• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رویتِ ہلال ۔ ایک تحقیقی جائزہ

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
رویتِ ہلال ۔ ایک تحقیقی جائزہ

مولانا حافظ کلیم اللہ عمری مدنی

رمضان اور عیدین کے مواقع پر رؤیت ہلال کے سلسلے میں علماء امت کے درمیان جو اختلاف چلا آرہا ہے وہ امتِ مسلمہ کے لیے پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے، جس کے نتیجہ میں جہاں رمضان کے روزوں میں تقدیم وتاخیر ہو رہی ہے، وہیں یہ افسوسناک صورتحال دیکھنے میں آتی ہے کہ عیدین کے موقع پر ایک ہی شہر کے مسلمان دو دو، بلکہ تین تین دن عید مناتے ہیں ۔ اس صورت حال سے عوام ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں کس کی رائے شرعاً درست ہے؟ اس مسئلہ میں سوال یہ ہے کہ اختلافِ مطالع کا لحاظ کیے بغیر پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن روزہ رکھا جائے اور ایک ہی دن عید منائی جائے، یا اختلاف مطالع کے پیش نظر تبدیلئ مطلع کی صورت میں مختلف دنوں میں روزہ رکھا جائے اور عید منائی جائے۔جمہور علماء کی رائے میں اختلافِ مطالع کا پاس ولحاظ رکھنا شرعاً ضروری ہے۔اس سلسلے کے دلائل درجِ ذیل ہیں:
(الف) ۔ کتاب اللہ سے استدلال :
1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ
(البقرۃ: 185)
سو جو شخص اس مہینہ (رمضان) کو پائے اسے ضرور اس میں روزہ رکھنا چاہیے۔
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبیؒ رقم طراز ہیں: ’’جب کوئی خبر دینے والا کسی مقام پر رؤیت ہلال کی خبر دے تو اس کی دو صورتیں ہوں گی۔ یا تو وہ شہرقریب ہوگایا دور۔ اگر مقامِ رؤیت قریب ہو توحکم ایک ہی ہوگا اور اگر مسافت بعید ہوتو ایک جماعت نے کہا ہے کہ ہر شہر والے کے لیے اپنی ہی رؤیت قابلِ قبول ہوگی، حدیثِ کریب اس پر شاہد ہے‘‘۔
شیخ صالح بن فوزان عبداللہ آل فوزان ؒ نے لکھا ہے :
’’ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کی ابتداء اس وقت سے ہے جب ماہِ رمضان داخل ہونے کا علم حاصل ہوجائے۔ اور یہ علم تین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔ 1۔ رؤیت ہلال رمضان ۔ 2۔ رؤیت پر شرعی شہادت اور اس کی اطلاع کا حاصل ہونا۔ 3۔ تیسویں شعبان کی رات چاند نظر نہ آنے پر شعبان کی تعداد مکمل کرلینا۔ ‘‘2؂
2۔ دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الأَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (البقرۃ: 189)
لوگ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کے اوقات کی تعیین اور حج کے وقت کی تعیین کا ذریعہ ہے۔
ہلال کی لغوی تحقیق :
ابوالعباس قرطبی نے لفظ ہلال کی لغوی تحقیق میں لکھا ہے:
اَصْلٌ اِسْتَھَلَّ مِنَ الْاِھْلَالِ اَلَّذِی ہُوَ رَفْعُ الصَّوْتِ عِنْدَ رُؤْیَۃِ الْہِلَالِ، ثُمَّ غَلَبَ عُرْفَ الْاِسْتِعْمَالِ فَصَارَ یُفْھَمُ مِنْہُ رُؤْیَۃُ الْہِلَالِ، وَمِنْہُ سُمِّیَ الْہِلاَلُ لِمَا کَانَ یُھَلُّ عِنْدَہُ‘‘
استھل، الاہلال سے مشتق ہے جس کے معنی چاندد یکھنے کے وقت آواز بلند کرنے کے ہیں، پھر اس کا استعمال عرف میں صرف رؤیت ہلال کے لیے خاص ہو گیا۔
صاحب ’’المنجد‘‘ فرماتے ہیں : اَہَلَّ الْہِلَالُ چاند ظاہر ہوا۔ اَہَلَّ الشَھْرُ قمری مہینہ شروع ہوا۔ اَہَلَّ القَوْمُ الْہِلَالَ چاندد یکھنے کے وقت لوگوں نے آواز بلند کی۔ اہل الصبی بچے نے رونے میں آواز بلند کی۔
مندرجہ بالا لغوی تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ ہلال کے معنی میں ظاہر ہونے اور واضح ہونے کا مفہوم مسلّم ہے۔ اور ہلال عربی میں چاند کی اس ابتدائی شکل کو کہتے ہیں جو آسمان پر دکھائی دیتی ہے، فلکی چاند جو دکھائی نہیں دیتا، اس کو ہلال نہیں کہتے، اس کا اصطلاحی نام نیو مون New Moon ہے، لہذا قرآن کریم نے تاریخ کی تعیین کا ذریعہ جس چیز کو قرار دیا ہے وہ دکھائی دینے والا ہلال ہے، نہ کہ فلکی یا حسابی چاند۔ 5؂
ہلال دنیا میں پہلی بار نظر آنے کے عموما 24 گھنٹوں بعد قطبین کے علاوہ پوری دنیا میں نظر آجاتا ہے لیکن کبھی کبھی یہ وقفہ دو کی بجائے تین مختلف دنوں تک بھی بڑھ جاتا ہے6؂
سبب نزول:
مذکورہ بالا آیت (البقرۃ: 189) حضرت معاذبن جبلؓ اور ثعلبہ بن غنمؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان دونوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا راز ہے کہ چاند دھاگہ کے مانند باریک طلوع ہوتا ہے، پھر بڑا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ بدرِ کامل بن جاتا ہے، پھر گھٹنے لگتا ہے، یہاں تک کہ پہلے کی طرح باریک ہوجاتا ہے ایک حال پر باقی نہیں رہتا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔7؂
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ نے بیان فرمایا کہ چاند کے ذریعہ لوگ اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لئے اوقات مقرر کرتے ہیں، روزہ افطار،حج، ماہواری کے ایام ، عدت، قرض اور اجرتیں وغیرہ بہت سی شرطوں کی مدت کے سارے مواعید چاند ہی کے ذریعے معلوم کیے جاتے ہیں۔
New Moon کی حقیقت:
ایک مرتبہ ایک سعودی شہزادہ نے خلائی طیارہ Rocket کے ذریعہ خلا کی بلندیوں میں جاکر نئے چاند کو دیکھنا چاہا، مگر واپس آکر اس نے اس امر ہی کی تائید کی کہ نو مولود چاند قابلِ دید نہ تھا، کیوں کہ اس وقت اس کا روشن حصہ سورج کی سمت میں ہوتا ہے۔ اس وقت نہایت پیچیدہ SOPHISTICATED اور طاقتور دوربینوں کی مدد سے بھی اسے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ 8؂
3۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّشَمْسَ ضِیاَءً والْقَمَرَ نُوْرًا وَقَدَّرَہُ مَناَزِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالحِسَاب.( یونس:5)
وہ اللہ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو (بھی) نورانی بنایا اور اس کی (چال کے لیے ) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں: ’’چاند کی ان منازل سے اور رفتار سے ہی مہینے اور سال بنتے ہیں جس سے تمہیں ہر چیز کے حساب کرنے میں آسانی رہتی ہے، علاوہ ازیں دنیوی منافع اور کاروباربھی ان منازل قمر سے وابستہ ہیں۔ دینی منافع بھی اس سے حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح ہلال سے حیض و نفاس، صیام رمضان، اشھرحرم اور دیگر عبادات کی تعیین ہوتی ہے ، جن کا اہتمام ایک مومن کرتاہے‘‘۔9؂
4۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْم۔ (یس: 39)
اور چاند کے لیے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ وہ ایسارہ جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی۔
یعنی چاند کی 28 منزلیں ہیں۔ روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے، پھر دو راتیں غائب رہ کر تیسری رات کو نکل آتا ہے۔ جب یہ چاند آخری منزل پر پہنچتا ہے تو بالکل باریک اور چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو، جو سوکھ کر ٹیڑھی ہوجاتی ہے ، چاند کی انہیں گردشوں سے سکان ارض اپنے دنوں مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادات کا تعین کرتے ہیں ۔10؂
(ب)۔ احادیث نبوی سے استدلال :
1۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا:
لاتَصُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْا اَلْہِلَالَ وَ لَا تُفْطِرُوْ حَتّٰی تَرَوْہُ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہُ‘‘ ہَذَا لَفْظُ الْبُخَارِی وَ فِی لَفْظِ لَہٗ ’’فَأَکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ثَلاَثِیْنَ۔11؂
یعنی جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ چھوڑو اور اگر بادل کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو اس کا اندازہ لگالو۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: تیس (30) دن کی گنتی پوری کرلو۔
ابن منظور نے غَمَّ الہلالُ غمًّا کا معنی یہ بیان کیا ہے: سَتَرَہُ الغَیْمُ وغیرُہ فَلَمْ یُرَ 12؂ یعنی چاند نظر نہ آنے کا سبب مطلع کاابر آلود ہونا ہی نہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور سبب سے مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند نظر نہ آئے۔
2۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّا اُمَّۃٌ اُمِّیَّۃٌ لاَ نَکْتُبُ وَ لاَ نَحْسِبُ، الشَّھْرُ ھٰکَذَا وَ ھٰکَذَا یَعْنِی مَرَّۃً تِسْعًا وَّ عِشْرِیْنَ وَ مَرَّۃً ثَلاَثِیْنَ۔13؂
بے شک ہم ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ اتنا اور اتنا ہے۔ یعنی کبھی 29 دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30 دن کا۔
3۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہ فَاِنْ غَبِیَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوْا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلاَثِیْنَ‘‘14؂ و فی روایۃ لمسلم ’’فاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَصُوْمُوْا ثَلاَثِیْنَ یَوْمًا۔
(رمضان کا ) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا )چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو اگر تم پر بادل چھاجائے (اور چاند نظر نہ آئے ) تو شعبان کے 30 دنوں کی گنتی پوری کرو ۔ (بخاری ومسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم کی روایت ہے کہ: اگر تم پر بادل چھا جائے تو 30 دنوں کے روزے رکھو۔

4۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا:
الفِطْرُ یَوْمَ یُفْطِرُ النَّاسُ وَالأَضْحٰی یَوْمَ یُضَحِّی النَّاسُ۔15؂
عیدالفطر اس روز ہے جب لوگ روزے مکمل کرتے ہیں اور عید الاضحی اس روز ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔
5۔ حضرت کریب سے مروی ہے کہ حضرت ام الفضل نے انہیں ملک شام حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیجا۔ میں ملک شام پہنچا اور ان کی حاجت پوری کی ۔ ابھی میں وہیں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا، میں نے چاند کو جمعہ کی رات میں دیکھا اور مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ آیا حضرت ابن عباسؓ نے مجھ سے پوچھا :تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی رات۔ پھر انھوں نے فرمایا: کیا تم نے دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں میرے علاوہ اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور حضرت معاویہؓ نے بھی چاند دیکھا اور روزہ رکھا۔ پھر انھوں نے فرمایا: ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، پس ہم 30 دن پورا کریں گے۔ یا ہم اس کو دیکھ لیں، میں نے عرض کیا: کیا معاویہؓ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ فرمایا: نہیں، نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیاہے۔16؂
(ج) صحابہ کرام اور تابعین عظامؓ کا تعامل:
صحابۂ کرام میں حضرت عمربن الخطاب و ابن عباس و ابن عمر رضی اللہ عنھم نے رؤیت ہلال کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر ابن عابدین نے ’احکام ہلال رمضان‘ ابن السبکی نے العلم المنشور فی اثبات الشہور اور دوسرے مسلم ماہرین فلکیات نے رسالے لکھے ہیں۔ شیخ بخیت نے ارشاد اہل الملۃ الی اثبات الأھلۃ، شیخ طنطاوی جوہری نے ’الہلال‘ نامی کتاب تصنیف کی ہے۔
1۔ دور خلافت عمرؓ : اختلافِ مطالع کا اعتبار حضرت عمرؓ کے دور میں بھی تھا ۔ بعض صحابہ کرامؓ اپنی رؤیت کے حساب سے نویں ذی الحجہ کو میدان عرفات میں پہنچ گئے، مگر مکہ مکرمہ کی رؤیت کے حساب سے وہ دسواں دن تھا (یوم النحر) اور وقوفِ عرفہ ختم ہو چکا تھا ۔ حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ قربانی دے کر واپس لوٹ جائیں، اگلے سال پھر حج کے لیے آئیں۔17؂
2۔ خلفاء راشدین کے دور میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ دار الخلافہ میں چاندنظر آنے پر مملکت کے دور دراز علاقوں میں قاصدین کے ذریعہ اطلاع دی گئی ہو اور وہاں کے لوگوں کو رمضان کے آغاز یا اختتام کا حکم دیا گیا ہو۔ حالانکہ اس زمانہ میں تیز رفتار خبر رسانی کا ذریعہ ’برید‘ موجود تھا۔ اس کے باوجود اس کا نظم نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شرعاً مطلوب نہیں ہے۔
روی عن عکرمۃ انہ قال ’’لِکُلِّ اَھْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ لِمَا رَوَی کُرَیْبٌ۔18؂ یعنی حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حدیث کریب کی روشنی میں کہا کہ ہر شہر والوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہوگی ۔
4۔ ایک شہر کی رؤیت کو دوسرے تما م شہر والوں کے لیے لازم قراردینا درست ہوتا تو حضر ت عمرؓ اور دیگر خلفائے اسلام اپنے یہاں چاند دیکھنے کے بعد تمام شہر والوں کو اس کی تعمیل کا حکم دیتے اور اس کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام کرتے اور لوگوں کو لکھ کر اس سے آگاہ کرتے، اس لیے کہ دینی امور سے ان کا لگاؤ اور ان کی دلچسپی کسی سے مخفی نہیں۔19؂
5۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ صحابہ کرام و تابعین عظام کے زمانے میں ہمیشہ بعض اسلامی شہروں میں چاندپہلے اوربعض شہروں میں اس کے بعد دکھائی دیتا تھا اور یہ روز مرہ کی ان باتوں میں سے ہے، جن میں کسی تبدیلی کا سوال نہیں۔اس پس منظر میں اس طرح کی صورتِ حال پیدا ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوسکتا کہ ان تک بعض دوسرے علاقوں کی خبرمہینہ کے اندرکسی وقت پہنچے اور اگر ان کے لیے قضا کرنی ضروری ہوتی تو وہ اس کا پتہ لگا نے میں حددرجہ اہتمام سے کام لیتے کہ تمام عالم اسلام میں چاند کی رؤیت کہاں کس وقت ہوئی؟ جیساکہ وہ اپنے اپنے شہروں میں اس کے دیکھنے کا اہتمام کرتے تھے پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اکثر رمضانوں میں انہیں اپنے چھوٹے ہوے روزوں کی قضا رکھنی پڑتی اور اگر ایسا ہوتا تو یہ چیز ہم تک نقل ہو کر ضرور پہنچتی، لیکن اس طرح کی کوئی بھی بات جب ہم تک نہیں پہنچی تو اس کا مطلب ہے کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے اور سرے سے اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، حضرت ابن عباسؓ کی مذکورہ بالا حدیث اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے20؂
شیخ الاسلام نے یہ بات اس ضمن میں تحریر فرمائی ہے کہ اگر کسی شہر میں رؤیت نہ ہوئی ہو اور رؤیت والے شہر سے خبر بھی نہ پہنچ سکی ہو جس کی وجہ سے ان کا ایک روزہ چھوٹ گیا ہو تو ایسی صورت میں ان پر روزہ کی قضا واجب نہیں ہے۔ البتہ صحابہ و تابعین کے اس تعامل سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لیے لازم نہیں ہے۔
(د) محدثین عظام کا نقطۂ نظر :
محدثین عظام اختلافِ مطالع کی بنیاد پر ہر شہراور ہر علاقہ کے لئے اپنی رؤیت ہی کو تسلیم کرتے تھے ۔کبھی بھی ان لوگوں نے أم القری کی رؤیت کوسارے عالم کے لئے لازم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کی مساعئ جمیلہ یہی تھیں کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے اپنے علاقے میں رؤیت ہلال کی بنیاد پر روزہ رکھیں اور عید منائیں۔ ذیل میں محدثین کرام کے نقطہ نظر کی وضاحت پیش کی جارہی ہے۔
1 ۔ امام نووی ؒ نے صحیح مسلم میں یہ باب باندھا ہے ۔ ’’بابُ بیانِ أنَّ لکلِ بلدٍ رؤیتُھم وأنھم اِذَا رأوا الھلالَ ببلدٍلایثبتُ حکمُہ لما بَعُدَ عَنْھُمْ ‘‘ یعنی اس چیز کا بیان کہ ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کسی علاقہ کے لوگ چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم دوٗر کے لوگوں کے لیے ثابت نہیں ہوگا۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں:
’لٰکِنَّ ظَاہِرُ حَدِیْثِہِ أَنَّہُ لَمْ یَرُدَّہُ لِھَذَا وَاِنَّمَا رَدَّہُ لِأَنَّ الرُّؤْیَۃَ لاَ یَثْبُتُ حُکْمُہَا فِی حَقِّ الْبَعِیْد ‘‘21؂
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے مسافت بعیدہ اور اختلاف مطالع کی وجہ سے کریب کی خبر کو رد کردیا نہ کہ ’’خبر واحد ‘‘ہونے کی وجہ سے۔
امام نوویؒ نے دوسری جگہ لکھا ہے: جب ایک شہر والوں نے چاند دیکھا ہے اور دوسرے شہر والوں نے نہیں دیکھا تو اس صورت میں اگر دونوں شہر قریب قریب ہوں تو ان دونوں کا حکم اختلاف کے بغیر ایک ہی ہوگا اور اگر دونوں شہر دور دور ہوں تو دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1)دوسرے شہروالوں پر روزہ رکھنا ضروری نہیں ہوگا۔ (2)ضروری ہوگا کہ روزہ رکھیں۔ ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت ہی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ 21؂۔الف
2 ۔ امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں اس طرح باب باندھا ہے ’’ باب اذا رؤي الھلال فی بلدٍ قبلَ الآخرین بلیلۃٍ ‘‘ (باب اس بیان میں کہ جب چاند کسی شہر میں دوسروں سے ایک دن قبل نظر آجائے تو کیا کیا جائے؟) اس حدیث کی شرح میں صاحب عون المعبودؒ فرماتے ہیں :
’’ابن عباسؓ کے قول ھکذا امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احتمال ہے کہ مراد یہ ہو کہ افطار کے سلسلہ میں خبرواحد کو قبول نہ کریں۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ ہم اپنی ہی رؤیت کا اعتبار کریں گے ۔ محدث کے باب سے دوسرے معنی کی طرف رجحان ظاہر ہوتا ہے۔‘‘22؂
3 ۔ امام ترمذی ؒ نے اپنی جامع میں یہ باب باندھا ہے ’’ باب لکل أھل بلد رؤیتھم‘‘۔ حدیث کریب نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
العملُ عَلَی ھَذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَ أَھْلِ الْعِلْمِ اَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ 23؂
یعنی اہل علم کے مابین اس حدیث کے مطابق عمل ہے کہ ہرعلاقے کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ 23؂
شارح ترمذی مولانا عبدالرحمن مبارکپوری ؒ نے لکھا ہے : جن شہروں کے مطالع میں اختلاف نہیں ہے ان میں سے ایک کی رؤیت دوسرے شہر کے لئے لازما تسلیم کی جائے گی ۔ایک روایت میں یہی قول اہل عراق کا بتایا گیا ہے۔24؂

4 ۔ امام نسائی ؒ نے : ’باب اختلاف أھل الآفاق فی الرؤیۃ ‘(باب اس حکم کے بیان میں کہ جب مختلف ممالک کے باشند ے رؤیت ہلال کے سلسلے میں مختلف ہوں) کے تحت حدیث کریب (2113) نقل کی ہے۔ امام سندیؒ نے سنن نسائی کے حاشیہ میں لکھا ہے:
’اِنَّ الْمُرَادَ بِہٖ أَن لاَّ تُقْبَلَ شَھَادَۃُ الْوَاحِدِ فِی حَقِّ الْاِفْطَارِ أَوْ أَمَرَنَا أںْ نَعْتَمِدَ عَلَی رُؤْیَۃِ أَھْلِ بَلَدِنَا وَلاَ نَعْتَمِدَ عَلَی رُؤْیَۃِ غَیْرِھِمْ وَاِلَی الْمَعْنَی الثَّانِی تَمِیْلُ تَرْجَمَۃُ الْمُصَنِّفِ وَغَیْرُہُ لٰکِنَّ الْمَعْنَی الْأَوَّل مُحتَمَلٌ فَلاَ یَسْتَقِیْمُ الْاِسْتِدْلَالُ اِذِ الْاِحْتِمَالُ یُفْسِدُ الْاِسْتِدْلَالَ کَاَنَّھُمْ رأَوْا اَنَّ الْمُتَبَادِرَ ھُوَ الثَّانِیْ فَبَنَوْا عَلَیْہِ الْاِسْتِدْلاَلَ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ‘‘25؂
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہم افطار کے سلسلہ میں خبر واحد کو قبول نہ کریں یا ہم اپنے شہر کی رؤیت پر ہی اعتماد کریں اور دوسرے شہر کی رؤیت کو تسلیم نہ کریں۔ دوسرے معنی کی طرف ہی محدث اوردوسروں کا میلان ورجحان ظاہر ہوتا ہے۔لیکن پہلا مطلب بھی محتمل ہے، لہٰذا احتمال ہونے کی وجہ سے استدلال درست نہیں ہوگا ۔ گویا انہوں نے متبادر مفہوم کو دیکھا اور اسی پر استدلال قائم کرلیا۔ واللہ اعلم
5 ۔ امام ابن خزیمہؒ نے یہ باب قائم کیا ہے: ’’ اَلدَّلِیْلُ عَلیٰ اَنَّ الْوَاجِبَ عَلیٰ اَھْلِ کُلِّ بَلَدَۃٍ صِیَامُ رَمْضَانَ لِرُؤیَتِھَمْ لاَ رُؤیَۃِ غَیْرِھِمْ‘‘ یعنی اس بات پر دلیل کہ ہر علاقہ والے کے لیے اپنی ہی رؤیت پر رمضان کے روزے کا آغاز کرنا ضروری ہے اور اس کے تحت حدیث کریب کو نقل کیا ہے اور اپنے موقف کی دلیل کے لئے اسی سے استدلال بھی کیا ہے۔26؂
6 ۔ ابن ابی شیبہؒ نے اپنی کتاب مصنف میں اس طرح تبویب کی ہے:’’وَفِی الْقَوْمِ یَرُوْنَ الْھِلَالَ وَلاَ یَرَاہُ الآخَرُوْنَ ‘‘ یعنی قوم کے کچھ لوگ دیکھیں اور کچھ لوگ چاند نہ دیکھیں تو کیا حکم ہے ؟
ایک اور حدیث جس کی روایت ابن ادریس نے عبداللہ بن سعید سے کی ہے کہ مدینہ میں لوگوں نے رؤیت ہلال کا ذکر کیا اورکہا کہ ’اہل استارہ‘نے چاند دیکھا تو سالم اور قاسم نے کہا کہ ’’مَالَنَا وَلِأھْلِ اِسْتَارَۃ ‘‘یہ رؤیت اہل استارہ کے لئے ہے ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔27؂
7 ۔ امام بغوی ؒ نے فرمایا ہے: جب چاند کسی علاقہ میں دیکھا گیا ہو اور دوسریعلاقہ والوں نے ایک دن بعد دیکھا ہو تو اہل علم کا اس میں اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک بڑی جماعت کاموقف یہ ہے : ’اِنَّ لِکُلِّ اَھْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ‘ یعنی ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ تابعین میں سے قاسم بن محمد،سالم بن عبداللہ بن عمر ، عکرمہ اورمحدثین میں سے اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ نے حدیث کریب سے ہی استدلال کیا ہے۔28؂
حدیث کریب کی روایت بیہقی نے اپنی السنن الکبری (باب الہلال یری فی بلد ولا یری فی آخر) اور دارقطنی نے اپنی سنن (باب الشہادۃ علی رؤیۃ الہلال) میں کی ہے۔
8 ۔ محدث العصر ناصر السنۃ علامہ محمد ناصرالدین البانی نے اس سلسلے میں یہ نصیحت کی ہے: ’’جب تک تمام ممالک اسلامیہ کسی نقطۂ اتحادِ رؤیت پر متفق نہ ہوجائیں اس وقت تک ہر ملک کے باشندوں کو میری رائے میں اپنے ملک اور اپنی حکومت کے ساتھ روزہ رکھنا چاہئے۔اختلاف کرکے الگ الگ نہ بٹ جائیں کہ کوئی اپنے ملک کی رؤیت پر اور کوئی دوسرے ملک کی رؤیت پر عمل کرنے لگے ۔ اپنے ملک کی رؤیت پر روزہ رکھنا چاہیے، خواہ دو ایک دن آگے پیچھے ہی کیو ں نہ ہو ۔کیونکہ ایسا نہ کرنے سے ایک ہی ملک والوں کے درمیان اختلاف وانتشار کے وسیع ہونے کا خطرہ ہے، جیساکہ بدقسمتی سے بعض عرب ممالک میں ہورہا ہے۔واللہ المستعان‘‘ 29؂
(ھ) فقہاء کرام کی آراء :
1۔ صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب ’مختارات النوازل‘ میں ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے: ’’ایک شہر والوں نے رؤیت ہلال کے بعد 29 روزہ رکھے اور دوسرے شہر والوں نے چاند کی رؤیت کی بنا پر تیس روزے رکھے تو اگر ان دونوں شہروں میں مطلع کا اختلاف نہ ہو تو 29 روزے رکھنے والوں کو ایک دن کی قضا کرنی ہوگی اور اگر دونوں شہروں کا مطلع جداگانہ ہو تو قضا کی ضرورت نہیں‘‘۔
2-قدوری میں ہے کہ اگر دو شہروں کے درمیان ایسا تفاوت ہو کہ مطلع تبدیل نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں رؤیت لازم ہوگی۔
3- علامہ عبدالحئی لکھنوی کا فیصلہ اس طرح ہے: ’’عقل و نقل ہر دو اعتبارسے سب سے صحیح مسلک یہی ہے کہ ایسے دو شہر، جن میں اتنا فاصلہ ہو کہ ان کے مطالع بدل جائیں، جس کا اندازہ ایک ماہ کی مسافت سے کیا جاتا ہے، اس میں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لئے معتبر نہیں ہونی چاہیے اور قریبی شہروں میں جن کے مابین ایک ماہ سے کم کی مسافت ہو، ان میں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لئے لازم و ضروری ہوگی‘‘۔30؂
4۔ علامہ ابن رشد ؒ نے لکھا ہے کہ ’’امام مالک ؒ کے مدنی شاگردوں نے ان سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر ایک شہر میں رؤیت ہوجائے تو دوسرے تمام شہر والوں پر یہ رؤیت لازم نہ ہوگی، الاّ یہ کہ حاکم وقت اس کو لازم قرار دے تو اس کی بات مانی جائیگی‘‘ اور یہی بات ابن ماجشون اور امام مالک کے اصحاب میں سے مغیرہ نے کہی ہے31؂
5۔ علامہ ابن قدامہؒ ( متوفی 620ھ) فرماتے ہیں : ’’جب ایک شہر والے چاند دیکھ لیں تو سارے شہر والوں پر روزہ رکھنا لازم ہے۔ یہ لیث بن سعد اور بعض شوافع کا قول ہے ‘‘اس میں سے بعض نے کہا کہ اگر دو شہروں کے مابین اتنی قریبی مسافت ہو جس کی وجہ سے مطالع کا اختلاف لازم نہ آتا ہو جیسے بغداد اور بصرہ۔ ان دونوں شہر والوں پر روزہ رکھنالازم ہے، کسی ایک جگہ کی رؤیت کی وجہ سے ۔ اگر دونوں شہروں کے مابین دوری ہے جیسے عراق و حجازاور شام ، تو ہر شہر والوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہی معتبر ہوگی‘‘۔
6۔ عکرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حدیث کریب سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا: ہر شہر والوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہوگی یہی قاسم، سالم اور اسحاق بن راھویہ رحمھم اللہ کا مذہب ہے۔32؂
7۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے فرمایا: ’’امام شافعی ؒ کے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ جب کسی شہر والوں نے چاند دیکھا تو ان پر اور ان لوگوں پر جن کا مطلع ان کے ساتھ متحد ہے، روزہ رکھنا واجب ہے اور اگر مطلع کا اختلاف ہو تو وجوب کا حکم عام نہیں ہو گا‘‘33؂
(و) جمہور علماء کی رائے اور ان کی مساعی جمیلہ:
1۔ علامہ ابن عبد البر فرماتے ہیں: ’’علماء امت کا اجماع ہے کہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں بہت زیادہ مسافت کی دوریاں رکھنے والے دو ملکوں کے مابین ایک دوسرے کی رؤیت کا اعتبار نہ ہوگا، جیسے اندلس جو خراسان سے دور ہے ان دونوں کی رؤیت کا باہمی اعتبار نہ ہوگا، الاّ یہ کہ ملک اگر بڑا ہو تو ایسے ملک جن کے علاقے کی سرحدیں مسلمانوں کے شہر سے قریب ہیں تو وہاں کی رؤیت باہم معتبر ہوگی۔34؂
2۔ ڈاکٹررواس قلعجی رقم طراز ہیں :حدیث کریب کی روشنی میں دو مسئلے ایسے ہیں جن میں عبداللہ بن عباسؓ کی رائے کا بیان کرنا ازحد ضروری ہے:
(1) ممالک کے مختلف ہونے سے مہینہ کی ابتدا اور انتہا کا مختلف ہونا۔ حضرت ابن عباسؓ کی رائے یہ تھی کہ کسی ملک میں مہینہ کا آغاز دوسرے ملک کے آغاز سے مختلف ہو سکتا ہے، لہٰذا جس دن اہل شام رؤیت ہلال کی بنا پر روزہ رکھیں گے اس دن اہل حجاز روزہ رکھنے کے مجاز نہ ہوں گے اس لئے کہ ان کے یہاں چاند نظر نہیں آیا۔ (2) مہینہ کا آغاز رؤیت ہلال سے ہوگا، نہ کہ چاند کے بڑے اور چھوٹے ہونے سے۔ لہٰذا اگر چاند نظر نہ آئے تو نئے مہینہ کے آغاز کے لئے تیس دن پورے کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ ابوالبحتری سعید بن فیروز فرماتے ہیں کہ ہم عمرہ کے لیے نکلے۔ جب ہم وادی نخلہ پہنچے تو ہمیں چاند نظر آیا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تیسری رات کا چاند ہے، بعض نے کہا کہ دوسری رات کا چاند ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہماری ملاقات ابن عباسؓ سے ہوئی میں نے کہا: ہم نے چاند دیکھا، بعض نے اسے تیسری رات کا بتایا تو بعض نے دوسری رات کا شمار کیا۔ حضرت ابن عباسؓ نے دریافت کیا: آپ لوگوں نے چاند کس رات دیکھا تھا، ہم نے کہا: فلاں رات کو۔ ابن عباسؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس کو رؤیت کے لیے دراز کردیا۔ وہ اسی رات کا ہے جس رات کو تم نے دیکھا ہے35؂
3۔ صاحب سبل السلام فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:اِذَا رَأیْتُمُوْہُ فَصُوْمُوْا ‘‘ یہ مخصوص لوگوں سے خطاب ہے۔ اس مسئلہ میں اہل علم کے متعدد اقوال ہیں۔ ان اقوال میں زیادہ قریب یہی ہے کہ کسی شہر والوں کے لئے اور اس سے متصل علاقوں کے لیے اس جگہ کی رؤیت کو لازم قرار دیا جائے۔ ’اِذَا رَأیْتُمُوْہُ‘‘خطاب لأناس مخصوصین بہ وفی المسئلۃ أقوال و الأقرب لزوم اھل بلد الرؤیۃوما یتصل بھا من الجھات التی علی سمتھا36؂۔مزید یہ فرماتے ہیں کہ ’’اہل شام کی رؤیت اہل حجاز کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی۔ حضرت کریب ؒ نے 31واں روزہ (شام کے حساب سے) رکھا۔ اس لیے کہ اہل مدینہ کے حساب سے وہ تیسواں روزہ تھا۔37؂
4۔ جناب شمس پیر زادہ رقم طراز ہیں: ’’ہندوستان کا مطلع ایک ہی ہے، لہٰذا ہندوستان میں عام طور پر تاریخیں یکساں رہتی ہیں، البتہ رمضان اور شوال کے چاند کے سلسلہ میں ایک حصہ اور دوسرے حصے کے درمیان اختلاف رہتا ہے لیکن چونکہ عام طور سے یکسانیت پائی جاتی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ پورے ملک کے لیے ایک مطلع کا حکم نہ لگایا جائے۔ مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنو نے واضح طور سے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ایک ملک کے جس گوشے میں بھی چاند دیکھا جائے وہ پورے ملک کے لئے معتبر ہوگا۔ ہندوپاک کے بیشتر حصوں اور بعض قریبی ملکوں مثلاً نیپال وغیرہ کا مطلع ایک ہی ہے۔ علمائے ہند و پاک کا عمل ہمیشہ اس پر رہا ہے۔ اور غالبا تجربہ سے بھی یہی بات ثابت ہے‘‘۔38؂
5 ۔ حافظ صلاح الدین یوسف نے لکھا ہے ’’ ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقے کے لئے معتبر ہوگی یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے اور دونوں گروہوں کے استدلال کی بنیاد یہی حدیث ہے۔ صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہِ (بخاری ومسلم ) ایک تیسرا گروہ ہے جس کا موقف یہ ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں، یعنی ان کے طلوع وغروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان میں ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقوں کے لئے کافی ہے۔ پاکستان میں تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے تقریبا یہی موقف اختیارکیا ہے، جس کا اظہار مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کی صورت میں مسلسل کئی سالوں سے ہورہا ہے۔ پاکستان میں کسی ایک جگہ رؤیت ہلال کااگر شرعی شہادتوں کی روشنی میں اثبات ہوجاتا ہے تو یہ کمیٹی اسے پورے ملک کے لئے کافی سمجھتی ہے۔ بہرحال یہ ایک معتدل موقف ہے جس پر عمل کی گنجائش ہے۔39؂

(ز) فتاوی علمائے حجاز وہند :

1۔ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، ھیءۃ العلماء کی قرار داد نمبر 2، تاریخ 13 ؍ 8؍1392 ھ
سوال نمبر 3686 :کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ والے سعودی عرب کی رؤیت پر چاند دیکھے بغیر روزہ رکھ لیں؟
جواب: سپریم علماء کونسل کی طرف سے اس سلسلے میں ایک قرارداد منظور ہوچکی ہے، جس کا مضمون یہ ہے : (1) چاند کے مطالع کا اختلاف یقینی طورپر حسّاًوعقلاّ معلوم ہے ۔ اختلاف صرف اس مسئلہ میں ہے کہ مطالع کا اعتبار ہوگا یا نہیں (2) اختلاف مطالع کا اعتبار یا عدم اعتبار ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور اس بارے میں وسعت ہے۔اور جو اختلاف موجود ہے وہ ان علماء کی طرف سے ہے جو اس باب میں اختلاف کا حق رکھتے ہیں ۔ اور یہ اجتہاد اسی قسم کا ہے کہ اگر مجتہد نے حقیقت کو پالیا تو دوگنا ثواب پائے گا، ورنہ صرف ایک اجر کا مستحق ہوگا۔ دونوں فریقوں کا استدلال بھی ایک ہی جیسے نصوص سے ہے اور وہ ہیں: قرآن مجید کی آیت:یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الأَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (سورۂ بقرہ ؍189 ) اور حدیث نبوی صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہ(بخاری ومسلم )
لجنۃ دائمۃ نے بہت سے اعتبارات کا خیال کرتے ہوئے اور یہ سوچ کر کہ اس مسئلہ میں اختلاف کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے برے نتائج کا خطرہ ہو، کیونکہ اس دین کو ظاہرہوئے 14سوسال ہوگئے، لیکن آج تک کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جس میں امت محمدیہ نے ایک دن کے لئے بھی کسی ایک جگہ کی رؤیت پر اتفاق کرکے عمل کیا ہو، اسی وجہ سے سعودی سپرم علماء کونسل یہ بہتر سمجھتی ہے کہ اس بارے میں اب تک جو عمل چلا آرہا ہے اسی کو باقی رکھا جائے اور اتحاد رؤیت کے موضوع کو بلا وجہ نہ چھیڑا جائے ۔ ہرمسلم ملک کو اس بات کا اختیار ہو کہ وہ اس بارے میں اپنے علماء کی رائے سے کوئی فیصلہ کرسکے ۔ اس بارے میں علماء کے دو اقوال میں سے جس کو چاہیں اختیار کرلیں، کیونکہ ہر فریق کے پاس اس کے موقف پر دلیل موجود ہے ۔
(3)۔رؤیت ہلال کو حساب فلکی سے ثابت کرنے کے معاملے میں کتاب وسنت اور علماء کے اقوال کی روشنی میں علماء کونسل اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ علم نجوم کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ رسول اللہ اسے صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْا لِرُوؤیَتِہ (بخاری ومسلم ) کے مضمون کی کئی حدیثیں مروی ہیں، اس بناپر علم نجوم کے حساب کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ وباللہ التوفیق۔
]عبدالعزیز بن باز (صدر)، عبداللہ بن قعود (رکن)، اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، ریاض[
2۔ سوال نمبر 1266 ۔کیا اپنے شہر کے مسلمانوں کی مخالفت ،روزہ رکھنے اورعید منانے میں جائز ہے؟
جواب : الحمدللہ رؤیت کا ثبوت ملنے کی صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ روزہ کھیں اور ان کے ساتھ ہی عید منائیں ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: ’’ صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُؤیَتِہِ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاأکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ۔۔۔ ‘‘(بخاری ومسلم ) یعنی روزہ کی ابتدااور انتہا مجرد آنکھ سے چاند دیکھنے یا ایسے آلات سے دیکھنے پر جو چاند دیکھنے میں آنکھ کے لئے معاون ہوں، کرنا چاہئے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ اس دن ہے جب تم سب روزہ رکھوگے اور عید الفطر اس دن ہے جب تم سب عید مناؤگے اور عید الاضحی اس دن ہے جس دن تم سب عیدالاضحیٰ مناؤگے۔40؂
3 ۔ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری ؒ کا فتوی ہے:
’’ کسی مقام میں رمضان یا شوال کا چاند دیکھا گیا تو اس مقام رؤیت سے دور مشرق میں واقع دوسرے مقام والوں کے لئے ان کی رؤیت اس وقت معتبر ہوگی جبکہ ان دوسرے مقامات کے مطالع مقامِ رؤیت کے مطلع سے مختلف نہ ہوں۔ مقام رؤیت سیدور مشرق میں واقع بلاد وامصار کے حق میں مغربی مقام کی رؤیت کے اعتبار وعدم اعتبار کے معاملے میں اتحاد واختلافِ مطالع کا لحاظ ضروری ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے مدینہ میں شام (جومدینہ سے شمال مغرب میں واقع ہے ) کی رؤیت کا اعتبار بظاہر اس لئے نہیں کیا تھا کہ مدینہ کا مطلع ’مطلعِ شام‘ سے مختلف ہے۔ بعض علمائے فلکیات کا کہنا ہے کہ پانچ سو میل کے قریب کی مسافت پر مطلع مختلف ہوجاتا ہے۔ بنابریں ہندوستان کے کسی مغربی مقام کی رؤیت اس کے مشرقی حصے مثلا بہار وبنگال کے حق میں معتبر نہ ہوگی۔‘‘41؂
4 ۔ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حکم شرعی گواہی اور رؤیت پر موقوف ہے۔ لہٰذا اہل مکہ کی رؤیت ساری دنیا کے لئے ناممکن ہے ،یہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کا بھی موقف ہے۔ فرمانِ الہی: فَالآنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللَّہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتَّی یَتَبَیَّنّ لَکُمُ الْخَیْطُ الأبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ۔ (سورۃ البقرۃ: 187) اور فرمان رسولﷺ : اِذَا اَقْبَلَ الَّیْلُ مِنْ ھَا ھُنَا وَاَدْبَرَ النَّھَارُ مِنْ ھَاھُنَاوَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ اَفْطَرَ الصَّاءِمُ۔(بخاری: 1954، مسلم: 1100)یہ حکم ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے عام ہے۔ اسی طرح فرمان الہٰی: فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ۔ اور فرمان رسولﷺ: اِذَارَأیْتُمُوْاہُ فَصُوْمُوْا وَاِذَارَأیْتُمُوْہُ فَاأفْطِرُوْا ، یہ حکم عام ہے۔ یہی قول کہ ایک مقام کی رویت دوسرے مقام کے لیے مستلزم نہیں ہے، فکر صحیح اور قیاس صحیح کے مطابق راجح ہے۔توقیتِ شہری کا قیاس توقیتِ یومی پر ممکن ہے۔42؂
5 ۔جامعہ دارالسلام عمرآباد کا فتوی برائے سیدشاہ امیر الحق قادری سرقاضی دارالسلطنت میسور ، 19 ؍10؍1950
سوال: کیا حیدرآباد دکن کی رؤیت کو پورے ہندوستان کے لئے تسلیم کیا جاسکتاہے؟
جواب: نماز عیدین کے متعلق ایسا انتظام قائم کرنا کہ تمام روئے زمین پر ایک ہی تاریخ اور ایک ہی روزمیں عیدین کی نماز ادا کی جائے، قطعاً ناممکن ہے، اس لئے کہ اختلاف مطالع کی وجہ سے مشرق ومغرب کی تاریخ اور دنوں میں فرق ہونا ضروری ہے۔ صاحب ’تصریح‘ نے تحریر کیا ہے کہ ہر وہ مغربی ملک جو کسی مشرقی ملک سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع ہے (1600 KM ، دنیا کا محیط چوبیس ہزارمیل ہے) دونوں کے طلوع وغروب میں ایک گھنٹے کا فرق واقع ہوتا ہے۔ اس حساب سے قطبین کے علاوہ تمام آفاق مائلہ میں 24 گھنٹے کا فرق ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں تمام روے زمین پر ایک ہی دن اور ایک ہی تاریخ میں نماز عید کی ادائیگی ناممکن ہے۔ علاوہ ازیں زمین کے مدوّر ہونے اور آفتاب کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے کرۂ زمین پر اوقات بھی یکساں نہیں ہوسکتے ۔ کسی مقام پر صبح کا وقت ہوتا ہے تو کسی مقام پر ظہر کا اور کہیں مغرب کا تو کسی مقام پر عشاء کا ،ایسی حالت میں ایک ہی تاریخ کا تعین ناممکن ہے۔ وہ تجارتی جہاز جو مشر ق سے مغرب کی طرف سفر کرتے ہیں انٹرنیشنل لائن (IDL) پر پہنچ کر اپنی تاریخ میں ایک دن کا اضافہ کرلیتے ہیں اور وہ جہاز جو مغرب سے مشرق کی طرف سفرکرتے ہیں اس لائن پر پہنچ کر اپنی تاریخ میں ایک دن کم کرلیتے ہیں۔ پس مذکورہ بالا تشریح کے مطابق تمام کرۂ زمین میں نماز عید ایک ہی روز اور ایک ہی تاریخ میں قطعاً ادا نہیں ہوسکتی ۔ باقی رہا یہ سوال کہ تمام ہندوستان میں ایک ہی دن میں نماز عید ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ تو یہ کچھ مشکل معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ ہندوستان کے مشرقی ومغربی شہروں میں تقریبا پونے دوگھنٹوں کا فرق واقع ہوتا ہے۔ لہٰذا ادائیگئ نماز کے لئے ایک ہی وقت کا تعین اگر نہیں کیا جاسکتا تو کم از کم ایک ہی تاریخ کا پورے ہندوستا ن میں تعین کیا جاسکتا ہے اور یہ امت مسلمہ کے اتحادِ عمل ویگانگی ، مقاصد شان توحید کے لئے فی الواقع ایک مفید ومؤثر مظاہرہ ہوگا ۔ قال اللہ تعالی : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمَیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا (سورۂ آل عمران ؍103 ) صاحبِ درِّمختار کا یہ قول ’یَلْزَمُ اَھْلَ الْمَشْرِقِ بِرُؤیَۃِ الْمَغْرِبِ‘ صرف ایک ملک کے باشندوں کے لئے ہے، ورنہ اگر پوری زمین کے لئے لیا جائے تو قطعا صحیح نہیں ہوگا۔مشاہدہ شاہد ہے کہ اگر کبھی مدراس میں 29 کا چاند دیکھا گیا ہے تو اس کے شمال میں اور مغرب میں ایک ہزارسے زاید میل کے فاصلہ پر بھی اسی روز 29 کا چاند دیکھا گیا ہیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہلال کا طلوع تمام ہندوستان میں ایک ہی روز ہوتا ہے، گوکسی مانع کی وجہ سے بعض مقام پرنظر نہ آسکے، پس تمام ہندوستان میں ایک ہی روز عید کی نماز ادا کی جاسکتی ہے اور اس کے انتظام کے لئے وہی صورت بہتر ہوسکتی ہے جو سوال میں درج ہے۔یعنی حیدرآباد دکن کی رؤیت کو ہندوستان کے لئے تسلیم کرکے بذریعہ ریڈیو اعلان عام کردیا جائے۔ واللہ اعلم۔۔۔
کتبہ: عبید الرحمن عاقل رحمانی استاذجامعہ دارالسلام عمرآباد
الجواب صحیح : غضنفر حسین شاکر نائطی ، عبدالواجد عمری رحمانی ،محمدنعمان اعظمی ، عبدالسبحان اعظمی عمری (غفراللہ لھم)

حرفِ آخر :
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں شریعت ایسے اصول اور قواعد بتاتی ہے جس میں لوگوں کے لئے سہولت ہو اور وہ بغیر کسی مشقت و حرج کے اس پر عمل کر سکیں، کیونکہ احکام شریعت سہولت پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ[/ARB] (البقرۃ:185)
اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے روزے کے سیاق میں ہی ساری امت سے فرمایا کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنے میں سہولت مقصود ہے۔اور نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے: اَلدِّیْنُ یُسْرٌوَ لَنْ یُشَادَّ الدِّیْنَ اَحَدٌ اِلاّٰغَلَبَہُ 43؂ یعنی یقیناًدین آسان ہے جو دین میں بے جاسختی کرتا ہے۔ دین اس پر غالب آجاتا ہے۔ یعنی انسان مغلوب ہوجاتاہے اور دین پر عمل ترک کردیتا ہے۔ اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ بنی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : ہَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ قَالَھَا ثَلاَثًا۔44؂ اپنی طرف سے دین میں سختی کرنے والے ہلاک ہوگئے ۔ آپ ﷺ نے 3 مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا : تم دین میں غلو کرنے سے بچو، پچھلی قومیں دین میں غلو کرکے ہلاک ہوگئیں۔45؂
احادیث شریفہ میں رؤیت بصری (آنکھ سے دیکھنے کو ) ہی کو معتبر مانا گیا، نہ کہ محض وجود ہلال (New Moon) کو، جسے غیر مرئی چاند کہا جاتا ہے، کیونکہ مرئی چاند دیکھنے میں ہی ساری امت کے لیے سہولت اور آسانی ہے۔ اگر غیر مرئی چاند کو معیار تسلیم کیا گیا تو یہ بات چند مخصوص افراد ہی کو معلوم ہوسکے گی اور اکثریت کے لیے اس کا دیکھنا محال ہوگا اور یہ تکلیف مالا یطاق ہوگی۔ روزہ رکھنے اور روزہ نہ رکھنے کے لیے رؤیت ہلال کو سبب تسلیم کرنے کی صورت میں جہاں رویت ہوگی وہاں روزہ کا حکم ہو گا اور جہاں رویت نہ ہوگی وہاں روزہ کا حکم نہیں ہوگا۔ یہ قاعدہ کلیہ پوری دنیا والوں کے لیے ہے۔ جس علاقہ کے مسلمانوں نے چاند نہیں دیکھا ان کے علاقے میں رؤیت ہوئی ہی نہیں تو رمضان کا مہینہ آیا ہی نہیں، وہ روزہ کیوں رکھیں؟ محض کسی ایک جگہ کی رؤیت کو سارے دنیا کے مسلمان تسلیم کرلیں تو یہ قیاسِ فاسد ہے۔
روزہ اور عید غالب اکثریت کے ساتھ ہی معتبر ہے۔عیدین اجتماعیت کاسبق دیتی ہیں۔ اسلامی عبادت میں اجتماعیت کا تصور موجود ہے۔ تنہا ایک آدمی چاند دیکھ کر عید اپنے طور پر نہیں مناسکتا، بلکہ اسے عید الفطر اورعید الاضحی کی نمازوں کی ادائی کے لیے لوگوں کی غالب اکثریت کی موافقت ضروری ہے۔ دوچار افراد کا جماعت سے الگ ہو کر روزہ شروع کردینا یا عید منانا نہ روزہ ہے نہ عید ہے۔ اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے حدیث ’’ صَوْمِکُمْ یَوْمَ تَصُوْمُوْنَ وَفَطْرِکُمْ یَوْمَ یَفْطِرُوْنَ۔ (ابو داؤد)کے بارے میں فرمایا کہ بعض اہل علم نے اس حدیث کی یہ تشریح کی ہے: ’’اِنَّمَا مَعْنیٰ ھَذَا الصَّوْمُ وَ الْفَطْرُ مَعَ الْجَمَاعَۃِ وَ عِظَمِ النَّاسِ‘‘۔ 46؂ یعنی روزہ اور عید جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ہی معتبر ہے ۔
بلاشبہ مسجد حرام، جو اسلامی ممالک بلکہ سارے عالم کے مسلمانوں کے لئے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ قبلہ بھی ہے، لیکن وہاں کی رؤیت کو اتحاد امت کا ذریعہ سمجھنا شرعاً غلط ہے، کیونکہ رؤیت ہلال کے لئے سب سے اہم رکاوٹ اختلاف مطالع ، اختلاف رؤیت اورجغرافیائی حیثیت وغیرہ ہے۔ اتحاد امت کے لئے بنیادی ضرورت یہہے کہ امتِ محمدیہ تمام فقہی ، گروہی اور مسلکی اختلافات سے بالا تر ہوکر عقیدہ کی بنیاد پرمتحد ہو۔ اخوت ایمانی کومضبوط سے مضبوط تر بنائے۔ اتباع سنت کے ساتھ ساتھ شرکیہ امور سے کلی طورپر اجتناب کرے۔ اس سے امت کی وحدت کوتقویت پہنچے گی، نہ کہ صرف ایک ہی دن میں سارے عالم میں عید منانے سے وحدت قائم ہوگی۔ عید مسلمانوں کے لئے عبادت اور شکر کا ایک طریقہ ہے، جو صرف رؤیت بصری پر ہی منحصر ہے ۔ یہ عیدیں کرسمس اور دیپاولی کی طرح کوئی میلہ یا تہوار نہیں ہے کہ وقت سے پہلے ہی تقویم کے ذریعہ اس کا اعلان کردیا جائے اور نہ یہ ممکن ہے کہ شمسی تاریخوں کی طرح قمری تاریخوں کا کیلنڈربنایا جائے ۔ اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ رؤیت ہی کی بنیاد پر کوئی مہینہ 29کا اور کوئی مہینہ 30کا ہوگا۔اور یہ کس مہینہ میں 29اور کس مہینے میں 30کا ہوگا اس کی تحدید نہیں کی گئی ۔امت مسلمہ میں یہ اختلاف قدیم ہے۔ اس پر باربار مسلسل کوششیں کی گئیں، ملکی اورمقامی سطح پرسیمینارمنعقدہوئے، لیکن علمائے امت کا چودہ سوسال سے عدم اتفاق خود اس بات پر دلیل ہے کہ ایک شہر کی رؤیت تمام عالم کے لئے ناممکن ہی نہیں، بلکہ امر محال ہے۔ رؤیت ہلال میں عالمی وحدت پیدا کرنے کی کوشش رسول اکرم ﷺ کی صحیح احادیث،علماء محققین، حنفیہ ومالکیہ وشافعیہ وحنابلہ اور علم ہیئت جدیدہ اور جغرافیہ جدیدہ کے خلاف ہے۔
جب عالم اسلام میں نمازوں کے اوقات میں فرق و تفاوت کو وحدت کے منافی نہیں سمجھا جاتا تو رؤیت ہلال کے حساب سے الگ الگ دن عیدیں اور رمضان کے آغاز کو عالم اسلام کی وحدت کے منافی کیوں سمجھا جارہا ہے ۔ یہ نظریہ سرے سے غلط ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ دیگر اسلامی ممالک روزہ رکھیں اور عید منائیں۔ رؤیت ہلال کا مسئلہ قدرت کی جانب سے مقررکردہ نظام ہے۔ اس میں انسان بے بس ہے اور وہ شریعت کا پابند ہے۔ ہمیں چاہئے کہ فکر ونظرکو شریعت کے تابع بنائیں، نہ کہ اپنے بنائے ہوئے افکارونظریات کو صحیح ٹھہرانے کے لئے شریعت سے دلائل جمع کرنے کی کوشش کریں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
حواشی و مراجع
1؂ الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، ج 2، ص 296
2؂ الملخص الفقہی:1/262۔263
3؂ المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم، الامام الفقیہ ابو العباس القرطبی 3/141
4؂ المنجد، ص1133
5؂ رؤیت ہلال کا مسئلہ اور اس کا حل ، شمس پیر زادہ ، ص 9
6؂ رؤیت ہلال ،غازی عزیر ص 306
7؂ ابو نعیم، ابن عساکر، بحوالہ تیسیر الرحمن ص:105
8؂ بحوالہ رؤیت ہلال غازی عزیر: ص 254
9؂ احسن البیان: ص562
10؂ حوالہ بہ تصرف احسن البیان:ص 1241
11؂ بخاری: 1808، مسلم :1080
12؂ لسان العرب ، ج12ص443
13؂ بخاری، 1814، مسلم1080
14؂ بخاری، مسلم
15؂ جامع الترمذی :802، صححہ الالبانی
16؂ مسلم87.1، ابوداؤد 2832 ، ترمذی 293، نسائی:4/131۔ مسند احمد:2790
17؂ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ، جنوری۔ مارچ 1992، ص 61
18؂ الاسئلۃ والاجوبۃ الفقہیۃ … عبدالعزیز المحمد السلیمان۔2/136
19؂ العلم المنشور فی اثبات الشہور للسبکی، بحوالہ توحید بدایۃ الشہور القمریہ للشیخ السایس، ص:943
20؂ فتاویٰ، 25/108 21؂ شرح صحیح مسلم، 2؍204
21؂الف المجموع مع شرح المھذب للنووی 6/300،شرح صحیح مسلم: 2/204
22؂ عون المعبود،6؍455 23؂ جامع ترمذی: 693
24؂ تحفۃ الأحوذی:2؍36 25؂ سنن النسائی، حاشیہ السندی، 2؍131
26؂ صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر1916،3؍205
27؂ بحوالہ رؤیت ہلال، غازی عزیر، ص : 156
28؂ شرح السنۃ ، 6؍ 245 ۔ 246 29؂ تمام المنہ ؍ص: 398
30؂ مجموع الفتاوی علی ھامش خلاصۃ الفتاوی 1؍255۔256 بحوالہ جدید فقہی مسائل ص82
31؂ بدایۃ المجتھد 1؍287۔288 32؂ المغنی لابن قدامہ: 3؍87
33؂ المجموع 6؍300۔المسائل الفقھیۃ التی انفرد بہ الامام الشافعی من دون اخوانہ من الأئمۃ۔لابن کثیر ص :117
34؂ الاستذکار لابن عبد البر10؍30 ، الجامع لأحکام القرآن 2؍295
35؂ مسلم ،بابُ لا اعتبارَ بکِبَرِ الھلالِ وصغرِہِ، موسوعۃ فقہ عبداللہ بن عباس، د؍رواس قلعجی، ص 480
36؂ سبل السلام :151 37؂ سبل السلام :ص156
38؂ رؤیت ہلال کا مسئلہ اور اس کا حل، ص 13
39؂ دلیل الطالبین شرح ریا ض الصالحین، 1 ؍137
40؂ ابوداؤ د 2324 ، ترمذی 967 وصححہ الالبانی ؒ فی صحیح الترمذی 561 اللجنۃ الدائمۃ للبحوث والافتاء ، 10؍94 شیخ محمد صالح المنجد
41؂ بحوالہ رمضان کے فضائل واحکام ، ص 8 ۔ 9
42؂ فتاوی علماء البلد الحرام للشیخ سعد بن عبداللہ البریک، ص: 231
43؂ بخاری 44؂ مسلم
45؂ نسائی 46؂ فتاویٰ 25/115
47؂ تیسیرالکریم الرحمن فی تفسیرکلام المنان، ص:700
 
Top