حافظ عثمان یوسف
مبتدی
- شمولیت
- جولائی 18، 2019
- پیغامات
- 1
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 3
زندگی میں وراثت کی تقسیم کا جواز اور اس کا اُصول
(ایک قابل تنقیح و تحقیق مسئلہ)
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف
سوال: مکرمی و محترمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
((اعدلوا بین اولادکم))کی بابت مولانا عبد الخالق کا تفصیلی فتویٰ (مطبوعہ ماہ نامہ ’’ضیائے حدیث‘‘لاہور:جلد:۲۳،شمارہ:۲۔فروری ۲۰۱۴ء)ماشاء اللہ بہت مدلل ہے۔ تاہم اگر اس کوزندگی میں جب کہ باپ بالکل صحت مند ہو ، پر محمول کر لیا جائے اور عمر کے آخری مرحلے میں جب کہ وہ عمر طبعی گزار چکا ہو اور اپنی اولاد کو وراثت کے جھگڑوں سے بچانے کے لیے بالخصوص لڑکیوں کو محروم کرنے کے خطرے کی پیش نظر اگر وراثت کو {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے اُصول پر تقسیم کر لینے کو ہبہ سے الگ تصور کر لیا جائے تو کیا شرعاً اس کی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں؟
اس کی ممانعت کے لیے واضح نص تو نہیں ہے ، صرف محولہ واقعہ ہی ہے جس کو علماء کی اکثریت نے زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے پربھی محمول کر لیا ہے چاہے وہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہو اور چاہے اس کی نیت ہبہ کی نہ ہو بلکہ جائیداد کی تقسیم کی ہو۔ علماء کہتے ہیں کہ زندگی میں یہ تقسیم ہبہ ہی متصور ہوگی جس میں مساوات ضروری ہے ۔
اس کی وجہ سے بہت سی صورتوں میں اکثر و بیشتر دو خرابیاں رونما ہوتی ہیں:
۱: جائیداد پر قابض بڑی اولاد ، چھوٹی اولاد پر ظلم کرتی ہے ۔
۲: لڑکیوں کو ۲/۱ حصہ بھی نہیں دیتی ۔
ہمارے معاشرے میں ، جہاں آخرت کا تصور زہنوں سے تقریباً ختم ہو گیا ہے ، یہ دونوں صورتیں عام ہیں ۔
ان خرابیوں سے عوام کو بچانے کے لیے اگر ہبہ اور تقسیم جائیداد کو دو الگ الگ چیزیں تسلیم کرکے ہبہ میں مساوات اور تقسیم جائیداد میں (زندگی میں) ۲/۱ کی بنیاد کو مان لیا جائے تو مذکورہ خرابیوں کا بہت حد تک انسداد ممکن ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شرعاً اس کی گنجائش ہے ؟ یہ ایک استفسار ہے جس کو شرعی دلائل ہی کی روشنی میں حل کرنا ہے ۔
راقم کی رائے میں اس پر غور و فکر کی شدید ضرورت ہے ، آپ تمام حضرات بھی اس پر غور کریں اور دیگر جماعت کے فحول علماء سے بھی رابطہ کیا جائے تاکہ نصوص شریعت کی روشنی میں اس کا حل نکل سکتا ہے تو یہ وقت کی ضرورت ہے ۔
امام احمد کے نزدیک معقول وجوہات کی بنیاد پرعطیے میں بھی تفاضل جائز ہے تو کیا مذکورہ دو وجوہات کی بنیاد پر جائیداد کی تقسیم ۲/۱ کے اُصول پر ممکن نہیں ؟
علاوہ ازیں غالباً ائمہ ثلاثہ((اعدلوا…الخ)) کو استحباب پر محمول کرتے ہیں ۔ کیا اس بنیاد پر {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے اُصول کو اپنایا جا سکتا ہے ؟نیز کیا ورثاء کی رضا مندی سے بھی کمی بیشی جائز ہے؟ کیا اس طرح متوقع جھگڑوں کے سد باب کے لیے صاحب جائیداد اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم نہیں کر سکتا ؟
یہ غور و فکر کے لیے چند اشارے ہیں کیا نصوص سے ان کی گنجائش نکل سکتی ہے ؟
الجواب بعون الوہاب۔یہ استفسار نہایت اہمیت کا حامل اور اس قابل ہے کہ دلائل شرعیہ کی روشنی میں اگر اس کا صحیح حل نکل سکتا ہے تو علماء کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں راقم اپنی طالب علمانہ رائے اور اپنے غور و فکر کا حاصل بیان کرتا ہے ۔ ان کان الصواب فمن اللہ وان یک خطأ فمنی و من الشیطان، واللہ ورسولہ بریئان۔
باپ اپنی اولاد پر جو خرچ کرتا رہتا ہے ، اس میں تو مساوات ناممکن ہے ۔ اس لیے کہ ہر بچے کی حاجت و ضرورت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ ان اخراجات کا تعلق چونکہ حاجت وضرورت سے ہے بنا بریں کم و بیش کے فرق کے ساتھ بہ قدر حاجت و ضرورت خرچ کرنا بالاتفاق جائز ہے ۔
دوسرا خرچ وہ ہے جو اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں ، یا ہر اہم مرحلے پر وہ اپنی اولاد کو عطیہ دیتا ہے تو یہ عطیہ جب بھی وہ دے گا ، اس میں مساوات ضروری ہے ، وہ بچہ ہو یا بچی، ہر ایک کو ایک جیسا عطیہ دے ، یا قیمت میں مساوی ہو ۔ اس میں کمی بیشی کو نبی e نے عدل (انصاف) کے خلاف قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر wکا مشہور واقعہ ہے کہ ان کو ان کے والد نے بہ طور عطیہ ایک غلام دیا تو ان کی اہلیہ نے کہا: اس پر نبی eکو گواہ بنائو۔ وہ اس مقصد کے لیے نبی eکے پاس گئے تو آپ نے ان سے پوچھا: تمھارے اور بھی بیٹے (یا اولاد ) ہیں ؟ ان کو بھی اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟ اُنھوں نے کہا: اولاد تو اور بھی ہے لیکن غلام صرف اسی ایک بیٹے کو دیاہے۔ آپ نے فرمایا: یہ ظلم ہے ، میں اس پر گواہ نہیں بنوں گا اورفرمایا:
((اتقوا اللّٰہ واعدلوا بین اولادکم۔))
(صحیح بخاری،رقم:۲۵۸۶،۲۵۸۷)
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو ۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عطیات میں اولاد کے درمیان مساوات (برابری) ضروری ہے اور عدمِ مساوات ظلم ہے اور عدل کے خلاف ہے ۔
تاہم اس میں علماء کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ’’اعدلوا‘‘(امر کا صیغہ )یہاں وجوب کے لیے ہے یا استحباب کے لیے ۔ بعض اس کو وجوب پر اور بعض استحباب پر محمول کرتے ہیں ۔(ملاحظہ ہو ’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘ازڈاکٹر وہبہ زحیلی(شام) :۵/۴۰۱۳)
وجوب کی صورت میں مساوات ضروری ہے اور عدم مساوات ناجائز اور گناہ ہے۔ استحباب کا مطلب ہے کہ اگر مساوات کا اہتمام کر لیا جائے تو بہتر ہے ورنہ تفاضل (باہم کمی بیشی ) جائز ہے ۔ الفاظ حدیث کی رو سے وجوب والاموقف زیادہ قوی ہے گو جمہور علماء استحباب ہی کے قائل ہیں۔
ایک تیسری صورت ہے جس کی بابت سوال کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں ان خطرات و خدشات کے پیش نظر، جو ہمارے معاشرے میں عام ہیں اور سوال میں بھی ان کی طرف اشارہ کیا گیاہے ، اپنی جائیداد تقسیم کرنی چاہتا ہے تو کیا وہ وراثت کے اُصول {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} (لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کے دو حصے) کے مطابق تقسیم کر سکتا ہے یا نہیں ؟یا اس میں بھی مساوات ضروری ہے ؟
علماء کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ وراثت وہی ہے جو مرنے کے بعد تقسیم ہو ۔ زندگی میں وراثت کی تقسیم نہیں ہو سکتی ۔ زندگی میں جائیداد کی تقسیم عطیہ ہی ہوگی جس میں مساوات ضروری ہے اور ان کی دلیل وہی نعمان بن بشیر tوالی حدیث ہی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی واضح نص نہیں ہے ۔ حالانکہ یہ ایک تیسری صورت ہے جو دوسری صورت سے یکسر مختلف ہے ، اس کو بھی دوسری ہی صورت پر محمول کر کے اس پر بھی وہی حکم لگانا قرین قیاس نہیں ہے ۔ اسی لیے بہت سے ائمہ نے جمہور کی رائے سے اختلاف کیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ زندگی میں جائیداد{لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے اُصول پر تقسیم کرنا جائز ہے ۔ اس موقع پر یہی مساوات بھی ہے اور یہی عدل بھی ہے ،چنانچہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں :
’’وقال الحنابلۃ ومحمد من الحنیفۃ: للاب ان یقسم بین اولادہ علی حسب قسمۃ اللہ تعالی فی المیراث ، فیجعل للذکر مثل حظ الانثیین، لان اللہ تعالی قسم بینہم کذلک۔ واولی ما اقتدی بہ ھو قسمۃ اللّٰہ۔‘‘
’’حنابلہ اور احناف میں سے امام محمد نے کہا ہے : باپ کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم کے مطابق تقسیم کردے جو اللہ نے میراث کی بابت بتلائی ہے ، یعنی لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر ۔ اس لیے کہ اللہ نے ان کے درمیان اسی طرح تقسیم کی ہے۔ اور زیادہ لائق بات ، جس کی پیروی کی جائے ، وہ اللہ تعالیٰ ہی کی تقسیم ہے۔ ‘‘
آگے چل کر ان روایات کا ذکر کر نے کے بعد جن میں ’’اعدلوا‘‘کی بجائے ((سووا)) یعنی برابر ی کرو کے الفاظ ہیں، لکھتے ہیں کہ مساوات کی کیفیت کیا ہوگی ؟ اس میں بھی اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ عطیہ میں مرد عورت کے درمیان برابری ہو ۔ پھر لکھتے ہیں :
’’وقال الحنابلۃ : بل التسویۃ ان یجعل للذکر مثل حظ الانثیین علی حسب التوریث۔‘‘
(الفقہ الاسلامی : ۵/۴۰۱۴)
’’اور حنابلہ نے کہا ہے: برابری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُصول وراثت کے مطابق لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے ۔ ‘‘
حافظ ابن حجر aلکھتے ہیں :
’’ثم اختلفوا فی صفۃ التسویۃ ، فقال محمد بن الحسن و احمد و اسحاق وبعض الشافعیۃ والمالکیۃ : العدل ان یعطی الذکر حظین کالمیراث ، واحتجوا بأنہ حظھا من ذلک المال لو ابقاہ الواہب فی یدہ حتی مات۔‘‘(فتح الباری :۵/۲۶۳،۲۶۴)
’’برابری کس طرح ہو ؟ اس میں اختلاف ہے ۔ امام محمد بن الحسن (احناف میں سے ) امام احمد ، امام اسحاق اور شوافع اور مالکیہ میں سے بعض حضرات نے کہا ہے : عدل یہ ہے کہ مرد کو دو حصے دیے جائیں جیسے میراث میں ہوتا ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ عورت کا یہی (ایک ) حصہ اس وقت ہوگا جب مال ، ہبہ کرنے والے کے پاس ہی رہے حتیٰ کہ اسے موت آجائے۔‘‘ (اور اس کا مال تقسیم ہو تو عورت کو ایک ہی حصہ ملے گا)
سید سابق مصری aلکھتے ہیں :
’’فالحق ان التسویۃ واجبۃ وان التفضیل محرم۔ واختلف الموجبون فی کیفیۃ التسویۃ ، فقال محمد بن الحسن واحمد واسحاق و بعض الشافعیۃ والمالکیۃ: العدل ان یعطی الذکر حظین کالمیراث، واحتجوا بان ذلک حظہ من المال لومات عند الواہب۔‘‘ (فقہ السنۃ:۳/۳۹۶)
اس عبارت کا مفہوم تقریباً وہی ہے جو حافظ ابن حجر کی عبارت کا ہے، اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمالیں ۔
فقہ حنبلی کی ایک نہایت اہم کتاب ’’زاد المستقنع‘‘ ہے ۔ اس کی شرح شیخ محمد بن صالح العثیمین aنے کی ہے ۔ ’’زاد المستقنع‘‘ کے مولف نے لکھا ہے:
’’یجب التعدیل فی عطیۃ اولادہ بقدر ارثہم۔‘‘
’’اپنی اولاد کو عطیہ دینے میں عدل کرنا واجب (فرض) ہے اور عدل تب ہوگا جب وہ وراثت کے بہ قدر عطیہ دے گا ۔‘‘ یعنی لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ ۔
شیخ عثیمین اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’بہ قدر وراثت‘‘ کا مطلب ہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر دیا جائے ۔ اور یہ معاملہ خالص عطیے کے لیے ہے ۔ اگر عطیے میں برابری (مساوات) کرے گا تو یہ ظلم ہوگا ، اس لیے کہ اس نے لڑکی کا حصہ زیادہ اور لڑکے کا حصہ کم کر دیا۔‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’زاد المستقنعکے مولف نے وجوب تعدیل کے بارے میں جس رائے کا اظہار کیا ہے ، وہی راجح قول ہے کہ اولاد کو عطیہ اُس اُصول وراثت کے مطابق دیا جائے جس اُصول کاذکر اللہ نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور وہ {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ}[النساء: ۱۱] ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی تقسیم سے زیادہ عدل کسی بات میں نہیں۔ اور جس نے یہ کہا ہے کہ زندگی اور موت کی تقسیم میں فرق ہے تو یہ بات دلیل کی محتاج ہے ۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ زندگی اور مرنے کے بعد دونوں صورتوں میں وہ (ورثاء اُصولِ وراثت میں ) برابرہیں۔‘‘
شیخ عثیمین کی اصل عربی عبارت حسب ذیل ہے :
’’وما ذکرہ المؤلف- رحمہ اللہ-ہو القول الراجح، ان الاولاد یعطون علی حسب ما ذکر اللہ -عزوجل-فی کتابہ فی ارثہم: {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ}[النساء:۱۱] ولاشک انہ لا اعدل من قسمۃ اللہ-عزوجل- ومن قال: ان ھناک فرقا بین الحیات والممات فانہ یحتاج الی دلیل علی ذلک۔فنقول: ہم فی الحیاۃ وبعد الممات سواء۔‘‘
(الشرح الممتع:۱۱/۷۹،۸۰)
ہمارے خیال میں شیخ عثیمین کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ زندگی اور مرنے کے بعد کی تقسیم میں فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی ہی میں تقسیم جائیداد کو عطیہ ہی قرار دینا اور اس میں لڑکے اور لڑکی کے حصوں میں برابری کو ضروری قرار دینا ، اس کی کوئی واضح نص (دلیل) ہونی چاہیے جو کہ نہیں ہے ۔ یا بہ الفاظ دیگر ، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ لڑکے اور لڑکی کے حصوں میں برابری کی بجائے وہ یہ تقسیم {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے اُصول پر کرے۔
محض حضرت نعمان بن بشیر wکے واقعے کی بنیاد پر تقسیم وراثت کو عطیہ ہی قرار دینا اور اس میں مساوات کو ضروری قرار دینا ، یہ واقعہ زیر بحث مسئلے میں نص صریح کی حیثیت ہی نہیں رکھتا ۔ یہ عام عطیے کی بات ہے ، اس میں مساوات یا عدل کا حکم ہے ۔ لیکن تقسیم جائیداد کی نیت سے اولاد کو دینا ، یہ اس سے یکسر الگ مسئلہ ہے ۔ اس کے لیے جب تک کوئی واضح دلیل نہیں ہوگی کہ یہ بھی عطیہ ہی کے حکم میں ہوگا ، اس وقت تک اس کو عطیہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
یہ علماء کی اپنی رائے ہے کہ باپ زندگی میں جو کچھ بھی دے گا ، وہ عطیہ ہی ہے ۔ ہمارے خیال میں وہ عطیے کی نیت سے دے گا تو وہ عطیہ ہی ہوگا جس میں مساوات کا اہتمام حدیث مذکور کے مطابق ضروری ہے ۔ لیکن جائیداد کی تقسیم عطیہ نہیں ہے۔ اور باپ اگر ایسا کرنا چاہتا ہے تو اس کی نیت عطیے کی ہر گز نہیں ہوتی ، وہ اولاد کو متوقع جھگڑوں سے بچانے اور اپنے بیٹوں کو اور بہنوں کو ان کے حصوں سے محروم کرنے کے جرم سے بچانے کے لیے جائیداد کی تقسیم کرتا ہے ۔ اور جائیداد کی تقسیم میں لڑکے اور لڑکی کے حصوں میں فرق نہ کرنا ، اللہ کی تقسیم کے خلاف ہے ، یہ تقسیم زندگی میں ہو یا مرنے کے بعد ، اس میں عدل یہی ہے کہ دونوں صورتوں میں {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے اُصول کو ملحوظ رکھا جائے ۔ ورنہ شیخ عثیمین کے بہ قول یہ ظلم ہوگا ، عدل نہیں۔ عدل اللہ ہی کی تقسیم میں ہے ، زندگی میں ہو یا مرنے کے بعد۔
چند اشکالات کی وضاحت :
1…بعض روایات میں رسول اللہ eکے یہ الفاظ بھی آئے ہیں :
((اترید ان یکونوا لک فی البر سواء؟))
’’کیا تو چاہتا ہے کہ تیرے سارے بچے تیرے ساتھ یکساں حسن سلوک کریں ؟‘‘
مطلب آپe کا یہی تھا کہ کسی کو کم یا کسی کو عطیہ زیادہ دے گا تو جن کو کم ملے گا وہ تیرے ساتھ اس طرح حسن سلوک نہیں کریں گے جس طرح وہ کریں گے جن کو زیادہ ملے گا ۔ اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے سارے بیٹے تیرے ساتھ یکساں حسن سلوک کریں تو پھر عطیہ بھی سب کو برابر دے ۔ اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ عطیے میں مساوات ضروری ہے ۔
لیکن حسن سلوک کا تعلق زیادہ تر لڑکوں کے ساتھ ہوتا ہے ، لڑکیاں تو اپنے اپنے گھروں میں جا آباد ہوتی ہیں ، لڑکے ہی بالعموم ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں ، ساتھ رہتے ہوں تب بھی اور علیحدہ ہو جائیں، تب بھی ۔ آپ کی اس بات کا تعلق بھی لڑکوں ہی کے ساتھ ہے اور لڑکوں کے حصے تو برابر ہی ہوں گے ، چاہے وہ کتنے بھی ہوں۔ اسی لیے بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں :((الک بنون؟)) ’’کیا اس بیٹے کے علاوہ تیرے اور بھی بیٹے ہیں ؟‘‘اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس واقعے کا تعلق صرف بیٹوں ہی سے ہے ۔ ان کے حصوں میں (اگر جائیداد کی تقسیم ہو ) یا عطیہ میں کمی بیشی ہوگی تو پھر واقعی سارے بیٹے باپ کے ساتھ حسن سلوک میں یکساں رویہ اختیار نہیں کریں گے ۔ اور ظاہر بات ہے کہ تقسیم جائیداد میں تو سب بیٹوں کا حصہ برابر ہی ہوگا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اولاد اگر دین کی پابند اور دین کی سمجھ رکھنے والی ہوگی ، چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں ، جب ان کو یہ معلوم ہوگا کہ ہمارے باپ نے جائیداد کی جو یہ تقسیم کی ہے ، وہ اللہ کی تقسیم کے مطابق ہے اور باپ کے مرنے کے بعد بھی ہمارے یہی حصے ہوں گے جو باپ اپنی زندگی میں دے رہا ہے ۔ تو کسی بھی لڑکے یا لڑکی کے دل میں باپ کے خلاف یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ ہمارے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے اوراس کی وجہ سے وہ حسن سلوک میں کوتاہی کریں گے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس فرمانِ نبوی کا تعلق عام عطیے سے ہے ، تقسیم وراثت، عطیہ نہیں ہے ۔ اس لیے اس حدیث کا مسئلہ زیر بحث سے تعلق ہی نہیں ہے ۔
2…دوسرا اشکال یہ پیدا کیا جا سکتا ہے کہ زندگی میں وراثت کی تقسیم میں یہ امکان ہے کہ اولاد میں سے کوئی بچہ یا بچی اپنا حصہ وراثت وصول کرنے کے بعد ، باپ کی زندگی میں ہی فوت ہو جائے جب کہ مسئلہ یہ ہے کہ باپ کی زندگی میں فوت ہونے والا بچہ باپ کی جائیداد سے محروم ہوتا ہے ۔ لیکن اس صورت میں تو وہ بھی محروم نہیں رہا اورمرنے کے باوجود بھی حصہ وراثت اس کو مل گیا ۔
یہ اشکال دو وجہ سے اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتا :
پہلی بات تو یہ ہے کہ جائیداد کی تقسیم کا یہ خیال یا مرحلہ انسان کی زندگی کے آخری ایام یا آخری سالوں ہی میں آتا ہے ۔ اس میں غالب امکان مورث(باپ ) ہی کی وفات کا ہوتا ہے ۔ اس لیے ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ بوڑھے باپ کی زندگی میں اس کا کوئی بچہ فوت ہو جائے ۔ اس لیے شاذ و نادر ہونے والے امکان کے پیش نظر ایک مفید اقدام سے روکنا کوئی مستحسن امر نہیں ہوگا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ مرنے والا بچہ (مرد ہو یا عورت) اگر حصہ وراثت لینے کے بعد دنیا سے چلا گیا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ تقسیم کے وقت تو وراثت شرعی اُصول کے مطابق ہی ہوئی ہے ، وہ اس وقت وارث تھا اور اپنے حصے کا مستحق تھا ۔ اب اس کے چھوڑے ہوئے مال کے وارث اس کے بچے (یعنی زندہ دادا ، یا نانا کے پوتے نواسے) ہو گئے تو اس میں قباحت کیا ہے ؟ یہ ٹھیک ہے کہ دادا کی زندگی میں یتیم ہونے والے پوتے یا نواسے دادا ، یا نانا کی وراثت میں حصے دار نہیں ہوتے ۔ لیکن اگر اس طرح ان کو بھی دادا ، یا نانا کی وراثت میں سے حصہ مل گیا ہے تو یہ اللہ کی مشیت کے مطاق ہی ہے ۔
آخر شریعت میں بھی تو ایک ثلث (تہائی مال ) کی وصیت کی اجازت دی گئی ہے اور اس اجازت میں حکمت یہی ہے کہ اگر کسی شخص کے یتیم پوتے یا نواسے ، یا کوئی اور ضرورت مند خاندان میں ہوں اور وہ تعاون کے مستحق ہوں تو ایسے لوگوں کے لیے وصیت کی جاسکے۔ اور خاندان میں پوتوں ، نواسوں سے زیادہ اہم کون ہو سکتا ہے ؟ یہ تو ہمارے معاشرے کے لوگوں کی کوتاہی ہے کہ ایسی ناگہانی صورت میں ہمارے لوگ یتیم بچوں ، بچیوں کے لیے وصیت کرنے کا یہ حق استعمال نہیں کرتے ، حالانکہ ایسی صورت میں یہ وصیت نہایت ضروری ہوتی ہے ، ہماری اس کو تاہی کی وجہ سے لوگوں کو اسلام پر یہ اعتراض کرنے کا موقع ملتا ہے جس کو منحرفین خوب اچھالتے ہیں کہ اسلام میں پوتوں اور نواسوں کو وراثت سے محروم رکھا گیا ہے اور وہ اسلام کے اس اُصول کی اہمیت کو نہیں سمجھتے کہ وراثت میں ’’الاقرب فالا قرب‘‘ تقسیم کی بنیاد ہے اور ’’اقرب‘‘ کے ہوتے ہوئے ’’ابعد‘‘ وارث نہیں ہوتا ۔ لیکن یتیم پوتوں ، نواسوں کی موجودگی میں اگر ایک تہائی مال کی وصیت کا صحیح معنوں میں اہتمام کیا جائے یا ورثاء ہی اپنے طور پر جائیداد کا ایک ثلث اپنے یتیم بھتیجوں یا بھانجوں میں تقسیم کر دیں تو ان کی بھی داد رسی کا اہتمام اور وراثت سے محرومی کا ازالہ ہو سکتا ہے ۔ اس اعتبار سے اس اشکال میں بھی کوئی وزن نہیں رہتا ۔
اس طرح تقسیم وراثت کے بعد کسی وارث کے (مورث کی موجودگی میں ) فوت ہو جانے سے کوئی شرعی قباحت پیدا نہیں ہوتی بلکہ قدرتی طور پر اللہ کی مشیت سے یتیم پوتوں یا نواسوں کی داد رسی کا اہتمام ہو جاتا ہے جو ایک مستحسن امر ہے نہ کہ شرعاً ناپسندیدہ صورت۔
ایک اور اشکال کی وضاحت :
ایک اعتراض یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ وراثت کی تقسیم تو اصلاً بعد الممات کا مسئلہ ہے ، اسے موت سے قبل ہی تقسیم کرنے سے مسئلے کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے ۔ جو کام مرنے کے بعد کیا جانا چاہیے ، وہ پہلے کر لیا جائے تو یہ ٹھیک تو نہیں ہوگا ۔
یہ بات تو ایک حد تک صحیح ہے لیکن اس میں دو باتیں قابل غور ہیں:
اولاً: اس میں تقدیم و تاخیر تو ضرور ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے تقسیم وراثت میں مرد و عورت کے حصوں میں جو فرق کیا ہے ، وہ نہایت اہم حکمت پر مبنی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام میں اخراجات کا بوجھ تمام تر مرد پر ہے ، شادی کی صورت میں بیوی کا نان و نفقہ ، مہر ، رہائش ، ولیمہ ، اگر چھوٹے بہن بھائی ہوں تو (باپ کے مرنے کے بعد )ان کے تعلیمی اخراجات ، نان نفقہ اور ان کی شادی وغیرہ سب مردوں یعنی بڑے بھائی یا بھائیوں ہی کے ذمہ ہوتے ہیں ۔ جب کہ عورت زندگی کے کسی بھی مرحلے میں مالی انفاق کی ذمہ دار نہیں ہے ۔ یہ حکمت اس بات کی متقاضی ہے کہ تقسیم جائیداد اگر زندگی میں کی جائے تو اس حکمت کوملحوظ رکھا جائے اور ایسا تب ہی ہوگا جب {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے مطابق ہی تقسیم ہو مساوات میں یہ حکمت فوت ہو جاتی ہے جو حکم الٰہی میں مطلوب اور اس کا اصل منشاہے ۔
ثانیاً: زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا صرف جو از پیش کیا گیا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں بالعموم جو عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے یا اس کی کوشش کی جاتی ہے ، اس کا ازالہ کیا جاسکے ۔ اس جواز کی حیثیت کو معاشرے کی عمومی صورت حال کے پیش نظر اضطرار پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو شخص یہ محسوس کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد پر صرف لڑکے ہی قابض ہو جائیں گے اور وہ اپنی بہنوں کو ان کا حق نہیں دیں گے جیسا کہ اکثر و بیشتر ہو رہا ہے تو وہ اپنی زندگی ہی میں اللہ کی تقسیم کے مطابق تقسیم کر دے ۔ اور جہاں اس قسم کا خدشہ نہ ہو تو وہاں بلا ضرورت اس طرح تقسیم نہ کی جائے ۔
(ایک قابل تنقیح و تحقیق مسئلہ)
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف
سوال: مکرمی و محترمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
((اعدلوا بین اولادکم))کی بابت مولانا عبد الخالق کا تفصیلی فتویٰ (مطبوعہ ماہ نامہ ’’ضیائے حدیث‘‘لاہور:جلد:۲۳،شمارہ:۲۔فروری ۲۰۱۴ء)ماشاء اللہ بہت مدلل ہے۔ تاہم اگر اس کوزندگی میں جب کہ باپ بالکل صحت مند ہو ، پر محمول کر لیا جائے اور عمر کے آخری مرحلے میں جب کہ وہ عمر طبعی گزار چکا ہو اور اپنی اولاد کو وراثت کے جھگڑوں سے بچانے کے لیے بالخصوص لڑکیوں کو محروم کرنے کے خطرے کی پیش نظر اگر وراثت کو {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے اُصول پر تقسیم کر لینے کو ہبہ سے الگ تصور کر لیا جائے تو کیا شرعاً اس کی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں؟
اس کی ممانعت کے لیے واضح نص تو نہیں ہے ، صرف محولہ واقعہ ہی ہے جس کو علماء کی اکثریت نے زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے پربھی محمول کر لیا ہے چاہے وہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہو اور چاہے اس کی نیت ہبہ کی نہ ہو بلکہ جائیداد کی تقسیم کی ہو۔ علماء کہتے ہیں کہ زندگی میں یہ تقسیم ہبہ ہی متصور ہوگی جس میں مساوات ضروری ہے ۔
اس کی وجہ سے بہت سی صورتوں میں اکثر و بیشتر دو خرابیاں رونما ہوتی ہیں:
۱: جائیداد پر قابض بڑی اولاد ، چھوٹی اولاد پر ظلم کرتی ہے ۔
۲: لڑکیوں کو ۲/۱ حصہ بھی نہیں دیتی ۔
ہمارے معاشرے میں ، جہاں آخرت کا تصور زہنوں سے تقریباً ختم ہو گیا ہے ، یہ دونوں صورتیں عام ہیں ۔
ان خرابیوں سے عوام کو بچانے کے لیے اگر ہبہ اور تقسیم جائیداد کو دو الگ الگ چیزیں تسلیم کرکے ہبہ میں مساوات اور تقسیم جائیداد میں (زندگی میں) ۲/۱ کی بنیاد کو مان لیا جائے تو مذکورہ خرابیوں کا بہت حد تک انسداد ممکن ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شرعاً اس کی گنجائش ہے ؟ یہ ایک استفسار ہے جس کو شرعی دلائل ہی کی روشنی میں حل کرنا ہے ۔
راقم کی رائے میں اس پر غور و فکر کی شدید ضرورت ہے ، آپ تمام حضرات بھی اس پر غور کریں اور دیگر جماعت کے فحول علماء سے بھی رابطہ کیا جائے تاکہ نصوص شریعت کی روشنی میں اس کا حل نکل سکتا ہے تو یہ وقت کی ضرورت ہے ۔
امام احمد کے نزدیک معقول وجوہات کی بنیاد پرعطیے میں بھی تفاضل جائز ہے تو کیا مذکورہ دو وجوہات کی بنیاد پر جائیداد کی تقسیم ۲/۱ کے اُصول پر ممکن نہیں ؟
علاوہ ازیں غالباً ائمہ ثلاثہ((اعدلوا…الخ)) کو استحباب پر محمول کرتے ہیں ۔ کیا اس بنیاد پر {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے اُصول کو اپنایا جا سکتا ہے ؟نیز کیا ورثاء کی رضا مندی سے بھی کمی بیشی جائز ہے؟ کیا اس طرح متوقع جھگڑوں کے سد باب کے لیے صاحب جائیداد اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم نہیں کر سکتا ؟
یہ غور و فکر کے لیے چند اشارے ہیں کیا نصوص سے ان کی گنجائش نکل سکتی ہے ؟
الجواب بعون الوہاب۔یہ استفسار نہایت اہمیت کا حامل اور اس قابل ہے کہ دلائل شرعیہ کی روشنی میں اگر اس کا صحیح حل نکل سکتا ہے تو علماء کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں راقم اپنی طالب علمانہ رائے اور اپنے غور و فکر کا حاصل بیان کرتا ہے ۔ ان کان الصواب فمن اللہ وان یک خطأ فمنی و من الشیطان، واللہ ورسولہ بریئان۔
باپ اپنی اولاد پر جو خرچ کرتا رہتا ہے ، اس میں تو مساوات ناممکن ہے ۔ اس لیے کہ ہر بچے کی حاجت و ضرورت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ ان اخراجات کا تعلق چونکہ حاجت وضرورت سے ہے بنا بریں کم و بیش کے فرق کے ساتھ بہ قدر حاجت و ضرورت خرچ کرنا بالاتفاق جائز ہے ۔
دوسرا خرچ وہ ہے جو اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں ، یا ہر اہم مرحلے پر وہ اپنی اولاد کو عطیہ دیتا ہے تو یہ عطیہ جب بھی وہ دے گا ، اس میں مساوات ضروری ہے ، وہ بچہ ہو یا بچی، ہر ایک کو ایک جیسا عطیہ دے ، یا قیمت میں مساوی ہو ۔ اس میں کمی بیشی کو نبی e نے عدل (انصاف) کے خلاف قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر wکا مشہور واقعہ ہے کہ ان کو ان کے والد نے بہ طور عطیہ ایک غلام دیا تو ان کی اہلیہ نے کہا: اس پر نبی eکو گواہ بنائو۔ وہ اس مقصد کے لیے نبی eکے پاس گئے تو آپ نے ان سے پوچھا: تمھارے اور بھی بیٹے (یا اولاد ) ہیں ؟ ان کو بھی اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟ اُنھوں نے کہا: اولاد تو اور بھی ہے لیکن غلام صرف اسی ایک بیٹے کو دیاہے۔ آپ نے فرمایا: یہ ظلم ہے ، میں اس پر گواہ نہیں بنوں گا اورفرمایا:
((اتقوا اللّٰہ واعدلوا بین اولادکم۔))
(صحیح بخاری،رقم:۲۵۸۶،۲۵۸۷)
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو ۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عطیات میں اولاد کے درمیان مساوات (برابری) ضروری ہے اور عدمِ مساوات ظلم ہے اور عدل کے خلاف ہے ۔
تاہم اس میں علماء کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ’’اعدلوا‘‘(امر کا صیغہ )یہاں وجوب کے لیے ہے یا استحباب کے لیے ۔ بعض اس کو وجوب پر اور بعض استحباب پر محمول کرتے ہیں ۔(ملاحظہ ہو ’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘ازڈاکٹر وہبہ زحیلی(شام) :۵/۴۰۱۳)
وجوب کی صورت میں مساوات ضروری ہے اور عدم مساوات ناجائز اور گناہ ہے۔ استحباب کا مطلب ہے کہ اگر مساوات کا اہتمام کر لیا جائے تو بہتر ہے ورنہ تفاضل (باہم کمی بیشی ) جائز ہے ۔ الفاظ حدیث کی رو سے وجوب والاموقف زیادہ قوی ہے گو جمہور علماء استحباب ہی کے قائل ہیں۔
ایک تیسری صورت ہے جس کی بابت سوال کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں ان خطرات و خدشات کے پیش نظر، جو ہمارے معاشرے میں عام ہیں اور سوال میں بھی ان کی طرف اشارہ کیا گیاہے ، اپنی جائیداد تقسیم کرنی چاہتا ہے تو کیا وہ وراثت کے اُصول {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} (لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کے دو حصے) کے مطابق تقسیم کر سکتا ہے یا نہیں ؟یا اس میں بھی مساوات ضروری ہے ؟
علماء کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ وراثت وہی ہے جو مرنے کے بعد تقسیم ہو ۔ زندگی میں وراثت کی تقسیم نہیں ہو سکتی ۔ زندگی میں جائیداد کی تقسیم عطیہ ہی ہوگی جس میں مساوات ضروری ہے اور ان کی دلیل وہی نعمان بن بشیر tوالی حدیث ہی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی واضح نص نہیں ہے ۔ حالانکہ یہ ایک تیسری صورت ہے جو دوسری صورت سے یکسر مختلف ہے ، اس کو بھی دوسری ہی صورت پر محمول کر کے اس پر بھی وہی حکم لگانا قرین قیاس نہیں ہے ۔ اسی لیے بہت سے ائمہ نے جمہور کی رائے سے اختلاف کیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ زندگی میں جائیداد{لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے اُصول پر تقسیم کرنا جائز ہے ۔ اس موقع پر یہی مساوات بھی ہے اور یہی عدل بھی ہے ،چنانچہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں :
’’وقال الحنابلۃ ومحمد من الحنیفۃ: للاب ان یقسم بین اولادہ علی حسب قسمۃ اللہ تعالی فی المیراث ، فیجعل للذکر مثل حظ الانثیین، لان اللہ تعالی قسم بینہم کذلک۔ واولی ما اقتدی بہ ھو قسمۃ اللّٰہ۔‘‘
’’حنابلہ اور احناف میں سے امام محمد نے کہا ہے : باپ کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم کے مطابق تقسیم کردے جو اللہ نے میراث کی بابت بتلائی ہے ، یعنی لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر ۔ اس لیے کہ اللہ نے ان کے درمیان اسی طرح تقسیم کی ہے۔ اور زیادہ لائق بات ، جس کی پیروی کی جائے ، وہ اللہ تعالیٰ ہی کی تقسیم ہے۔ ‘‘
آگے چل کر ان روایات کا ذکر کر نے کے بعد جن میں ’’اعدلوا‘‘کی بجائے ((سووا)) یعنی برابر ی کرو کے الفاظ ہیں، لکھتے ہیں کہ مساوات کی کیفیت کیا ہوگی ؟ اس میں بھی اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ عطیہ میں مرد عورت کے درمیان برابری ہو ۔ پھر لکھتے ہیں :
’’وقال الحنابلۃ : بل التسویۃ ان یجعل للذکر مثل حظ الانثیین علی حسب التوریث۔‘‘
(الفقہ الاسلامی : ۵/۴۰۱۴)
’’اور حنابلہ نے کہا ہے: برابری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُصول وراثت کے مطابق لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے ۔ ‘‘
حافظ ابن حجر aلکھتے ہیں :
’’ثم اختلفوا فی صفۃ التسویۃ ، فقال محمد بن الحسن و احمد و اسحاق وبعض الشافعیۃ والمالکیۃ : العدل ان یعطی الذکر حظین کالمیراث ، واحتجوا بأنہ حظھا من ذلک المال لو ابقاہ الواہب فی یدہ حتی مات۔‘‘(فتح الباری :۵/۲۶۳،۲۶۴)
’’برابری کس طرح ہو ؟ اس میں اختلاف ہے ۔ امام محمد بن الحسن (احناف میں سے ) امام احمد ، امام اسحاق اور شوافع اور مالکیہ میں سے بعض حضرات نے کہا ہے : عدل یہ ہے کہ مرد کو دو حصے دیے جائیں جیسے میراث میں ہوتا ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ عورت کا یہی (ایک ) حصہ اس وقت ہوگا جب مال ، ہبہ کرنے والے کے پاس ہی رہے حتیٰ کہ اسے موت آجائے۔‘‘ (اور اس کا مال تقسیم ہو تو عورت کو ایک ہی حصہ ملے گا)
سید سابق مصری aلکھتے ہیں :
’’فالحق ان التسویۃ واجبۃ وان التفضیل محرم۔ واختلف الموجبون فی کیفیۃ التسویۃ ، فقال محمد بن الحسن واحمد واسحاق و بعض الشافعیۃ والمالکیۃ: العدل ان یعطی الذکر حظین کالمیراث، واحتجوا بان ذلک حظہ من المال لومات عند الواہب۔‘‘ (فقہ السنۃ:۳/۳۹۶)
اس عبارت کا مفہوم تقریباً وہی ہے جو حافظ ابن حجر کی عبارت کا ہے، اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمالیں ۔
فقہ حنبلی کی ایک نہایت اہم کتاب ’’زاد المستقنع‘‘ ہے ۔ اس کی شرح شیخ محمد بن صالح العثیمین aنے کی ہے ۔ ’’زاد المستقنع‘‘ کے مولف نے لکھا ہے:
’’یجب التعدیل فی عطیۃ اولادہ بقدر ارثہم۔‘‘
’’اپنی اولاد کو عطیہ دینے میں عدل کرنا واجب (فرض) ہے اور عدل تب ہوگا جب وہ وراثت کے بہ قدر عطیہ دے گا ۔‘‘ یعنی لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ ۔
شیخ عثیمین اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’بہ قدر وراثت‘‘ کا مطلب ہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر دیا جائے ۔ اور یہ معاملہ خالص عطیے کے لیے ہے ۔ اگر عطیے میں برابری (مساوات) کرے گا تو یہ ظلم ہوگا ، اس لیے کہ اس نے لڑکی کا حصہ زیادہ اور لڑکے کا حصہ کم کر دیا۔‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’زاد المستقنعکے مولف نے وجوب تعدیل کے بارے میں جس رائے کا اظہار کیا ہے ، وہی راجح قول ہے کہ اولاد کو عطیہ اُس اُصول وراثت کے مطابق دیا جائے جس اُصول کاذکر اللہ نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور وہ {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ}[النساء: ۱۱] ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی تقسیم سے زیادہ عدل کسی بات میں نہیں۔ اور جس نے یہ کہا ہے کہ زندگی اور موت کی تقسیم میں فرق ہے تو یہ بات دلیل کی محتاج ہے ۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ زندگی اور مرنے کے بعد دونوں صورتوں میں وہ (ورثاء اُصولِ وراثت میں ) برابرہیں۔‘‘
شیخ عثیمین کی اصل عربی عبارت حسب ذیل ہے :
’’وما ذکرہ المؤلف- رحمہ اللہ-ہو القول الراجح، ان الاولاد یعطون علی حسب ما ذکر اللہ -عزوجل-فی کتابہ فی ارثہم: {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ}[النساء:۱۱] ولاشک انہ لا اعدل من قسمۃ اللہ-عزوجل- ومن قال: ان ھناک فرقا بین الحیات والممات فانہ یحتاج الی دلیل علی ذلک۔فنقول: ہم فی الحیاۃ وبعد الممات سواء۔‘‘
(الشرح الممتع:۱۱/۷۹،۸۰)
ہمارے خیال میں شیخ عثیمین کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ زندگی اور مرنے کے بعد کی تقسیم میں فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی ہی میں تقسیم جائیداد کو عطیہ ہی قرار دینا اور اس میں لڑکے اور لڑکی کے حصوں میں برابری کو ضروری قرار دینا ، اس کی کوئی واضح نص (دلیل) ہونی چاہیے جو کہ نہیں ہے ۔ یا بہ الفاظ دیگر ، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ لڑکے اور لڑکی کے حصوں میں برابری کی بجائے وہ یہ تقسیم {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے اُصول پر کرے۔
محض حضرت نعمان بن بشیر wکے واقعے کی بنیاد پر تقسیم وراثت کو عطیہ ہی قرار دینا اور اس میں مساوات کو ضروری قرار دینا ، یہ واقعہ زیر بحث مسئلے میں نص صریح کی حیثیت ہی نہیں رکھتا ۔ یہ عام عطیے کی بات ہے ، اس میں مساوات یا عدل کا حکم ہے ۔ لیکن تقسیم جائیداد کی نیت سے اولاد کو دینا ، یہ اس سے یکسر الگ مسئلہ ہے ۔ اس کے لیے جب تک کوئی واضح دلیل نہیں ہوگی کہ یہ بھی عطیہ ہی کے حکم میں ہوگا ، اس وقت تک اس کو عطیہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
یہ علماء کی اپنی رائے ہے کہ باپ زندگی میں جو کچھ بھی دے گا ، وہ عطیہ ہی ہے ۔ ہمارے خیال میں وہ عطیے کی نیت سے دے گا تو وہ عطیہ ہی ہوگا جس میں مساوات کا اہتمام حدیث مذکور کے مطابق ضروری ہے ۔ لیکن جائیداد کی تقسیم عطیہ نہیں ہے۔ اور باپ اگر ایسا کرنا چاہتا ہے تو اس کی نیت عطیے کی ہر گز نہیں ہوتی ، وہ اولاد کو متوقع جھگڑوں سے بچانے اور اپنے بیٹوں کو اور بہنوں کو ان کے حصوں سے محروم کرنے کے جرم سے بچانے کے لیے جائیداد کی تقسیم کرتا ہے ۔ اور جائیداد کی تقسیم میں لڑکے اور لڑکی کے حصوں میں فرق نہ کرنا ، اللہ کی تقسیم کے خلاف ہے ، یہ تقسیم زندگی میں ہو یا مرنے کے بعد ، اس میں عدل یہی ہے کہ دونوں صورتوں میں {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے اُصول کو ملحوظ رکھا جائے ۔ ورنہ شیخ عثیمین کے بہ قول یہ ظلم ہوگا ، عدل نہیں۔ عدل اللہ ہی کی تقسیم میں ہے ، زندگی میں ہو یا مرنے کے بعد۔
چند اشکالات کی وضاحت :
1…بعض روایات میں رسول اللہ eکے یہ الفاظ بھی آئے ہیں :
((اترید ان یکونوا لک فی البر سواء؟))
’’کیا تو چاہتا ہے کہ تیرے سارے بچے تیرے ساتھ یکساں حسن سلوک کریں ؟‘‘
مطلب آپe کا یہی تھا کہ کسی کو کم یا کسی کو عطیہ زیادہ دے گا تو جن کو کم ملے گا وہ تیرے ساتھ اس طرح حسن سلوک نہیں کریں گے جس طرح وہ کریں گے جن کو زیادہ ملے گا ۔ اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے سارے بیٹے تیرے ساتھ یکساں حسن سلوک کریں تو پھر عطیہ بھی سب کو برابر دے ۔ اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ عطیے میں مساوات ضروری ہے ۔
لیکن حسن سلوک کا تعلق زیادہ تر لڑکوں کے ساتھ ہوتا ہے ، لڑکیاں تو اپنے اپنے گھروں میں جا آباد ہوتی ہیں ، لڑکے ہی بالعموم ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں ، ساتھ رہتے ہوں تب بھی اور علیحدہ ہو جائیں، تب بھی ۔ آپ کی اس بات کا تعلق بھی لڑکوں ہی کے ساتھ ہے اور لڑکوں کے حصے تو برابر ہی ہوں گے ، چاہے وہ کتنے بھی ہوں۔ اسی لیے بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں :((الک بنون؟)) ’’کیا اس بیٹے کے علاوہ تیرے اور بھی بیٹے ہیں ؟‘‘اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس واقعے کا تعلق صرف بیٹوں ہی سے ہے ۔ ان کے حصوں میں (اگر جائیداد کی تقسیم ہو ) یا عطیہ میں کمی بیشی ہوگی تو پھر واقعی سارے بیٹے باپ کے ساتھ حسن سلوک میں یکساں رویہ اختیار نہیں کریں گے ۔ اور ظاہر بات ہے کہ تقسیم جائیداد میں تو سب بیٹوں کا حصہ برابر ہی ہوگا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اولاد اگر دین کی پابند اور دین کی سمجھ رکھنے والی ہوگی ، چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں ، جب ان کو یہ معلوم ہوگا کہ ہمارے باپ نے جائیداد کی جو یہ تقسیم کی ہے ، وہ اللہ کی تقسیم کے مطابق ہے اور باپ کے مرنے کے بعد بھی ہمارے یہی حصے ہوں گے جو باپ اپنی زندگی میں دے رہا ہے ۔ تو کسی بھی لڑکے یا لڑکی کے دل میں باپ کے خلاف یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ ہمارے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے اوراس کی وجہ سے وہ حسن سلوک میں کوتاہی کریں گے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس فرمانِ نبوی کا تعلق عام عطیے سے ہے ، تقسیم وراثت، عطیہ نہیں ہے ۔ اس لیے اس حدیث کا مسئلہ زیر بحث سے تعلق ہی نہیں ہے ۔
2…دوسرا اشکال یہ پیدا کیا جا سکتا ہے کہ زندگی میں وراثت کی تقسیم میں یہ امکان ہے کہ اولاد میں سے کوئی بچہ یا بچی اپنا حصہ وراثت وصول کرنے کے بعد ، باپ کی زندگی میں ہی فوت ہو جائے جب کہ مسئلہ یہ ہے کہ باپ کی زندگی میں فوت ہونے والا بچہ باپ کی جائیداد سے محروم ہوتا ہے ۔ لیکن اس صورت میں تو وہ بھی محروم نہیں رہا اورمرنے کے باوجود بھی حصہ وراثت اس کو مل گیا ۔
یہ اشکال دو وجہ سے اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتا :
پہلی بات تو یہ ہے کہ جائیداد کی تقسیم کا یہ خیال یا مرحلہ انسان کی زندگی کے آخری ایام یا آخری سالوں ہی میں آتا ہے ۔ اس میں غالب امکان مورث(باپ ) ہی کی وفات کا ہوتا ہے ۔ اس لیے ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ بوڑھے باپ کی زندگی میں اس کا کوئی بچہ فوت ہو جائے ۔ اس لیے شاذ و نادر ہونے والے امکان کے پیش نظر ایک مفید اقدام سے روکنا کوئی مستحسن امر نہیں ہوگا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ مرنے والا بچہ (مرد ہو یا عورت) اگر حصہ وراثت لینے کے بعد دنیا سے چلا گیا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ تقسیم کے وقت تو وراثت شرعی اُصول کے مطابق ہی ہوئی ہے ، وہ اس وقت وارث تھا اور اپنے حصے کا مستحق تھا ۔ اب اس کے چھوڑے ہوئے مال کے وارث اس کے بچے (یعنی زندہ دادا ، یا نانا کے پوتے نواسے) ہو گئے تو اس میں قباحت کیا ہے ؟ یہ ٹھیک ہے کہ دادا کی زندگی میں یتیم ہونے والے پوتے یا نواسے دادا ، یا نانا کی وراثت میں حصے دار نہیں ہوتے ۔ لیکن اگر اس طرح ان کو بھی دادا ، یا نانا کی وراثت میں سے حصہ مل گیا ہے تو یہ اللہ کی مشیت کے مطاق ہی ہے ۔
آخر شریعت میں بھی تو ایک ثلث (تہائی مال ) کی وصیت کی اجازت دی گئی ہے اور اس اجازت میں حکمت یہی ہے کہ اگر کسی شخص کے یتیم پوتے یا نواسے ، یا کوئی اور ضرورت مند خاندان میں ہوں اور وہ تعاون کے مستحق ہوں تو ایسے لوگوں کے لیے وصیت کی جاسکے۔ اور خاندان میں پوتوں ، نواسوں سے زیادہ اہم کون ہو سکتا ہے ؟ یہ تو ہمارے معاشرے کے لوگوں کی کوتاہی ہے کہ ایسی ناگہانی صورت میں ہمارے لوگ یتیم بچوں ، بچیوں کے لیے وصیت کرنے کا یہ حق استعمال نہیں کرتے ، حالانکہ ایسی صورت میں یہ وصیت نہایت ضروری ہوتی ہے ، ہماری اس کو تاہی کی وجہ سے لوگوں کو اسلام پر یہ اعتراض کرنے کا موقع ملتا ہے جس کو منحرفین خوب اچھالتے ہیں کہ اسلام میں پوتوں اور نواسوں کو وراثت سے محروم رکھا گیا ہے اور وہ اسلام کے اس اُصول کی اہمیت کو نہیں سمجھتے کہ وراثت میں ’’الاقرب فالا قرب‘‘ تقسیم کی بنیاد ہے اور ’’اقرب‘‘ کے ہوتے ہوئے ’’ابعد‘‘ وارث نہیں ہوتا ۔ لیکن یتیم پوتوں ، نواسوں کی موجودگی میں اگر ایک تہائی مال کی وصیت کا صحیح معنوں میں اہتمام کیا جائے یا ورثاء ہی اپنے طور پر جائیداد کا ایک ثلث اپنے یتیم بھتیجوں یا بھانجوں میں تقسیم کر دیں تو ان کی بھی داد رسی کا اہتمام اور وراثت سے محرومی کا ازالہ ہو سکتا ہے ۔ اس اعتبار سے اس اشکال میں بھی کوئی وزن نہیں رہتا ۔
اس طرح تقسیم وراثت کے بعد کسی وارث کے (مورث کی موجودگی میں ) فوت ہو جانے سے کوئی شرعی قباحت پیدا نہیں ہوتی بلکہ قدرتی طور پر اللہ کی مشیت سے یتیم پوتوں یا نواسوں کی داد رسی کا اہتمام ہو جاتا ہے جو ایک مستحسن امر ہے نہ کہ شرعاً ناپسندیدہ صورت۔
ایک اور اشکال کی وضاحت :
ایک اعتراض یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ وراثت کی تقسیم تو اصلاً بعد الممات کا مسئلہ ہے ، اسے موت سے قبل ہی تقسیم کرنے سے مسئلے کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے ۔ جو کام مرنے کے بعد کیا جانا چاہیے ، وہ پہلے کر لیا جائے تو یہ ٹھیک تو نہیں ہوگا ۔
یہ بات تو ایک حد تک صحیح ہے لیکن اس میں دو باتیں قابل غور ہیں:
اولاً: اس میں تقدیم و تاخیر تو ضرور ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے تقسیم وراثت میں مرد و عورت کے حصوں میں جو فرق کیا ہے ، وہ نہایت اہم حکمت پر مبنی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام میں اخراجات کا بوجھ تمام تر مرد پر ہے ، شادی کی صورت میں بیوی کا نان و نفقہ ، مہر ، رہائش ، ولیمہ ، اگر چھوٹے بہن بھائی ہوں تو (باپ کے مرنے کے بعد )ان کے تعلیمی اخراجات ، نان نفقہ اور ان کی شادی وغیرہ سب مردوں یعنی بڑے بھائی یا بھائیوں ہی کے ذمہ ہوتے ہیں ۔ جب کہ عورت زندگی کے کسی بھی مرحلے میں مالی انفاق کی ذمہ دار نہیں ہے ۔ یہ حکمت اس بات کی متقاضی ہے کہ تقسیم جائیداد اگر زندگی میں کی جائے تو اس حکمت کوملحوظ رکھا جائے اور ایسا تب ہی ہوگا جب {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} کے مطابق ہی تقسیم ہو مساوات میں یہ حکمت فوت ہو جاتی ہے جو حکم الٰہی میں مطلوب اور اس کا اصل منشاہے ۔
ثانیاً: زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا صرف جو از پیش کیا گیا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں بالعموم جو عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے یا اس کی کوشش کی جاتی ہے ، اس کا ازالہ کیا جاسکے ۔ اس جواز کی حیثیت کو معاشرے کی عمومی صورت حال کے پیش نظر اضطرار پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو شخص یہ محسوس کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد پر صرف لڑکے ہی قابض ہو جائیں گے اور وہ اپنی بہنوں کو ان کا حق نہیں دیں گے جیسا کہ اکثر و بیشتر ہو رہا ہے تو وہ اپنی زندگی ہی میں اللہ کی تقسیم کے مطابق تقسیم کر دے ۔ اور جہاں اس قسم کا خدشہ نہ ہو تو وہاں بلا ضرورت اس طرح تقسیم نہ کی جائے ۔