کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
ریمنڈ ڈیوس کیس کی پس پردہ کہانی سامنے آ گئی
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) انکشاف ہواہے کہ مزنگ کے علاقے میں پاکستانی شہریوں کو قتل کرنیوالے امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان سے فرار کرایاگیاہے جس کے پکڑے جانے کے بعد آئی ایس آئی نے لیون پنیٹا سے رابطہ کیا اور شام سے پہلے رہائی دلانے کاعندیہ دیا اور امریکہ و پاکستانی اہلکاروں نے امریکی حکام سے بھی غلط بیانی کی تھی ۔ یہ انکشاف کالم نگار جاوید چودھری نے اپنے تازہ کالم میں کیا ہے ۔
جاوید چودھری نے اپنے کالم میں دعویٰ کیاہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ملک سے فرار کرایا گیا. ان کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کے پکڑے جانے کے بعد جنرل پاشا نے فوری طور پر لیون پنیٹا سے رابطہ کیا اور ان سے کہا "لیون اگر یہ آپ کا بندہ ہے تو آپ مجھے اسی وقت بتا دو، میں اسے شام سے پہلے چھوڑ دوں گا " لیون پنیٹا نے جواب دیا " نہیں یہ ہمارا بندہ نہیں، یہ حقیقتاً ڈپلومیٹ ہے" جنرل پاشا مطمئن ہوگئے لیکن لیون پنیٹا کا دعویٰ غلط نکلا، ریمنڈ ڈیوس بعد ازاں سی آئی اے کا کانٹریکٹر ثابت ہو گیا، ان لوگوں نے صدر اوبامہ سے بھی غلط بیانی کی تھی، صدر اوبامہ نے اس غلط بیانی کی بنیاد پر 15 فروری 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس کو ڈپلومیٹ ڈکلیئر کر دیا اور اس غلط بیانی نے آنے والے دنوں میں امریکا کو اچھا خاصا نقصان پہنچایا، حکومت، فوج اور آئی ایس آئی نے ریمنڈڈیوس کو ملک میں رکھنے اور ٹرائل کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن معاملہ بہت الجھ گیا اور امریکا اور پاکستان کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے،
15 فروری 2011ء کو سنیٹر جان کیری پاکستان آئے، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جان کیری کو روکنے کی کوشش کی، جنرل کیانی نے جان کیری کو فون کیا اور ان سے کہا "آپ پاکستان نہ آئیں، آپ ہمارے دوست ہیں، ہمیں انکار کرتے ہوئے شرمندگی ہوگی، ہم ریمنڈ ڈیوس آپ کے حوالے نہیں کرسکیں گے" لیکن جان کیری اس کے باوجود پاکستان آ گئے، یہ پہلے لاہور گئے، میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور یہ پھر اسلام آباد آئے، شاہ محمود قریشی سے رابطہ کیا، قریشی صاحب اس وقت تک کابینہ سے الگ ہو چکے تھے یوں یہ معاملہ مزید خراب ہو گیا، یہ خرابی مارچ کے پہلے ہفتے تک چلتی رہی، مارچ کے شروع میں حکومت اچانک نرم پڑ گئی، صدر آصف علی زرداری نے ایوان صدر میں اعلیٰ سطحی میٹنگ بلوائی، میٹنگ میں صدر، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل پاشا اور وزیر داخلہ رحمن ملک شریک تھے،
جنرل کیانی اور جنرل پاشا جب بھی اس قسم کی میٹنگ میں جاتے تھے تو یہ پوری میٹنگ میں خاموش بیٹھے رہتے تھے، یہ دونوں اس بار بھی فیصلہ کر کے گئے تھے ہم کسی صورت منہ سے ایک لفظ نہیں نکالیں گے، میٹنگ شروع ہوئی تو صدر نے اعلان کیا "ریمنڈ ڈیوس پاکستان اور امریکا کے تعلقات سے بڑا نہیں، ہم نے اس بلا سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا ہے" وہ اس کے بعد جنرل کیانی سے مخاطب ہوئے "آپ جنرل پاشا سے کہیں یہ ہماری اس معاملے میں مدد کریں" جنرل کیانی نے جنرل پاشا کی طرف دیکھا اور دونوں خاموش رہے، رحمن ملک نے ہاتھ اٹھایا اور کہا "جناب صدر آپ یہ ٹاسک مجھے دے سکتے ہیں" صدر نے فوراً جواب دیا "رحمن نہیں، یہ تمہارے بس کی بات نہیں یہ کام جنرل پاشا کو کرنے دو" صدر نے دوبارہ جنرل کیانی نے جنرل پاشا کی طرف دیکھا اور انہیں بولنے کا اشارہ کر دیا، جنرل پاشا نے کہا "سر ہمارے پاس اس کا یک حل موجود ہے مگر مسئلہ حل نہیں، اس حل کی اونر شپ ہے" جنرل پاشا کا کہنا تھا "ریمنڈ ڈیوس جب رہا ہو گا تو ملک میں کہرام برپا ہو جائے گا، اس وقت بدنامی کا یہ ڈھول کس کے گلے میں پڑے گا، یہ اہم ہے" صدر نے فوراً جواب دیا "حکومت ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے اگلے دن پریس ریلیز جاری کرے گی اور ہم اس پریس ریلیز کے ذریعے یہ ذمہ داری اٹھالیں گے، آپ یہ فکر نہ کریں، آپ بس کام کریں" میٹنگ میں فیصلہ ہوا لواحقین کو خون بہا دے کر راضی کیا جائے گا، یہ ملزم کو معاف کر دیں گے، میٹنگ میں فیصلہ ہوا جنرل پاشا تمام بڑے سیاسی لیڈروں سے ملیں گے اور یہ انہیں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے قائل کریں گے، یہ بھی فیصلہ ہوا جنرل پاشا چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بھی مدد کیلئے تیار کریں گے، جنرل پاشا نے تینوں ذمہ داریاں اٹھالیں۔
جنرل احمد شجاع پاشا نے اس کے بعد تمام بڑے سیاسی لیڈروں سے ملاقات کی، تمام لیڈروں کا خیال تھا "ہمیں ریمنڈ ڈیوس کے بھوت سے جلد از جلد جان چھڑا لینی چاہیے" وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جنرل پاشا کے سامنے اس خطرے کا اظہار بھی کیا "ریمنڈ ڈیوس کی جان کو خطرہ ہے، ہمیں اندیشہ ہے سرکاری گارڈز اسے قتل کر دیں گے" یہ خدشہ درست تھا کیونکہ ریمنڈ ڈیوس کے سرکاری محافظ وردی پر ایک مذہبی جماعت کے بیجز لگاتے تھے، ان لوگوں نے جج کے حکم کے باوجود یہ بیجز اتارنے سے انکار کر دیا تھا۔
جنرل پاشا کے ادارے نے لواحقین کو خون بہا لینے پر تیار کر لیا، ادارے کے لوگ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے بھی ملے، چودھری صاحب نے بھی "کوآپریٹ" کرنے کا وعدہ کر لیا، ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا دن طے ہو گیا، ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے قبل میاں نواز شریف طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے جبکہ میاں شہباز شریف بڑے میاں صاحب کی عیادت کیلئے اچانک بیرون ملک روانہ ہو گئے،
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خفیہ فنڈ سے جنرل پاشا کو خون بہا کی رقم ٹرانسفر کی، جنرل پاشا نے لواحقین کو ادا کری، 16 مارچ کے دن امریکی سفیر کیمرون منٹر خصوصی طیارہ لے کر لاہور چلے گئے، جنرل پاشا اس وقت اسلام آباد میں تھے، کیمرون منٹر لاہور سے مسلسل جنرل پاشا کے ساتھ رابطے میں تھے، ریمنڈ ڈیوس کو عدالت میں پیش کیا گیا، جج صاحب کو چیف جسٹس کا پیغام مل چکا تھا، لواحقین نے ریمنڈ ڈیوس کو معاف کر دیا،
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا آرڈر جاری ہوا، یہ خصوصی گاڑی میں بیٹھا، ایئرپورٹ پہنچا اور جہاز اسے لے کر بگرام روانہ ہو گیا، ریمنڈ ڈیوس کے روانہ ہوتے ہی یہ خبر پنجاب حکومت کے ذرائع سے میڈیا کو لیک ہو گئی، میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا، جنرل پاشا اگلے دن صدر آصف علی زرداری سے ملے، ان کو وعدہ یاد دلایا اور ان سے درخواست کی "آپ پریس ریلیز جاری کر کے صورتحال کلیئر کر دیں" صدر نے ہنس کر جواب دیا "جنرل صاحب چھوڑئیے رات گئی بات گئی، یہ معاملہ پنجاب حکومت کے گلے پڑ رہا ہے تو ہمیں بے عزتی کرانے کی کیا ضرورت ہے، یہ بھگت رہے ہیں، انہیں بھگتنے دیں" جنرل پاشا نے بڑے عرصے بعد اپنے ایک ساتھی کو یہ واقعہ سنایا اور اس نے کہا "لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں، آپ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیوں نہیں کرتے، میں ان لوگوں کو کیسے بتاﺅں، میں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ان کا احترام کیسے کروں؟"۔
(نوٹ : یہ معلومات روزنامہ ایکسپریس میں اشاعت شدہ جاوید چودھری کے کالم سے لی گئی ہیں )
19 اپریل 2014 (13:56)