السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا اگر کوئی انسان تُتلاتا ہے وہ آذان دے سکتا ہے؟؟؟
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
مؤذن بلند اور خوبصورت آواز والا ہونا چاہیئے ، تاکہ اس کے الفاظ سمجھ آئیں ،اور جس تک اذان کی آواز پہنچے وہ توجہ سے سنے ،
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے :
خُلُوُّ الأْذَانِ مِنَ اللَّحْنِ:
21 - اللَّحْنُ الَّذِي يُغَيِّرُ الْمَعْنَى فِي الأْذَانِ كَمَدِّ هَمْزَةِ اللَّهُ أَكْبَرُ أَوْ بَائِهِ يُبْطِل الأْذَانَ، فَإِنْ لَمْ يُغَيِّرِ الْمَعْنَى فَهُوَ مَكْرُوهٌ وَهَذَا عِنْدَ الْجُمْهُورِ،
اذان لحن سے خالی ہونی چاہیئے ، یعنی الفاظ کی ادائیگی میں ایسی غلطی
جس سے معنی تبدیل ہوجائے ، جیسے ( اللہ اکبر ) کے ھمزہ یا باء کو مد کے ساتھ پڑھنا ،اذان کو باطل کردیتا ہے کیونکہ اس طرح معنی تبدیل ہوجاتا ہے ، اور اگر معنی میں تبدیلی نہ ہو تو پھر بھی ایسا لحن جمہور کے نزدیک مکروہ ہے ،
(۲) ويستحب أن يكون صيتا، أي حسن الصوت، لقول النبي صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن زيد: فقم مع بلال، فألق عليه ما رأيت، فإنه أندى صوتا منك ولأنه أبلغ في الإعلام، هذا مع كراهة التمطيط والتطريب؛
مؤذن کا بلند اور خوبصورت صاف آواز والا ہونا مستحب ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اذان کی ابتداء میں جب عبد اللہ بن زید نے اذان کے متعلق اپنا خواب سنایا تھا ، آپ نے ان کا خواب سن کر ان کو حکم دیا
” تم بلال کے ساتھ اٹھ کر جاؤ اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں وہ انہیں بتاتے جاؤ تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند اور خوبصورت ہے ‘‘موسوعۃ الفقہیۃ جلد دوم
اور
ومعنى: (أندى) أي أرفع وأعلى وأبعد، وقيل أحسن وأعذب ‘‘
النهاية(5/32). ولسان العرب(14/97)اس حدیث میں (اَندی ) کا لفظ ہے جس کے معنی آواز کا بلند اور خوبصورت ہونا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توتلا ، لکنت والا اذان تودے سکتا ہے اگر اذان کے الفاظ میں بگاڑ پیدا نہ ہو ، اور معانی میں تغیر نہ ہو ، لیکن مستحب یہ ہے کہ بلند اور صاف آواز مؤذن مقرر کیا جائے ،کیونکہ لوگوں تک مؤذن کی آواز ہی جاتی ہے جسے سن کر انہوں نے اللہ تعالی کے گھر میں آنا ہوتا ہے ،
اور آخر میں گذارش ہے کہ : لفظ (اذان ) ہے ، (آذان ) نہیں ۔۔