کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
ریپ کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ بطور بنیادی شہادت قبول نہیں
ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ ملزمات تک پہنچنے کا اہم طریقہ ہو سکتا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت کے طور پر قبول کرنے اور توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کو سزائے موت دینے کی تجاویز کو رد کر دیا ہے۔
سرکاری خبررساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے ایک پریس کانفرنس میں کونسل کے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ٹسیٹ کو واحد اور بنیادی ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔
پریس کانفرنس میں جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے ڈی این اے ٹیسٹ کو اضافی شواہد پر پیش کرنے کی اہمیت کا اعترات کیا لیکن یہ واحد اور بنیادی ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ عدالت میں ڈی این اے ٹیسٹ کو معاون یا اضافی شواہد کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے لیکن صرف اس کی بنیاد پر کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے مزید کہا کہ کونسل نے خواتین کے حقوق کے بارے میں وومن پروٹیکشن ایکٹ آف دو ہزار چھ کو بھی رد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اسلامی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ حدود آرڈننس میں ان تمام جرائم کا احاطے کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسلام میں جنسی زیادتی کے مقدمات سے نمٹنے کے تمام طریقے موجود ہیں۔
قبل ازیں کونسل کا اجلاس ریپ کے مقدمات میں ڈّی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت کے طور پر قبول کرنے اور توہین رسالت کی جھوٹی گواہی دینے پر سزائے موت دینے کی تجاویز پر غور کرنے کے لیے منعقد ہوا۔
مولانا شیرانی نے کہا کہ توہین رسالت کے موجودہ قوانین میں ترمیم نہیں کی جانی چاہیےاور پاکستان کے ضابطہ فوجداری میں ایسی دفاعات موجود ہیں جو جھوٹا الزام لگانے یا جھوٹی گواہی دینے کا احاطہ کرتی ہیں۔
بی بی سی: پير 23 ستمبر 2013