خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس رافضی کے پیچھے نماز کو جائز قرار دیتے ہیں جو بدعتی ہے اور جو رافضی کافر یا دائرہ اسلام سے خارج ہے، اس کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں
یہاں بہت ہی تفصیلی بحث موجود ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک رافضی کافر ہے یا نہیں؟
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام صاحب کے نزدیک روافض عوام اور علما میں تقسیم ہیں۔ وہ عوام جو جہالت کی وجہ سے دین رافضیت پر ہیں تو وہ بدعتی ہیں لیکن کافر نہیں ہیں اور ان کے پیچھے نماز ہو تو جاتی ہے لیکن انہیں اپنا امام بنانا نہیں چاہیے۔ اور جہاں تک روافض کے ان علما کا تعلق ہے جو حقیقت سے باخبر ہیں تو یہ باطنیہ اور زنادقہ میں سے ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں کیونکہ ان کی تکفیر میں جہالت کا مانع ختم ہو جاتا ہے۔
اگر کوئی صاحب الشریعہ میں عمار خان ناصر کی طرف سے پیش کردہ اس عبارت کے جواب میں اس بحث کا اردو ترجمہ کر کے اسے ایک مضمون کی شکل دے دیں تو کیا ہی خوبصورت کام ہے۔ سوچتا ہوں، شاید کوئی ہمت پڑ جائے کیونکہ اس کو پڑھنے کے لیے ہی گھنٹوں چاہیے اور ترجمہ تو کافی وقت درکار ہے۔