رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
روم اور عالم اسلام
(حامد كمال الدين)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن محیریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
”فارس نطحہ او نطحتان، ثم یفتحھا اﷲ، ولکن الروم ذات القرون، کلما ھلک قرن قام قرن اخر“ [اخرجہ ابن ابی شیبہ فی المصنف (٢٠٦:٤) و الحارث بن ابی اسامہ کما فی زوائد الہیثمی (٧١٣:٢) ونعیم بن حماد فی الفتن (٤٧٩:٢) ومسند الحارث (٧٠٢): حدیث کی سند میں ضعف ہے۔ مگر بعض علماء(شیخ سفر الحوالی، حامد العلی وغیرہ) نے ملاحم کی دیگر احادیث سے تائید ہونے کے باعث اس حدیث کا اعتبار کیا ہے۔]
”فارس ایک ٹکر ہوگی یا دو، پھر فارس کو خدا مفتوح کرا دے گا۔ مگر روم کے کئی سینگ ہونگے۔ اس کا ایک سینگ ہلکان ہوگا تو ایک نیا سینگ نکل آئے گا“۔
’روم‘ کے ساتھ اُمت مسلمہ کا جو معاملہ رہا وہ ایک طویل سرگزشت ہے۔ اس پر بہت سے دور بیت چکے ہیں اور بہت سے دور ابھی شاید اس پر اور گزریں گے۔ دنیا کی کسی قوم کے ساتھ ہماری کشمکش اتنی طویل نہیں رہی جتنی کہ ’روم‘ کے ساتھ۔ نہایت ضروری ہے کہ اس امت کے ایک فرد کے طور پر آپ ’ھلال وصلیب‘ کے اس معاملہ کی نہ صرف تاریخ بلکہ حال سے بھی واقف ہوں بلکہ اس کا مستقبل بھی آپ کی نگاہ میں رہے .... خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب یہ پوری دنیا ایک بستی بننے چلی ہے اور جس میں باخبر ہو کر رہنا آج پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔
’روم‘ سے کیا مراد ہے؟
احادیث میں اس کیلئے کہیں بنی الاصفر کا نام آتا ہے اور کہیں روم کا۔ ’روم‘ ہم مسلمانوں کے ہاں کئی ایک پہلوئوں سے مانا جاتا ہے۔ کسی وقت ہم اس سے مراد ’یورپی اقوام‘ لیتے ہیں۔ چاہے اب وہ کسی بھی براعظم میں مسکن اختیار کر چکی ہوں۔ کسی وقت روم ہمارے لئے ’عیسائی دنیا‘ کا مترادف ہوتا ہے۔ بسا اوقات اس کیلئے ’مغرب‘ کی اصطلاح مستعمل ہوتی ہے۔ ’روم‘ ایک دین بھی ہے۔ ایک تہذیب بھی۔ ایک قوم بھی۔ ایک تاریخ بھی اور مستقبل کا ایک واقعہ بھی۔
تاریخ سے باخبر لوگوں کیلئے ’روم‘ دنیا کی ایک ایسی قدیم ترین داستان کا نام بھی ہے جس کو دنیا اب جا کر ’استعمار‘ colonialism کے لفظ سے تعبیر کرنے لگی ہے۔ دوسری قوموں کو اپنے زیر نگین لا کر رکھنا اور ان کو ہرگز نہ اٹھنے دینا .... انکے وسائل، انکی افواج، ان کے جوان گبرو، ان کے کھیت کھلیان، ان کے حکمران اورا ن کے لیڈر سب کو اپنے یہاں گروی رکھنا .... ان کو اپنے تاج وتخت کا وفادار خدمتگار بنا کر رکھنا .... بلکہ اس عمل کو ایک منظم ادارے کی صورت دے رکھنا .... دنیا کے اندر ’روم‘ ہی کی متعارف کردہ سوغات ہے۔ اس سے پہلے قومیں تاراج ہوتی رہیں مگر ’کالونیاں‘ نہ بنائی گئیں۔ اس استعماری عمل میں دنیا کے اندر اگر کوئی دس بارہ صدیوں کا تعطل آیا رہا تو اس کی وجہ ان کی نیکی نہیں بے بسی تھی۔ کیونکہ دنیا کا ایک بڑا حصہ اس دوران اُمت محمدیہ کے زیرنگین آگیا تھا جس کے باعث یہ توحید کا گہوارہ بن گیا تھا اور عدل وانصاف اور امن کی قلمرو۔ آپ ہنسیں گے یہی وہ دور ہے جو ’اقوام روم‘ کی تاریخ میں ’دور ہائے تاریک‘ Dark Ages کے نام سے جانا جاتا ہے!
البتہ اس امت کے اپنے فرض سے غافل پڑنے کی دیر تھی کہ ’وارثان روم‘ دنیا کے ایک بڑے حصے کو ’تیسری‘ دنیا میں تبدیل کر دینے کیلئے پھر اس پر چڑھ دوڑے اور آج تک اس میں دندناتے پھرتے ہیں۔
دنیا میں افراد کو غلام بنا رکھنے کا رواج تو واقعی بہت پرانا ہے اور شاید ہر جگہ رائج رہا ہے مگر قوموں کی قومیں غلام بنا رکھنا ایک باقاعدہ نظام کی صورت میں اس بڑی سطح پر ’رومن ایمپائر‘ ہی کی یادگار ہے خواہ وہ عیسائیت قبول کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں۔ یہ یادگار آزادی کے مجسمے جگہ جگہ نصب کرنے والی ان اقوام کو آج بھی بہت عزیز ہے۔
دین اور تہذیب کی تاریخ سے باخبر لوگوں کیلئے ’روم‘ ایک مذہبی شب خون کا بھی عنوان رہا ہے اور یہ ہے دین مسیح کا، جو کہ توحید کا ایک خوبصورت درس تھا، بت پرستی کے ہاتھوں یرغمال کر لیا جانا۔ دین توحید میں فاتحانہ بلکہ شہنشاہانہ داخل ہونا بلکہ شرک سمیت داخل ہونا اور پھر اس پر بھی ’تیسری دنیا‘ کی طرح قابض ہو جانا .... یہاں تک کہ دین توحید سے توحید اور موحدین ہی کو بے دخل کر دینا اور شرک کو بالآخر ایک آسمانی شریعت کا باقاعدہ عنوان ٹھہرا دینا .... ’روم‘ کی تاریخ کا یہ بھی ایک بے حد تاریک مگر نمایاں پہلو ہے۔
عیسائیت کا یورپ میں غلغلہ ہونا دین مسیح سے اتنا تعلق نہیں رکھتا جتنا کہ سینٹ پال کے دین سے جو کہ یہودی پس منظر اور رومی اثر ورسوخ رکھنے والی ایک پراسرار تاریخی شخصیت ہے۔ رہا سہا کام پھر شہنشاہ کونسٹنٹائن کے قبول عیسائیت نے کیا۔ یہاں تک کہ عیسائیت کا عقیدہ تو کیا زبان تک اپنی نہ رہی۔ سب کچھ رومیا لیا گیا۔ آج جب آپ دیکھتے ہیں تو گویا یہ دین نازل ہی کہیں یورپ میں ہوا تھا۔ بت پرست رومی تہواروں کو عیسائی تقدس دے دیا گیا۔ کرسمس کا تصور ہمیشہ ٹھٹھرتی سردی اور روئی کے گالوں کی طرح گرتی برف ہی کے ساتھ نتھی رہا۔
مسیح کا وطن گویا روم تھا نہ کہ فلسطین!!
عیسائیت کی یورپی پہچان اور یورپ کی عیسائی پہچان آج سیکولرزم کے دور میں بھی ایک مسلمہ جانی جاتی ہے۔ نومنتخب پاپائے روم جوزف ریٹزنگر بینی ڈکٹ شانزدھم آج اسی وجہ سے یورپی یونین کے آئین پر معترض ہیں کہ یونین کا باقاعدہ مذہب اس میں عیسائیت کیوں درج نہیں کیا گیا۔ ترکی کے یورپی یونین کی رکنیت پانے کے بھی وہ اسی وجہ سے خلاف ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ یورپ اور نصرانیت آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ اس میں کسی اور کیلئے کوئی گنجائش نہ ہونی چاہیے۔
بوسنیا اور کوسووا میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے بھی شاید یہی سمجھتے ہیں کہ براعظم یورپ میں عیسائیت کے سوا کسی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں۔
بہرحال عیسوی شریعت کا رومیا لیا جانا تاریخ کا ایک معروف واقعہ ہے۔ یہاں تک کہ بعض مورخین کو یہ کہے بغیر چارہ نہ رہا: ”رومن دراصل عیسائی نہیں ہوئے بلکہ عیسائیت کو رومن کیا گیا“۔ پاپائے روم کا ادارہ اسی تسلسل کی ہی ایک تاریخی کڑی ہے۔
طبعی بات تھی کہ آخری آسمانی شریعت کے ساتھ جس کو کہ قیامت تک باقی رہنا ہے اور اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ رہنا ہے .... اس آخری آسمانی رسالت کے ساتھ سب سے گھمبیر مقابلے کیلئے وہی قوم اور وہی تہذیب پیش پیش ہوتی جو اس سے پہلے دین مسیح کی صورت مسخ کر چکی تھی اور قریب قریب ایک پوری آسمانی اُمت کا گھونٹ بھر چکی تھی .... اور جس کے ہاتھوں مسیح کا نام، جو کہ خدا کا بندہ خدا کا رسول اور خدا کا کلمہ تھا، شرک کا عنوان بنا دیا گیا اور رومی دیوتائوں کا ’شرعی‘ متبادل۔
ہمیں نہیں معلوم خدا کی اس میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ دنیا میں ہر طرف امت اسلام کو شدید مزاحمت کا سامنا ہوا ہے۔ دنیا کے بے شمار بتکدوں کے ملبے پر اس اُمت کی اذان گونج چکی ہے۔ پھر بھی مشرق میں اس اُمت کو وہ خطرات پیش نہیں آئے جو کہ مغرب میں آئے اور آج تک آرہے ہیں اور مستقبل میں بھی ادھر سے ہی آنے کا امکان ہے۔ مغرب کے ساتھ اسلام کی داستان میں اب تک بے شمار دلچسپ اور خوفناک موڑ آچکے ہیں اورنہ معلوم ابھی اور کتنے آئیں گے .... البتہ آج زمانہ جہاں پہنچ چکا ہے، کہا جا سکتا ہے اس میں اب کچھ بہت دلچسپ موڑ آنے والے ہیں۔
جہاں تک ہمارے اسلاف کا تعلق ہے تو مغرب کی جانب اسلام کا راستہ صاف کرنے میں ان کی دلچسپی دنیا کے کسی بھی ملک اور خطے کی نسبت بڑھ کر رہی ہے۔ خلیفہء اول ابوبکر کو روم کی ایک چوکی فتح کرنا فارس کا ایک پورا شہر فتح کرنے سے بھی بڑھ کر عزیز تھا۔
خود رسول اللہ نے روم کی جانب بطور خاص اُمت کی توجہ کروائی تھی۔ امام بخاری کتاب الجہاد والسیر میں باب ما قیل فی قتال الروم کے تحت حدیث لائے ہیں:
عن ام حرام انہا سمعت النبی یقول: ”اول جیش من امتی یغزون البحر قد اوجبوا“ قالت ام حرام: قلت: یا رسول اﷲ انا فیھم؟ قال: ”انت فیہم“ ثم قال النبی : ”اول جیش من امتی یغزون مدینہ قیصر مغفور لہم“ فقلت: انا فیھم یا رسول اﷲ؟ قال: ”لا“ (البخاری: ٢٨٥٧)
”ام حرام روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے نبی کو فرماتے سنا: ”میری اُمت کا وہ پہلا لشکر جو سمندر (کے راستے) جہاد کرے گا وہ (جنت کا) مستحق ہوا“ ام حرام کہتی ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا میں ان میں ہوں گی؟ آپ نے فرمایا ”تم ان میں ہوگی“ پھر نبی نے فرمایا: ”میری اُمت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر روم کے پایہ تخت (قسطنطینیہ) پہ مہم جوئی کرے گا، بخشاجائے گا“ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول: کیا میں ان میں ہوں گی؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“۔
عالم روم گو آج بہت سی تبدیلیوں سے گزر چکا ہے۔ کلیسا اور ریاست کے مابین ایک طویل تنازع کے بعد اب خوش اسلوبی کے ساتھ علیحدگی کرائی جا چکی ہے۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ علیحدگی ہو جانے کے بعد فریقین میں اب کہیں زیادہ مفاہمت اور محبت پائی جانے لگی ہے اور باہمی تعاون کی نئی نئی راہیں بھی دریافت ہونے لگی ہیں۔ ایک لحاظ سے ترکہء روم اب ان دو حصوں میں بٹ چکا ہے جبکہ ان دونوں سے ہی ہم مسلمانوں کو برابر کا واسطہ ہے۔ گو ’کلیسا‘ آگے کئی ایک کلیسائوں میں منقسم ہے اور ’ریاست‘ آگے کئی ایک ریاستوں میں متجزی ہے اور ان سب کلیسائوں اور سب ریاستوں کے مشمولات ہی ہماری نگاہ میں ’دنیائے روم‘ ہے .... اس کے باوجود ’کلیسا‘ آج بھی عالم روم (مغرب) کی ایک بڑی قوت کا نام ہے .... بلکہ مغرب جب پوری دنیا میں ایک بڑی قوت ہے تو ایک لحاظ سے مغرب کی یہ قوت یعنی ’کلیسا‘ عالم مغرب ہی نہیں آج پوری دنیا کی ایک بڑی قوت ہے۔ جبھی تو یہاں ہماری مسلم دُنیا کے متعدد حکمران یا پھر ان کے خاص الخاص نمائندے پوپ جان پال دوئم کی ’صلوہ الجنازہ‘ میں شرکت کا ثواب پانے کیلئے قطار اندر قطار ویٹی کن میں حاضر باش دیکھے گئے۔ پوپ کی موت پر اکٹھے ہونے والے یہ سب عالمی رہنماگویا ثابت کر رہے تھے کہ آج بھی سب راستے ’روم‘ ہی کو جاتے ہیں۔ کہیے کیا مسلم دنیا کے اتنے سارے رہنما آج تک کسی مسلم عالم دین کے جنازہ پر بھی اطراف عالم سے اس والہانہ انداز میں اکٹھے ہوئے ہیں؟
مسلمان کا جنازہ اگر فرض بھی ہے تو زیادہ سے زیادہ فرض کفایہ ہے۔ فرض عین بہرحال نہیں۔ فقہ کی اتنی شدبدھ ہمارے حکمران بھی رکھتے ہیں۔ کسی مسلمان عالم دین کے جنازہ میں ہر مسلم حکمران یا اس کے خصوصی نمائندہ کا شریک ہونا فرض نہیں البتہ پاپائے روم ایسی ہستی ہو تو اس مسئلہ کی نوعیت اس سے سوا ہے۔ ’فرض کفایہ‘ کی اصطلاح تو اس کیلئے حد درجہ ناکافی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا لنک