حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
ایک وقت تھا پاکستان میں لیفٹ اور رائٹ کے دو اہم دھڑے ہوا کرتے تھے۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی اور ادبی حوالے سے ان کے درمیان مستقل چھیڑ چھاڑ رہتی تھی۔ اختلاف اور متضاد نظریات کی پیروی دراصل وقت کے جوہڑ میں ہر لمحہ ارتعاش پیدا کرنے کی کاوش کا نام تھا۔ اسی سے زندگی اپنے نصب العین کا تعین کیا کرتی تھی۔ بائیں بازو والے دِل کی طرف خاص جھکائو رکھتے ہیں کیونکہ دِل بھی بائیں جانب ہوتا ہے اس لئے اس نظریئے سے جڑے لوگ صرف دماغ کی بات نہیں مانتے بلکہ دل کی آواز سننے کی قدرت بھی رکھتے ہیں۔ دل محبت، خوبصورتی اور وسعت کا علمبردار ہے۔ روشن خیال منطق کو دِل کے احساس سے منسلک کر کے معاملاتِ زندگی کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح ایک متوازن اور صحت مند معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ ان کے لئے اپنی آزادی کے ساتھ دوسروں کی آزادی کا تصور بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ دل کا ساتھ ان کے نظریات اور خیالات کو وسیع تر دنیا سے ہم آہنگ کر کے ان کی سوچ کو تعمیری ڈھنگ عطا کرتا ہے۔ ان کا ویژن زمانے سے کئی سال آگے ہوتا ہے اس لئے ان کی فکر کو انقلابی فکر کا نام دیا جاتا ہے کیوں کہ انہیں آنے والے وقت میں ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک ہو جاتا ہے اور یہ اس سمت سفر شروع کر دیتے ہیں۔ انسان رائٹ اور لیفٹ نہیں ہوتے بلکہ ان کے نظریات کا جھکائو انہیں کوئی خاص پہچان عطا کرتا ہے۔ روشن خیالی، انسان دوستی، فکری آزادی اور وسعت نظری لیفٹ کے لوگوں کی سرشت میں شامل ہوتی تھیں۔ ماحول، تعلیم اور مخصوص اداروں میں تربیت کے باعث کچھ لوگ شروع میں رجعت پسندی کے قائل تھے مگر جب انہوں نے اپنے آپ کو دریافت کرنے کی راہ اپنائی تو وہ روشن خیالوں کے قافلے میں شامل ہو گئے۔ یہ قافلے خیر کے وہ لشکر تھے جن کے ہاتھوں میں کوئی ہتھیار نہیں تھا صرف ذہن میں منطقی دلائل اور دل میں وسعتِ جہاں تھی۔ اسی باعث ان کی آنکھوں میں محبت کے دیے جلتے تھے جن کی روشنی ظلم، جبر اور تشدد کے ہیولوں سے محفوظ رکھتی تھی۔ یہ لوگ کائنات کی نبض سے جڑے ہوئے تھے۔ کسی بھی جگہ کسی بھی مقام پر کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوتی تو یہ مظلوم کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے۔ انہیں خریدنا مشکل تھا کیوں کہ ان کے لئے دنیاوی قیمت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ یہ معاشرے کا روشن پہلو اور ترقی کی علامت تھے۔
رفتہ رفتہ آمریت نوازوں نے معاشرے سے لیفٹ اور رائٹ کی تفریق ختم کرنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی معاشرے کو اُس نہج پر لے آئے جہاں کچھ طاقتیں اتنی متحرک ہوئیں کہ وہ اکثریت کی ناپسندیدہ ہونے کے باعث پوری دنیا میں ہمارا تعارف بن گئیں۔ لوگ انہی کے کرتوتوں کے باعث ہمیں جانتے ہیں کیوں کہ ہمارے پاس اپنا مختلف تعارف موجود ہی نہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ روشن خیالوں کی بے حسی اور بے بسی ہے۔ سوچنے والا انسان کبھی بے بس نہیں ہوتا کیوں کہ ہمیشہ درست سوچ پر لبیک کہہ کر میدان عمل میں اترنا جانتا ہے مگر ہمارے روشن خیالوں نے وقت سے سمجھوتہ کر کے خود کو اپنے خیالوں اور خوابوں کی جنت میں بند کر لیا اور اسی پر اکتفا کرتے ہوئے خود کو تسلی دے لی کہ ہم تو ٹھیک رستے پر جا رہے ہیں جب کہ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ زمانے کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے، اپنے جیسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر کے لائحہ عمل ترتیب دیتے، نئی نسل کو اپنے ہمراہ کرتے، نصاب میں موجود غیر انسانی موضوعات کی نشاندہی کر کے وہاں انسان دوست صوفیاء کی تعلیمات کو شامل کرنے کی طرف راغب کرتے، علمی و ادبی اور سماجی سرگرمیوں کے ذریعے عام آدمی کے ذہن میں خیر کے افکار کی آبیاری کرتے مگر افسوس ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ وہ اپنی سطح تک تو بالکل صحیح رستے پر جا رہے ہیں مگر جب تمام رستہ ہی کیچڑ سے بھرا ہو تو سفید کپڑوں کی پہچان کہاں باقی رہتی ہے۔ حالات سے سمجھوتے یا دگرگوں حالات سے تنگ آ کر آج ان کی بے حسی معاشرتی بے بسی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ شہر شہر، گائوں گائوں ظلم کی یلغار ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کھلم کھلا اور سر عام کی جا رہی ہے۔ عورتوں کو سڑکوں پر غیرت اور انا کے نام پر سنگسار کیا جا رہا ہے۔ اقدار اور قومی سربلندی کے نام پر آزادانہ فکر کے قائل لوگوں کو غداری اور بے دینی کے سرٹیفکیٹ عطا کئے جا رہے ہیں۔ جھوٹ، بے ایمانی اور بدنیتی کا پرچار کیا جا رہا ہے اور سڑکوں کے اردگرد کھڑے لوگ ساکت وجود اور جامد خیال کے ساتھ ظلم کے یہ واقعات اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے ان میں کوئی حقیقت نہ ہو بلکہ یہ کسی فلم یا ڈرامے کے مناظر کی عکس بندی ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ ہمارے ضمیر مردہ اور سوچ پژمردہ ہوتی گئی۔ خوف نے ہماری زبانوں، قلم اور عمل کو پا بہ زنجیر کر دیا اور آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں پہلے روز سے وجودِ پاکستان کے مخالفین اس ملک کے والی وارث بن کر کھڑے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب وہ واقعتاً نہ صرف اس سرزمین بلکہ یہاں کے باسیوں کی سوچ بھی اپنے قبضے میں کر لیں گے۔ اس سے پہلے کہ وہ دن آئے ان پانچ چھ فیصد لوگوں کے مقابلے میں سوئی ہوئی اکثریت کو جاگ کر متحرک ہو جانا چاہئے کیوں کہ اگر آج ریاست بعض رجعت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے سامنے بے بس ہے تو اس کی وجہ ان روشن خیالوں کی خاموشی ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان نہیں کرتے اور نہ ہی عملی اقدامات کرتے ہیں کیوں کہ یہ وہ تھنک ٹینک ہے جو ریاست کی اصل طاقت ہے۔ اس وقت ہماری ریاست غار کے زمانے کے طرز عمل سے نبردآزما ہے اور جن کو وقت کا دماغ ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے ان کا شعور گہری نیند سویا ہوا ہے۔
میں اس ریاست کی شہری ہوں۔ شہری ہونے کے ناتے مجھے کچھ حقوق حاصل ہیں اور مجھ پر کچھ فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔ میں اپنے تمام فرائض پوری دیانتداری سے سرانجام دینے کی کوشش کرتی ہوں، اپنے ذمہ تمام ٹیکس ادا کرتی ہوں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس ملک کی فلاح کے لئے کوشاں ہوں۔ ریاست اور میرے درمیان جو معاہدہ ہے وہ مجھے اکساتا ہے کہ میں ریاست سے یہ سوال کر سکوں کہ آئین نے مجھے جو آزادی، خود مختاری اور جان ومال کا تحفظ عطا کیا ہے ریاست اس حوالے سے اپنے فرائض کیوں سرانجام نہیں دے رہی؟ وہ میرے معاشرے کو تخریبی عناصر سے پاک کرنے میں کیوں حیل و حجت سے کام لے رہی ہے؟ وہ اپنی رِٹ قائم کرنے میں کیوں ناکام ہے؟ ریاست کے اندر ریاستوں کی اجازت دے کر اس نے اپنی طاقت کیوں تقسیم کر رکھی ہے؟ اداروں پر اس کا چیک اینڈ بیلنس کیوں قائم نہیں ہو سکا؟ ہر کوئی من مانی کی روش پر کیوں گامزن ہے؟ قانون کے بجائے طاقت کو فوقیت کیوں حاصل ہے؟ میرا یہ سوال صرف پاکستانی ریاست سے نہیں بلکہ تمام روشن خیالوں سے بھی ہے ۔
رفتہ رفتہ آمریت نوازوں نے معاشرے سے لیفٹ اور رائٹ کی تفریق ختم کرنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی معاشرے کو اُس نہج پر لے آئے جہاں کچھ طاقتیں اتنی متحرک ہوئیں کہ وہ اکثریت کی ناپسندیدہ ہونے کے باعث پوری دنیا میں ہمارا تعارف بن گئیں۔ لوگ انہی کے کرتوتوں کے باعث ہمیں جانتے ہیں کیوں کہ ہمارے پاس اپنا مختلف تعارف موجود ہی نہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ روشن خیالوں کی بے حسی اور بے بسی ہے۔ سوچنے والا انسان کبھی بے بس نہیں ہوتا کیوں کہ ہمیشہ درست سوچ پر لبیک کہہ کر میدان عمل میں اترنا جانتا ہے مگر ہمارے روشن خیالوں نے وقت سے سمجھوتہ کر کے خود کو اپنے خیالوں اور خوابوں کی جنت میں بند کر لیا اور اسی پر اکتفا کرتے ہوئے خود کو تسلی دے لی کہ ہم تو ٹھیک رستے پر جا رہے ہیں جب کہ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ زمانے کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے، اپنے جیسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر کے لائحہ عمل ترتیب دیتے، نئی نسل کو اپنے ہمراہ کرتے، نصاب میں موجود غیر انسانی موضوعات کی نشاندہی کر کے وہاں انسان دوست صوفیاء کی تعلیمات کو شامل کرنے کی طرف راغب کرتے، علمی و ادبی اور سماجی سرگرمیوں کے ذریعے عام آدمی کے ذہن میں خیر کے افکار کی آبیاری کرتے مگر افسوس ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ وہ اپنی سطح تک تو بالکل صحیح رستے پر جا رہے ہیں مگر جب تمام رستہ ہی کیچڑ سے بھرا ہو تو سفید کپڑوں کی پہچان کہاں باقی رہتی ہے۔ حالات سے سمجھوتے یا دگرگوں حالات سے تنگ آ کر آج ان کی بے حسی معاشرتی بے بسی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ شہر شہر، گائوں گائوں ظلم کی یلغار ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کھلم کھلا اور سر عام کی جا رہی ہے۔ عورتوں کو سڑکوں پر غیرت اور انا کے نام پر سنگسار کیا جا رہا ہے۔ اقدار اور قومی سربلندی کے نام پر آزادانہ فکر کے قائل لوگوں کو غداری اور بے دینی کے سرٹیفکیٹ عطا کئے جا رہے ہیں۔ جھوٹ، بے ایمانی اور بدنیتی کا پرچار کیا جا رہا ہے اور سڑکوں کے اردگرد کھڑے لوگ ساکت وجود اور جامد خیال کے ساتھ ظلم کے یہ واقعات اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے ان میں کوئی حقیقت نہ ہو بلکہ یہ کسی فلم یا ڈرامے کے مناظر کی عکس بندی ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ ہمارے ضمیر مردہ اور سوچ پژمردہ ہوتی گئی۔ خوف نے ہماری زبانوں، قلم اور عمل کو پا بہ زنجیر کر دیا اور آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں پہلے روز سے وجودِ پاکستان کے مخالفین اس ملک کے والی وارث بن کر کھڑے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب وہ واقعتاً نہ صرف اس سرزمین بلکہ یہاں کے باسیوں کی سوچ بھی اپنے قبضے میں کر لیں گے۔ اس سے پہلے کہ وہ دن آئے ان پانچ چھ فیصد لوگوں کے مقابلے میں سوئی ہوئی اکثریت کو جاگ کر متحرک ہو جانا چاہئے کیوں کہ اگر آج ریاست بعض رجعت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے سامنے بے بس ہے تو اس کی وجہ ان روشن خیالوں کی خاموشی ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان نہیں کرتے اور نہ ہی عملی اقدامات کرتے ہیں کیوں کہ یہ وہ تھنک ٹینک ہے جو ریاست کی اصل طاقت ہے۔ اس وقت ہماری ریاست غار کے زمانے کے طرز عمل سے نبردآزما ہے اور جن کو وقت کا دماغ ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے ان کا شعور گہری نیند سویا ہوا ہے۔
میں اس ریاست کی شہری ہوں۔ شہری ہونے کے ناتے مجھے کچھ حقوق حاصل ہیں اور مجھ پر کچھ فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔ میں اپنے تمام فرائض پوری دیانتداری سے سرانجام دینے کی کوشش کرتی ہوں، اپنے ذمہ تمام ٹیکس ادا کرتی ہوں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس ملک کی فلاح کے لئے کوشاں ہوں۔ ریاست اور میرے درمیان جو معاہدہ ہے وہ مجھے اکساتا ہے کہ میں ریاست سے یہ سوال کر سکوں کہ آئین نے مجھے جو آزادی، خود مختاری اور جان ومال کا تحفظ عطا کیا ہے ریاست اس حوالے سے اپنے فرائض کیوں سرانجام نہیں دے رہی؟ وہ میرے معاشرے کو تخریبی عناصر سے پاک کرنے میں کیوں حیل و حجت سے کام لے رہی ہے؟ وہ اپنی رِٹ قائم کرنے میں کیوں ناکام ہے؟ ریاست کے اندر ریاستوں کی اجازت دے کر اس نے اپنی طاقت کیوں تقسیم کر رکھی ہے؟ اداروں پر اس کا چیک اینڈ بیلنس کیوں قائم نہیں ہو سکا؟ ہر کوئی من مانی کی روش پر کیوں گامزن ہے؟ قانون کے بجائے طاقت کو فوقیت کیوں حاصل ہے؟ میرا یہ سوال صرف پاکستانی ریاست سے نہیں بلکہ تمام روشن خیالوں سے بھی ہے ۔
Last edited: