• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زبان کی ابانت میں غامدی صاحب کا کلام اور اسکا تنقیدی جائزہ

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اصول غامدی:۔

غامدی صاحب نے عربی لغت سے متعلق جواپنا نظریہ پیش کیا ہے اس پر ہم گفتگو کر چکے ہیں۔اس کے بعد غامدی صاحب نے زبان کی ابانت کا باب باندھا ہے۔جس میں وہ عربی زبان سے متعلق رقمطراز ہیں:زبان کے لحاظ سے اس کی کوئی چیز اپنے اندر کسی نوعیت کی غرابت نہیں رکھتی ۔ (اصول و مبادی میزان ص۱۸)
جواب:۔

جب انسان کے اصول و مبادی خود ساختہ ہوتے ہیںتو اس میں مختلف جگہوں پر آپس میں تضاد ہوتا ہے۔اور اس کی چند مثالیں ہم نے گذشتہ صفحات پر ذکر کی ہیں۔یہاں پر بھی معاملہ کچھ اسی طرح سے ہے۔غامدی صاحب یہاں پر لغت قرآن میںغرابت کا انکار کر رہے ہیں ۔(یعنی قرآن میں کوئی چیز غریب نہیں)جبکہ گذشتہ صفحہ پر اپنے مؤقف کی تائید میں انہوں نے عبداللہ بن عباسؓ کا ایک قول پیش کیا ہے۔جس میں وہ فرماتے ہیں :
''اذاسألتم عن شئی من غریب القرآن فلتمسو ہ فی الشعر فان الشعر دیوان العرب''۔
تم قرآن میں اپنے لئے کسی اجنبی (غریب)لفظ یا اسلوب کو سمجھنا چاہوتو اس کو جاہلی اشعار میں تلاش کرو اس لئے کہ یہی شاعری درحقیقت اہل عرب کا دیوان ہے۔(اصول و مبادی میزان ص۱۷)
یہ وہ ترجمہ ہے جو غامدی صاحب نے اس عربی عبارت کا بیان کیا ہے۔میں غامدی صاحب سے پوچھتا ہوںکہ لفظ (اپنے لئے)کس عبارت کا ترجمہ ہے؟اسی طرح( یہی شاعری درحقیقت )کس لفظ کا ترجمہ ہے؟یہاں لفظ (اِنّ) استعمال ہوا جوتاکید کے لئے ہوتا ہے جس کا ترجمہ یقینا یا بلا شبہ وغیرہ کیا جاتا ہے۔لیکن غامدی صاحب کا لفظ (اِنّ) کا ترجمہ یہی شاعری کرنا بالکل غلط ہے اور خیانت ہے۔کیونکہ لفظ ''یہی ''حصر کیلیے استعمال ہوتا ہے جو عربی زبان میں اِنَّماَلفظ میں ہوتا ہے۔نہ کہ لفظ اِنَّ میں ۔
اس قول کو غامدی صاحب نے اپنی دلیل کے طورپرپیش کیا ہے۔اور اس میںلفظ غریب استعمال ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ غا مدی صاحب غرابتِ قرآن کو ثابت کر رہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف اسکا انکار کررہے ہیںجب غامدی صاحب خود ہی اپنے کسی مئوقف پر متفق نہیںتو لوگوں میں کس طرح اتفاق اور اتحاد پیدا کر سکتے ہیں۔جس کی امت کو اس وقت اہم ضرورت ہے۔
اصول غامدی:۔
مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:چناچہ اس کے ترجمہ و تفسیر میں ہر جگہ اس الفاظ کے معروف معنی ہی پیش نظر رہنے چاہئے۔ان سے ہٹ کر اس کی کوئی تاویل قبول نہیں کی جا سکتی۔
(والنجم والشجر یسجدان:الرحمان۵۵)میں النجم کے معنی ستاروں ہی کے ہو سکتے ہیں ''الا اذا تمنیٰ'' (الحج:۲۲۔۵۲)میں الفاظ تمنیٰ کا مفہوم خواہش اور ارمان ہی ہے۔ (اصول ومبادی میزان:۱۸،۱۹)
جواب:۔
غامدی صاحب عربی زبان جوکہ قرآن وسنّت کی زبان ہے کی فصاحت و بلا غت اور اس کی وسعت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔عربی ایک وسیع زبان ہے جس میں ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں باقاعدہ اس موضوع پر ادب و لغت کی مشہور کتاب ''اتفاق المبانی وافتراق المعانی''کے نام سے لکھی گئی ہے۔جس کے مصنّف ''ابوربیع سلیمان بن بنین'' ہیں۔ جنہوں نے اپنی اس کتاب میں اس موضوع سے متعلق باب باندھا ہے''ما اتفق لفظہ واختلف معناہ ''کے نام سے یعنی ایک لفظ کے مختلف معانی(دیکھے مذکورہ کتاب ص۱۰۵)اس باب میں مصنف نے لفظ (عین )کو مثال کے طور پر پیش کیا عین کے معنی آنکھ کے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں( ''وابیضّت عینٰہ''سورۃ یوسف۱۲،آیت ۸۴)اور انکی (یعقوب علیہ السلام کی)آنکھیں سفید ہو گئیں اور عین کے معنی پانی کے چشمے کے بھی ہوتے ہی جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں (''عینا یشرب بھاعباداللہ'' (الدھر۷۶،۵)یہ ایک چشمہ ہے اس سے پیئں گے اللہ کے بندے۔
لہٰذا غامدی صاحب کا یہ کہناکہ نجم کے معنی تاروں اور تمنّیٰ کے معنی خواہش کے ہی ہوں گے جہالت پر مبنی ہے وگرنہ ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ مذکو رہ دونوں آیتوں میں لفظ عین استعمال ہوا ہے کیا غامدی صاحب کا یہاں بھی یہی خیال ہے جو لفظ نجم اور تمنّیٰ کے بارے میں ہے؟
صاحب کشاف زمحشری اپنی تفسیر میںلکھتے ہیں کہ النجم والشجر میںنجم کے معنی بوٹی کے بیان کیے ہیں(دیکھے تفسیر الکشاف ج۴،ص۴۴۲)
یہ ان کی تفسیر ہے جنہیں غامدی صاحب خود لغت کے بہت بڑے امام مانتے ہیں۔اور یہ تفسیر اکثر مفسّرین کی ہے جیسا کہ ،قرطبی،ابن کثیر،بغوی وغیرہ۔
اسی طرح لغت کی مشھور کتاب(لسان العرب) میں ابن منظورنے جو کہ لغت کے بہت بڑے عالم ہیں اور اسی کتاب کے مصنف ہیں یہاں النجم کے معنی یہی بیان کرتے ہیں (دیکھئے لسان العرب ج۱۴،ص۱۵۹)
اور سورۃ الحج کہ آیت نمبر۵۲لفظ'' تمنّیٰ ''تلاوت کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے نہ کہ خواہش یا ارمان کے۔جیسا کہ امام لغت زمحشری اپنی تفسیر کشّاف میں ذکر کرتے ہیں (قیل تمنّیٰ ،قرأ)یعنی تمنّیٰ کے معنی قرأت کرنے اور تلاوت کرنے کے ہیں اور شاھد کے طور پر یہ شعر بھی پیش کیا :
''تمنّیٰ کتاب اللہ اوّل لیلۃ''
''تمنّیٰ داؤدالزبور علی رسل''
(تفسیر الکشاف ج۳،ص۱۶۷)
اور ٹھیک اسی طرح لسان العرب میں مذکور ہے کہ
''تمنیٰ الکتاب قرأہ وکتبہ وفی التنزیل ''الا اذا تمنیٰ القی الشیطان فی امنیتہ ''ای قرأ وتلا ۔۔۔۔وقال فی مرثیۃ عثمان ؓ ''تمنیٰ کتاب اللہ اول لیلۃ''
''وآخرہ لاقی حمام المقادر ''
(دیکھئے لسان العرب جلد ۱۳ صفحہ ۲۰۳ تا ۲۰۴اور النھایہ فی غریب الحدیث جلد ۴ صفحہ ۳۱۲)
لیکن حیرت ہے غامدی صاحب پر کہ اشعار و کلام عرب کو زبان کی تحقیق میں سندوحجت اور قرآن کے بعد سب سے زیادہ معتمد مانتے ہیں او پھر اسی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔
لفظ تمنّیٰ کے معنی ہم نے اشعار و کلام ِ عرب سے واضح کر دئیے ہیں کہ غامدی صاحب جس کا انکار کر رہے ہیںاس سے ان کے خود ساختہ اصول کا رد ہو رہا ہے۔ کسی نے صحیح کہا تھا'' کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے یا یوں کہہ لیں کہ اسی کی لاٹھی اسی کے سر ''
غامدی صاحب نے آگے دوتین لفظوں کی مزیدمثال پیش کی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں جو گفتگوہم نے ان دو لفظوں (تمنّیٰ النجم) پر کی ہے کافی و شافی ہے جس سے حقیقت بالکل واضح ہو گئی ہے اور غامدی صاحب کی خیانتوں کا انکشاف بھی ہوگیا ہے۔
 
Top