محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 693
- ری ایکشن اسکور
- 26
- پوائنٹ
- 53
اس بارے میں علماء کرام کے دو قول ہیں:
1- وضو نہیں ٹوٹے گا، یہ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا قول ہے۔
2- وضو ٹوٹ جائے گا، یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور حنابلہ کا قول ہے۔
راجح:
درج ذیل دلائل کی بنا پر پہلا قول راجح ہے:
1- جن احادیث میں زخم وغیرہ کی وجہ سے وضو ٹوٹنے کا ذکر ہے وہ ساری احادیث ضعیف ہیں۔
2- سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں نکلے یعنی غزوہ ذات الرقاع میں تو کسی مسلمان نے مشرکین میں سے کسی کی بیوی کو قتل کر دیا، تو اس مشرک نے قسم کھائی کہ میں اصحاب محمد میں خون بہا کر رہوں گا۔ چنانچہ وہ نبی کریم ﷺ کے قدموں کے نشانات کی پیروی کرنے لگا۔ ادھر نبی کریم ﷺ نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور فرمایا ”کون ہمارا پہرہ دے گا ؟“ تو اس کام کے لیے ایک مہاجر اور ایک انصاری اٹھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ”تم دونوں اس گھاٹی کے دہانے پر کھڑے رہو۔“ جب وہ دونوں اس کے دہانے کی طرف نکلے (تو انہوں نے طے کیا کہ باری باری پہرہ دیں گے) چنانچہ مہاجر لیٹ گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا (اور پہرہ بھی دیتا رہا۔) ادھر سے وہ مشرک بھی آ گیا۔ جب اس نے ان کا سراپا دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ اس قوم کا پہریدار ہے چنانچہ اس نے ایک تیر مارا اور اس کے اندر تول دیا۔ اس (انصاری) نے وہ تیر (اپنے جسم سے) نکال دیا (اور نماز میں مشغول رہا) حتیٰ کہ اس نے تین تیر مارے۔ پھر اس نے رکوع اور سجدہ کیا۔ ادھر اس کا (مہاجر) ساتھی بھی جاگ گیا۔ اس (مشرک) کو جب محسوس ہوا کہ ان لوگوں نے اس کو جان لیا ہے، تو بھاگ نکلا۔ مہاجر نے جب انصاری کو دیکھا کہ وہ لہولہان ہو رہا ہے تو اس نے کہا: «سبحان الله»! تم نے مجھے پہلے تیر ہی پر کیوں نہ جگا دیا؟ اس نے جواب دیا ”میں ایک سورت پڑھ رہا تھا، میرا دل نہ چاہا کہ اسے ادھوری چھوڑوں۔“ (سنن ابی داود: 198)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور اس واقعہ کی خبر ملی ہوگی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری صحابی کے جسم سے خون بہنے کے باوجود نماز پڑھنے پر انکار نہیں کیا اگر زخم وغیرہ سے خون بہنے سے وضو ٹوٹ جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر ضرور اس صحابی کو تنبیہ کرتے۔
3- سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ جسم سے خون بہنے کے باوجود نماز پڑھتے رہے۔
1- وضو نہیں ٹوٹے گا، یہ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا قول ہے۔
2- وضو ٹوٹ جائے گا، یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور حنابلہ کا قول ہے۔
راجح:
درج ذیل دلائل کی بنا پر پہلا قول راجح ہے:
1- جن احادیث میں زخم وغیرہ کی وجہ سے وضو ٹوٹنے کا ذکر ہے وہ ساری احادیث ضعیف ہیں۔
2- سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں نکلے یعنی غزوہ ذات الرقاع میں تو کسی مسلمان نے مشرکین میں سے کسی کی بیوی کو قتل کر دیا، تو اس مشرک نے قسم کھائی کہ میں اصحاب محمد میں خون بہا کر رہوں گا۔ چنانچہ وہ نبی کریم ﷺ کے قدموں کے نشانات کی پیروی کرنے لگا۔ ادھر نبی کریم ﷺ نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا اور فرمایا ”کون ہمارا پہرہ دے گا ؟“ تو اس کام کے لیے ایک مہاجر اور ایک انصاری اٹھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ”تم دونوں اس گھاٹی کے دہانے پر کھڑے رہو۔“ جب وہ دونوں اس کے دہانے کی طرف نکلے (تو انہوں نے طے کیا کہ باری باری پہرہ دیں گے) چنانچہ مہاجر لیٹ گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا (اور پہرہ بھی دیتا رہا۔) ادھر سے وہ مشرک بھی آ گیا۔ جب اس نے ان کا سراپا دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ اس قوم کا پہریدار ہے چنانچہ اس نے ایک تیر مارا اور اس کے اندر تول دیا۔ اس (انصاری) نے وہ تیر (اپنے جسم سے) نکال دیا (اور نماز میں مشغول رہا) حتیٰ کہ اس نے تین تیر مارے۔ پھر اس نے رکوع اور سجدہ کیا۔ ادھر اس کا (مہاجر) ساتھی بھی جاگ گیا۔ اس (مشرک) کو جب محسوس ہوا کہ ان لوگوں نے اس کو جان لیا ہے، تو بھاگ نکلا۔ مہاجر نے جب انصاری کو دیکھا کہ وہ لہولہان ہو رہا ہے تو اس نے کہا: «سبحان الله»! تم نے مجھے پہلے تیر ہی پر کیوں نہ جگا دیا؟ اس نے جواب دیا ”میں ایک سورت پڑھ رہا تھا، میرا دل نہ چاہا کہ اسے ادھوری چھوڑوں۔“ (سنن ابی داود: 198)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور اس واقعہ کی خبر ملی ہوگی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری صحابی کے جسم سے خون بہنے کے باوجود نماز پڑھنے پر انکار نہیں کیا اگر زخم وغیرہ سے خون بہنے سے وضو ٹوٹ جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر ضرور اس صحابی کو تنبیہ کرتے۔
3- سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ جسم سے خون بہنے کے باوجود نماز پڑھتے رہے۔