• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رودادِ سفر

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
رودادِ سفر
------------------------------------------------------------
2 رجب, 1445ھ جمعہ کا وہ مبارک دن تھا، موسم بڑا خوش گوار تھا، صبح سنہری زرد کرنوں کی زلفوں سے ہوا کے نرم جھونکے کھیل رہے تھے، گو کہ آفتاب اپنی شعاعوں کو روشنی کی تبلیغ کے لیے روانہ کر چکا تھا، اب جستہ جستہ سورج اپنے خالق حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لیے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا کچھ ہی دیر میں آفتاب اپنی منزل کے نصف راستے طے کرکے اس مقام تک پہنچ چکا تھا جسے نصف النہار یا کھڑی دوپہر سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ وقت تھا کہ جب آفتاب زمین پر آگ برسا رہا تھا، سائیں سائیں ہوائیں چل رہی تھیں، اب نماز جمعہ کا بھی وقت ہوا چاہ رہا تھا سو طلبہ جامعہ صاف ستھرے نئے نئے ملبوسات زیب تن کیے مسجد کی جانب جادہ پیما تھے، ہم طلاب ہند ونیپال بھی مسجد کے ایمان افروز ماحول سے دل ودماغ کو سکون فراہم کرنے کے لیے مسجد پہنچ چکے تھے، امام صاحب نے خطبہ دینا شروع کیا اور ہمیشہ کی طرح اس دن بھی نہایت ہی دلنشیں خطبہ پیش فرمایا۔
نماز جمعہ سے فراغت کے بعد روانگی سفر کے انتظار میں ہم محو گفتگو تھے کہ ایک بھائی کی طرف سے روانگی کا اعلان آیا، اعلان پڑھنا تھا کہ ہم خوشی خوشی خوبصورت نئے ملبوسات زیب تن کیے بس پہ سوار ہوگئے، کچھ ہی دیر بعد یہ پیاری سی بس سڑک کو بوسہ دیتی ہواؤں کو چیرتے ہوئے اپنی منزل کو سرپٹ بھاگنے لگی تھی، اور ساتھ ہی ہماری آنکھوں کو دلکش وحسین قدرتی مناظر کا نظارہ کراکے ان سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کررہی تھی، کچھ لمحوں میں ہم اپنی منزل مقصود کو بسلامت پہنچ چکے تھے، دراصل ہم ایک ایسی مبارک جمعیت کی طرف سے مدعو کیے گئے تھے جو دعوت وتبلیغ کے لیے مختص ہے، ہمارے وہاں پہنچتے ہی کارکنان جمعیت نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا، چونکہ عصر کا وقت ہوچکا تھا سو ہم نے ہر طرح کے امور سے کنارہ کش ہوکر پہلے اپنے آپ کو نماز کی ادائیگی کا مکلف بنایا، نماز بعد ہم سے باری باری مختصرا اپنا تعارف پوچھا گیا، بعد از تعارف اب ہم آزاد تھے۔
مرکز میں مختلف قسم کے آلات کھیل موجود تھے، ایک سیومنگ پل بھی تھا جس کا پانی اتنا صاف وشفاف کہ سطح پہ بچھائے گئے رنگین اور جاذب نظر ماربلس واضح نظر آرہے تھے، طلبہ کھیل کود اور دیگر تفریحی امور میں مشغول ہونے لگے تھے اور شاخ شجر پر چہچہاتی بلبلوں کی طرح خوش ہورہے تھے مانو جیسے گنگناتے ہوئے وہ دل ہی دل کہہ رہے ہوں کہ ہمیں اسی دن کا تو انتظار تھا کیوں کہ بہت دنوں بعد ہمیں کھیلنے کا موقع نصیب ہوا ہے۔
اول وہلہ میں ہم بھی میدان میں اتر تو گئے لیکن چونکہ ہمارے پسندیدہ کھیل کرکٹ کے سامان موجود نہ تھے سو ہم نے سیر وتفریح کو ترجیح دیتے ہوئے ایک منصوبہ کے تحت پانچ احباب وہاں سے نکل پڑے، ابھی دس قدم ہی چلے تھے کہ پیچھے سے تین اور احباب نے ہمیں آواز دی، وہ بھی ہمارے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کررہے تھے، اب ہماری کل تعداد نو ہوچکی تھی، جن کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔
شاعر وادیب اسداللہ امواوی، شیخ ومربی عبدالقادر، خلیق وملنسار محترم شمیم وجریج واحسان وصادق الزمان، شہسواران ترنم امیر الھدی ومنظم، اور یہ نابکار راقم الحروف ہدایت اللہ فارس
ان نو افراد پر مشتمل ہمارا یہ نہایت ہی سادہ سا قافلہ کسی نامعلوم مقام کی جانب گام فرسا تھا، ساتھ ہی وہ خوش گپیوں اور بذلہ سنجیوں کا مرکز بنا ہوا تھا، چند منٹوں میں سبزہ زاروں سے ہوتے ہوئے ہمارا یہ قافلہ ایک وسیع وعریض باغ کے قریب پہنچ چکا تھا، جس میں لگے کھجور کے درخت اور انگور کی کڑیاں ہمیں اندر داخل ہونے کی دعوت دے رہے تھے، باغ کے دائیں طرف ایک بلند وشاداب پہاڑ آسمان سے سرگوشی کررہا تھا اور دونوں کے درمیانی خلاء کا نظارہ نہایت ہی دلکش معلوم ہو رہا تھا، اب ہم باغ کے اندر داخل ہونے کی گستاخی کرچکے تھے، اس میں لگے پھل فروٹ اور دیگر اصناف شجر کے سبز پتوں کی سرسراہٹ ہماری طبیعت کو مخمور کر رہی تھی، اور شہر کی آلودگیوں سے پاک قدرتی ہوائیں سر سے پاؤں تک پرکیف اثر پیدا کررہی تھیں، ساتھ ہی ہماری آنکھیں ان افواہوں کی تکذیب بھی کررہی تھیں جو سعودی میں عدم ہریالی سے متعلق پھلائے گئے ہیں۔
خیر! باغ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے ہماری نظر ایک بیری کے درخت پہ پڑی، پر سوئے قسمت کہ اس میں لگے بیریوں پر حشرات نباتات کا قبضہ تھا، اور بھی مختلف قسم کے پھلوں سے لدے درخت ہمیں اپنی طرف لبھا رہے تھے لیکن ہمارے ایمان کا تقاضا تھا کہ بغیر اجازت کسی بھی شیء کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔
ہم ڈرے سہمے مزید اندر داخل ہوئیں تو ہمیں کچھ سیاہ اور تیرگی مائل اونٹ نظر آئے جن کے بیچ جبہ وٹوپی میں ملبوس ایک بزرگ شخص ان اونٹوں کا معائنہ کرتے ہوئے دکھائی پڑ رہے تھے، وضع قطع اور شکل وشمائل سے بالکل صاف دل اور نیک انسان معلوم ہورہے تھے، ہمیں آتا دیکھ کر وہ بھی اپنے جواں عمر بیٹے کے سہارے ہمارے قریب آگئے، اور علیک سلیک کے فورا بعد ہم سے دعوت اور دنبہ ذبح کرنے کی باتیں کرنے لگیں۔۔!
ان کی یہ سخاوت وفیاضی اور دریا دلی درحقیقت عربوں کی مہمان نوازی سے متعلق پڑھے اور سنے گئے واقعات کی ہمارے سامنے عکاسی کررہی تھیں،
خیر عبدالقادر بھائی نے ان سے گفتگو کی اور حقیقت حال سے انھیں آگاہ کیا کہ ہم یہاں کسی کی دعوت ہی میں آئے ہوئے ہیں۔
ہم سے مل کر وہ نہایت خوش دکھ رہے تھے، اب ان کے جانے کا وقت ہوچکا تھا، جاتے ہوئے انھوں نے ہمیں نیک دعاؤں سے نوازا اور فل اجازت دے دی کہ آپ لوگ جو بھی پھل چاہیں توڑ سکتے ہیں۔
کچھ دیر تک ہم باغ میں چہل قدمی کرتے رہیں لیکن وقت ہمیں مزید کی اجازت نہیں دے رہا تھا، ادھر صبح سے سفر کرتا آفتاب بھی زرد ہوچکا تھا اور مغربی افق پر اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا، گوکہ وہ اپنی زرد کرنوں کو سمیٹتے ہوئے دنیا پر الوداعی نظر ڈال رہا تھا، اور چہچہاتے پرندے جھنڈ در جھنڈ اپنے آشیانوں کی طرف محو پرواز تھے، گویا یہ منظر ہمیں جلد واپسی مرکز کی طرف اشارہ کررہا تھا۔
لہذا وہاں مزید وقت گزاری نہ کرکے ہم اپنے ہمراہ کچھ پھل فروٹ لیے باغ سے رخصت ہوگئے، ہمارے ساتھ حسین شام کی رونقیں بھی رفتہ رفتہ رخصت پذیر تھیں، اور شاخ شجر پر کھلے پھولوں نے اپنے زوال کو دیکھ کر سر جھکا لیا تھا، ہوا میں شبنم کی ہلکی پھوار تحلیل ہوکر اسے نرم وخوشگوار بنا رہی تھی، یہی وجہ تھی کہ شام اپنی اداسی کے باوجود حسین لگ رہی تھی۔
انھیں سرسبز وشاداب باغستان سے ہوتے ہوئے ہم اپنی منزل کو پہنچیں، ہمارے پہنچنے تک مغرب کی اذان دی جا چکی تھی، اور نماز کے لیے صف بندی کا عمل جاری تھا، وضوء کرکے ہم بھی صف میں شامل ہوگئے، نماز کی ادائیگی کے بعد ایک علمی محفل کا انعقاد بھی عمل میں آیا جس کی ابتداء تلاوت کلام اللہ سے ہوئی، پھر شعر نوائی سے ہوتے ہوئے طلب علم سے متعلق ایک علمی اور قیمتی درس پہ اس مبارک محفل کا اختتام ہوا، نماز عشاء کا وقت ہوچکا تھا، سرد سرد ہوائیں چل رہی تھیں، ادھر رجب کا ہلال شرمیلی اداؤں کے ساتھ مطلع کون پر جلوہ افروز ہوچکا تھا۔۔
ایسے ہی کھلے آسمان تلے ہم نے نماز ادا کی، نماز عشاء کے بعد طلبہ سے کچھ سوالات بھی کیے گئے جو قرآنیات سے متعلق تھے، پھر عشائیہ کے بعد تقسیم انعامات کا سلسلہ شروع ہوا، اسے آپ قسمت آزمائی کے کھیل سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں، کیوں کہ تقسیم انعام کا عمل قرعہ میں نکلنے والے نام کے ساتھ مربوط تھا، اور ہم تو ٹھہرے سپہ سالارِ سوئے قسمت کہ بیسیوں بار قرعہ کا پہیا گھمایا گیا پر مجال تھا کہ ہمارا نام نکل جاتا۔۔۔،،،!
ہمیں افسوس محض اس بات کا نہیں تھا کہ انعامات ہمارے ہاتھ نہیں لگ رہے تھے بلکہ انعام میں عمرہ کا پیکج بھی شامل تھا اور یہی چیز ہمیں اندر سے کھائے جارہی تھی، ہماری مغموم آنکھیں یہ منظر خاموشی سے دیکھتی رہیں واقعتا ابتداء تا انتہا یہ لمحہ ہمارے لیے صبر آزما رہا، ہم نے اپنے دل ناداں کو سمجھایا کہ قدر اللہ ما شاء فعل بھی کوئی چیز ہوتی ہے جس پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔۔،،،
خیر! اب وہاں سے کوچ کرنے کا وقت ہوچکا تھا، بس ہمارے انتظار میں باہر کھڑی تھی، یہ وقت تھا کہ ارض وفلک کی وسعتوں پر تاریکیوں نے پوری طرح اپنی چادر بچھا دی تھی، ہوا کے نرم جھونکے شب تاریک کے سناٹے میں کبھی کبھی انقلاب برپا کردیتے تھے، اور یہ نرم مخملی ہوائیں شاخ شجر کی نوخیز کونپلوں کو چھیڑ رہی تھیں، پتوں کی میٹھی سرسراہٹ اور ہواؤں کی لطافت وخنکی رواں رواں کو مخمور کر رہی تھیں، بس کے اندر سے باہر کا نظارہ بڑا ہی حسین لگ رہا تھا،
اور ایسے موقع پر اگر کوئی شہنشاہ ترنم اپنی سحر انگیز آواز اور نغمہ سرائی سے فضاء کو معطر کردے تو مزا دوبالا ہوجاتا ہے۔
میری مراد برادرم امیر الھدی ہیں رب تعالٰی نے انھیں بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے انھیں میں سے ایک خوبصورت آواز کی نعمت بھی ہے۔
امیر بھائی نے حمد ونعت سے محفل کا آغاز کیا پر سامعین اتنے میں کہاں راضی ہونے والے تھے، امیر امیر کی صدا سے پورا ماحول ہی گونج اٹھا تھا
اور امیر بھائی تو دل کے بھی امیر ہیں آخر سامعین کی خواہشوں کا گلا کیسے گھونٹتا انھوں نے گلا صاف کرکے ترنم کے ساتھ اشعار پڑھنا شروع کیا
*دھوپ کا لطف لینا روا ہے مگر*
*دوپہر چھت پہ جانا غضب ہو گیا*
*مجھ پہ قاتل نگاہیں برستی رہی*
*ڈھال میرا اٹھانا غضب ہو گیا*
*چار آنکھیں ہوئیں کیا؟ کہ سر خم ہوا*
*سر جھکا کر اٹھانا غضب ہو گیا*
*پھر کچھ ہمت بندھی اک اشارہ کیا*
*منہ جواباً چڑھانا غضب ہو گیا*
*اک لطیفہ پہ سب کھلکھلا کر ہنسے*
*زیر لب مسکرانا غضب ہو گیا*
*کل تلک وہ جو میرے خیالوں میں تھے*
*رو برو ان کا آنا غضب ہو گیا*
*اے اسد تم بھی شاید بدلنے لگے*
*ایسی غزلیں سنانا غضب ہو گیا*

واہ۔۔۔واہ سے محفل گونج اٹھی تھی، اور ساری محفل ہاتھ اٹھائے داد دے رہی تھی، واہ شاباش کیا کہنے!!! سبحان اللہ، امیر بھائی آپ نے تو کمال کردیا یار! آپ کی خوش نوائی کے کیا ہی کہنے،،!! طلبہ کے چہرے پر خوشی قابل دید تھی۔
ساتھ ہی ہماری لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ جس کلام کو سن کر سامعین واہ واہ کے نعرے بلند کررہے تھے اسے وجود بخشنے والے شاعر اس سفر میں ہمارے ہی درمیان موجود تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف ایک بہترین شاعر ہیں، اللہ تعالی نے انھیں طاقت ور قلم اور دل ودماغ کو متاثر کرنے والا اسلوب بھی عطا رکھا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جو عموما قارئین کے ایک بڑے حلقے کی صحیح فکری رہنمائی اور انھیں بروقت صحیح معلومات وحقائق سے آگاہ کرنے کا کرتی ہے۔
خیر یوں امیر بھائی کی مسحور کن اور کانوں میں رس گھول دینے والی آواز سے محظوظ ہوتے ہوئے ہم اپنی منزل کو اس وقت پہنچیں جب رات اپنے پہلے پہر کے اختتام کو تھی۔۔

✍ہدایت اللہ فارس
جامعہ نجران سعودیہ عربیہ
 
Top