حافظ راشد
رکن
- شمولیت
- جولائی 20، 2016
- پیغامات
- 116
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 75
زلزلوں کا پیغام
یہ دھرتی جس پر ہم رہتے، بستے اور زندگی گذارتے ہیں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالی نے یہ زمیں ہمارے تابع کردی اور اس کے اندر سے ہرطرح کے غلے اور اناج اگائے، اس کی تہہ سے مختلف خزانے نکالے تاکہ وہ ہمارے لیے سامان زیست بن سکیں۔ اللہ تعالی نےفرمایا: سورہ الأعراف آیت نمبر 10 ولقد مکناکم فی الارض وجعلنا لکم فیہا معائش قلیلا ما تشکرون ۔ ہم نےتمہیں زمین میں اختیارات کےساتھ بسایا، اور تمہارے لیےزندگی کےسامان رکھےمگر تم لوگ کم ہی شکر ادا کرتےہو۔ جی ہاں! اگر اللہ نے زمین کو ناہموار بنایا ہوتا، یا زمین سے غلے پیدا نہ ہوتے تو ہمارے لیےزندگی گذارنا کتنا مشکل ہو سکتا تھا اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اللہ پاک نےزمین میں پہاڑوں کو جما دیا میخ اور کھونٹا کے طور پر تاکہ بآسانی اس پر عمارت بنا سکیں اور اس کی چھاتی پرزندگی گذار سکیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: سورۃ المائدہ آیت نمبر31 وجعلنا فی الارض رواسی أن تمید بہم ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔ لیکن اس کے باوجود انسان جب اللہ کے قانون سے منہ موڑتا ہے تو اللہ تعالی کبھی کبھی اس زمین کو حکم دیتا ہے کہ اے زمین حرکت کر، بھونچال مچادے اور زلزلے پیدا کر، یہ اصل میں الٹی میٹم ہوتا ہے، تنبیہ ہوتی ہے…تاکہ انسان سنبھل جائے، سدھر جائے اور اپنے احوال کی سدھار کرلے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ان دنوں زلزلوں کی کثرت ہوچکی ہے۔ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں وقفہ وقفہ سے زلزلے اور طوفان آتے ہی رہتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ ایک زمانہ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ديوہيکل درندے جو زمين کے اندر رہتے ہيں زلزلے پيدا کرتے ہيں، کچھ لوگوں کا عقيدہ تھا کہ ایک چھپکلی زمين کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہيں، ہندؤں کا عقيدہ ہے کہ زمين ايک گائے کے سينگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سينگ تبديل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہيں۔ یہ سب دیومالائی اور فرضی باتیں ہیں،جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ جبکہ آج کی سائنس کہتی ہے کہ زمين کی بالائی پَرت اندرونی طور پر مختلف پليٹوں ميں منقسم ہے۔ جب زمين کے اندرونی کُرے ميں موجود پگھلے ہوئے مادّے ميگما Magma ميں کرنٹ پيدا ہوتا ہے تو يہ پليٹيں بھی اس کے جھٹکے سے متحرک ہوجاتی ہيں جس سے زلزلہ آتا ہے۔ اسی لیے آج لوگ زلزلے کو نیچرل معاملہ یا طبعی چیز سمجھ رہے ہیں، آج کا میڈیا یہی کچھ کہتا دکھائی دیتا ہے۔ سائنس کی تحقیق اپنی جگہ پر جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال یہ ہے ان پلیٹوں کو الگ الگ کس نے کیا؟ ان میں حرکت کس نے پیدا کی؟ وہ کون ہے؟ کیا یہ اللہ کی ذات نہیں؟ بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی بھی چیز کا ایک کونی سبب ہو اور ایک شرعی سبب ہو۔ کونی سبب سائنسداں بتا سکتے ہیں جبکہ شرعی سبب کائنات کا خالق ہی بتا سکتا ہے۔
پیارے بھائیو! بات واضح ہے کہ زلزلے ہمارے گناہوں کے پاداش میں، منکرات کے پھیلنے کے سبب اور اللہ کی تدبیر سے غفلت کے نتیجہ میں آتے ہیں۔ جی ہاں! یہ ساری آفتیں فسق وفجور کے عام ہونے کی وجہ سے آرہی ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا ظهرَ الرِّبا والزِّنا في قريةٍ فقد أحلُّوا بأنفسِهم عذابَ اللهِ (صحيح البخاري 2731 ) “جب زنا اور ربا کسی بستی میں ظاہر وعام ہو جائیں تو اللہ تعالی اس کی تباہی کی اجازت دے دیا کرتا ہے”۔
اور زلزلوں کی کثرت دراصل قرب قیامت کی نشانی ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تقومُ الساعةُ حتى يُقْبَضَ العِلْمُ ، وتَكْثُرُ الزلازلُ ، ويَتقاربُ الزمانُ ، وتظهرُ الفِتَنُ ، ويكثُرُ الهَرَجُ ، وهو القَتْلُ القَتْلُ ، حتى يكثُرَ فيكم المالُ فيَفيضُ . صحیح البخاری 1036 قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلوں کی کثرت ہوگی، زمانے قریب ہوجائیں گے، فتنوں کا ظہور ہوگا، قتل وغارت گری عام ہوگی اور مال کی بہتات اور فراوانی ہوگی۔
زلزلہ کا پیغام:
اب سوال یہ ہے کہ ان زلزلوں میں ہمارے لیے کیا سبق ہے، کیا پیغام ہے، کیا درس ہے؟ زلزلے کا سب سے پہلا پیغام اللہ کی عظمت اور قوت کا اظہار ہے۔ کہ یہ پوری کائنات اللہ کے قبضہ میں ہے، جس میں زمین ہے آسمان ہے، سورج ہے چاند ہے، جنات ہیں انسان ہیں، حیوانات ہیں نباتات ہیں، سمندر ہیں پہاڑ ہیں یہ سب کی سب اسی کے قبضہ میں ہے وہ جب چاہے زمین کو حرکت دے سکتا ہے، کوئی اس کے فیصلے کو روکنے والا نہیں۔
زلزلے سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ جو لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں وہ آنکھیں کھولیں، جولوگ شرک کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اس سے توبہ کریں، جو لوگ اللہ کی غیرت کو چیلنج کررہے ہیں وہ اب بھی پلٹ آئیں اور جو اللہ کے نظام کو فلو کررہے ہیں ان کے لیے سبق اور نصیحت ثابت ہو۔
زلزلے کا تیسرا سبق یہ ہے کہ نافرمانوں کو ان کی نافرمانی کا بدلہ چکھایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جولوگ الٹی میٹم پانے کے باوجود اللہ کی طرف نہیں لپکتے تو اللہ تعالی کے ہاں ایسے لوگوں کی ہلاکت یقینی ہوجاتی ہے۔ آج کتنے ایسے لوگ ہیں جو شرک میں پھنسے ہوئے ہیں، کتنے ایسے لوگ ہیں جو بدعات میں پھنسے ہوئے ہیں، کتنے ایسے لوگ ہیں جو نماز سے غافل ہیں، کتنے ایسے لوگ ہیں جو زنا میں ملوث ہیں، کتنے ایسے لوگ ہیں جو فحش کاری کے رسیا، سودی کاروبارکے دلدادہ اور رشوت لینے میں آگے آگے ہیں۔ کیا ایسے لوگ اللہ کے عذاب سے مامون ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: سورہ الأعراف ۹۷۔۹۹ أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ ﴿٩٧﴾ أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ﴿٩٨﴾ أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّـهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ
پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آ جائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں؟ (97) یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا عذاب کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ (98) کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔
زلزلے کا چوتھا سبق یہ ہے کہ نعمتیں کبھی کبھی ڈھیل کے طور پر بھی ہوتی ہیں، کتنے لوگ جب اللہ کی نعمتوں میں پل رہے ہوتے ہیں تو انہیں یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ نعمتیں کس نے دی ہیں، اللہ کے بندوں کو بھی حقارت بھری نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالی مہلت دیتا ہے، ڈھیل دیتا ہے جب وہ حد سے آگے گذرجاتے ہیں تو اللہ تعالی اپنی رسی کھینچ لیتا ہے۔ مسند احمد کی روایت ہے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا رأیت اللہ یعطی العبد من الدنیا علی معاصیہ ما یحب فانما ھو استدراج جب تم دیکھو کہ بندے کو اللہ تعالی اس کی نافرمانی کے باوجود دنیا دے رہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ ڈھیل ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے اس فرمان کی تلاوت فرمائی: سورہ الأنعام آیت نمبر 44 فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو، جو انہیں کی گئی تھی، بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے
زلزلے کا پانچواں پیغام یہ ہے کہ ہم اس زلزلے سے قیامت کے دن کے زلزلے کو یاد کریں۔ جو دن بچوں کو بوڑھا کردے گا، جس دن دودھ پلاتی مائیں اپنے بچے کو بھول جائیں گی، جس دن حاملہ عورتوں کا حمل گر جائے گا، لوگ مدہوشی کی حالت میں ہوں گے۔ حالانکہ وہ اصل میں مدہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی سخت ہوگا۔ زلزلوں کوآپ نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہوگا کہ لوگوں پر کیسی وحشت اور ہولناکی چھا ئ ہوتی ہے۔ زلزلہ کیا قیامت کا ہولناک اور روح فرسا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ گویا ایک انسان کو چاہیے کہ ایسی چھوٹی تباہی کو دیکھ کر قیامت کے دن کی تیاری شروع کردے۔ اللہ سے ڈرے۔ اس کی پکڑ سے خوف کھائے، اپنے احوال کی سدھار کرلے، سچی توبہ کرے، اللہ سے گڑگرائے اور لو لگائے، معاشرے اور سماج میں جو برائیاں پنپ رہی ہیں ان پر روک لگائے، ان پر نکیر کرے، معاشرے میں نیکی کا چلن ہو اور برائی کی حوصلہ شکنی ہو، اور اگر ہم نے دوسروں کے حقوق مارے ہیں، دوسروں پر زیادتی کی ہے، دوسروں کو ستا یا ہے تو ان سے معافی مانگیں۔ اور بکثرت صدقات و خیرات کریں یعنی معاشرے کے غرباء ومساکین کی اعانت اور مدد کریں۔ روایت میں آتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کے عہد مبارک میں جب زلزلہ آیا تو آپ نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ زیادہ سے زیادہ صدقہ اور خیرات کریں۔