محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
روزے کی حالت میں غصہ کرنا
رمضان المبارک میں اکثر لوگوں کا جب پیٹ خالی ہونے لگتا ہے تو پارہ چڑھنے لگتا ہے۔ دوپہر بارہ بجے کے بعد سے پارہ چڑھنا شروع ہوتا ہے اور شام ہوتے ہوتے بلندی پہنچ جاتا ہے۔ رمضان مبارک کی مبارک شام کو اکثر لوگ غصے سے آگ بگولہ اور پاگل ہوتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ہماری طرح ہمارا غصہ بھی بڑا منافق ہے۔ اپنے سے زبردست پر غصہ نہیں کیا جاتا ہے اور اگر اپنے سے زبردست پر غصہ آ بھی تو اس کا اظہار نہیں کیا جاتا جبکہ زیرِ دست غصہ آجائے تو الا بلا اور واہی تباہی سب بک دیا جاتا ہے۔ یعنی کہ غصہ کمزوروں پر کیا جاتا ہے اور کمزوروں پر ہی اتارا جاتا ہے۔ بازاروں میں سودا سلف خریدتے ہوئے بڑے دوکانداروں پر غصہ نکالنا تو ممکن نہیں ہوتا۔ لہذا ریڑھی، چھابڑی اور ٹھیلے والوں پر غصہ اتارا جاتا ہے اور اگر ان پر بھی غصہ جھاڑنا ممکن نہ ہوتو چھوٹے چھوٹے بھیک مانگتے بچوں پر ہی غصہ نکال دیا جاتا ہے۔ ہمارے دفاتر میں اپنے ماتحتوں پر غصہ جھاڑنے کا رواج بڑا عام ہے اور گھروں میں مرد حضرات بیوی بچوں پر غصہ نکالنے کے ماہر ہیں تو عورتیں کام کرنے والی نوکر نوکرانیوں پر غصہ جھاڑتی نظر آتی ہیں۔ جن گھروں میں میاں بیوی ہم پلہ ہوں وہاں دونوں کے غصے میں بچے پستے رہتے ہیں۔ اکثر گھروں میں افطار سے چند لمحے قبل تک غصہ عروج پر ہوتا ہے۔
رمضان المبارک میں غصے کی زیادتی کی وجہ سے جہاں ایک طرف سڑکوں پر ٹریفک ایکسیڈینٹ میں اضافہ ہوجاتا ہے وہیں دوسری طرف گھریلو تشدد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ اکثر روزہ دار غصے کی حالت میں سڑکوں، بازاروں اور گھروں میں گالم گلوچ و جھگڑا فساد کرتے بھی پائے جاتے ہیں۔
افسوس کہ آج کے مسلمان روزہ رکھ کر کچھ زیادہ ہی غصہ کرتے ہیں جیسے کہ وہ روزہ رکھ کر وہ دوسروں پر احسان کر رہے ہوں جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
روزے کا مقصد انسان کے اندر صبر، برداشت اور تحمل پیدا کرنا ہے، اگر روزہ رکھ کر انسان کے اندر یہ صفات پیدا نہ ہو توں یہ روزہ رکھنا نہ ہوا بلکہ محض بھوکا رہنا ہوا۔
جیسا کہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا، اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا"۔ (سنن ابن ماجه: 1690)
روزہ بہت قیمتی خزانہ ہے۔ اسے اپنے غصے کی بھینٹ چڑھنے نہ دیجئے۔ اپنی ہر روزے کی حفاظت کیجئے۔ روزے میں غصے سے بچنے کا دہرا ثواب ہے: ایک روزہ رکھنے کا ثواب دوسرا غصہ نہ کرنے کا ثواب۔
اپنے غصے کو کنٹرول کیجئے۔ جو لوگ اپنے غصے پر کنٹرول نہیں کرپاتے وہ دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی نقصان کر لیتے ہیں۔ ویسے غصہ سے ہر حال میں انسان کا اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے دین اسلام غصہ کنٹرول کرنے، غصہ کے وقت انتقام نہ لینے اور کوئی فیصلہ نہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں غصہ نہ کرنے اور غصہ کے وقت معاف کر دینے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
غصہ کو کنٹرول کرنا اور درگزر کرنا بندۂ مومن کی خاص صفات میں سے ہے۔غصہ پینے والے سے اللہ تعالٰی محبت کرتے ہیں۔
فرمانِ الٰہی ہے: ’’جو لوگ آسانی میں سختی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے‘‘ (134) سورة آل عمران
غصہ کنٹرول کرنے والا ہی اصل پہلوان ہے:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے بے قابو نہ ہو جائے۔ (صحیح البخاری:6114)
ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئیے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ (صحیح البخاری:6116)
غصہ اور نرمی دونوں اوصاف ہر انسانی فطرت میں موجود ہے ، کوئی غصہ زیادہ کرتا ہے اور نرمی کا دامن چھوڑدیتا ہے اور کوئی نرم مزاجی اپناتا ہے اور غصہ کم رکھتا ہے ۔ گویا ایک انسان اپنی فطرت کو بدل نہیں سکتا مگر غصہ کو کم کر سکتا ہے اور غصہ کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
غصہ سے بچنے کیلئےغصہ کے وقت فوری تدابیر:
تحریر: انجنیئر محمد اجمل خان
۔
رمضان المبارک میں اکثر لوگوں کا جب پیٹ خالی ہونے لگتا ہے تو پارہ چڑھنے لگتا ہے۔ دوپہر بارہ بجے کے بعد سے پارہ چڑھنا شروع ہوتا ہے اور شام ہوتے ہوتے بلندی پہنچ جاتا ہے۔ رمضان مبارک کی مبارک شام کو اکثر لوگ غصے سے آگ بگولہ اور پاگل ہوتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ہماری طرح ہمارا غصہ بھی بڑا منافق ہے۔ اپنے سے زبردست پر غصہ نہیں کیا جاتا ہے اور اگر اپنے سے زبردست پر غصہ آ بھی تو اس کا اظہار نہیں کیا جاتا جبکہ زیرِ دست غصہ آجائے تو الا بلا اور واہی تباہی سب بک دیا جاتا ہے۔ یعنی کہ غصہ کمزوروں پر کیا جاتا ہے اور کمزوروں پر ہی اتارا جاتا ہے۔ بازاروں میں سودا سلف خریدتے ہوئے بڑے دوکانداروں پر غصہ نکالنا تو ممکن نہیں ہوتا۔ لہذا ریڑھی، چھابڑی اور ٹھیلے والوں پر غصہ اتارا جاتا ہے اور اگر ان پر بھی غصہ جھاڑنا ممکن نہ ہوتو چھوٹے چھوٹے بھیک مانگتے بچوں پر ہی غصہ نکال دیا جاتا ہے۔ ہمارے دفاتر میں اپنے ماتحتوں پر غصہ جھاڑنے کا رواج بڑا عام ہے اور گھروں میں مرد حضرات بیوی بچوں پر غصہ نکالنے کے ماہر ہیں تو عورتیں کام کرنے والی نوکر نوکرانیوں پر غصہ جھاڑتی نظر آتی ہیں۔ جن گھروں میں میاں بیوی ہم پلہ ہوں وہاں دونوں کے غصے میں بچے پستے رہتے ہیں۔ اکثر گھروں میں افطار سے چند لمحے قبل تک غصہ عروج پر ہوتا ہے۔
رمضان المبارک میں غصے کی زیادتی کی وجہ سے جہاں ایک طرف سڑکوں پر ٹریفک ایکسیڈینٹ میں اضافہ ہوجاتا ہے وہیں دوسری طرف گھریلو تشدد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ اکثر روزہ دار غصے کی حالت میں سڑکوں، بازاروں اور گھروں میں گالم گلوچ و جھگڑا فساد کرتے بھی پائے جاتے ہیں۔
افسوس کہ آج کے مسلمان روزہ رکھ کر کچھ زیادہ ہی غصہ کرتے ہیں جیسے کہ وہ روزہ رکھ کر وہ دوسروں پر احسان کر رہے ہوں جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
روزے کا مقصد انسان کے اندر صبر، برداشت اور تحمل پیدا کرنا ہے، اگر روزہ رکھ کر انسان کے اندر یہ صفات پیدا نہ ہو توں یہ روزہ رکھنا نہ ہوا بلکہ محض بھوکا رہنا ہوا۔
جیسا کہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا، اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا"۔ (سنن ابن ماجه: 1690)
روزہ بہت قیمتی خزانہ ہے۔ اسے اپنے غصے کی بھینٹ چڑھنے نہ دیجئے۔ اپنی ہر روزے کی حفاظت کیجئے۔ روزے میں غصے سے بچنے کا دہرا ثواب ہے: ایک روزہ رکھنے کا ثواب دوسرا غصہ نہ کرنے کا ثواب۔
اپنے غصے کو کنٹرول کیجئے۔ جو لوگ اپنے غصے پر کنٹرول نہیں کرپاتے وہ دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی نقصان کر لیتے ہیں۔ ویسے غصہ سے ہر حال میں انسان کا اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے دین اسلام غصہ کنٹرول کرنے، غصہ کے وقت انتقام نہ لینے اور کوئی فیصلہ نہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں غصہ نہ کرنے اور غصہ کے وقت معاف کر دینے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
غصہ کو کنٹرول کرنا اور درگزر کرنا بندۂ مومن کی خاص صفات میں سے ہے۔غصہ پینے والے سے اللہ تعالٰی محبت کرتے ہیں۔
فرمانِ الٰہی ہے: ’’جو لوگ آسانی میں سختی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے‘‘ (134) سورة آل عمران
غصہ کنٹرول کرنے والا ہی اصل پہلوان ہے:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے بے قابو نہ ہو جائے۔ (صحیح البخاری:6114)
ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئیے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ (صحیح البخاری:6116)
غصہ اور نرمی دونوں اوصاف ہر انسانی فطرت میں موجود ہے ، کوئی غصہ زیادہ کرتا ہے اور نرمی کا دامن چھوڑدیتا ہے اور کوئی نرم مزاجی اپناتا ہے اور غصہ کم رکھتا ہے ۔ گویا ایک انسان اپنی فطرت کو بدل نہیں سکتا مگر غصہ کو کم کر سکتا ہے اور غصہ کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
غصہ سے بچنے کیلئےغصہ کے وقت فوری تدابیر:
- سب سے پہلےشیطان سے اللہ کی پناہ مانگنا چاہئے ، پڑھے ’’ ( أعوذ بالله من الشيطان الرجيم )‘‘
- غصہ آتے ہی فوراً خاموشی اختیار کرلے کیونکہ جس قدر زبان کھولے گا غلط الفاظ نکلیں گے اور غصہ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے خاموشی اختیار کرنا چاہئے‘‘۔ (صحيح الجامع:693)
- اپنی حالت تبدیل کرلے یعنی کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھنے پر بھی غصہ دور نہ ہو تو لیٹ جائیں۔
- غصہ کے وقت پانی پی لے (روزے کی حالت میں پانی پینا ممکن نہیں)، لہذا ہاتھ منہ دھو لے یا وضو کر لے۔
تحریر: انجنیئر محمد اجمل خان
۔