راشد محمود
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 24، 2016
- پیغامات
- 216
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں !
امابعد !
ایمان والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے صدقات درج ذیل لوگوں میں خرچ کریں ۔
• ١۔فقراء
• ٢۔مساکین
• ٣۔عاملین یعنی صدقات وصول کرنے والے
• ٤۔کمزور ایمان والوں کی تالیف قلوب کے لئے
• ٥۔غلاموں کو آزاد کرانے میں
• ٦۔قرضداروں کے قرضہ کی ادائیگی میں
• ٧۔الله تعالیٰ کے راستہ میں
• ٨۔مسافروں کی امداد
زكاة جن آٹھ مصارف میں خرچ کرنا واجب ہے ان کی تفصیل الله تعالیٰ نے بالکل واضح الفاظ میں بیان فرمائی ہے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ
درحقیقت صدقات تو صرف محتاجوں کے لیے اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان اہلکاروں کے لیے جو ان کی وصولی پر مقرر ہیں اور ان کے لیے کہ الفت ڈالنی مقصود ہو ان کے دلوں میں اور گردنوں کے چھڑانے میں اور تاوان (قرض) ادا کرنے میں
اور اللہ کی راہ میں اور مسافر (میں) ۔یہ فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ خوب علم والا، بہت حکمت والا ہے۔(التوبہ -60)
مندرجہ بالا آیت میں "صدقات" سے مراد صرف فرضی صدقہ یا زکوٰۃ ہے جیسا کہ بعد کے الفاظ فریضۃ من اللہ سے یہ بات واضح ہے۔ صدقات کی تقسیم پر بھی منافقوں کو اعتراض ہوا تھا(جیسا کہ اس آیت کے شان نزول کے متعلق احادیث میں واضح ہے۔)تو اس کی تقسیم کی مدات اللہ تعالیٰ نے خود ہی مقرر فرما دیں تاکہ ان کی تقسیم میں اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہے ۔
مندرجہ بالا آیت کی روشنی میں کل آٹھ مصارف کا ذکر ہے ، جن کی تفصیل درج ذیل ہے :
١۔ فقراء: سے مراد مختاج ہیں یا وہ لوگ ہیں جن کو روزی کمانے کے لئے نہیں ملتا ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ
یہ مال) ان محتاج ہجرت کرنیوالوں کے لیے ہے جونکالے( جدا کر دیے) گئے اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سےوہ تلاش کرتے ہیں اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی اور وہ مدد کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی وہی( لوگ) ہی سچے ہیں)
(الحشر -8)
لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ ۡ يَحْسَبُھُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ
(صدقات خاص طور پر ) ان محتاجوں کے لیے ہیں جو اللہ کے راستے میں روکے گئے ہیں، زمین میں سفر نہیں کرسکتے، (وہ کسی سے سوال بھی نہیں کرتے )ناواقف انھیں سوال سے بچنے کی وجہ سے مال دار سمجھتا ہے، تو انھیں ان کی علامت سے پہچان لے گا، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے، اور تم خیر میں سے جو خرچ کرو گے سو یقینا اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
(البقرہ -273)
٢۔مساکین : سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی آمدنی ،اخراجات کے لئے ناکافی ہو ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
لَيْسَ الْمِسْکِينُ الَّذِي يَطُوفُ عَلَی النَّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ وَلَکِنْ الْمِسْکِينُ الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًی يُغْنِيهِ وَلَا يُفْطَنُ بِهِ فَيُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ وَلَا يَقُومُ فَيَسْأَلُ النَّاسَ
مسکین وہ نہیں جو لوگوں کے پاس گھومتا رہے اور دو لقمہ یا ایک کھجور کی امید میں ادھر ادھر گھومتا پھرے بلکہ مسکین وہ شخص ہے جسے اتنی دولت نہ ملے کہ اسے بے پرواہ بنائے اور اس کا حال بھی کسی کو معلوم نہ ہو کہ اس کو خیرات دے اور نہ وہ اٹھ کر مانگتا پھرتا ہے۔
(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1421 کتاب الزکوٰۃ۔و صحیح مسلم ۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب المسکین الذی لایجد غنی)
گویا فقیر اور مسکین میں فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور مسکین وہ ہے جو احتیاج کے باوجود چھپا رہے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے جسے ہمارے ہاں سفید پوش کہا جاتا ہے۔
(،،،،،،،،،،،،،،،،جاری ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،)
سب طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں !
امابعد !
(زكاة کے مصارف):
ایمان والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے صدقات درج ذیل لوگوں میں خرچ کریں ۔
• ١۔فقراء
• ٢۔مساکین
• ٣۔عاملین یعنی صدقات وصول کرنے والے
• ٤۔کمزور ایمان والوں کی تالیف قلوب کے لئے
• ٥۔غلاموں کو آزاد کرانے میں
• ٦۔قرضداروں کے قرضہ کی ادائیگی میں
• ٧۔الله تعالیٰ کے راستہ میں
• ٨۔مسافروں کی امداد
زكاة جن آٹھ مصارف میں خرچ کرنا واجب ہے ان کی تفصیل الله تعالیٰ نے بالکل واضح الفاظ میں بیان فرمائی ہے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ
درحقیقت صدقات تو صرف محتاجوں کے لیے اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان اہلکاروں کے لیے جو ان کی وصولی پر مقرر ہیں اور ان کے لیے کہ الفت ڈالنی مقصود ہو ان کے دلوں میں اور گردنوں کے چھڑانے میں اور تاوان (قرض) ادا کرنے میں
اور اللہ کی راہ میں اور مسافر (میں) ۔یہ فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ خوب علم والا، بہت حکمت والا ہے۔(التوبہ -60)
مندرجہ بالا آیت میں "صدقات" سے مراد صرف فرضی صدقہ یا زکوٰۃ ہے جیسا کہ بعد کے الفاظ فریضۃ من اللہ سے یہ بات واضح ہے۔ صدقات کی تقسیم پر بھی منافقوں کو اعتراض ہوا تھا(جیسا کہ اس آیت کے شان نزول کے متعلق احادیث میں واضح ہے۔)تو اس کی تقسیم کی مدات اللہ تعالیٰ نے خود ہی مقرر فرما دیں تاکہ ان کی تقسیم میں اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہے ۔
مندرجہ بالا آیت کی روشنی میں کل آٹھ مصارف کا ذکر ہے ، جن کی تفصیل درج ذیل ہے :
١۔ فقراء: سے مراد مختاج ہیں یا وہ لوگ ہیں جن کو روزی کمانے کے لئے نہیں ملتا ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ
یہ مال) ان محتاج ہجرت کرنیوالوں کے لیے ہے جونکالے( جدا کر دیے) گئے اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سےوہ تلاش کرتے ہیں اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی اور وہ مدد کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی وہی( لوگ) ہی سچے ہیں)
(الحشر -8)
لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ ۡ يَحْسَبُھُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ
(صدقات خاص طور پر ) ان محتاجوں کے لیے ہیں جو اللہ کے راستے میں روکے گئے ہیں، زمین میں سفر نہیں کرسکتے، (وہ کسی سے سوال بھی نہیں کرتے )ناواقف انھیں سوال سے بچنے کی وجہ سے مال دار سمجھتا ہے، تو انھیں ان کی علامت سے پہچان لے گا، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے، اور تم خیر میں سے جو خرچ کرو گے سو یقینا اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
(البقرہ -273)
٢۔مساکین : سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی آمدنی ،اخراجات کے لئے ناکافی ہو ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
لَيْسَ الْمِسْکِينُ الَّذِي يَطُوفُ عَلَی النَّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ وَلَکِنْ الْمِسْکِينُ الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًی يُغْنِيهِ وَلَا يُفْطَنُ بِهِ فَيُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ وَلَا يَقُومُ فَيَسْأَلُ النَّاسَ
مسکین وہ نہیں جو لوگوں کے پاس گھومتا رہے اور دو لقمہ یا ایک کھجور کی امید میں ادھر ادھر گھومتا پھرے بلکہ مسکین وہ شخص ہے جسے اتنی دولت نہ ملے کہ اسے بے پرواہ بنائے اور اس کا حال بھی کسی کو معلوم نہ ہو کہ اس کو خیرات دے اور نہ وہ اٹھ کر مانگتا پھرتا ہے۔
(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1421 کتاب الزکوٰۃ۔و صحیح مسلم ۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب المسکین الذی لایجد غنی)
گویا فقیر اور مسکین میں فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور مسکین وہ ہے جو احتیاج کے باوجود چھپا رہے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے جسے ہمارے ہاں سفید پوش کہا جاتا ہے۔
(،،،،،،،،،،،،،،،،جاری ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،)