شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
روزنامہ امت میں شائع ہونے والے
فتاویٰ عثمانیہ پر ایک نظر
فتاویٰ عثمانیہ پر ایک نظر
تحریر: محمد سلیمان جمالی ( نوابشاہ)
روزنامہ امت کراچی تقریباً روزانہ نظروں سے گزرتا ہے۔ ٢٠ مئی کے شمارے میں ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی صاحب کا مضمون ( کیا تاریخ علم نہیں) نظروں سے گزرا جس میں ڈاکٹر صاحب نے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے کسی ایک تاریخی سھو کی نشاندہی کی تھی ڈاکٹر صاحب کا مضمون شائع کر تے ہوئے روزنامہ امت نے لکھا کہ ہمارے صفحات تمام صاحبان علم کے لیے حاضر ہیں۔
چونکہ راقم بھی کافی عرصے سے روزنامہ امت کا قاری ہے اور راقم نے بھی مفتی تقی عثمانی صاحب کے کچھ تسامحات کی طرف اشارہ کرنا چاہا جو ان سے روزنامہ امت میں اپنے فتاویٰ کے سلسلے میں فتاویٰ عثمانیہ میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے واقع ہوئے۔
یاد رہے کہ یہ تسامحات ان تسامحات سے بڑھ کر تھے جن کی طرف سید رضوان علی صاحب نے اشارہ کیا۔
کیوں کہ یہاں موصوف نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے صریح احادیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے۔
روزنامہ امت نے تاریخی سہو پر تنبیہ والا مضمون تو شائع کر دیا جب کہ راقم کا مضمون جس کا تعلق عقیدے اور منہج اور حدیث رسول کی مخالفت پر تنبیہ جیسے اہم عنوان پر مشتمل تھا شائع کرنے کی زحمت نہیں کی۔
ا س دعوت حق کو قارئین تک پہنچانے کی غرض سے اب اسی مضمون کو اپنے سلفی اخبار حدیبیہ کو ارسال کیا جا رہا ہے امید ہے کہ حدیبیہ اسے اپنے صفحات میں جگہ دے کر روزنامہ امت کی تنگدلی کا چہرہ عیاں فرمائے گی۔
آئیے اب مضمون ملاحظہ فرمائیے۔
موصوف سے سوال کیا گیا کہ
خطیب دوران خطبہ یہ آیت شریف تلاوت کرے یا ایھا الذین آمنو اصلو علیہ � تو درود شریف بہ آواز بلند پڑھنا چاہیے یا نہیں تو مفتی صاحب نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جب مندرجہ آیت پڑھی جائے تو مقتدی کو دل دل میں درود شریف پڑھنا چاہیے زبان سے پڑھنا درست نہیں۔
خطبے کے دوران نماز پڑھنا بھی ناجائز ہوجا تا ہے تو درود شریف پڑھنا بدرجہ اولاناجائز ہو گا۔ ( روزنامہ امت 6 جولائی2011 ) جب کے اس کے برعکس سیدنا جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے نماز پڑھی ہے؟ اس نے کہا نہیںَ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا پس دو رکعتیں پڑھو۔ ( بخاری ٩٣١ مسلم ٨٧٥)
سیدنا جابر بن عبد اﷲ انصاری رضی اﷲ عنہ ہی سے مروی ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبے میں فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے دن ( جمعہ پڑھنے کے لیے ) آئے اور امام خطبے کے لیے نکل چکا تو وہ شخص دو رکعتیں پڑھے ( مسلم ٨٧٥)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ جمعہ کے دن آئے مروان بن حکم خطبہ دے رہا تھا آپ نے چوکیداروں کی مخالفت کے باوجود نماز پڑھی۔ (سنن ترمذی ٥١١ مسند حمیدی ٧٤١)
معلوم ہوا کہ مفتی صاحب کا مؤ قف کے خطبے کے دوران نمازپڑھنا جائز نہیں، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کی واضح مخالفت ہے۔
دوسرا سوال یہ ہوا کہ امام کے شرعی اوصاف کیا ہونے چاہئیں (اور امامت کا مستحق کون ہے) اس سوال کے جواب میں مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ امامت کا مستحق وہ شخص ہے جو
(١) مسلمان ہو بالغ ہو (٢) نماز کا طریقہ جانتا ہو (٣) نماز کی تمام شرائط وضو وغیرہ پوری طرح کر سکتا ہو (٤) ایسے کسی مرض میں مبتلا نہ ہو جس کی وجہ سے اس کا وضو قائم نہ رہتا ہو (٥) رکوع اور سجدے پر قادر ہو (٦) گونگا اور توتلا نہ ہو (٧) صالح یعنی کبیرہ گناہوں میں مبتلا نہ ہو (٨) نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو (٩) قرآن مجید کی تلاوت صحیح طریقے سے کر سکتا ہو (١٠) کسی ایسے عیب میں مبتلا نہ ہو جس کی وجہ سے اس کی پاکیزگی مشکوک ہو اور لوگ اس سے گھن کریں اس وجہ سے نابینا مفلوج ابرص وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھنے کو فقہاء نے خلاف اولیٰ قرار دیا ہے۔ (امت ٢٠ جون ٢٠١١ع)
جب کے اس کے برعکس سیدنا ابو مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کا امام ایسا شخص ہو نا چاہیے جو قرآن کا زیادہ علم رکھتا ہو اگر اس وصف میں لوگ برابر ہو ں تو پھر وہ شخص امام بنے جو سنت کو زیادہ جاننے والا ہو اگر سنت کے علم میں بھی لوگ برابر ہوں تو پھر وہ امام بنے جو ہجرت میں مقدم ہو اور اگر اس وصف میں بھی لوگ برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جو عمر میں زیادہ ہو۔ (مسلم ٦٧٣)
قارئین کرام آپ اندازہ لگائیں کے مفتی صاحب کی شرائط اور حدیث رسول میں کس قدر تفاوت ہے۔
نیز مفتی صاحب کا نابینے کی امامت کو مکروہ قرار دینا بھی محل نظر ہے سیدنا ابن ام مکتوم کو نبی صلی نے مدینہ منورہ کا والی مقرر کیا اور وہ لوگوں کو نماز پڑھایا کر تے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے۔ (صحیح ابو دائود )
معلوم ہوا مفتی صاحب کا یہ مؤقف بھی حدیث کی رو سے درست نہیں ہے نیز ایک شخص اپنا سوال بیان کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ میں فجر کے وقت نماز میں داخل ہوا تو امام صاحب نماز پڑھا رہے تھے تو میں سنتیں پڑھے بغیر جماعت میں شریک ہوا۔ بعد ازاں سورج نکلنے کے بعد سنتیں ادا کیں تو میرا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟ مفتی صاحب جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فجر کی سنتوں کے بارے میں تو سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ گھر میں ادا کر کے مساجد جائیں اور اگر گھر میں پڑھے بغیر مساجد میں پہنچ جائیں تو جب تک جماعت کی رکعت بلکہ تشہد مل سکتا ہے فجر کی سنتیں دور ہٹ کر کسی مقام پر پڑھ لینا جائز ہے۔ خواہ جماعت شروع ہو چکی ہو۔
لیکن اگر کوئی شخص جماعت میں شریک ہو گیا تو پھر امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے قول کے مطابق تنہا سنتوں کی قضا نہیں ہے آپ نے سورج نکلنے کے بعد دو رکعتیں پڑھیں وہ آپ کی طرف سے نفل ہوگئیں (امت 1جولائی 2011 ع)
مندرجہ بالا فتوی میں مفتی صاحب نے فرمایا کہ دوران فرض سنتیں پڑھی جا سکتی ہیں جب کہ اس کے برعکس نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب فرض نماز کی تکبیر کہی جائے تو اس فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز درست نہیں ( مسلم ٧١٠)
نیز مفتی صاحب نے سائل کو جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جو سنتیں آپ نے طلوع شمس کے بعد ادا کیں وہ آپکی سنتیں نہیں بلکہ نفل شمار ہوئیں یہ موقف بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہے۔
اس کے برعکس نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے فجر کی دو سنتیں نہ پڑھیں وہ سورج طلوع ہونے کے بعد یہ دو رکعتیں پڑھ لے ( صحیح ترمذی ٣٤٧)
ایک شخص نے امت کے توسل سے ہی سوال کیا کہ ہمارے گائوں میں ایک ڈاکخانہ اور یونین کونسل کا دفتر موجود ہے اور ہمارا علاقہ ملیر سٹی سے چودہ میل دور ہے سرکاری اعدادو مردم شماری چار ہزار ہے روزمرہ کی زندگی کا سازو سامان بھی مل رہا ہے کیا ایسی جگہ جمعہ ادا کرنا جائز ہے؟
مفتی صاحب نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ سوال میں بستی کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں ان کے پیش نظر اس بستی میں نماز جمعہ ادا کرنا درست ہے ( امت 7 جولائی2011 ع)
مفتی صاحب کی تحریر سے معلوم ہوا کہ مفتی صاحب گائوں میں جمعہ ادا کرنے کے قائل نہیں ہیں اور مفتی صاحب کے ہاں جمعہ کے لیے شہر کا ہونا اور اس شہر میں ڈاکخانہ یونین کونسل کا دفتر اور روزمرہ کے سامان کا ملنا شرط ہے۔
اس کے برعکس سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد پہلا جمعہ بنو عبد القیس کی مسجد میں ہوا جو ملک بحرین کے جو اثاء مقام میں تھی۔
سنن ابی دائود کے الفاظ ہیں کہ جو اثاء جو کہ بحرین کی بستیوں میں سے ایک بستی گائوں دیہات تھی۔ (بخاری ٨٩٢)
امام بخاری نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے۔
(باب الجمعة فی القری والمدن) گائوں اور شہروں ( دونوں میں جمعہ درست ہے)
یہاں میں مفتی صاحب سے استفار کا حق رکھتا ہوں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے خیر القرون میں جو جواثاء کے مقام پر جمعہ ادا کیا گیا کیا وہاں یونین کونسل اور ڈاکخانہ موجود تھا؟
کیا وہاں روزمرہ کی ہر چیز لازماً موجود تھی اگر یہ چیزیں خیر القرون کے پاک باز ہستیوں کے ہاں شرط نہیں تھیں تو آپ کے ہاں یہ شرائط کہاں سے آگئیں؟
مفتی تقی عثمانی صاحب سے ایک اور سوال یہ کیا گیا کہ ایک شخص کی بیوی کا انتقال ہوجائے تو کیا اس کا خاوند بعد از وصال اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے یا نہیں اور جنازہ بھی اٹھا سکتا ہے یا نہیں اسی طرح عورت اپنے خاوند کے چہرے کو دیکھ سکتی ہے یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ
شوہر کے لیے اپنی بیوی کا چہرہ مرنے کے بعد دیکھنا با لا تفاق جائز ہے البتہ اس کو چھونے یا غسل دینے سے فقھاء احناف نے منع کیا ہے۔
اور بیوی اپنے شوہر کے مرنے کے بعد اسے دیکھ بھی سکتی ہے اور غسل بھی دے سکتی ہے ( امت 11 جولائی 2011 ع)
جب کے اس کے برعکس نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اے عائشہ اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہوگئی تو میں تجھے غسل دوں گا (صحیح ابن ماجہ ١١٩٧)
اسی طرح سیدہ فاطمہ نے وصیت کی کہ انہیں سیدنا علی رضی اﷲ عنہ غسل دیں چنانچہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے ہی سیدہ فاطمہ کو غسل دیا۔ (دار قطنی ٢ / ٧٩ بحوالہ فقہ الحدیث الشیخ عمران ایوب لاہوری حفظہ اﷲ ١ / ٦٠٩)
قارئین کرام عجیب فلسفہ ہے کہ بیوی تو مرنے کے بعد اپنے خاوند کو غسل دے سکتی ہے باقی خاوند اپنی بیوی کو غسل نہیں دے سکتا ۔
قارئین کرام یہ مفتی تقی عثمانی صاحب کے انتہائی خطر ناک سہو تھے جن کی ہم نے خیر خواہی کے جذبے سے نشاندہی کی ہے امید ہے مفتی صاحب ضرور حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے سر تسلیم خم کر تے ہوئے رجوع فرمائیں گے۔
اور روزنامہ امت میں اپنی رکارڈ کی درستگی کا اہتمام بھی فرمائیں گے۔
بشکریہ حدیبیہ