محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 890
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 69
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں زکاۃ کے مستحق افراد کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبة: 60)
’’صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں)۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں زکاۃ کے درج ذیل مصارف بیان کیے گئے ہیں:
1،2- لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ: فقیر اور مسکین دونوں لفظ محتاج کے معنی میں آتے ہیں۔ فقیر مسکین سے زیادہ بدحال ہوتا ہے، فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور مسکین وہ ہے جس کی آمدنی اس کی ضروریات سے کم ہے۔
3- وَالْعَامِلِينَ: زکاۃ و عشر وصول کرنے والے، زکوٰۃ و عشر کی وصولی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدمی مقرر فرماتے تھے اورباقاعدہ ان کا محاسبہ فرماتے تھے۔
4- وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ: اس سے مراد وہ نومسلم ہیں جن کی دل جوئی کرکے انھیں اسلام پر ثابت قدم رکھنا مقصود ہو، یا وہ کفار جن کی دل جوئی سے ان کے اسلام لانے کی امید ہے، یا وہ بااثر لوگ جن پر خرچ کرنے سے کئی لوگوں کے مسلمان ہونے کی امید ہے، یا وہ کافر سردار جن پر خرچ کرنے سے ان کے علاقے میں مسلمانوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کی امید ہے۔
5- وَفِي الرِّقَابِ: گردنیں چھڑانے سے مراد غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا ہے۔ مکاتب غلاموں کی (جنھوں نے اپنے مالکوں سے اپنی قیمت قسطوں میں ادا کرنے کی شرط پر آزادی کا معاہدہ کیا ہوا ہے) مدد کرنا ہے۔ آج کل عدالتوں کے کفریہ نظام کی وجہ سے بے گناہ لوگ یا وہ گناہ گار جن کی شرعی سزا قید نہیں ہے، مگر کافرانہ قانون کی وجہ سے قید ہیں، یا کفر کی عدالتوں کا عائد کر دہ جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے یا مقدمہ کے اخراجات ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیلوں میں سال ہا سال سے سڑ رہے ہیں ان کو چھڑانے پر زکوٰۃ صرف کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
6- وَالْغَارِمِينَ: وہ مقروض جو قرض ادا نہیں کر سکتے، یا وہ کاروباری لوگ یا زمیندار وغیرہ جو کاروبار یا فصل برباد ہوجانے کی وجہ سے زیر بار ہو گئے، اگر وہ اپنی جائداد میں سے قرض ادا کریں تو فقیر ہو جائیں، یا وہ بااثر لوگ جنھوں نے صلح کروانے کے لیے لوگوں کی دیتیں یا رقوم اپنے ذمے لے لیں، یہ سب غارمین میں آتے ہیں۔
7- وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ: اس لفظ کے دو استعمال ہیں، ایک تو ہر نیکی ہی اللہ کے لیے اور اللہ کے راستے میں ہے اور فقراء و مساکین وغیرہ پر خرچ بھی فی سبیل اللہ ہے، جن کا ذکر اسی آیت میں پہلے ہو چکا ہے۔ دوسرا ان سب سے الگ فی سبیل اللہ ہے۔ اس سے مراد تمام مفسرین کے اتفاق کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مجاہد غنی بھی ہو تو اس پر جہادی ضروریات کی خاطر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں حج و عمرہ کو بھی اس مد میں شامل کیا گیا ہے۔
اہل علم کا فیصلہ ہے کہ اگر ایک طرف فقراء و مساکین ہوں اور ایک طرف غازیانِ اسلام کو ضرورت ہو تو مجاہدین کی مدد کو ترجیح دی جائے گی، کیونکہ شکست کی صورت میں فقر و مسکنت کے ساتھ کفار کی غلامی کی ذلت اور اسلام کی بے حرمتی کی مصیبت بھی جمع ہو جائے گی۔
8- وَابْنِ السَّبِيلِ: مسافر خواہ صاحب حیثیت ہو اگر سفر میں اسے ضرورت پڑ جائے تو اس پر زکوٰۃ میں سے خرچ کیا جا سکتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبة: 60)
’’صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں)۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں زکاۃ کے درج ذیل مصارف بیان کیے گئے ہیں:
1،2- لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ: فقیر اور مسکین دونوں لفظ محتاج کے معنی میں آتے ہیں۔ فقیر مسکین سے زیادہ بدحال ہوتا ہے، فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور مسکین وہ ہے جس کی آمدنی اس کی ضروریات سے کم ہے۔
3- وَالْعَامِلِينَ: زکاۃ و عشر وصول کرنے والے، زکوٰۃ و عشر کی وصولی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدمی مقرر فرماتے تھے اورباقاعدہ ان کا محاسبہ فرماتے تھے۔
4- وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ: اس سے مراد وہ نومسلم ہیں جن کی دل جوئی کرکے انھیں اسلام پر ثابت قدم رکھنا مقصود ہو، یا وہ کفار جن کی دل جوئی سے ان کے اسلام لانے کی امید ہے، یا وہ بااثر لوگ جن پر خرچ کرنے سے کئی لوگوں کے مسلمان ہونے کی امید ہے، یا وہ کافر سردار جن پر خرچ کرنے سے ان کے علاقے میں مسلمانوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کی امید ہے۔
5- وَفِي الرِّقَابِ: گردنیں چھڑانے سے مراد غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا ہے۔ مکاتب غلاموں کی (جنھوں نے اپنے مالکوں سے اپنی قیمت قسطوں میں ادا کرنے کی شرط پر آزادی کا معاہدہ کیا ہوا ہے) مدد کرنا ہے۔ آج کل عدالتوں کے کفریہ نظام کی وجہ سے بے گناہ لوگ یا وہ گناہ گار جن کی شرعی سزا قید نہیں ہے، مگر کافرانہ قانون کی وجہ سے قید ہیں، یا کفر کی عدالتوں کا عائد کر دہ جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے یا مقدمہ کے اخراجات ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیلوں میں سال ہا سال سے سڑ رہے ہیں ان کو چھڑانے پر زکوٰۃ صرف کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
6- وَالْغَارِمِينَ: وہ مقروض جو قرض ادا نہیں کر سکتے، یا وہ کاروباری لوگ یا زمیندار وغیرہ جو کاروبار یا فصل برباد ہوجانے کی وجہ سے زیر بار ہو گئے، اگر وہ اپنی جائداد میں سے قرض ادا کریں تو فقیر ہو جائیں، یا وہ بااثر لوگ جنھوں نے صلح کروانے کے لیے لوگوں کی دیتیں یا رقوم اپنے ذمے لے لیں، یہ سب غارمین میں آتے ہیں۔
7- وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ: اس لفظ کے دو استعمال ہیں، ایک تو ہر نیکی ہی اللہ کے لیے اور اللہ کے راستے میں ہے اور فقراء و مساکین وغیرہ پر خرچ بھی فی سبیل اللہ ہے، جن کا ذکر اسی آیت میں پہلے ہو چکا ہے۔ دوسرا ان سب سے الگ فی سبیل اللہ ہے۔ اس سے مراد تمام مفسرین کے اتفاق کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مجاہد غنی بھی ہو تو اس پر جہادی ضروریات کی خاطر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں حج و عمرہ کو بھی اس مد میں شامل کیا گیا ہے۔
اہل علم کا فیصلہ ہے کہ اگر ایک طرف فقراء و مساکین ہوں اور ایک طرف غازیانِ اسلام کو ضرورت ہو تو مجاہدین کی مدد کو ترجیح دی جائے گی، کیونکہ شکست کی صورت میں فقر و مسکنت کے ساتھ کفار کی غلامی کی ذلت اور اسلام کی بے حرمتی کی مصیبت بھی جمع ہو جائے گی۔
8- وَابْنِ السَّبِيلِ: مسافر خواہ صاحب حیثیت ہو اگر سفر میں اسے ضرورت پڑ جائے تو اس پر زکوٰۃ میں سے خرچ کیا جا سکتا ہے۔