کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
زمین کے طبقات اور پٹرولیم کے متعلق قرآن مجید کی وضاحت
ڈاکٹر محمد وجاہت اللہ حیدرآبادیؔ (... لَہُ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّریٰ)
اسی (اللہ ) کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور جو ان دونوں کے درمیان ہے اور جو (تحت الثری) گیلی مٹی کے نیچے ہے۔
(سورہ طہ:۶)
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی سائنسی انکشافات کئے ہیں جو آج کے سائنٹفک دور میں واشگاف ہوئی ہیں حالانکہ قرآن کریم میں یہ حقیقت آج سے چودہ سو سال قبل کھول دی گئی جب کہ اس کرۂ ارض اور آسمان اور زمین کے اندر کیا کچھ پوشیدہ ہے کسی کو خبر نہیں تھی، اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قرآن اسی خالق اکبر یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے نہ کہ کسی کے ذہن کی پیداوار یا کسی اور صحیفہ سے مستعار لیا گیا ہے جیساکہ مغربی مفکرین باور کرتے ہیں، آیت مذکورہ کو سمجھنے سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ ماہرین طبقات الارض اسی کرۂ ارض کے متعلق کیا نظریہ رکھتے ہیں، موجودہ نصاب میں پانچویں اور چھٹی جماعت کی نصاب میں بھی یہ بتلایا جاتا ہے کہ کرۂ ارض تین مختلف طبقات پر مشتمل ہے
جن میں سب سے اوپری طبق کو CRUST کہا جاتا ہے
اس کے نیچے دوسراطبق ہے جس کو MANTLE کہا جاتا ہے
اور اس کے نیچے تیسرا طبق ہے جس کو CORE کہا جاتا ہے،
کور کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی OUTER CORE اور INNER CORE،
یہاں اس بات کی صراحت بھی ضروری ہے کہ ان طبقات کی ساخت کیا ہے، چنانچہ درسی کتب ہی اس کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پہلا طبق یعنی CRUST ایک چھلکے کی مانند ہے اوریہ اپنی ساخت میں سخت یعنی SOLID ہے، اس کے نیچے جو طبق ہے یعنی MANTLE وہ سخت نہیں ہے بلکہ MOLTEN STATE یعنی گیلا ہے یعنی LAVA کی شکل میں ہے اس کے نیچے CORE ہے جو اپنے اوپر کے دو طبقات کے وزن یا بوجھ کی وجہ سے SOLID STATE میں رہتا ہے اور اس میں زیادہ تر لوہا اور نکل (IRON & NICKLE) پایا جاتا ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ اور اس کی تشریح کرنا چاہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن نے آج سے 1400 سال قبل ہی کرۂ ارض کے ان تین طبقات کو بیان کر دیا ہے،
اس آیت میں (مافی الارض) سے مراد پہلا طبق یعنی STMOLTEN STATE جو MANTLE یعنی لاوا یا گیلی مٹی ہے ہے
اس آیت میں (مافی الارض) سے مراد پہلا طبق یعنیCRUST ہے
اور ''ثریٰ'' سے مراد MOLTEN STATE جو MANTLE یعنی لاوایا گیلی مٹی ہے اور (وماتحت الثریٰ) اور جو گیلی مٹی کے نیچے ہے وہ کچھ اور نہیں بلکہ CORE ہے۔
اس آیت میں ایک اور سائنسی انکشاف ہے جس کا ذکر مشہور زمانہ مصنف اور سائنٹسٹ Maurid L Bauclle نے اپنی تصنیف The Bible The Quran And Science میں کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس آیت میں (لہ مافی السموٰت ومافی الأرض) کے بعد ’’وما بینھما‘‘ ان دونوں کے درمیان یعنی زمین وآسمانوں کے درمیان کا ذکر موجودہ دور کا سائنسی انکشاف ہے۔
(والذی أخرج المرعٰی فجعلہ غثآء احویٰ)
اورجس نے (اللہ نے) چارہ نکالا ، پھر اسے سیاہ کوڑا کرکٹ بنا دیا‘‘۔
(سورہ اعلیٰ:۵،۴)
مذکورہ آیات سورہ اعلیٰ کی ۴ اور ۵ آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم دریافت کا انکشاف کیا ہے جو آج کے سائنسی دور میں ہوئی، ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے (زمین سے) چارہ نکالا اور پھر اس کو کچرا (سیاہ) کوڑا کرکٹ بنا دیا۔
یہاں لفظ ’’مرعیٰ‘‘ کا مطلب چارہ ہے جس سے مراد جھاڑ، پیڑ، پودے وغیرہ ہیں جو اسی زمین سے اُگتے ہیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اللہ نے ان جھاڑوں، پیڑ پودوں کو کچرا بنا دیا جو سیاہ کوڑا کرکٹ کہلاتا ہے،
یہاں ’’غثاء‘‘ کا مطلب کچرا ہے
اور ’’احوی‘‘ گہرے ہرے رنگ کو کہا جاتا ہے خصوصاً اس سبزی کو جو سڑ کر گل جانے کے بعد گہرے ہرے رنگ یا سیاہی مائل یعنی کالی ہو جاتی ہے، غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن جیسی پرعظمت کتاب میں اس بات کا ذکر کرنے سے اللہ کا کیا مطلب ومنشا ہے کہ ’’اس نے زمین سے چارہ نکالا اور اسے کوڑا کرکٹ بنا دیا، یہ ایک عام مشاہدہ کی بات ہے جو عام آدمی بھی کہہ سکتا ہے کہ زمین سے جو چارہ نکلتا ہے وہ بالآخر سڑ گل کر کچرا بن جاتا ہے لیکن قرآن میں اس کے ذکر سے کیا منشا ہے۔
دراصل اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی دور حاضر کے سائنسی دریافت اور انکشاف OIL یا PETROL کی طرف اشارہ کیا ہے، پٹرول کے متعلق سائنس کہتی ہے کہ یہ FOSSILISED FUEL ہے۔
FOSSIL کا مطلب ’’کسی بھی جاندار مخلوق جھاڑ، پیڑ پودے یا جانور کے باقیات جو اس کے مر کر سڑ جانے اور گلنے کے بعد باقی رہ جاتی ہے، چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ صحرائے عرب اور اس کے قرب وجوار کا علاقہ ایک طویل زمانہ قبل (لاکھوں بلکہ کروڑوں برس قبل) گھنے جنگلات یعنی جھاڑ، پیڑ، پودوں سے بھرا ہوا تھا، پھر ایک ایسا دور آیا جب زمین کے اندرونی طبقات یعنی Tectonic Plates میں ٹکراؤ کے باعث یہ علاقہ زمین میں دھنس گیا اور اطراف کا سمندر اس پر چھا گیا جس میں ہزاروں ٹن ریت تھی جس نے ان گھنے جنگلات کو ڈھانک دیا اور اسی ریت کے نیچے یہ جنگلات سڑنے اور گلنے لگے اور معلوم نہیں کتنے ہزار یا کروڑوں سال بعد ان کی باقیات Fossil آج پٹرول کی شکل میں نمودار ہو رہے ہیں، یہاں اس امر کا تذکرہ بیجانہ ہو گا کہ کرۂ ارض پر اکثر صحرا Desert ایک زمانہ میں پانی یعنی سمندر سے ڈھکے ہوئے تھے جس کی تہہ میں ریت ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ سمندر کی تہہ زمین کے اندرونی حصوں میں تغیر کی وجہ سے اوپر ابھرنے لگتی ہے اور سمندر ہٹ کر صرف ریت یعنی صحراباقی رہ جاتا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ منصف حیدرآباد)