• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رکعتین قبل المغرب

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
میں نے ایک ارٹیکل پڑھا تھا جس میں حنفی حضرات نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھنا مکروہ ہے، حالانکہ کہ نبی سے ثابت ہے کہ انہوں نے ان دو رکعتوں کی اجازت دی ہے، مثلا: یہ حدیث:
عبد اﷲ المزنی عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال:’’صلوا قبل صلوةالمغرب‘‘ قال فی الثالثۃ: ’’لمن شاء‘‘ کراھیۃ ان یتخذھا الناس سنۃ ۔
(صحیح بخاری، ج۲ ص ۱۵۷، کتاب التہجد، باب الصلوةقبل المغرب ،ابو داؤد، ج۱ ص ۱۸۲، باب الصلوةقبل المغرب)

(ترجمہ)
عبد اللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھو،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار یوں فرمایا کہ جو چاہے وہ پڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسندفرمایا کہ لوگ اسے سنت سمجھ لیں۔

اس لیے میں یہاں پر اس مسئلے کے بارے میں اہل علم کی رائے جاننا چاہوں گا۔ اپنا جواب مندرجہ ذیل ارٹیکل کو مد نظر رکھتے ہوئے دیں۔


مغرب سے قبل کی دو رکعتوں کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے،
امام شافعی رحمہ اللہ سے اس مسئلہ میں دو قول منقول ہیں،
(۱) استحباب، امام شافعی کا یہ قول امام نووی نے شرح المہذب میں نقل کیا ہے۔
(۲) جواز، امام شافعی کا یہ قول شرح مسلم میں منقول ہے۔
امام احمد بن حنبل سے بھی اس مسئلہ میں دو قول منقول ہیں،
(۱) استحباب، یہ قول امام ترمذی رحمہ اﷲ نے جامع الترمذی میں نقل کیا ہے۔
(۲)جواز، امام احمد بن حنبل کا یہ قول علامہ ابن قدامہ نے المغنی میں نقل کیا ہے۔
مالکیہ اور متقدمین حنفیہ کے نزدیک مغرب سے پہلے کی دو رکعتیں مکروہ ہیں، جبکہ متأخرین حنفیہ کے نزدیک مغرب سے پہلے کی دو رکعتیں جائز ہیں، البتہ ان کا ترک افضل ہے۔
(شافعیہ اور حنابلہ کی دلیل)
حدثنا ھناد نا وکیع عن کھمس بن الحسین عن عبداﷲ بن بریدۃ عن عبداﷲ بن مغفّل عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال بین کل اذانین صلٰوة لمن شاء،
(جامع الترمذی، ج ۱،ص ۱۴۴،کتاب الصلوة، باب ما جاء فی الصلٰوة قبل المغرب)

(ترجمہ) حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایاکہ ہر دو اذانوں (یعنی ہر اذان و اقامت) کے درمیان نماز ہے، ہر اس شخص کیلئے جو پڑھنا چاہے،

(دلیلِ اوّل احناف مع الجواب الاول)
’’ قال رسول صلی اﷲ علیہ و سلم ان عند کل اذانین رکعتین ما خلا صلوٰٰة المغرب‘‘
(سنن دار قطنی،ج ۱، ۲۶۴، کتاب الصلوة، باب الحث علی الرکوع بین الاذانین فی کل صلوة و الرکعتین قبل المغرب والاختلاف فیہ، سنن بیہقی، ج ۴۷۴، کتاب الصلوة، باب من جعل قبل صلوة المغرب رکعتین، مسند بزّار)

(ترجمہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایاکہ ہر دو اذانوں (یعنی ایک اذان اور ایک اقامت) کے درمیان نماز ہے، سوائے مغرب کی نماز کی۔
یہ حدیث احناف کی دلیل بھی ہے اور اختلاف کرنے والوں کا جواب بھی۔
(اعتراض اول) اس پر بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ’’ما خلا صلوٰٰة المغرب‘‘ (سوائے مغرب کی نماز کی)یہ استثناء ضعیف ہے، حتیٰ کہ علامہ ابن الجوزی رحمہ اﷲ نے تو اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے ،
(لیکن یاد رہے کہ علامہ ابن الجوزی اس حدیث پر موضوع (من گھڑت) ہونے کا حکم نہیں لگایا، صرف اس حدیث کوصحیح نہیں کہا، چنانچہ تحریر ہے کہ
’’ لکن لم یحکم علیہ بالوضع و انما قال ھذا حدیث لا یصح‘‘
( الموضوعات لابن الجوزی،ج ۲، ص ۹۲))

اور صحیح نہ کہنے کی اور اعتراض کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس روایت کی سندکا مدار حیّان پر ہے، جنہیں فلاّ س نے کذاب قرار دیا ہے۔

(جواب) پہلی بات تو یہ کہ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا جرح کے معاملہ میں تشدد معروف ہے، اور دوسرے اس روایت کی مکمل تحقیق علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ’’ اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ‘‘ میں کی ہے ،
چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ درحقیقت حیّان نام کے دو راوی ہیں (۱) حیّان بن عبداﷲ الدارمی(۲)حیّان بن عبیداﷲ البصری ، اور حیّان بن عبداللہ الدارمی کو بلاشبہ فلاّس نے کذاب قرار دیا ہے ، لیکن حیّان بن عبیداللہ البصری صَدوق ہیں اور یہ روایت انہی سے مروی ہے۔
’’قال فیہ ابو حاتم صدوق و قال اسحٰق بن راہویہ کان رجل صدوق وذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال ابن حزم مجہول فلم یصب۔

(اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ،ج۱، ص ۱۵ نقلاً عن المیزان)

(ترجمہ)
ابو حاتم نے حیّان بن عبیداللہ البصری کے بارے میں فرمایا کہ وہ صَدوق ہیں، اسحٰق بن راہویہ نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ سچے آدمی ہیں، اور ابن حبان رحمہ اللہ نے ان کو ثقہ رُوات میں ذکر کیا ہے ، اور ابن حزم ظاہری نے مجہول کہا ہے ، لیکن یہ درست نہیں۔
(اعتراض ثانی) امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس بات پر اعتراض کیا ہے ، جسے علامہ سیوطی نے بھی نقل کیا ہیکہ
’’راوہ حیان بن عبیداﷲ عن عبداﷲ بن بریدۃ و اخطأ فی اسنادہ و اتی بزیادۃ لم یتابع علیھا‘‘ (بیہقی ،ج ۲، ص ۴۷۴)
(ترجمہ) حیان بن عبیداللہ نے عبداللہ بن بریدہ سے روایت کیا ، اور اپنی سند میں غلطی کی، اور ایسے اضافہ کولائے، جس کا کوئی متابع بھی نہیں۔
پھر امام بیہقی نے امام ابن خزیمہ کا بھی قول نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں،
’’بان ھذہ الراویۃ خطأ ان ابن المبارک قال فی حدیثہ عن کھمس فکان ابن بریدۃ یصلی قبل المغرب رکعتین فلو کان ابن بریدۃ قد سمع من ابیہ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ھٰذا الاستثناء الذی زاد حیان بن عبیداﷲ فی الخبر مما خلا صلوٰة المغرب لم یکن یخالف خبر النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ‘‘

(سنن کبریٰ بہیقی، ج ۲، ص ۴۷۴، باب من جعل قبل صلوۃ المغرب رکعتین)

(یعنی )
یہ روایت غلط ہے ، عبداللہ بن مبارک رحمہ نے اپنی حدیث (کی سند ) میں ’’ عن کھمس ‘‘ فرمایا ،پس ابن بریدہ تو مغرب سے قبل دو رکعت پڑھتے تھے، چنانچہ اگر ابن بریدہ نے اپنے والد سے سنا ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ استثناء مروی ہے، جو حیان بن عبیداللہ نے اپنی روایت میں زیادہ کیا ہے کہ ’’سوائے مغرب کی نمازکے‘‘ ،تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت کے مخالف عمل نہیں کرتے۔
(جواب اعتراض ثانی) اس کا جواب علامہ علاء الدین رحمہ نے دیا ہے، جو درج ذیل ہے،
’’وقال علاء الدین الماردینی فی الجوھر النقی ’’ قلت اخرج البزار ھذا الحدیث (ای حدیث حیان بن عبیداﷲ البصری) ثم قال حیان رجل من اھل البصرۃ مشہور لیس بہ بأس وقال فیہ ابو حاتم صدوق و ذکرہ ابن حبان فی الثقات من اتباع التابعین و اخرج لہ الحاکم فی ابواب الزنا حدیثا و صحح اسنادہ فھذہ زیادۃ من ثقۃ فیحمل علی ان لابن بریدۃ فیہ سندین سمعہ من ابن
مغفل تلک الزیادۃ و سمعہ من ابیہ بالزیادۃ‘‘
(فی ذیل سنن کبریٰ بہیقی، ج۲، ص ۵۷۵، ۵۷۶)

(ترجمہ)
علامہ علاء الدین الماردینی نے ’’الجوھر النقی‘‘ میں فرمایا کہ ’’ میں کہتا ہوں کہ بزار نے اس حدیث کی تخریج کی ہے (یعنی حیان بن عبیداللہ البصری والی حدیث کی)، پھر فرمایا کہ حیان بصرہ کا مشہور آدمی ہے، اس سے حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں،ابو حاتم نے حیّان بن عبیداللہ البصری کے بارے میں فرمایا کہ وہ صَدوق ہیں، ابن حبان رحمہ اللہ نے ان کوتابعین کی اتباع کرتے ہوئے ثقہ رُوات میں ذکر کیا ہے ، اور امام حاکم نے بھی ابواب زنا میں ان کی ایک حدیث درج کی ہے، اور اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا یہ اضافہ ایک ثقہ روای کی طرف سے ہے، چنانچہ اس بات کو اس پر محمول کیا جائے گا،کہ ابن بریدہ کی اس روایت کی دو سندیں ہیں، ایک یہ کہ انہوں نے ابن مغفل سے اس اضافہ کیساتھ اس حدیث کو سنا، اور ایک یہ کہ انہوں نے اپنے والد سے اس حدیث کو بغیر اضافہ اور استثناء کے سنا۔
(جواب ثانی للشوفع و الحنابلۃ)
بعض علماء نے فرمایا کہ ’’بین کل اذانین صلٰوة‘ یہ حکم تغلیباً ہے، للاکثر حکم الکل کے طور پر،یعنی باقی سب فرض نمازوں سے قبل سنتیں ہیں، تو اکثر نمازوں کا جو حکم ہے ،اُس حکم کو سب کا حکم شمار کر کے کہہ دیا گیا ہے، حاصل یہ ہے کہ ’’بین کل اذانین صلٰوة‘ یہ اکثر نمازوں کا حکم ہے، (تمام کا نہیں ہے)جسے تمام نمازوں کے حکم کے طور پر بیان کیا گیا ہے،
جیسا کہ ’’بین کل اذانین صلٰوة‘ (ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے) یہاں دو اذانوں سے مراد ایک تو اذان ہے اور دوسری اقامت ہے،لیکن تغلیباً ’’اذانین‘‘ فرمایا گیا، جیسا کہ کہا جاتا ہے شمسین، قمرین وغیرہ،
گویا اس حدیث میں دو تغلیبیں ہیں، ایک من حیث اللفظ و التعبیر اور دوسری من حیث الحکم۔

(احناف کی دوسری دلیل)
عن طاؤس قال سئل ابن عمر عن الرکعتین قبل المغرب فقال ما رأیت احداً علیٰ عھد رسول اﷲ صلی علیہ وسلم یصلیھا۔
(ابو داؤد،ج۱،ص ۱۸۲، باب الصلوةقبل المغرب ، سنن کبریٰ بہیقی ج۲، ص ۴۷۴،۴۷۵، باب من جعل قبل صلوۃ المغرب رکعتین)

(ترجمہ)
طاؤس سے مروی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مغرب سے پہلی کی دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی کو ان دو رکعتوں کو پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
(فائدہ جلیلہ)
جن علماء نے رکعتین قبل المغرب کو مستثنیٰ کہا ہے، وہ اس روایت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ عدمِ رویت عدم وجود کو مستلزم نہیں ، یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مغرب سے قبل کسی کو دورکعت پڑھتے ہوئے نہ دیکھنا، ان دو رکعت کے نہ ہونے کو لازم نہیں، نیز قاعدہ ہے کہ مثبت نافی سے اَولیٰ ہوتا ہے (کما فی الکوکب)
لیکن شیخ ابن الہمام رحمہ اللہ اس قاعدہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے ، چنانچہ جس مقام پر نفی ’’ من جنس مایعرف بدلیلہ‘‘ (یعنی ایسی نفی ہو جو دلیل سے جانی جاتی )ہو، وہاں وہ نفی اثبات کے مساوی ہوتی ہے، اس لئے کہ اثبات کو نفی پر ترجیح اس لئے ہے کہ مثبت کے پاس زیادہ علم ہوتا ہے، بخلاف نفی کے، کہ نفی کبھی صرف ظاہرِ حال کو دیکھ کر بغیر دلیل کے بھی کر دی جاتی ہے، لیکن جو نفی ’’ من جنس مایعرف بدلیلہ‘‘ کے قبیل سے ہو ، وہ صرف ظاہرحال کے اعتبار سے نہیں ہوتی، وہاں نفی کرنے والے کے پاس دلیل بھی ہوتی ہے،
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ بات کہ ’’میں نے کسی کو رکعتین پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘، گویا وہ اپنا مشاہدہ بیان کر رہے ہیں، لہٰذا یہ بلا دلیل کے نہیں ہے،تو پتا چلا کہ یہ نفی اثبات کے مساوی والی نفی ہے۔
لیکن یہ ذہن میں رہے کہ شیخ ابن الہمام رحمہ اللہ کا مقصداس وضاحت سے صرف قاعدۂ اصولیہ پر متنبہ کرنا ہے، کیونکہ وہ ان دو رکعت کی اباحت کے قائل ہیں۔
(احناف کی تیسری دلیل)
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ
’ قال لم یصل ابو بکر ولا عمر ولا عثمان رضی اﷲ عنھم قبل المغرب رکعتین‘‘
(بہیقی ج۲، ص۴۷۶، باب من جعل قبل صلوةالمغرب رکعتین)

(یعنی)
وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمراور عثمان رضی اﷲ تعالیٰ نے مغرب سے قبل کی دو رکعت نہیں پڑھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جزاک اللہ بھائی جان
عبد اﷲ المزنی عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال:’’صلوا قبل صلوةالمغرب‘‘قال فی الثالثة:’’لمن شاء‘‘ کراھیة ان یتخذھا الناس سنة۔
احسنت یااخی
 
Top