مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
رویت ہلال پہ حدیث کریب کا ایک مطالعہ
مقبول احمد سلفی
رفتار زمانہ کے حساب سے مسائل واحکام میں بھی بسا اوقات تبدیلی واقع ہوتی ہے، آج کے گلوبلائزیشن کے دور میں بعض کے نزدیک وحدت رویت کا مطالبہ وقت کی ضرورت اورحالات کا تقاضہ ہے۔یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے متقدمین میں سے بھی بعض علماء نے وحدت رویت پہ روشنی ڈال کر اسے اپنےموقف کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔جہاں تک مسئلہ امت کا ہےوہ سب کے سامنے ہے ، ہمیشہ سے امت کا تعامل وحدت رویت کے خلاف رہا ہے ۔ اپنے اپنے علاقہ کی رویت پہ انحصار کرکے روزہ رکھنے اور عید منانے کا دستور رہا ہے ۔
رمضان کے موقع سے رویت کے متعلق عوام میں شدید اختلاف کے باعث بعض علماء وحدت رویت پہ امت کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ میں ایسے علماء کا اس وقت تک حامی نہیں ہوں جب تک امت کا وحدت رویت پر واضح اور قابل عمل اتفاق نہ ہوجائے خواہ عالمی سیمینار کرکے یا ملکی پیمانے پر اپنے اپنے علماء کے اتفاق رائے سے ۔
مختصر الفاظ میں اپنے موقف کو بیان کرنے کے بعد یہاں رویت ہلال کے سلسلے میں بہت ہی مشہور اور اہم دلیل حدیث کریب کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں تاکہ حالات کے تقاضہ سے ہٹ کر ہمیں رویت ہلال سے متعلق فہم سلف کی روشنی میں اسلام کا موقف معلوم ہوسکےکیونکہ کتاب وسنت کو ہمیں فہم سلف کی روشنی میں سمجھنا ہے ۔ اگر فہم قرآن وحدیث سے فہم سلف کو نکال دیا جائے تو پھر کوئی بھی نص کے مفہوم کو اپنے مسلک کی تائید میں موڑ سکتا ہے۔ قرآن وحدیث میں فہم سلف کا درجہ ویسے ہی ہےجیسے حدیث میں سند کا۔ آئیے حدیث کریب کا ایک مطالعہ کرتے ہیں ۔
أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . واستهلَّ عليَّ رمضانُ وأنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبدُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . ورأه الناسُ . وصاموا وصام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ (صحيح مسلم:1087)
ترجمہ : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نےچاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔
تخریج: (صحيح مسلم:1087، سنن أبي داود:2332، سنن النسائي:2111، سنن الترمذي:693، صحیح ابن خزیمہ:1916، السنن الکبری للبیہقی:8007،مسند أحمد:2785، سنن الدارقطني:2185 \21)
یہ حدیث مختلف کتب احادیث میں مروی ہے، یہ حدیث جن محدثین کے توسط سے ہم تک منقول ہوئی ہے انہوں نے اپنے اپنے اساتذہ سے کیا سمجھا ہے یہ جاننے کی اہم بات ہے۔ اس سے حدیث کا معنی ومفہوم متعین کرنے میں آسانی ہوگی کیونکہ حدیث اپنے معانی ومفاہیم کے ساتھ منتقل ہوتی آرہی ہے اس لئے ہمارے واسطے حدیث کی فہم وفراست میں سلف کی فہم ہی معیار ہے۔
حدیث کریب پہ محدثین کے قائم کئے گئے ابواب :
محدثین نے احادیث کو کتاب اور ابواب کے اعتبار سے جمع کیا ہے اس طرح محدثین نے حدیث سے کیا سمجھا ہے اس کا معنی متعین کرنے میں ہمارے لئے آسانی ہوگئی ہے۔
(1) مسلم شریف میں اس حدیث پر یوں باب باندھا گیا ہے :
’’بابُ بیانِ أنَّ لکلِ بلدٍ رؤیتُھم وأنھم اِذَا رأوا الھلالَ ببلدٍلایثبتُ حکمُہ لما بَعُدَ عَنْھُمْ ‘‘اس چیز کا بیان کہ ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کسی علاقہ کے لوگ چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم دور کے لوگوں کے لیے ثابت نہیں ہوگا۔
(2) امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں مذکورہ حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے ’’باب اذا رؤي الھلال فی بلدٍ قبلَ الآخرین بلیلۃٍ ‘‘باب اس بیان میں کہ جب چاند کسی شہر میں دوسروں سے ایک دن قبل نظر آجائے تو کیا کیا جائے؟۔
(3) امام ترمذی نے اپنی جامع میں اس طرح باب قائم کیا ہے ’’ باب لکل أھل بلد رؤیتھم‘‘۔ باب اس چیز کے بیان میں کہ ہر علاقہ والوں کے لئے اپنی اپنی رویت کا اعتبار ہوگا۔اور پھر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :"العملُ عَلَی ھَذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَ أَھْلِ الْعِلْمِ اَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ "اہل علم کے مابین اس حدیث کے مطابق عمل ہے کہ ہرعلاقے کی رویت کا اعتبار ہوگا۔
(4) امام نسائی نے کچھ اس طرح باب باندھا ہے: "باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ "باب اس حکم کے بیان میں کہ جب مختلف ممالک کے باشندے رؤیت ہلال کے سلسلے میں مختلف ہوں۔
(5) امام ابن خزیمہ نے یہ باب قائم کیا ہے: ’’ باب الدليل على أن الواجب على أهل كل بلدة صيام رمضان لرؤيتهم لا رؤية غيرهم‘‘ یعنی اس بات پر دلیل کہ ہر علاقہ والے کے لیے اپنی ہی رؤیت پر رمضان کے روزے کا آغاز کرنا ضروری ہے ۔
(6) حدیث کریب کی روایت کو بیہقی نے اپنی السنن الکبری میں اس باب سے بیان کیا ہے" باب الهلال يرى في بلد ولا يرى في آخر" چاند کے بارے میں باب جسے ایک شہر والے نے دیکھا اور دوسرے شہر والے نے نہیں دیکھا۔
(7) دارقطنی نے اپنی سنن "باب الشهادة على رؤية الهلال" (چاند دیکھنے کے سلسلے میں گواہی کا باب )کے نام سے باب باندھا ہے۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ کتاب وسنت کو فہم سلف صالحین کی روشنی میں سمجھنا ہے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول سے فہم سلف نکال دیا جائے تو نص کو جو چاہے گا اپنے مقصدوہدف کی طرف پھیر لے گا۔ یہ حدیث جن کتب احادیث میں آئی ہے ان کی تدوین وترتیب کرنے والوں نے اپنے اپنے اساتذہ سےرویت ہلال کا یہی مذکورہ معنی معلوم کیا ہے اور انہوں نے اپنے اپنے شاگردوں کو بھی اسی معنی ومفہوم کی تعلیم دی ہوگی ۔ ان سارے شیوخ وتلامذہ کی تعداد دیکھی جائے تو ہزاروں میں ممکن ہے۔ ان کے علاوہ اسلاف کی ایک بڑی جماعت سے رویت ہلال میں مطلع کے فرق کا اعتبار کرنا منقول ہے جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور آخر اسی پرچودہ صدیوں سے امت کا تعامل بھی رہاہے جیساکہ امام ترمذی نےحدیث کریب پہ لکھا ہے کہ اہل علم کے درمیان اسی حدیث پر عمل ہے کہ ہرعلاقہ کی رویت کا اعتبار ہوگااور امام بغوی نے بھی لکھا ہے کہ اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ "ان لکل اھل بلد رویتھم" ۔ البتہ بعض اہل علم نے وحدت رویت ہلال کا ذکر کیا ہے وہ بہت تھوڑے ہیں انہیں شمار کرسکتے ہیں ۔
حدیث کی شرح اور اس کا مفہوم :
اس حدیث میں مذکور ہے کہ ام الفضل نے کریب کو شعبان کے اخیر میں معاویہ کے پاس کسی کام سے بھیجا تو وہاں انہوں نے اور اہل شام نے جمعہ کی رات رمضان کا چاند دیکھا اور سبھوں نے روزہ رکھا۔ جب کریب کام مکمل کرکے دوران رمضان ہی مدینہ لوٹ آئے ۔ ابن عباس سے کریب کی رویت ہلال پہ گفتگو ہوئی تو کریب نے کہا کہ ہم لوگوں نے جمعہ کی شب چاند دیکھا ہے ، تاکیدا ابن عباس نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے بھی دیکھا اور اہل شام نے بھی دیکھا ۔ ابن عباس نے کہا کہ ہم نے ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے اور اسی دن سے روزہ شروع کیا ہے لہذا ہم روزہ رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ ہم چاند دیکھ لیں تو عید منائیں گے یا چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے مکمل کریں گے ۔گویا ابن عباس نے اہل شام کی رویت کا اعتبار نہیں کیا۔ کریب نے اس بات پہ تعجب کا اظہار کیا کہ کیا امیرمعاویہ کی رویت آپ کے لئے کافی نہیں ہے ؟ تو ابن عباس نے جواب دیا کہ نہیں ہمارے لئے امیر معاویہ کی رویت کافی نہیں ہے کیونکہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے ۔
اس حدیث میں تین باتیں اہم ہیں ۔
پہلی بات یہ ہے کہ شام اور مدینہ کے درمیان کتنی مسافت ہے ؟
دوسری بات یہ ہےکہ ابن عباس نے معاویہ کی رویت کا اعتبار کیوں نہیں کیا؟
تیسری بات یہ ہے کہ ابن عباس کا کہنا ایسے ہی نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ میپ زوم ڈاٹ کام کے اعتبار سے طریق(راستہ) کا اعتبار کرکے 1267 کیلو میٹر ہے اور خط مستقیم کا اعتبار کرکے 1045 کیلو میٹر ہے۔ صاحب سبل السلام تحریر فرما ہیں کہ اہل شام کی رویت کا اعتبار اہل حجاز کے لئے نہیں ہوگا اور کریب نے اکتیسواں روزہ رکھا جو کہ اہل مدینہ کے حساب سے وہ تیسواں ہی تھا۔ (سبل السلام :ص156)
کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ اگر شام ومدینہ کے درمیان 1045 یا 1267کیلو میٹر کا فرق ہے تو ہندوستان میں پندرہ کیلو میٹر یا دوسری جگہ اس سے کم اور زیادہ کا اعتبار کیوں ہوتا ہے ؟ کرہ ارض کے نشیب وفراز سے مطلع کے فرق میں بعض مقامات کا بعض دوسرے مقامات سے فرق ہوسکتا ہے اس لئے اصلا مطلع کا فرق دیکھا جائے گا نہ کہ کیلو میٹر کا ۔ اس کا عمومی طریقہ یہ ہے کہ عموماجن علاقوں میں ایک ساتھ رویت ہوتی ہے ان تمام علاقوں کا مطلع ایک مانا جائے گاخواہ مسافت جو بھی ہو۔
دوسرے سوال کا جواب صحیح مسلم کی مشہور زمانہ شرح (شرح نووی) کی روشنی میں دو معانی کا امکان ہے ۔ پہلا معنی تو یہ ہوسکتا ہے کہ کریب کی خبر ،خبر واحد تھی اور یہاں شہادت کا معاملہ تھا جس کے لئے خبر واحد کافی نہیں ہوتی ۔ حدیث کا یہ معنی متعین کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ خود امام نووی نے کہا کہ یہ بات ظاہر حدیث کے خلاف ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ابن عباس نے کریب کی خبر اس لئے رد کردی کیونکہ رویت دور والوں کے حق میں ثابت نہیں ہوتی۔ حدیث کے ظاہر سے یہی دوسرا معنی صحیح ہے۔
تیسری بات ابن عباس کا قول کہ اسی طرح ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے اس سے مراد ابوداؤد کی عمدہ شرح عون المعبود میں حدیث کریب کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ چیز یاد کررکھی تھی کہ ایک بلد کا دوسرے اہل بلد کی رویت پر عمل لازم نہیں ہے ۔
حدیث کریب پر چند اعتراضات کا جواب :
پہلا اعتراض : اگر حدیث کریب ہی اختلاف مطلع کے اعتبار میں دلیل ہے تو اس حدیث کے حساب سے شام وحجاز کے درمیان جو مسافت ہے اس مسافت کو ہرجگہ دلیل بنائی جائے پھر ہندوستان میں پندرہ سوکلومیٹر یا اس سے زیادہ کی رویت کیوں معتبر ہے ؟
جواب : حدیث کی شرح اور اس کامفہوم کے عنوان سے پہلی بات کے تحت اس کا جواب دیا جاچکا ہے ۔ اور ہاں اس کے بہت سارے دلائل ہیں حدیث میں اہل ستارہ کا مسئلہ دیکھیں اور عکرمہ کا قول لکل اھل بلد رویتھم بھی دیکھ لیں ۔
دوسرا اعتراض : ابن عباس کا اہل شام کی رویت نہ تسلیم کرنا صحابی کا اجتہاد تھا جوکہ غلط بھی ہوسکتا ہے ۔
جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ صحابی نے خود اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ ہمیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے گویا کہ یہ ان کا اجتہاد نہیں تھا فرمان رسول پر عمل تھا۔
تیسرا اعتراض: افطار کے سلسلے میں خبر واحد کافی نہیں ہے اس وجہ سے ابن اعباس نے کریب کی خبر رد کردی کیونکہ انہیں رسول اللہ کا حکم معلوم تھا جیساکہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا ہی رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے۔
جواب : اولا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر واحد کی وجہ سے کریب کی بات رد نہیں کی جیساکہ اوپر میں واضح کرچکا ہوں ۔ ثانیاحدیث کےاس ٹکڑے" أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ "سے جو بعض اہل علم نے خبر واحد کا احتمال ظاہر کیا ہے وہ حدیث کے ظاہر اوراکثر محدثین کی رائے کے خلاف ہے۔نیز کریب نے یہ نہیں کہا کہ صرف میں نے چاند دیکھا بلکہ کہامیں نے اور اہل شام نے چاند دیکھا ہے۔ اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ابن عبا س نے خبر واحد کی وجہ سے کریب کی خبر تسلیم نہیں کی تو آسانی سے اہل شام کے ذریعہ اس خبر کی تصدیق کرسکتے ہیں جبکہ ابن عباس نے ایسی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خبرواحد کا احتمال ظاہر کرنا بالکل صحیح نہیں ہے ۔
چوتھا اعتراض : یہ وہی ابن عباس ہیں جن سے عاشوراء کے روزہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا نو محرم کا روزہ رکھ لے۔ سائل نے پوچھا کہ کیا اسی طرح رسول اللہ ﷺ روزہ رکھتے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس جواب سے حدیث کریب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ ابن عباس کے کلام میں کس طرح خطا کا امکان ہوسکتا ہے؟
جواب : ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس فیصلے کو کچھ لوگوں نے الگ رنگ دینے کی کوشش کی ہے جسے یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں ہے ۔ یہاں مسلم شریف کی حدیث نمبر 2664 میں ذکر عاشوراء کی بات کا جواب دینا ہے۔ یہ حدیث مسلم کے علاوہ ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن خزیمہ اور مسند احمد وغیرہ میں موجود ہے۔ اس حدیث کا شراح حدیث نے مختلف جواب دیا ہے اعتراض کرنے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ مسلم شریف کی روایت ہے جس کی سند اور متن دونوں میں کہیں نکارت نہیں ہے۔
عون المعبود میں اس حدیث کے تحت مذکور ہے کہ نبی ﷺ اسی طرح روزہ رکھتے کا مطلب ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے آخرحیات میں نویں محرم کا روزہ رکھنے کا عزم کیا تھا گویا کہ آپ نے نویں کا روزہ رکھا۔ اور صاحب تحفہ الاحوذی نے امام شوکانی کے حوالے سے ایک قول ذکر کیا ہے کہ اسی طرح نبی ﷺ روزہ رکھتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی ﷺباحیات ہوتے تو اسی طرح روزہ رکھتے ۔
کتنی سیدھی بات ہے جسے غلط رنگ دیا جارہا ہے ۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے حج تمتع نہیں کیا ہے تاہم ارادہ ظاہر کیا کہ اگر قربانی کا جانور ساتھ نہیں لاتے تو میں بھی تمتع کرتا ۔ اس سے علماء نے تمتع کی افضلیت پر استدلال کیا ہے ۔
پانچواں اعتراض : حدیث کریب خاص ہے ۔
جواب : بالکل خاص نہیں ہے۔ خصوصیت کی دلیل چاہئے ۔
حدیث کریب کے چند اہم مستفادات:
حدیث کریب سے ایسے نکتے بھی نکلتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی اعتراض کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی مثلا
٭ کریب نے شام میں شام کی رویت کا اعتبار کرکے روزہ رکھا اور مدینہ آئے تو اہل مدینہ کے حساب سے روزہ رکھا اور عید منائی جبکہ شام کے حساب سے انہوں نے اکتیس روزے رکھے۔
٭ کوئی صحابی اپنی جانب سے اجتہاد کرکے کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، سارے صحابہ عادل ہیں ۔
٭ رویت ہلال بہت ہی اہم معاملہ ہے ،اگر ایک جگہ کی رویت ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے معتبر ہوتی تو ابن عباس جیسےجلیل القدر صحابی رسول فورا رویت اپنے لئے بھی معتبر گردانتے ۔ بھلا فرمان رسول کے سامنے صحابی اپنا اجتہاد چلا ئے،گیا گزرا مسلمان بھی ایسی بات نہیں سوچ سکتا۔
٭ رویت کے فرق سے اہل شام اور اہل مدینہ کے شب قدر میں فرق ہورہاہے اور رمضان کی اصل پونجی والی رات تو یہی ہے۔ کریب کی خبر نہ مان کر اپنےآپ کو اور اہل مدینہ کو شب قدر کی فضیلت سے کیسے محروم کرسکتے ہیں ؟
٭ رویت ہلال کا فرق تو بہر کیف زمانے میں موجود ہے ، مطلع کا واضح فرق ہے اور اس کااعتبار کرنا ہی دلائل سے قوی معلوم ہوتا ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ کریب نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے حساب سے اپنا روزہ مکمل کیا اور اس طرح اکتیس روزے ہوگئے ۔ گویا ہر علاقے کی اپنی اپنی رویت ہے ۔ وہ اس طرح کہ اگر شام میں تیس دن رمضان کے مکمل ہوئے تو مدینہ میں بھی وہاں والوں کی رویت کے اعتبار سے تیس روزے ہوئے ۔ اس اہم نکتہ سے رویت ہلال میں مطلع کے فرق کا معتبر ہونا معلوم ہوتا ہے۔
٭ وحدت رویت کو ماننے سے حدیث کریب کی روشنی میں اہل مدینہ کا ایک روزہ چھوٹ گیا جس کی قضا کرنی تھی ، اگر اس کی قضا کرلی جاتی تو اہل مدینہ کا روزہ کریب کی طرح اکتیس کا ہوجاتا جبکہ مہینہ اکتیس کا ہوتا ہی نہیں ہے۔ اہم سوال قضا کا ہے ۔ ابن عباس کا ایک روزہ قضا نہ کرنا اور اہل مدینہ کو قضا کا حکم نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ دور والوں کی رویت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
٭ کریب کی خبرسے جس طرح اہل شام اور اہل مدینہ کے روزہ میں فرق واقع ہورہا ہےاورشب قدر میں فرق ہوا، اسی طرح عیدمیں بھی فرق ہورہاہے جبکہ وحدت رویت والے کہتے ہیں عید اس دن ہے جس دن سب منائیں ۔ یہاں اس کی مخالفت ہورہی ہے۔
٭ کریب کی خبر کی تصدیق وتسلیم نہ کرنا اس کا بین ثبوت ہے کہ ہر علاقہ والے اپنے حساب سے رویت کا اعتبار کرتے تھے ورنہ اولا ایک جگہ سے دوسری جگہ کی خبریں وصول کی جاتیں اور خلفاء وامراء کا باقاعدہ رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ ایلچی کے ذریعہ کسی جگہ رویت ہوجائے تو دوسرےتمام علاقوں میں خبر دی جاتی جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کام نہ عہد رسول میں ہو ا اور نہ ہی عہد خلافت میں جو سراسر رویت وحدت کے خلاف ہے۔
٭ رویت ہلال کو ہم رمضان کے ساتھ ہی خاص سمجھتے ہیں جبکہ یہ پورے سال کے ساتھ خاص ہے ، ہرماہ ایام بیض کے روزے تیرہ، چودہ اور پندرہ کو رکھنا ہے ۔ امت کی آسانی اسی میں ہے کہ اپنے علاقہ کی رویت کا اعتبار کریں ۔ قریب وبعید کے علاقوں میں نہ صرف گھنٹوں اوقات کا فرق پایا جاتا ہے بلکہ رات ودن کا بھی فرق ہےجوکہ قدرتی نظام ہے اس میں ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔ مجھے تو اس میں وحدت نظر نہیں آتی کہ ایک مسلمان ایک جگہ عید منائے اور دوسری جگہ رات ہونے کے سبب ہمارے دوسرے مسلمان بھائی سورہے ہوں ۔
٭اللہ تعالی جس طرح سورج کو ایک وقت میں نکالتا اور ڈباتا ہے اسی طرح چاند کو بھی ایک وقت میں اگاتا اور ڈباتا ہےاور ان دونوں (شمس وقمر) کے طلوع وغروب ، صبح صادق اور اوقات زوال بلکہ پنچ وقتہ نمازوں کے اوقات مختلف ہیں حتی کے سارے مسلمانوں کا قبلہ ایک جہت میں نہیں ہے۔ جس طرح ہم نمازوں کے اوقات کے فرق کو امت کے اختلاف سے تعبیر نہیں کرتے اسی طرح علاقائی رویت کے حساب سے روزہ اور عید منانے کو امت کا اختلاف نہیں کہیں گے ۔
ہر بلد والے کے لئے اپنی اپنی رویت پر اجماع:
علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہوگیا ہےکہ جو ایک شہر ایک دوسرے سے دور واقع ہو اس کی رویت کا اعتبار نہیں ہوگا جیسے کہ خراسان اندلس سے دور ہےاس لئے کہ ہر شہر کے لئے ایک خاص حکم ہےجو اس شہر کے ساتھ ہی مخصوص ہےجیساکہ حدیث میں آیا ہےچنانچہ جو شہر آپس میں قریب ہوں ان کی رویت ایک دوسرے لئے معتبر ہوگی ۔ خبر خواہ حکومت کی جانب سے ہو یا دو عال گواہوں کی طرف سے یا جماعت مستفیضہ کی طرف سے بہر حال قریبی شہر والوں کو شامل ہوگی اور جو شہر زیادہ دور واقع ہو اس کو شامل نہیں ہوگی ۔ ابن عرفہ نے اسی کو پسند کیا ہے۔ (التمہید لابن عبدالبر)
وحدت رویت ہلال کا موقف اور آخری بات :
علامہ ابن باز نے اچھی بات کہی ہے کہ اگر وحدت رویت میسر ہوسکے تو یہ احسن وافضل ہے ورنہ ہرہلد کی رویت ہی تمام اہل علم کے نزدیک راحج ہے ۔ اور علامہ ناصرالدین البانی نے لکھا ہے جب تک تمام ممالک اسلامیہ وحدت رویت پر متفق نہ ہوجائیں اس وقت تک ہر ملک کے باشندوں کو اپنے ملک اور حکومت کے ساتھ روزہ رکھنا چاہئے ۔اختلاف کرکے الگ الگ نہ ہوجائیں کہ کوئی اپنے ملک کے حساب سے اور کوئی دوسرے ملک کے حساب سے عمل کرنے لگے بلکہ اپنے ملک کی رویت پر روزہ رکھنا چاہئے خواہ ایک دودن آگے پیچھے ہی کیوں نہ ہوجائیں ۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ایک ہی ملک میں وسیع پیمانے پر اختلاف پھیلنے کا خطرہ ہے اور ایسا بعض عرب ممالک میں ہوبھی رہاہے۔
ان دونوں موقف کو سامنے رکھتے ہوئے میں بھی یہ کہتا ہوں کہ اگروحدت رویت پہ امت اسلامیہ کا اتحاد ہوجائے اور اتحاد کا نقطہ نظر بھی ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے واضح اور قابل عمل ہو تو مجھے اس سے اختلاف نہیں ہے صرف اس وجہ سے کہ رویت ہلال پہ امت مزید ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم ہوکر اپنی طاقت ختم نہ کرے اور غیروں کو جگ ہنسائی کا موقع نہ دے ۔ وحدت رویت کے کسی واضح اور قابل عمل نقطہ اتحاد پر جب تک امت اسلامیہ کا اجماع نہ ہوجائے اس وقت تک مسلمانوں کو اپنے اپنے علاقہ کی رویت کا اعتبار کرنا چاہئے اور اسی حساب سے روزہ رکھنا چاہئے اور عید منانا چاہئے ۔