کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
زمانہء حال کے پاکستانی قارون!
پہلے زمانہء ماضی کے ایک قارون کا حال قرآن کریم کے حوالے سے پڑھئیے
سورة القصص نمبر28 آیات نمبر76 تا83 میں اس واقعہ کا حال یوں بیان کیا گیا ہے
"بے شک قارون (اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا رشتے دار بتایا جاتا ہے) موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھا۔ پھر اُس نے سرکشی کی ان پر اور ہم نے دے دئیے تھے اتنے خزانے کہ ان کی چابیاں اپنے بوجھ سے جھکا دیتی تھیں۔ ایک طاقتور جتھہ (دس تا پندرہ کی جماعت) کی کمروں کو۔ جب کہا اسے اس کی قوم نے زیادہ خوش نہ ہو، بے شک اللہ تعالیٰ دوست نہیں رکھتا اِترانے والوں کو"
آیت نمبر 76
"اور طلب کہ اُس سے مال و دولت جو دیا ہے۔ تجھے اللہ تعالیٰ نے آخرت کا گھر اور نہ فراموش کر اپنے حصے کو دنیا سے اور احسان کیا کرو غریبوں پر جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان فرمایا ہے اور نہ خو اہش کر فتنہ و فساد کی ملک میں، یقیناً اللہ تعالیٰ نہیں دوست رکھتا فساد برپا کرنے والوں کو"
آیت نمبر77
"وہ کہنے لگا، مجھے دی گئی ہے یہ دولت اور ثروت اس علم کی وجہ سے جو میرے پاس ہے۔ کیا اس مغرور کو اتنا علم بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر ڈالیں اس سے پہلے قومیں جو اس سے قوت میں کہیں سخت اور دولت جمع کرنے میں کہیں زیادہ تھیں، دریافت کئے جائیں گے مجرموں سے ان کے گناہ"
آیت نمبر78
"الغرض ایک دن وہ نکلا اپنی قوم کے سامنے بڑی زیب و زینت کے ساتھ۔ کہنے لگے وہ لوگ جو آرزو مند تھے دُنیوی زندگی کے اے کاش! ہمیں بھی اسی قسم کا جاہ و جلال نصیب ہوتا۔ جیسے دیا گیا ہے قارون کو۔ واقعی وہ تو بڑا خوش نصیب ہے"
آیت نمبر79
"اور کہا ان لوگوں نے جنہیں دنیا کی بے ثباتی کا علم دیا گیا تھا۔ حیف تمہاری عقل پر اللہ کا ثواب بہتر ہے، اُس کے لئے جو ایمان لے آیا اور نیک عمل کئے اور نہیں مرحمت کی جاتی یہ نعمت بجز صبر کرنے والوں کے"
آیت نمبر80
"پس ہم نے غرق کر دیا، اُسے بھی اور اس کے گھر کو زمین میں۔ تو نہ تھی اُس کے حامیوں کی کوئی جماعت جو اُس وقت اس کی مدد کرتی اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اور وہ خود بھی اپنا انتقام نہ لے سکا"
آیت نمبر81
"اور صبح کی ان لوگوں نے جو کل تک اس کے مرتبے کی آرزو کر رہے تھے۔ یہ کہتے ہوئے اوہو! اب پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ کشادہ کر دیتا ہے رزق کو جس کے لئے چاہے اپنے بندوں سے اور تنگ کر دیتا ہے جس کے لئے چاہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں گاڑ دیتا۔ اوہو! اب پتا چلا کہ کفار بامراد نہیں ہوتے"
آیت نمبر82
"یہ آخرت کا گھر ہم مخصوص کر دیں گے۔ اُس کی نعمتوں کو ان لوگوں کے لئے جو خواہش نہیں رکھتے زمین میں بڑا بننے کی اور نہ فساد برپا کرنے کی اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے"
آیت نمبر83
ان آیات مبارکہ کے مطالعے کا خلاصہ اس طرح سے ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عزیز قارون کو فرعون نے مقابلے کے لئے جی بھر کر رشوت دی۔ اُسے کاروباری مواقع اور سہولتیں مہیا کیں، جس سے قارون کا کاروبار خوب چمکا اور مصر کا رئیس اعظم بن گیا۔ وہ بے حدو حساب دولت کا مالک بن گیا۔ اس کے خزانوں کی کُنجیاں اتنی بھاری تھیں کہ دس پندرہ آدمیوں کا گروہ جب اُن کو اُٹھاتا تو ان کی کمریں جھک جاتیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے نصیحت کی کہ مال و دولت کی فراوانی سے تو ہر وقت اتراتا ہے اور احساس برتری اس حد تک پیدا ہوگیا ہے کہ اپنی قوم کے احترام کا کبھی خیال نہیں کرتا۔ اس متکبرانہ روش سے باز آجا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا، مگر وہ بڑے فخر اور غرور سے کہتا کہ یہ سب کچھ اس کی قابلیت، کاروباری مہارت اور رات دن کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کے دل میں ناداروں اور غریبوں کے لئے رحم و ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے، بلکہ نفرت و حقارت کا اظہار کرتا۔ یاد رہے کہ یہ نظریہ عہد موسویؑ کے قارون کا نہیں تھا، بلکہ آج بھی اور قیامت تک تمام قارون صفت انسانوں میں یہ قدرمشترک ہے اور رہے گی۔ جب قارون امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ سے باہر نکلتا تو لوگوں کے دل میں بھی ایسی خواہش مچلتی کہ اے کاش! وہ بھی ایسے ہی امیر و کبیر ہوتے، لیکن جو لوگ دنیا کی ناپائیداری کو جانتے ہیں، وہ قارون جیسا بننا نہیں چاہتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا بندہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لئے بڑے صبر کے ساتھ اخلاص و عمل کی راہ پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ قارون جس زمانے میں بھی ہوگا، سازشوں سے باز نہیں آئے گا۔
زیر نظر قارون نے ایک فاحشہ عورت کے ساتھ سازش کی کہ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے سامنے وعظ کر رہے ہوں تو وہ مجمع عام میں آپ پر بدکاری کا الزام لگائے، اس طرح وہ حضرات موسی ٰ ؑ کی عزت کو ختم کر کے دینی منصب بھی خود سنبھالنا چاہتا تھا۔ اس نے عورت کو کئی ہزار درہم بطور رشوت دئیے۔ ایک روز آپ وعظ فرما رہے تھے، جس کا موضوع بھی یہی تھا کہ:
چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔ بدکار کو رجم کر دیا جائے۔
قارون کو موقع مل گیا اور آپؑ سے پوچھا: کیا یہ قانون سب کے لئے ہے یا کچھ لوگ اس سے بری ہیں؟....
آپ نے فرمایا: سب کے لئے ہے۔
اُس نے پوچھا کیا آپ پر بھی یہ لاگو ہوتا ہے؟
آپ نے فرمایا بے شک!
اُس نے کہا کہ فلاں عورت آپ کے متعلق ایسا ایسا کہتی ہے اس لئے اس قانون کے مطابق آپ کو بھی رجم کی سزا ملنی چاہئے۔
آپ نے فرمایا: اُس عورت کو مجمع عام میں پیش کیا جائے۔
جب وہ آئی تو حضرت نے کہا: تجھے اُس خدا کی قسم، جس نے بنی اسرائیل کے لئے سمندر کو شق کیا، جس نے مجھے تورات عطا فرمائی تو سچ سچ بتا دے۔
اللہ تعالیٰ نے اسے جھوٹ بولنے کی ہمت نہ دی اور ساری حقیقت بیان کر دی کہ اُسے قارون نے الزام لگانے کے لئے رشوت دی ہے۔
آپ کو قارون پر سخت غصہ آیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حواریوں کے ساتھ زمین میں غرق کر دیا۔
سورة المومن نمبر 40 آیات نمبر23 تا 25 میں بھی قارون کا ذکر موجود ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو۔
"اور بے شک بھیجا ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نشانیوں اور روشن سند کے ساتھ"
آیت نمبر23
"فرعون، ہامان اور قارون کی طرف تو انہوں نے کہا یہ جادوگر ہے، بڑا جھوٹا ہے"
آیت نمبر 24
"پھر جب موسیٰؑ لے کر آئے ان لوگوں کے پاس حق ہمارے ہاں سے تو انہوں نے کہا کہ قتل کر ڈالو ان لوگوں کے بچوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے اور زندہ چھوڑ دو ان کی لڑکیوں کو.... اور نہیں ہے کافروں کا ہر مکر مگر رائیگاں"
آیت نمبر25
ان آیات سے اس غلط فہمی کو دور کیا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے بھی دنیا میں صدہا قومیں آباد رہی ہیں جو دولت اور قوت میں تم سے زیادہ تھیں۔ کئی نشانات ان کی عظمت و شوکت کی گواہی دے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے نبیوں کی دعوت کو ٹھکرایا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ کا غضب اُن پر نازل ہُوا۔ یاد رکھو! اگر تم نے بھی یہ روش نہ بدلی تو تمہارا بھی وہی انجام ہوگا
اسلامی نظامِ معاشیات کا ایک اور قاعدہ سورة البقرہ نمبر2 کی آیت نمبر188 میں اس طرح سے بیان کیا گیا ہے
ترجمہ: اور نہ کھاؤ ایک دوسرے کا مال آپس میں ناجائز طریقہ سے اور نہ رسائی حاصل کرو اس مال سے رشوت دے کر حاکموں تک تاکہ یوں کھاؤ کچھ حصہ لوگوں کے مال کا ظلم سے، حالانکہ تم جانتے ہو کہ اللہ نے یہ حرام کیا ہے:
”یعنی ناجائز طریقوں سے لوگوں کے مال نہ کھاو۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں، وہ شخص جس نے ایسے طریقے سے مال حاصل کیا جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی تو اُس نے باطل ذریعے سے کھایا۔ اس میں جُوا، دھوکہ دہی، زبردستی چھین لینا، کسی کے حقوق کا انکار اور وہ مال، جسے اُس کے مالک نے خوشی سے نہیں دیا، سب اکل باطل میں شامل ہیں۔ مزیں برآں علامہ قرطبیؒ نے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی شخص رشوت دے کر یا جھوٹی قسم کھا کر یا جھوٹی گواہیاں دلوا کر اپنے حق میں فیصلہ کرالے تو قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال نہیں کر سکتا۔
حضور علیہ الصلواة والسلام کا بھی ارشاد ہے کہ: تم میرے پاس جھگڑے چکانے کے لئے آتے ہو۔ ممکن ہے تم میں سے ایک فریق زیادہ چرب زبان ہو اور مَیں بفرض محال اُس کے حق میں فیصلہ دے دوں۔ اگر مَیں کسی کو اُس کے بھائی کا حق دے دوں، تو وہ ہرگز نہ لے۔ بے شک وہ اُس کے حق میں آگ کا ٹکڑا ہے۔ اگر ہمارا لین دین قرآن کریم کے اس حکم اور حضوراکرم کے اس واضح ارشاد کے مطابق ہو جائے تو بے شمار مقدمے بازیاں ختم ہو جائیں۔ دوسروں کا مال کھانے کا ایک یہ طریقہ بھی ہے کہ حکام کو رشوت دے کر اُن سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لیا جائے۔ اس ناپاک طریقے کی بھی سخت ممانعت کی گئی ہے۔
میاں محمد سعید شاد: 26 جون 2012
(جاری ہے)