slave of Allah
مبتدی
- شمولیت
- مارچ 03، 2023
- پیغامات
- 12
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 12
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
﴿كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ﴾
[البقرة: 213]
’’لوگ ایک ہی امت تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے انبیاؑء کو خوشخبری سنانے اور ڈرانے والا بناکر بھیجااوران کے ساتھ کتاب حق نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کردیں۔جن کو کتاب دی گئی تھی انہوں نے واضح دلائل آجانے کے بعد بھی ، آپس میں ضد کی وجہ سے باہم اختلاف کیا ،لہذا اﷲ نے ایمان والوں کوان کے اختلافی معاملات میں اپنے اذن سے حق کے مطابق ہدایت عطا فرمادی اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتاہے۔‘‘
یہی معاملہ نبی ﷺ کی امت کیساتھ بھی ہوا اور آپس کے اختلاف کیوجہ سے فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ مندجہ بالا آیت میں یہی بات بیان فرمائی کہ اللہ اپنے مخلص بندوں کو ایسے اختلافی معاملات میں ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے۔ یہ ہدایت انہیں اللہ کے نازل کردہ ہی سے ملتی ہے ۔ فرقہ بندی کے حوالے سے قرآن مجید میں جابجا سمجھایا گیا ، ان میں سے چند آیات پیش کی جا رہی ہیں۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۔ ۔ ۔ ﴾
[آل عمران: 102-103]
” اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ، اور نہ تمہیں موت نہ آئے مگر یہ کہ تم مسلم ہو ۔اور تم سب اللہ کی رسی (کتاب اللہ ) کو مضبوطی سے تھا م لو اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ ۔”
مزید فرمایا:
﴿مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ﴾
[الروم: 31-32]
” اللہ کی طرف رجوع کرتے رہو اور اسی سے ڈرو اور صلوٰۃ قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جانا۔ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین میں فرقے بنالئے اور گروہوں میں بٹ گئے ، ہر گروہ ااسی چیز میں مگن ہے جو اس کے پاس ہے۔”
اللہ تعالی نے ان آیات میں حکم فرمایا ہے کہ تم اللہ کی رسی یعنی قرآن مجید ( اور اس کی تفسیر و تشریح احادیث نبوی ﷺ ) کو پکڑ لو اور فرقہ فرقہ نہ ہو جاو، سورہ الروم میں میں بتایا گیا کہ یہ مشرکانہ فعل ہے، تم اس عمل کو نہ اپنا لینا۔ فرقہ کے معنی گروہ کے ہیں۔ یہ لفظ “فرق” سے مشتق ہے، جس کے معنی الگ کرنا/جدا ہونا ہے۔ دوسرے الفاظ میں فرقہ کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ’’ مسلم جماعت‘‘ سے نکلا ہوا ایک گروہ ہوتا ہے جو اپنے الگ خیالات و نظریات کی وجہ سے الگ جانا جاتا ہے۔ نبیﷺ کی مندرجہ زیل حدیث اس بات کی وضاحت کردیتی ہے :
حدثنا يحيی بن موسیٰ حدثنا الوليد قال حدثني ابن جابر قال حدثني بسر بن عبيد الله الحضرمي قال حدثني أبو إدريس الخولاني أنه سمع حذيفة بن اليمان يقول کان الناس يسألون رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) عن الخير وکنت أسأله عن الشر مخافة أن يدرکني فقلت يا رسول الله إنا کنا في جاهلية وشر فجائنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير من شر قال نعم قلت وهل بعد ذلک الشر من خير قال نعم وفيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنکر قلت فهل بعد ذلک الخير من شر قال نعم دعاة إلی أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها قلت يا رسول الله صفهم لنا فقال هم من جلدتنا ويتکلمون بألسنتنا قلت فما تأمرني إن أدرکني ذلک قال تلزم جماعة المسلمين وإمامهم قلت فإن لم يکن لهم جماعة ولا إمام قال فاعتزل تلک الفرق کلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتی يدرکک الموت وأنت علی ذلک
( بخاری ۔ کتاب الفتن ، باب الامر اذالم تکن جماعۃ )
’’یحییٰ ولید ابن جابر بسر ابوادریس سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ ؓ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہﷺ سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنہ میں مبتلا نہ ہوجاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے ؟ فرمایا ہاں ! میں نے عرض کیا اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہوگی ؟ فرمایا ہاں ! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہوگی ؟ فرمایا کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کر کے اور لوگوں کو میری راہ کے خلاف راہ بتائیں گے تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی ہیں۔ عرض کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہوگی ؟ فرمایا ہاں ! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کوجہنم میں دھکیل دیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے فرمایا وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔ میں نے عرض کیا اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا :مسلمین کی جماعت کو لازم پکڑو اور ان کے امام کی اطاعت کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمین کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو۔ (تو کیا کروں) فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہوجا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ کھانی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آجائے۔
اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ مسلمین کی جماعت ہی اصل جماعت ہے اس سے اختلاف، اس دوری و علیحدگی ایک دوسرا گروہ اورفرقہ ہے۔یاد رہے کہ مسلمین کی جماعت اس جماعت کی صفت ہے نام نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر مسلمین کی جماعت یا اس کا امام نہ ہو تو کسی بھی فرقے سے وابستہ نہ ہونا گرچہ تمہیں کھانے کو کچھ نہ ملے اور تمہیں درخت کی جڑیں کھانی پڑیں لیکن کسی فرقے سے تعلق نہ رکھنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مسلمین کی جماعت کے علاوہ کسی اور فرقے یا گروہ سے تعلق رکھنا بدترین عمل ہے۔
اللہ تعالیٰ نےہمارا نام ’’ المسلمین ‘‘رکھا ہے جس کا واحد ‘‘ مسلم ‘‘ ہوتا ہے۔
﴿ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا ﴾
[الحج: 78]
” اس (اللہ تعالیٰ ) نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے ، اس سے پہلے اورا س ( قرآن) میں بھی ۔”
مزید فرمایا:
﴿ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾
[آل عمران: 102]
’’ اور تمہیں موت نہ آئے کہ تم مسلم ہو ‘‘۔
نبی ﷺ بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کو مسلم ہی کہا کرتے تھے:
حدثنا محمد بن المثنی قال حدثنا يحيی قال حدثنا إسماعيل قال حدثنا قيس عن جرير بن عبد الله قال بايعت رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) علی إقام الصلاة وإيتائ الزکاة والنصح لکل مسلم
( بخاری ، کتان الایمان، بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الدِّينُ النَّصِيحَةُ: لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ المُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ ” )
’’جریر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے صلاۃ ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے اور ہر مسلم کی خیرخواہی کرنے پر بیعت کی تھی۔‘‘
معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے والوں کا ایک نام و پہچان ہے جو کہ ’’ مسلم ‘‘ ہے۔ اس سے فرق کردینے والا یعنی اللہ کے دئیے ہوئے نام ’’ مسلم ‘‘ سے فرق کردینے اور اپنی پہچان اس سے ہٹ کر حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، سلفی و دیگر بنانے والا ’’ فرقہ ‘‘ ہے اس لئے کہ اس نے اللہ کی دئیے ہوئے نام و پہچان سے ہٹ کر دین میں اپنی علیحدہ شناخت بنالی۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے :
۔ ۔ ۔ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ٣٢﴾ [الروم: 31-32]
’’ ۔ ۔ ۔اور مشرکوں میں سے نہ ہو جانا۔ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین میں فرقے بنالئے اور گروہوں میں بٹ گئے ، ہر گروہ ااسی چیز میں مگن ہے جو اس کے پاس ہے۔”
لیکن کوئی بھی فرقہ اپنے آپ کو فرقہ تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس بارے میں بے تکے دلائل پیش کئے جاتے ہیں جنکا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس بارے میں کافی اہلحدیث حضرات سے بھی بات ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ یہ ایک صفاتی نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ صفاتی نام کس نے دیا ہے؟ جواب ملتا ہے کہ محدثین نے اور اس بارے میں ہمیں ایک لنک بھی دیا گیا جس میں ایک اہلحدیث مفتی زبیر علی صاحب نے نجانے کتنے اقوال جمع کئے ہیں کہ اہلحدیث ایک صفاتی نام ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ نعرہ لگانے والے کہ ’’ اہلحدیث کے دو اصول قال اللہ و قال الرسول ﷺ ‘‘، قال اللہ و قال الرسول ﷺ سے ایک بھی دلیل نہ پیش کرسکے۔
سوال یہ ہے کہ کیا قیامت کے دن قال اللہ و قال الرسول ﷺ کے علاوہ اقوال الرجال ( انسانوں کے قول ) سے حساب ہوگا؟ کیا محدثین کے قول دین اسلام میں بنیاد سمجھے جاتے ہیں؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے لیکن اہلحدیث کہتے ہیں کہ یہ ہمارا منہج ہے ہم نے قرآن و حدیث کو ان سلف و صالحین سے سیکھا ہے لہذا ہم ہر معاملے میں ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہاں پر یکدم قرآن کی آیت یاد آ جاتی ہے کہ
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ۔ ۔ ﴾
[التوبة: 31]
’’ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کراپنے علماء و مشائخ کو اپنا رب بنا لیا ہے ‘‘۔
﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
[الشورى: 21]
’’ کیا ان کے ایسے بھی ( اللہ کے ) شریک ہیں جن کا بنایا ہوا طریقہ یہ قبول کرلیں، جس کی اللہ نے اجازت نہ دی ہو، اگر اللہ کی طرف سے ( پہلے سے ) یہ بات طے نہ ہوتی تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا ہوتا، اور ایسے مشرکین کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘۔
واضح ہوا کہ اللہ کے بیان کے بعد کسی کی بھی اطاعت مشرکانہ فعل ہے۔اللہ نے ’’ مسلم ‘‘ نام دیا ہے اب ساری دنیا اس کے خلاف کوئی نام دے دے تو اسے قبول کرلینا یقینا شرک فی الاطاعت ہے۔ اس لئے محدثین ہوں یا کوئی بڑے سے بڑا عالم و مفتی اگر اس کی بات قرآن و حدیث سے ہٹ کر ہے تو قابل رد ہے اسے ٹھکرا دیا جائے وہ اسلام نہیں۔
ایک دوسری بات بھی کہی جاتی ہے کہ کیا صفاتی نام رکھنا قرآن و حدیث میں منع ہے ؟
یہ محض بریلوی والا سوال ہے، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں دکھاو ، قبر پر پھول ڈالنا، چادر چڑھانا، ان کا عرس منانا کہاں منع ہے؟ تو اب اپنے آپ کو اہلحدیث کہنے والے حضرات ان کاموں کو جائز قرار دیکر یہ کام کریں گے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ﴾
[الأعراف: 3]
’’تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اور دوستوں کی بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ ‘‘
اسلام اس چیز کا نام نہیں ہے کہ یہ دکھاو اور وہ دکھاو بلکہ اللہ کے نازل کردہ کی پیروی کا نام ہے، اللہ نے نازل کردیا کہ ہم نے تمہا نام ’’ مسلم ‘‘ رکھا اب کسی صفاتی نام کی کیا ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ نے مسلمین کے صفاتی نام بھی بیان کئے ہیں، اس لئے صفاتی نام بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ١٧﴾
[آل عمران: 16-17]
’’جو کہتے ہیں اے ہمارے رب بلاشبہ ہم ایمان لائے سو تو بخش دے ہمیں ہمارے گناہوں کو اور ہمیں بچا آگ کے عذاب سے (یہ لوگ) صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور فرمانبردار اور (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والے ہیں اور بخشش مانگنے والے ہیں رات کے آخری حصہ میں۔ ‘‘
﴿إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾ [الأحزاب: 35]
’’بیشک مسلم مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں تیار کر رکھی ہے اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم ۔‘‘
﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ﴾ [التوبة: 20]
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے وہ زیادہ بڑے ہیں درجے میں اللہ کے ہاں اور وہ لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مسلمین کی یہ صفات بیان کی ہیں اس کے علاوہ اور بھی صفات ملتی ہیں، لیکن کیا صحابہ کرام ؓ اور صحابیات نے اپنے ناموں کیساتھ متقی،مجاہد،مہاجر،اپنی شرم گاہ کی حفاطت کرنے والے، فرمانبردار، سچے، رات کو اٹھنے والے، اللہ کی راہ میں خرچ والے القابات لگائے تھے ؟ کیا ان صفات کو اپنی پہچان بنایا تھا۔ کیا انصار ہجرت کرنے والے مہاجرین کو ’’ مسلم مہاجر ‘‘ یا ’’ مہاجر ‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے؟ کیا ان کی اپنی اپنی مساجد تھیں، اپنے اپنے امیر تھے؟ یہ ساری باتیں محض اپنے باطل عمل کو جھوٹ بنیاد فراہم کرنے کے لئے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ ساری صفات بیان کردیں اور نہیں بیان کی تو ’’ اہلحدیث ‘‘ صفت بیان نہیں کی جسے یہ صفاتی نام کہتے ہیں۔
ایک صاحب فرماتے ہیں کہ ہم نے خود یہ نام نہیں رکھا بلکہ یہ نام تو دوسروں نے ہمیں دیا، نام اچھا تھا ہم نے رکھ لیا۔ افسوس ! کیسی باتیں کرتے ہیں، کوئی انہیں ’’ یہودی ‘‘ کہہے تو یہ اسے اپنا نام رکھ لیں گے ، جبکہ اس نام کے معنیٰ بھی بہت اچھے ہیں یعنی ’’ ہدایت والا ‘‘۔ محترم ! اللہ کے یہاں یہ بہانے نہیں چلیں گے۔ ایمان تو اللہ کے نازل کردہ پر لانا ہے۔
ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ اس میں اہلحدیث کا نام آیا ہے:
عن معاوية بن قرة، عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا فسد أهل الشام فلا خير فيكم، لا تزال طائفة من أمتي منصورين لا يضرهم من خذلهم حتى تقوم الساعة» قال محمد بن إسماعيل: قال علي بن المديني: هم أصحاب الحديث
( ترمذی، ابواب الفتن، باب ما جاء في الشام )
’’رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمیشہ رہے گا ایک گروہ میری امت میں سے حق پر (اللہ کی طرف سے) مدد کئے جائیں گے، نہیں ضرر پہنچا سکے گا ان کو جو ان کی مخالفت کرے گا یہاں تک کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔ محمد بن اسمٰعیل ( بخاری ) نے کہا کہ علی مدینی نے کہا وہ اہلحدیث ہیں۔‘‘
یہ حدیث کئی کتب احادیث میں آئی ہے لیکن ترمذی سے اس حدیث کو کیوں لیا گیا ، محض اس لئے کہ اس میں امام بخاری نے علی مدینی کا قول پیش کیا ہے کہ ’’ وہ اہلحدیث ہیں ‘‘۔ واضح ہوا کہ یہ الفاظ نبی ﷺ کے ہر گز نہیں بلکہ اسے پیش کرکے دھوکہ دیا جاتا ہے کہ حدیث میں الحدیث کا لفظ آیا ہے۔ یہاں ایک بات اور کہ اس بات کا فرق ملاحظہ فرمائے کہ اللہ کے نازل کردہ اور محدث کے بیان میں کیا فرق ہے۔ محدث نے تو کہہ دیا وہ اصحاب الحدیث ہوں گے لیکن نبی ﷺ نے فرمایا:
تلزم جماعة المسلمين وإمامهم قلت فإن لم يکن لهم جماعة ولا إمام قال فاعتزل تلک الفرق کلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتی يدرکک الموت وأنت علی ذلک
( بخاری ۔ کتاب الفتن ، باب الامر اذالم تکن جماعۃ )
’’ مسلمین کی جماعت کو لازم پکڑو اور ان کے امام کی اطاعت کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمین کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو۔ (تو کیا کروں) فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہوجا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ کھانی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آجائے۔
یہ لوگ ایک اوربھی روایت پیش کرتے ہیں
” ابو سعد خدری رضی اللہ عنہ جب حدیث کے جوان طلباء کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے، تمہیں مرحبا ہو، رسول اللہ نے تمہاری بابت ہمیں وصیت فرمائی ہے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم تمہارے لیے اپنی مسجدوں میں کشادگی کریں اور تم کو حدیث سمجھائيں کیونکہ تم ہمارے تابعی جانشین اور اہلحدیث ہو “- (شرف اصحاب الحدیث)
اس طرح کچھ اور روایات بھی ابن ماجہ میں ملتی ہیں لیکن البانی نے بھی انہیں صرف ’’ حسن ‘‘ کہا ہے۔ نیز ذرا اس روایت کے الفاظ پر غور فرمائیے کہ یہ بات کس سے کہی جا رہی ہے : ’’ جب حدیث کے جوان طلباء کو دیکھتے تھے ‘‘ اور کیا کہتے تھے : اور تم کو حدیث سمجھائيں کیونکہ تم ہمارے تابعی جانشین اور اہلحدیث ہو “-
بات بڑی وضح ہے کہ یہاں حدیث کے طلباء کو ان کے فعل کی وجہ سےاہل حدیث کہا گیا ہے، یہ حدیث مسلک اہل حدیث پر کیسے دلالت کرسکتی ہے؟
ایک بات اور بیان کی جاتی ہے کہ صحابہ کرام ؓ کے دور میں تو سارے ہی مسلم تھے اس لئے انہیں کسی اور نام و پہچان کی ضرورت ہی نہیں تھی، ہم نے تو یہ علیحدہ نام اس لئے رکھا ہے کہ قبر پوچنے والا بھی اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے اور تعویذ کرنے والا بھی۔ اب ضرورت تھی کہ لوگ ہمیں جانیں کہ ہم کونسے مسلم ہیں۔
وضاحت :
یہ بھی جھوٹ پر مبنی بات ہے، صحابہ ؓ کے دور میں منافقین بھی تھے، جو ان کیساتھ آکر مسجد میں صلاۃ بھی ادا کیا کرتے تھے اور دوسرے امور میں بھی شامل ہوتے تھے، لیکن صحابہ نے ان سے ممیز ہونے کے لئے نہ کوئی علیحدہ نام رکھا اور نہ پہچان بنائی۔دراصل یہ سب کچھ اہلحدیث فرقے کے مفتیان و علماء کی گھڑی ہوئی ہیں حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
ان کےاس باطل عمل پر اگر کوئی ان سوال کرتا ہے تو اپنے اس کفریہ و شرکیہ عمل کو چھپانے کے لئے کہتے ہیں، آپ کا نام کیا ہے ؟ جب نام بتاو تو کہتے ہیں اللہ نے تو تمہارا نام ’’ مسلم ‘‘ رکھا تھا آپ نے یہ نام کیوں رکھ لیا، یہ تو کفر کردیا آپ نے۔
دراصل یہ حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں لیکن عوام الناس کو بےوقوف بنانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ دیکھیں سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾
[الحجرات: 13]
’’اے انسانو ! حقیقت یہ ہے کہ پیدا کیا ہے ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پھر بنادیا ہے ہم نے تم کو قومیں اور قبیلے تاکہ تم ایک دوسرے سے پہچانے جاؤ۔ بلاشبہ تم میں زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔ بیشک اللہ ہے ہر بات جاننے والا اور پوری طرح باخبر‘‘۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کا تعارف قبائل و قوموں سے رکھا ہے، دینی پہچان علیحدہ ہے اور شخصی پہچان علیحدہ، مزید یہ آیت دیکھیں پڑھیں:
﴿وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾
[البقرة: 132]
’’اور پھر اسی طریقہ کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور (اس کے پوتے) یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی۔ انہوں نے کہا ” اے میرے بیٹو !اللہ نے تمہارے لیے اس دین کی راہ پسند فرما لی ہے تو دیکھو، تمہیں موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم مسلم ہو۔‘‘
اس آیت میں خود اللہ تعالیٰ اپنا دیا ہوا نام ’’ مسلم ‘‘ بیان فرما رہا ہے اور ساتھ ان کا ذاتی نام۔
یعنی ذاتی نام علیحدہ چیز ہے اور دینی نام و پہچان علیحدہ۔ یہ بات بچہ بچہ جانتا ہے لیکن لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے دیکھیں کیسے کیسے کھیل کھیلتے ہیں۔
پھر ایک ڈرامہ اور کیا جاتا ہے کہ ’’ مسلم ‘‘ کے معنی ’’فرمانبردار‘‘، اور ہم اللہ کے بھی فرمانبردار ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے بھی۔ بے شک مسلم کے یہی معنی ہیں لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نام رکھا ہے :
﴿ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا ﴾
[الحج: 78]
” اس (اللہ تعالیٰ ) نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے ، اس سے پہلے اورا س ( قرآن) میں بھی ۔”
یہ نام ہے ، اور ’’ اسم علم ‘‘ ہوتا ہے جسے انگلش میں Proper Nounکہتے ہیں، یعنی ہر ہر زبان میں اسے ’’ مسلم‘‘ ہی بولا جائے گا۔ اگر کسی کا نام ’’ سراج ‘‘ ہے تو یہ نہیں کہ اسے عربی میں ’’ شمس ‘‘ کہہ کر پکارا جائے گا اور انگلش میں Sunکہا جائے گا۔تو بالکل اسی طرح ’’ مسلم ‘‘ کو ’’ فرمانبردار ‘‘کہہ کرنہیں پکارا جائے گا جبکہ اس کے معنی یہی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’’ المسلمین ‘‘کا نام دیا ہے کہ یہی ہماری پہچان و شناخت ہے۔ المسلمین جمع ہے اور اس کا واحد مسلم ہوتا ہے۔
اس سارے کلام کا حاصل یہ ہے کہ:
- ’’اہلحدیث ‘‘ ایک فرقہ ہے۔
- یہ نام اللہ کا دیا ہوا ہے اور نہ رسول اللہ ﷺ کا بلکہ لوگوں کا رکھا ہوا نام ہے۔
- فرقہ بندی کفر و شرک ہے اس لئے میں اس شامل ہو کر اپنے آخرت نہ تباہ کریں۔