشات نفسانی کی تکمیل کی کوشش نے نیکی ،تقویٰ وپرہیز گاری سے دور کردیا ہے۔جبکہ نتیجہ میں دل کی نرمی سختی میں بدل چکی ہے۔رمضان جیسی پیاری اور میٹھی نعمت کی بے حرمتی ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔حالانکہ رسول کریم ﷺ نے رحمت اللعالمین ہونے کے باوجود ایسے شخص کے خلاف بہر حال بد دعا کی ہے۔جس کی زندگی میں رمضان جیسا مغفرت ،بخشش کا مہینہ آئے مگر وہ بدنصیب اپنے گناہوں کی بخشش مانگ کر جہنم سے آذاد نہ ہوسکے۔کیونکہ جہنم سے آزادی کے لئے فقط اور فقط دل کی گہرایؤں سے توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ احکامات الٰہیہ کا پابند ہوجانا ہی کافی ہے۔اور یہ کام بالکل ہی آسان ہے لیکن اپنی مردہ دلی کے سبب ہمارے لیے یہی کام مشکل ترین بن چکا ہے۔میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔جب میں ایک منظر دیکھتا ہوں۔وہ یہ کہ مسجد میں جماعت ہورہی ہے۔مسلمان باجماعت نماز ادا کررہے ہوتے ہیں۔مگر ایک بدبخت مسجد کے گیٹ یا جوتیوں کی جگہ پر کھڑا ہے۔پوچھنے پر معلوم ہو اکہ کسی شخص سے ملنا ہے۔ جو نماز پڑھ رہا ہے۔ مگر یہ خود مسجد میں پاؤں رکھنے کے لئے عجیب سی وحشت محسوس کرتاہے۔ پوچھو تو مسلمان ہے۔مگر بدنصیبی دیکھو کہ مسجد میں پہنچ کر نماز آنکھوں کے سامنے ہورہی ہے پھر بھی خالق کے سامنے سجدہ کرنے کی توفیق نہیں۔ میرے خیال! میں تو ان لوگوں کو پولیس کے ساتھ تھانے میں جاتے ہوئے اتنی پریشانی نہیں ہوتی جتنا کہ بعض لوگ مسجد سے کتراتے ہیں۔ایمان کی کمی کا نتیجہ ہے کہ دکان پر بیٹھ کر پیسے جمع کرنا آسان ہے سارا دن گاہکوں سے مغز ماری بھی آسان۔مگر مسجد میں حاضر ہوکر خاموشی سے قرآن مجید کی تلاوت سن کر ثواب جمع کرنا ہم پر گراں ہے۔چنانچہ بخشش وثواب کی بجائے رمضان بھی ہمارے کاروبار کا سیزن بن چکا ہے۔مساجد کا ماحول پہلے دو چار دن تو خوب بارونق ہوتا ہے۔مگر جلد ہی جذباتی مسلمان سابقہ روش پر پلٹ جاتے ہیں۔جبکہ بازار کی رونق تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔مسجد سے جان چھڑانے کیلئے چھوٹے سے چھوٹا اعتراض بھی بہت بڑی دلیل ہوتا ہے۔اگرچہ وہ اعتراض بے جا ہی کیوں نہ ہو۔مثلاً قاری صاحب نماز تراویح میں بہت دیر لگادیتے ہیں۔دوسری جگہ اعتراض ہے کہ بہت تیز پڑھتے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ مسجد میں یو پی ایس نہیں گرمی بڑی ہے۔رکوع لمبا ہوتا ہے ۔کسی کو دوسرا نمازی پسند نہیں۔کسی کے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا۔الغرض! کوئی بھی بہانہ بنا کر مسلمان مسجد سے تعلق توڑ لیتے ہیں۔ددسر ی طرف کیا بازار یا دکان میں جنت کا ماحول ہوتا ہے؟ دوکاندار بتائیں کیا گاہگ آسانی سے جیب سے پیسے نکال کردیتے ہیں۔ یا گاہگ بتائیں کہ کسی مرتبہ وہ اپنی مرضی کے مطابق چیزیں لینے پر کامیاب ہوگئے۔اس سے بھی زیادہ حیران کن صورت حال در پیش ہوتی ہے۔مگر بازار تو کبھی بھی بے رونق نہیں ہوئے۔
محترم قارئین کرام!!! آیئے مسجد سے محبت کریں۔مسجد میں ذکر واذکار کے لئے وقت گزاریں۔مسجد میں بیٹھ کر اللہ رسول کی باتیں کریں۔مسجد کی ضروریات کا خیال رکھیں نمازی بھائیوں کی خامیوں سے صرَفِ نظر کرکے ان کی اچھائیوں پر توجہ رکھیں۔ امام صاحب،خطیب صاحب،قاری صاحب کا اپنے دلوں میں دینی احترام پیدا کریں۔یہ لوگ بھی انسان ہوتے ہیں۔کوئی کمی کوہتائی ان میں بھی ہوسکتی ہے۔جس کی اصلاح ان پر واجب ہے۔لیکن کسی کی وجہ سے مسجد سے ہم کیوں دُور ہوں۔اور اب تو ویسے ہی رمضان المبارک کی برکتوں کے دریا بہہ رہے ہیں۔خوش نصیب والدین کے فرزندان حفاظ کرام،قراء عظام قرآن مجید کی صداؤں سے مساجد ،بازار،اور گھروں کے ماحول کو معطر کررہے ہیں۔لہذا ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔خود صوم وصلواۃ کے پابند ہوجائیں۔نوجوان بچوں میں نماز،روزہ،کی سستی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ گھر ،بازار،گلی،محلے میں خیر کو غالب کرنے کی کوشش کریں۔اسلامی اور مسلمانوں کے معاشرے کی علامت یہ ہے کہ وہاں ایمان وخیر کا غلبہ ہوتا ہے۔ عموماً لوگ خیر کو پسند کرتے ہیں اور خیر کا ساتھ دیتے ہیں۔ اہل خیر کے معاون بنتے ہیں۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں اب تو ر مضان میں بھی بسوں میں گانوں کا ماحول ہوتا ہے۔ فحش گانے اور ساتھ ساتھ ویڈیو۔اور دکانوں پر بھی گانے چلتے ہیں۔ اور دیگر بہت سارے مواقع پر مختلف قسم کے منظر دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ مسلمانوں میں ایمان وخیر دب رہے ہیں۔ جبکہ شیطان اور اُس کے آلات غالب آچکے ہیں۔ بُرائی کے خلاف بات سننا لوگوں کے لئے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی بُرائی کے خلاف بُول پڑے تو خود بولنے والے کو دبایا جاتا ہے۔ شاید ہی رمضان میں کوئی ہوٹل بند ہوجاتا ہو۔ورنہ تو فرضی پردے کے نام پر اپنے ہی شہر کے لوگوں کی حسب روایت خدمت وتواضع جاری رکھی جاتی ہے۔ گھر کے لوگوں میں سے بھی بعض لوگ کسی شرعی عذر کے بغیر روزہ نہیں رکھتے اور کچن وچولہا کسی نہ کسی کی وجہ سے گرم ہی رہتے ہیں۔ یقیناًگرم موسم میں مسلمانوں کے لئے رمضان کا نبھانا بہت بڑے صبر و حوصلے کا کام ہے۔ لیکن یہ سب کچھ آسان ہوجائے گا جب ہم میدان ِ محشر کی گرمی شدت اور سختی کو یاد کریں گے۔ قبر کے سوالات کو یاد رکھیں گے اور جنت کا طمع ولالچ رکھیں گے۔
اور آخر میں اختتام رمضان پر چاند رات کے مناظر اور عید کی تیاری کے حوالے سے خوشی کے نام پر کیے جانے والے بعض افعال وکردار پر کچھ توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔اللہ تعالیٰ ہدایت دے اُن ماؤں بہنوں کو جو سارا سال بازار جانے کے لئے بیتاب رہتی ہیں۔مہنگائی کا خوب رونا روتی ہیں اور دکانداروں کے غلط رویوں کا بھی شکوہ کرتی ہیں۔ مگر گھر کا سکون چھوڑ کر بازار کی دھکم پیل میں بھی جاگھسڑتی ہیں۔ اپنا کوئی کام نہ بھی ہوتو دوسری عورتوں کے ساتھ شامل ہوکر نشہ پورا کرلیتی ہیں۔
اور رمضان میں عید کی خوشیوں کے نام پر بازار میں شاپنگ کے لئے جانا تو کارِ ثواب سمجھتی ہیں۔ اور واپسی پر دوکانداروں کے ساتھ ریٹ طے کرنے میں اپنی بہادری کے خوب راگ الاپتی ہیں۔ جبکہ دوکاندار پہلے ہی عورت کی نفسیات جانتے ہیں۔ کہ لمبی بحث وتمحیص کے بعد ہی ان کے بٹوے و پرس خالی کرائے جاسکتے ہیں۔ حالانکہ میری بھولی بھالی مائیں بہنیں اپنا کمال سمجھتی ہیں۔ چنانچہ گھرواپس آکر فخر محسوس کرتی ہیں کہ ہماری ہوشیاری ہے کہ ہم بیس پچیس ہزار کی معمولی رقم کے بدلے اتنا سارا سامان لے آئی ہیں۔ ورنہ ہمارے بغیر یہ ناممکن تھا۔ اے میری پیاری ماؤں بہنوں!!!توجہ سے پڑھ لو!!!
نت نئے ڈیزائن کی تلاش نے آپ کو بہت ساری نیکیوں سے محروم کررکھا ہے۔ فیشن ایبل بننے کے شوق میں آپ نے اسلامی روایات کی سادگی کو پس ِ پُشت ڈال دیا ہے۔ جاذب نظراور مسحورکن شخصیت بننے کے چکر میں پھنس کر اُمہات المومنین اور خاتون جنت سیدہ فاطمہ ؓ کے مخالف راستے پر چل پڑی ہو۔
ایک غیرت مند اور باعزت مسلمان کس قدر شرم محسوس کرتا ہے جب ایک مسلمان عورت نہایت ہی غیر مہذب لباس میں مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے حسن کا اظہار کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور کچھ تو ویسے ہی کھلے عام بے پردہ ہوکر چلنے پھرنے کی عادی ہوچکی ہیں۔
بے حیائی کے یہ مناظر اُس وقت مزید بھیانک صورت اختیار کرجاتے ہیں کہ جب ہم اسی اظہا ر حسن او ر فیشن ایبل بن کر ظاہر ہونے کا شوق ٹھیٹھ قسم کے بعض مذہبی گھرانوں میں محسوس کرتے ہیں۔چنانچہ شادی بیاہ اور دیگر دنیاوی محافل کے ساتھ ساتھ آپ دین کے نام پر قائم ہونے والی محافل ومجالس میں بھی صور ت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔
چند ایک سمجھدار خواتین کو چھوڑ کر اکثر کے نذدیک اس پاکیزہ اسلامی تہوار عید کا معنی ومفہوم بھی شاید فیشن کرنا اور کھانا پینا ہے۔پُورا مہینہ اسی سوچ فکر اور پھر تگ ودود میں گُزرتا ہے۔ کہ دوسروں سے منفرد کیسے بننا ہے؟ دیگر عورتیں مجھے دیکھیں اور دیکھتی رہ جائیں۔پھر ایک دوسرے کی زبان سے یہ جملہ سن کر کہ آپ تو بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔دل کے لئے بہت تسلی محسوس کرتی ہیں۔الغرض!!!یہ ایک لمبی داستان ہے۔۔۔!
میں گزارش کروں گا کہ ضروری قسم کی شاپنگ و خریداری رمضان سے پہلے ہی کرلیا کریں۔ اور کوشش کریں کے رمضان میں آپ کو بازار جانا ہی نہ پڑے۔اس طرح کرنے سے آپ گھریلو ، اور خصوصاً نماز ،روزہ،ذکر اذکار،اور تلاوت قرآن اور دیگر عبادات کے لئے یکسو ہوجائیں گی۔دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک کے بابرکت اور پُر رحمت لمحات بازار میں یا بازار جانے کے پروگرام میں ضائع ہونے سے بچ جائیں گے۔کیونکہ روزہ رکھ کر بازار جانے سے ممکن ہی نہیں کہ آپ روزہ کا صحیح حق ادا کرسکیں۔ویسے بھی زمین کے مختلف مقامات میں سے بازار اللہ کے نذدیک ناپسندیدہ ترین مقامات ہیں۔جبکہ روزے دار اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ ہوتا ہے۔لہذا سب سے بہترین چیز کا ناپسندیدہ مقام پر ہونا اُس کی اہمیت کو گرا دیتا ہے۔آپ کا کیا خیال ہے؟اگر خوشبو کی شیشی کو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر رکھ دیا جائے۔میرے خیال میں تو یہ عقلمندی بالکل نہیں ہے۔
اللہ رب العزت کا بنایا ہوانظام ہے۔کہ ہرسال رمضان بھی آتا ہے۔اور پُورا ہوکر ختم بھی ہوتا ہے۔رمضان کی آمد پر اہل ایمان دلی خوشی محسوس کرتے ہیں۔جبکہ حیوانات کی زندگی گزارنے والے جو کھانے پینے کے لئے زندہ ہیں۔آمدِرمضان پر مشروب وطعام کے نئے طریقے نئی جگہیں ڈھونڈتے ہیں۔اور اختتام رمضان پراہل ایمان خصوصی برکات سے محرومی پر کبیدہ خاطر ہوجاتے ہیں لیکن انھیں بہت ساری خوشیا ں بھی ہوتی ہیں۔کیونکہ وہ اپنے رب سے اپنی محنت وکوشش کی قبولیت کی اُمید لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔جبکہ پیٹو ٹولہ جن کی نگاہ کھانے پینے اور پہننے سے آگے نہیں جاتی۔وہ چاند ر ات کی خوشیوں کے نام پر رمضان کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں۔بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ موٹر سائیکل بھگانا وہ بھی سلنسر نکال کرایک دوسرے پر آوازے کسنا، ڈیک لگا کر فحش گانے چلا دینا، آتش بازی کرنا،فائرنگ کرنا،شراب نوشی کی محفل سجانا،بلکہ عید کے لئے بھی خصوصی بکنگ کروانا،عورتوں کا ایک دم گھر سے نکل کرتازہ ترین فیشن کی جستجو میں بیوٹی پارلر چلے جانا اوردیگر اس طرح کے فضول ہی نہیں بلکہ اللہ اور رسول کی نافرمانی والے عمل کرنا آخر چاند رات کی خوشی میں شرعاً کیسے جائز ہیں؟یہ تو رمضان کی توہین ہے۔عید کی خوشی کے نام پر کی جانے والی یہ تمام خوشیاں وبال ِ جان ہیں۔نیکیوں کو ختم کردینے کا سبب ہیں۔
اب ذراخُدارا !دل دماغ کو حاضر کریں۔اور ٹھنڈے دل سے بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔یقیناًعید کا مطلب خوشی ہی ہے۔مگر کس بات کی خوشی مسلسل توبہ واستغفار کرکے اپنے گناہ معاف کروالینے کی خوشی ہی اصل عید کی خوشی ہے۔جس خوش نصیب نے اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص ِ دل سے آنسو گرا کراپنے اللہ کو راضی کرلیا یا رمضان میں بھی کمی کوہتائی کا شکار رہا مگر چاند رات میں ہی توبہ کرلی عید کی نماز میں رو کر ہی رب کو راضی کرلیا اپنے ایمان کو تازہ کرلیا تو ایسے شخص کو اصل عید کی خوشی حاصل ہوگئی۔اگرچہ اُس کے کپڑے پُرانے ہی ہوں بیشک اُس گھر میں مختلف کھانے نہ پکتے ہوں لیکن جس بدنصیب کی نگاہ فقط کپڑے جوتے کھانے پینے اور ظاہری بناوٹ پر ہی رہی جبکہ اللہ کے سامنے حضورِ دل سے عید کی نماز پڑھنے اور خطبہ سننے کے بھی توفیق نہ ہوئی تو بھلا اُس کی کیا عید ہے؟ اگرچہ وہ سارا دن دوستوں کے پاس ملنے ملانے کے چکر میں خوب گھومتاپھرتا رہے۔یا اُس کے پاس آنے جانے والوں کا خوب تانتا بندھا رہے اور مختلف انواع واقسام کے ماکولات ومشروبات کے دور چلتے رہیں۔یہ تو جزوی چیزیں ہیں جنھیں ہم نے اصل مقصد سمجھ لیا ہے۔نہیں میرے بھائیو اور بہنوں! اور نوجوان دوستو!عید کا مقصد پارکوں میں جانا ،چڑیاگھروں کی سیرکرنا،دیگر مقامات پر جا کر آوارگی کرنا،فضول خرچیاں کرکے گل چھرے اُڑانا بالکل عید کا مقصد نہیں۔نہ ہی ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے نہ صحابہ کرامؓ نے اس طرح کوئی عید منائی ہے۔چنانچہ اگر اللہ نے دیا ہے تو ضرور پہنیں اور کھائیں مگر دکھلاوے کے لئے اور دوسروں پر اپنے لباس کی برتری ظاہر کرنے کے لئے نہ پہنیں۔ضرور کھائیں مگر کھاتے کھاتے یاد الٰہی سے غافل ہوکر اپنی فرض نمازوں سے غافل نہ ہوجائیں۔
عورتوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کے لئے مکمل باپردہ ہوکر نئے لباس کی بجائے کسی سابقہ صاف ستھرے سوٹ کو زیب تن کرلیں اور پھر خوب مطمئن ہوکر اصل مقصد پر نگاہ رکھیں کہ ہم اللہ کو راضی کرنے کے لئے آئی ہیں۔یہ زہن ہی ختم کردیں کہ دوسروں کے لباس،زیورات،اور میک اپ چیک بھی کرنا ہے۔آپ اس موقع پر یہ کرکے دیکھیں اور پھر واپسی پرگھر جاکر اندازہ کریں کہ آپ کی طبیعت خوش خوش ہوگی۔ملنا ملانا کھانا پینا تو سارا سال ہی جاری رہتا ہے۔لیکن آپ عید کے روز توبہ واستغفار کے ذریعے رب کو راضی کرنے کی کوشش میں لگی رہیں۔اکثر گھروں میں T-Vچینل آن رہتے ہیں۔جہاں بس کھانے پینے اور دیگر فضول قسم کی گفتگو جاری رہتی ہے جس سے ہم اصل مقاصد عید کو بھول بھلا کر غفلت میں عید کا دن گزار دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
عمر فاروق عمر۔۔۔مدرس جامعہ محمدیہ اہل حدیث خانپور
یونیکورڈ کمپوزنگ۔۔۔محمد زاہد بن فیض
کیا ہی لائق رشک ہے وہ اُ مت جسے قرآن مقدس جیسی عظیم،بابرکت،انقلابی کتاب عطا ہوئی۔کس قدر مہربان ہے رب العالمین ،اَلرحم الرٰحمین اس اُ مت پر جس کو رمضان المبارک جیسا رحمتوں اور برکتوں سے بھر پور ماہِ مُبارک انعام فرمایا۔۔۔مگر۔۔۔۔افسوس صدافسوس!اُمت کی روش پرجو دردِ دل ہادی کی تعلیمات وہدایات سے منہ مُوڑے ہوئے ہے۔ دلوں کی دُنیا کو بد ل دینے والی کتاب مبین سے بے اعتنائی برت رہی ہے۔اور رمضان جیسے انمول بے مثال اور قیمتی ترین تحائف الٰہیہ کی بہاروں کے مزے لوٹنے سے خود کو محروم رکھے ہوئے ہے۔اے کاش!!!! اگرمعلوم ہوجائے!!!اگر آج ہی محمد ﷺ کے نام لیوا یقین کرلیں کہ روزِ قیامت اسوہ محمد ﷺ کے بغیر کامیابی ناممکن ہوگی۔منشورِ قُرآن سے ہٹ کر زندگی گزارنے والوں کو خسارہ ہوگا۔اور رمضان کی بے حُرمتی کرنے والے بدنصیب ہوں گے۔تو شائد ہمارے معاشرے کا نقشہ موجودہ کی بجائے اسلامی ہدایات کے تقاضوں کے مطابق ہوتا۔اس میں شک نہیں کہ آج بھی ہر گھر میں خدارسیدہ ،فکر آخرت رکھنے والے کچھ لوگ موجود ہیں۔جن کا دن روزے میں اور رات قیام میں گزرتی ہے۔وہ فرائض کے اہتمام کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی تسلسل قائم رکھتے ہیں۔فرض زکواۃ ادا کرلینے کے بعد بھی حسبِ استطاعت مصارف خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔بندگا ن الٰہی کیلئے سحری کے ساتھ افطاری کے بھی وافر انتظامات کرواتے ہیں۔قرآن مجید کی تلاوت خود کرنے کے ساتھ علماء کرام کی زبانی معانی ومفاہیم کو بھی سمجھنے کی جستجو رکھتے ہیں۔بلکہ مجھے ایسے بھی بزرگو ں اور ذمہ دار بھا ئیوں سے ملاقات کا شرف حا صل ہے جو فر ما ن الٰہی کے مطابق اپنے آپ کو نا ر جہنم سے بچا نے کے سا تھ ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی بچانے کی کو شش کرتے ہیں۔اوروہ یہ سب کچھ حصول رضا ئے الٰہی کے جذبا ت سے سر شا ر ہو کرکر تے ہیں ۔کیونکہ اِخلاص نیت کے بغیر ان اعمال کا کچھ بھی فا ئدہ نہیں ۔اللہ تعا لیٰ ان کے تمام کا ر ہا ئے حسنہ کو شر ف قبو لیت سے نو ازے آمین!!!قارئین کرا م لیکن معا ملہ مذکو رہ چند افرا د کے سنورے و سلجھے ہونے کا نہیں بلکہ ہر فرد کے اصلا ح پا جا نے پر ہی اجتما عی معا شرہ میں ایما ن و خیر کے مظا ہر دیکھنے کو ملیں گے۔معلو م نہیں کیا وجہ ہے کہ مسلما ن بھی دین واحکامِ دین سے اجنبیت محسوس کرنے لگے ہیں۔ رمضان کے دنوں میں بھی ماکولات کے دلدادہ جبکہ بھوک سے وحشت میں ہوتے ہیں۔مشروبات کے رسیا مگر پیاس سے ناواقف ہوٹلنگ سے مانوس جبکہ مسجد سے دور دوستوں کی مجلسوں میں وہی ٹھٹھ کے ٹھٹھ اور تنہائی میں ذکر اللہ وتعلق باا للہ سے یکسر عاری ڈش ،کیبل پر وہی رش مگر نماز تراویح میں مساجد ویران کرکٹ میچ پر T-V کے سامنے چوکوں چوراہوں اور گھروں میں ہمہ تن گوش مگر روز جزا کے حساب وکتاب سے غافل بعض اوقات بوقت افطاری بھی بڑے بڑے کٹھ مگر بہت سارے بے روزہ ہاں دن بھر کھاتے پیتے رہنے کی مشق جاری رکھنے کی وجہ سے آب بھی کھانے پینے میں خوب آگے البتہ انداز بہت معصومانہ !!ہماری دعا ہے اللہ ان روزہ خوروں کو ہدایت عطافرمائے۔آمین
آیئے !اپنے اپنے دل کو ٹٹولیں۔ کیونکہ ہمارے جسم سے زیادہ ہمارا دل بھوکا پیاسا تڑپ رہا ہے۔ روحانیت وایمان کی بھوک سے بلبلا رہا ہے۔کئی ایک ایسے بھی ہوں گے جن کے دل مُردہ ہوچکے ہوں گے۔اور بعض کے قریب المرگ مزید وضاحت کے لئے ایک مثال بیان کروں گا۔
’’ہم میں سے کون ہے جس کو سفرسے واسطہ نہ پڑا ہو۔پھر کتنی مرتبہ ایسا ہو اکہ سڑک زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے ٹریفک یکطرفہ ہوچکی ہوتی ہے۔ایک طرف سے آنے والی گاڑیوں کو روک کر دوسری طرف کی گاڑیوں کو گزارا جاتاہے۔اورتھوڑی دیر بعد دوسری سمت میں موجود لائن لگی گاڑیوں کی باری آتی ہے۔بعینہ کچھ یہی صورت حال جسم وجان کی غذا کے متعلق ہے۔پورے گیارہ ماہ جسم کو غذا ملتی ہے مگر ماہ رمضان المبارک کا مہینہ دل کو غذا دینے کے لئے خصوصاًمقرر کیا گیا ہے۔اب ہم خود ہی فیصلہ کریں کہ ٹریفک پولیس والے اگر دوسری سمت کی گاڑیوں کو ہی راستہ دے کر گزارتے رہیں ہماری گاڑی کی لائن بند رکھیں تو ہمارا احتجاج کس قدر شدید ہوگا۔مظلومانہ انداز میں ظالمانہ رویہ بھی دکھائیں گے۔ٹریفک پولیس و انتظامیہ کے لئے بے انصاف ہونے کی خبر شائع کروائیں گے۔پتہ نہیں کیا کچھ کریں گے۔لیکن دوسری طرف ہم بھی ہیں،کہ جسم کو ہی کھلائے پلائے جارہے ہیں۔جبکہ ہمارا دل بھوک پیاس کی شدت سے نڈھال ہوکر آخری سانسوں میں ہے۔خواہشات نفسانی کی تکمیل کی کوشش نے نیکی ،تقویٰ وپرہیز گاری سے دور کردیا ہے۔جبکہ نتیجہ میں دل کی نرمی سختی میں بدل چکی ہے۔رمضان جیسی پیاری اور میٹھی نعمت کی بے حرمتی ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔حالانکہ رسول کریم ﷺ نے رحمت اللعالمین ہونے کے باوجود ایسے شخص کے خلاف بہر حال بد دعا کی ہے۔جس کی زندگی میں رمضان جیسا مغفرت ،بخشش کا مہینہ آئے مگر وہ بدنصیب اپنے گناہوں کی بخشش مانگ کر جہنم سے آذاد نہ ہوسکے۔کیونکہ جہنم سے آزادی کے لئے فقط اور فقط دل کی گہرایؤں سے توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ احکامات الٰہیہ کا پابند ہوجانا ہی کافی ہے۔اور یہ کام بالکل ہی آسان ہے لیکن اپنی مردہ دلی کے سبب ہمارے لیے یہی کام مشکل ترین بن چکا ہے۔میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔جب میں ایک منظر دیکھتا ہوں۔وہ یہ کہ مسجد میں جماعت ہورہی ہے۔مسلمان باجماعت نماز ادا کررہے ہوتے ہیں۔مگر ایک بدبخت مسجد کے گیٹ یا جوتیوں کی جگہ پر کھڑا ہے۔پوچھنے پر معلوم ہو اکہ کسی شخص سے ملنا ہے۔ جو نماز پڑھ رہا ہے۔ مگر یہ خود مسجد میں پاؤں رکھنے کے لئے عجیب سی وحشت محسوس کرتاہے۔ پوچھو تو مسلمان ہے۔مگر بدنصیبی دیکھو کہ مسجد میں پہنچ کر نماز آنکھوں کے سامنے ہورہی ہے پھر بھی خالق کے سامنے سجدہ کرنے کی توفیق نہیں۔ میرے خیال! میں تو ان لوگوں کو پولیس کے ساتھ تھانے میں جاتے ہوئے اتنی پریشانی نہیں ہوتی جتنا کہ بعض لوگ مسجد سے کتراتے ہیں۔ایمان کی کمی کا نتیجہ ہے کہ دکان پر بیٹھ کر پیسے جمع کرنا آسان ہے سارا دن گاہکوں سے مغز ماری بھی آسان۔مگر مسجد میں حاضر ہوکر خاموشی سے قرآن مجید کی تلاوت سن کر ثواب جمع کرنا ہم پر گراں ہے۔چنانچہ بخشش وثواب کی بجائے رمضان بھی ہمارے کاروبار کا سیزن بن چکا ہے۔مساجد کا ماحول پہلے دو چار دن تو خوب بارونق ہوتا ہے۔مگر جلد ہی جذباتی مسلمان سابقہ روش پر پلٹ جاتے ہیں۔جبکہ بازار کی رونق تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔مسجد سے جان چھڑانے کیلئے چھوٹے سے چھوٹا اعتراض بھی بہت بڑی دلیل ہوتا ہے۔اگرچہ وہ اعتراض بے جا ہی کیوں نہ ہو۔مثلاً قاری صاحب نماز تراویح میں بہت دیر لگادیتے ہیں۔دوسری جگہ اعتراض ہے کہ بہت تیز پڑھتے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ مسجد میں یو پی ایس نہیں گرمی بڑی ہے۔رکوع لمبا ہوتا ہے ۔کسی کو دوسرا نمازی پسند نہیں۔کسی کے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا۔الغرض! کوئی بھی بہانہ بنا کر مسلمان مسجد سے تعلق توڑ لیتے ہیں۔ددسر ی طرف کیا بازار یا دکان میں جنت کا ماحول ہوتا ہے؟ دوکاندار بتائیں کیا گاہگ آسانی سے جیب سے پیسے نکال کردیتے ہیں۔ یا گاہگ بتائیں کہ کسی مرتبہ وہ اپنی مرضی کے مطابق چیزیں لینے پر کامیاب ہوگئے۔اس سے بھی زیادہ حیران کن صورت حال در پیش ہوتی ہے۔مگر بازار تو کبھی بھی بے رونق نہیں ہوئے۔
محترم قارئین کرام!!! آیئے مسجد سے محبت کریں۔مسجد میں ذکر واذکار کے لئے وقت گزاریں۔مسجد میں بیٹھ کر اللہ رسول کی باتیں کریں۔مسجد کی ضروریات کا خیال رکھیں نمازی بھائیوں کی خامیوں سے صرَفِ نظر کرکے ان کی اچھائیوں پر توجہ رکھیں۔ امام صاحب،خطیب صاحب،قاری صاحب کا اپنے دلوں میں دینی احترام پیدا کریں۔یہ لوگ بھی انسان ہوتے ہیں۔کوئی کمی کوہتائی ان میں بھی ہوسکتی ہے۔جس کی اصلاح ان پر واجب ہے۔لیکن کسی کی وجہ سے مسجد سے ہم کیوں دُور ہوں۔اور اب تو ویسے ہی رمضان المبارک کی برکتوں کے دریا بہہ رہے ہیں۔خوش نصیب والدین کے فرزندان حفاظ کرام،قراء عظام قرآن مجید کی صداؤں سے مساجد ،بازار،اور گھروں کے ماحول کو معطر کررہے ہیں۔لہذا ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔خود صوم وصلواۃ کے پابند ہوجائیں۔نوجوان بچوں میں نماز،روزہ،کی سستی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ گھر ،بازار،گلی،محلے میں خیر کو غالب کرنے کی کوشش کریں۔اسلامی اور مسلمانوں کے معاشرے کی علامت یہ ہے کہ وہاں ایمان وخیر کا غلبہ ہوتا ہے۔ عموماً لوگ خیر کو پسند کرتے ہیں اور خیر کا ساتھ دیتے ہیں۔ اہل خیر کے معاون بنتے ہیں۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں اب تو ر مضان میں بھی بسوں میں گانوں کا ماحول ہوتا ہے۔ فحش گانے اور ساتھ ساتھ ویڈیو۔اور دکانوں پر بھی گانے چلتے ہیں۔ اور دیگر بہت سارے مواقع پر مختلف قسم کے منظر دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ مسلمانوں میں ایمان وخیر دب رہے ہیں۔ جبکہ شیطان اور اُس کے آلات غالب آچکے ہیں۔ بُرائی کے خلاف بات سننا لوگوں کے لئے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی بُرائی کے خلاف بُول پڑے تو خود بولنے والے کو دبایا جاتا ہے۔ شاید ہی رمضان میں کوئی ہوٹل بند ہوجاتا ہو۔ورنہ تو فرضی پردے کے نام پر اپنے ہی شہر کے لوگوں کی حسب روایت خدمت وتواضع جاری رکھی جاتی ہے۔ گھر کے لوگوں میں سے بھی بعض لوگ کسی شرعی عذر کے بغیر روزہ نہیں رکھتے اور کچن وچولہا کسی نہ کسی کی وجہ سے گرم ہی رہتے ہیں۔ یقیناًگرم موسم میں مسلمانوں کے لئے رمضان کا نبھانا بہت بڑے صبر و حوصلے کا کام ہے۔ لیکن یہ سب کچھ آسان ہوجائے گا جب ہم میدان ِ محشر کی گرمی شدت اور سختی کو یاد کریں گے۔ قبر کے سوالات کو یاد رکھیں گے اور جنت کا طمع ولالچ رکھیں گے۔
اور آخر میں اختتام رمضان پر چاند رات کے مناظر اور عید کی تیاری کے حوالے سے خوشی کے نام پر کیے جانے والے بعض افعال وکردار پر کچھ توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔اللہ تعالیٰ ہدایت دے اُن ماؤں بہنوں کو جو سارا سال بازار جانے کے لئے بیتاب رہتی ہیں۔مہنگائی کا خوب رونا روتی ہیں اور دکانداروں کے غلط رویوں کا بھی شکوہ کرتی ہیں۔ مگر گھر کا سکون چھوڑ کر بازار کی دھکم پیل میں بھی جاگھسڑتی ہیں۔ اپنا کوئی کام نہ بھی ہوتو دوسری عورتوں کے ساتھ شامل ہوکر نشہ پورا کرلیتی ہیں۔
اور رمضان میں عید کی خوشیوں کے نام پر بازار میں شاپنگ کے لئے جانا تو کارِ ثواب سمجھتی ہیں۔ اور واپسی پر دوکانداروں کے ساتھ ریٹ طے کرنے میں اپنی بہادری کے خوب راگ الاپتی ہیں۔ جبکہ دوکاندار پہلے ہی عورت کی نفسیات جانتے ہیں۔ کہ لمبی بحث وتمحیص کے بعد ہی ان کے بٹوے و پرس خالی کرائے جاسکتے ہیں۔ حالانکہ میری بھولی بھالی مائیں بہنیں اپنا کمال سمجھتی ہیں۔ چنانچہ گھرواپس آکر فخر محسوس کرتی ہیں کہ ہماری ہوشیاری ہے کہ ہم بیس پچیس ہزار کی معمولی رقم کے بدلے اتنا سارا سامان لے آئی ہیں۔ ورنہ ہمارے بغیر یہ ناممکن تھا۔ اے میری پیاری ماؤں بہنوں!!!توجہ سے پڑھ لو!!!
نت نئے ڈیزائن کی تلاش نے آپ کو بہت ساری نیکیوں سے محروم کررکھا ہے۔ فیشن ایبل بننے کے شوق میں آپ نے اسلامی روایات کی سادگی کو پس ِ پُشت ڈال دیا ہے۔ جاذب نظراور مسحورکن شخصیت بننے کے چکر میں پھنس کر اُمہات المومنین اور خاتون جنت سیدہ فاطمہ ؓ کے مخالف راستے پر چل پڑی ہو۔
ایک غیرت مند اور باعزت مسلمان کس قدر شرم محسوس کرتا ہے جب ایک مسلمان عورت نہایت ہی غیر مہذب لباس میں مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے حسن کا اظہار کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور کچھ تو ویسے ہی کھلے عام بے پردہ ہوکر چلنے پھرنے کی عادی ہوچکی ہیں۔
بے حیائی کے یہ مناظر اُس وقت مزید بھیانک صورت اختیار کرجاتے ہیں کہ جب ہم اسی اظہا ر حسن او ر فیشن ایبل بن کر ظاہر ہونے کا شوق ٹھیٹھ قسم کے بعض مذہبی گھرانوں میں محسوس کرتے ہیں۔چنانچہ شادی بیاہ اور دیگر دنیاوی محافل کے ساتھ ساتھ آپ دین کے نام پر قائم ہونے والی محافل ومجالس میں بھی صور ت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔
چند ایک سمجھدار خواتین کو چھوڑ کر اکثر کے نذدیک اس پاکیزہ اسلامی تہوار عید کا معنی ومفہوم بھی شاید فیشن کرنا اور کھانا پینا ہے۔پُورا مہینہ اسی سوچ فکر اور پھر تگ ودود میں گُزرتا ہے۔ کہ دوسروں سے منفرد کیسے بننا ہے؟ دیگر عورتیں مجھے دیکھیں اور دیکھتی رہ جائیں۔پھر ایک دوسرے کی زبان سے یہ جملہ سن کر کہ آپ تو بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔دل کے لئے بہت تسلی محسوس کرتی ہیں۔الغرض!!!یہ ایک لمبی داستان ہے۔۔۔!
میں گزارش کروں گا کہ ضروری قسم کی شاپنگ و خریداری رمضان سے پہلے ہی کرلیا کریں۔ اور کوشش کریں کے رمضان میں آپ کو بازار جانا ہی نہ پڑے۔اس طرح کرنے سے آپ گھریلو ، اور خصوصاً نماز ،روزہ،ذکر اذکار،اور تلاوت قرآن اور دیگر عبادات کے لئے یکسو ہوجائیں گی۔دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک کے بابرکت اور پُر رحمت لمحات بازار میں یا بازار جانے کے پروگرام میں ضائع ہونے سے بچ جائیں گے۔کیونکہ روزہ رکھ کر بازار جانے سے ممکن ہی نہیں کہ آپ روزہ کا صحیح حق ادا کرسکیں۔ویسے بھی زمین کے مختلف مقامات میں سے بازار اللہ کے نذدیک ناپسندیدہ ترین مقامات ہیں۔جبکہ روزے دار اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ ہوتا ہے۔لہذا سب سے بہترین چیز کا ناپسندیدہ مقام پر ہونا اُس کی اہمیت کو گرا دیتا ہے۔آپ کا کیا خیال ہے؟اگر خوشبو کی شیشی کو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر رکھ دیا جائے۔میرے خیال میں تو یہ عقلمندی بالکل نہیں ہے۔
اللہ رب العزت کا بنایا ہوانظام ہے۔کہ ہرسال رمضان بھی آتا ہے۔اور پُورا ہوکر ختم بھی ہوتا ہے۔رمضان کی آمد پر اہل ایمان دلی خوشی محسوس کرتے ہیں۔جبکہ حیوانات کی زندگی گزارنے والے جو کھانے پینے کے لئے زندہ ہیں۔آمدِرمضان پر مشروب وطعام کے نئے طریقے نئی جگہیں ڈھونڈتے ہیں۔اور اختتام رمضان پراہل ایمان خصوصی برکات سے محرومی پر کبیدہ خاطر ہوجاتے ہیں لیکن انھیں بہت ساری خوشیا ں بھی ہوتی ہیں۔کیونکہ وہ اپنے رب سے اپنی محنت وکوشش کی قبولیت کی اُمید لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔جبکہ پیٹو ٹولہ جن کی نگاہ کھانے پینے اور پہننے سے آگے نہیں جاتی۔وہ چاند ر ات کی خوشیوں کے نام پر رمضان کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں۔بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ موٹر سائیکل بھگانا وہ بھی سلنسر نکال کرایک دوسرے پر آوازے کسنا، ڈیک لگا کر فحش گانے چلا دینا، آتش بازی کرنا،فائرنگ کرنا،شراب نوشی کی محفل سجانا،بلکہ عید کے لئے بھی خصوصی بکنگ کروانا،عورتوں کا ایک دم گھر سے نکل کرتازہ ترین فیشن کی جستجو میں بیوٹی پارلر چلے جانا اوردیگر اس طرح کے فضول ہی نہیں بلکہ اللہ اور رسول کی نافرمانی والے عمل کرنا آخر چاند رات کی خوشی میں شرعاً کیسے جائز ہیں؟یہ تو رمضان کی توہین ہے۔عید کی خوشی کے نام پر کی جانے والی یہ تمام خوشیاں وبال ِ جان ہیں۔نیکیوں کو ختم کردینے کا سبب ہیں۔
اب ذراخُدارا !دل دماغ کو حاضر کریں۔اور ٹھنڈے دل سے بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔یقیناًعید کا مطلب خوشی ہی ہے۔مگر کس بات کی خوشی مسلسل توبہ واستغفار کرکے اپنے گناہ معاف کروالینے کی خوشی ہی اصل عید کی خوشی ہے۔جس خوش نصیب نے اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص ِ دل سے آنسو گرا کراپنے اللہ کو راضی کرلیا یا رمضان میں بھی کمی کوہتائی کا شکار رہا مگر چاند رات میں ہی توبہ کرلی عید کی نماز میں رو کر ہی رب کو راضی کرلیا اپنے ایمان کو تازہ کرلیا تو ایسے شخص کو اصل عید کی خوشی حاصل ہوگئی۔اگرچہ اُس کے کپڑے پُرانے ہی ہوں بیشک اُس گھر میں مختلف کھانے نہ پکتے ہوں لیکن جس بدنصیب کی نگاہ فقط کپڑے جوتے کھانے پینے اور ظاہری بناوٹ پر ہی رہی جبکہ اللہ کے سامنے حضورِ دل سے عید کی نماز پڑھنے اور خطبہ سننے کے بھی توفیق نہ ہوئی تو بھلا اُس کی کیا عید ہے؟ اگرچہ وہ سارا دن دوستوں کے پاس ملنے ملانے کے چکر میں خوب گھومتاپھرتا رہے۔یا اُس کے پاس آنے جانے والوں کا خوب تانتا بندھا رہے اور مختلف انواع واقسام کے ماکولات ومشروبات کے دور چلتے رہیں۔یہ تو جزوی چیزیں ہیں جنھیں ہم نے اصل مقصد سمجھ لیا ہے۔نہیں میرے بھائیو اور بہنوں! اور نوجوان دوستو!عید کا مقصد پارکوں میں جانا ،چڑیاگھروں کی سیرکرنا،دیگر مقامات پر جا کر آوارگی کرنا،فضول خرچیاں کرکے گل چھرے اُڑانا بالکل عید کا مقصد نہیں۔نہ ہی ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے نہ صحابہ کرامؓ نے اس طرح کوئی عید منائی ہے۔چنانچہ اگر اللہ نے دیا ہے تو ضرور پہنیں اور کھائیں مگر دکھلاوے کے لئے اور دوسروں پر اپنے لباس کی برتری ظاہر کرنے کے لئے نہ پہنیں۔ضرور کھائیں مگر کھاتے کھاتے یاد الٰہی سے غافل ہوکر اپنی فرض نمازوں سے غافل نہ ہوجائیں۔
عورتوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کے لئے مکمل باپردہ ہوکر نئے لباس کی بجائے کسی سابقہ صاف ستھرے سوٹ کو زیب تن کرلیں اور پھر خوب مطمئن ہوکر اصل مقصد پر نگاہ رکھیں کہ ہم اللہ کو راضی کرنے کے لئے آئی ہیں۔یہ زہن ہی ختم کردیں کہ دوسروں کے لباس،زیورات،اور میک اپ چیک بھی کرنا ہے۔آپ اس موقع پر یہ کرکے دیکھیں اور پھر واپسی پرگھر جاکر اندازہ کریں کہ آپ کی طبیعت خوش خوش ہوگی۔ملنا ملانا کھانا پینا تو سارا سال ہی جاری رہتا ہے۔لیکن آپ عید کے روز توبہ واستغفار کے ذریعے رب کو راضی کرنے کی کوشش میں لگی رہیں۔اکثر گھروں میں T-Vچینل آن رہتے ہیں۔جہاں بس کھانے پینے اور دیگر فضول قسم کی گفتگو جاری رہتی ہے جس سے ہم اصل مقاصد عید کو بھول بھلا کر غفلت میں عید کا دن گزار دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
عمر فاروق عمر۔۔۔مدرس جامعہ محمدیہ اہل حدیث خانپور
یونیکورڈ کمپوزنگ۔۔۔محمد زاہد بن فیض
Last edited: