محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
زہریلے لوگ (Toxic People)
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی کے خیرخواہ ہوتے ہیں اور اس کی خیرخواہی چاہتے ہیں لیکن ہماری خیرخواہی بدخواہی میں بدل جاتی ہے اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
آئیے آج ہم آپ کو ایسے ہی تین مختلف مناظر دکھاتے ہیں کہ کس طرح خیرخواہی بدخواہی میں بدل جاتی ہے۔
**
پہلا منظر: (اصغر اور سلیم)مثبت
اصغر: سلیم! آج کل تم کہاں جاب کر رہے ہو؟
سلیم: کاربن فیکٹری میں
اصغر: تنخواہ کتنی ہے؟
سلیم: یہی کوئی 25000 روپے
اصغر: گاڑی دی ہے کمپنی نے؟
سلیم: نہیں بس تنخواہ ہے۔
اصغر: بس 25000 تنخواہ اور کچھ بھی نہیں؟ یہ تو بڑی زیادتی ہے تمہارے ساتھ۔، تم تو اس سے کہیں زیادہ کے اہل ہو اور سنا ہے تمہارا باس تم سے دیر تک کام بھی لیتا ہے۔ یہ سارے سرمایہ دار اسی طرح غریبوں پر ظلم کرتے ہیں، غریبوں کا خون چوس کر یہ بڑے ہوئے ہیں۔ تم تو ہنس کر اس سے زیادہ کما سکتے ہو، کہیں اور ٹرائی کیوں نہیں کرتے۔
سلیم کے ذہن میں زہر بھر دیا گیا اور پھر وہ ان ہی منفی سوچوں میں گم جب وہ دفتر پہنچا تو سارا دن کام میں دھیان نہ دے سکا۔ لہذا جب باس اسے اپنے پاس بلا کر ڈانٹا تو وہ پھٹ پڑا۔ باس سے جھگڑ پڑا اور بحث تکرار کرتا رہا۔ نتیجتاً دوسرے دن جاب سے فارغ کر دیا گیا۔
اب سلیم بے روزگار ہے۔
**
دوسرا منظر: (پڑوسن خالہ اور بہو رانی)
پڑوسن خالہ: مبارک ہو بہو! پہلے بچے کی پیدائش پر، بہت بہت مبارک ہو، اللہ تقدیر اچھی کرے۔
بہو: جی خالہ آپ کو بھی مبارک ہو۔
پڑوسن خالہ: اور سناؤ، شوہر نے کوئی تحفہ وغیرہ دیا۔
بہو: نہیں خالہ، تحفہ کیوں؟ یہ ہمارا بچہ کیا کم بڑا تحفہ ہے؟
پڑوسن خالہ: بیٹا یہ بچہ تو تم نے اپنے شوہر کو تحفہ دیا ہے۔ اب شوہر کا بھی تو کوئی حق بنتا ہے نا تمہیں خوش کرنے کا، تمہیں کوئی تحفہ وغیرہ دینے کا۔
بہو: ابھی تک تو نہیں دیا، شاید بعد میں دیں۔
پڑوسن خالہ: لو جی، یہ تو نقد دینے والی بات ہے۔ میں تو تمہارے خالو سے لڑ کر لی تھی۔ خیر چھوڑوں ، تمہیں خرچ وغیرہ کیلئے اوپر سے تو کچھ دیتا ہی ہوگا۔
بہو: نہیں خالہ! انکی اتنی انکم کہاں؟ گھر کا خرچ ہی بڑی مشکل سے چلاتے ہیں۔
پڑوسن خالہ: ارے بہو! رہنے دو۔ اس کے نظر میں تمہاری تو کوئی اہمیت ہی نہیں، بس نوکرانی سمجھ رکھا ہے تمہیں۔ نا ہی ہاتھ خرچ دیتا ہے نا ہی کوئی تحفہ، بڑا کنجوس ہے۔ سارے مرد ہی اپنی بیویوں سے تنخواہ چھپاتے ہیں، دوسری عورتوں پر خوب خرچ کرتے ہیں اور انہیں تحفہ بھی دیتے ہیں۔ ’’میری مانو تو شوہر کے ہاتھ میں روپیہ رہنے ہی نہ دو، سب نکلوا لیا کرو ورنہ پچھتاؤ گی۔
پڑوسن خالہ بہو رانی کے ذہن میں زہر انڈھیل کر چل دیں۔
اور بہو رانی سارا دن یہی سوچتی رہی کہ خالہ نے تو سچ ہی کہا ہے۔
دو سال شادی کو ہوگئے، نا کبھی کوئی تحفہ اور نہ ہی ہاتھ خرچ کیلئے کوئی روپیہ پیسہ۔ میری تو کوئی اہمیت ہی نہیں انکی نظر میں۔ رات گھر بھی دیر سے آتے ہیں۔ دوسری عورتوں پر خرچ کرتے ہوں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ منفی سوچ سے دماغ پھٹنے لگا۔
رات کو جب شوہر صاحب گھر آئے، تو موڈ خراب دیکھا اور پوچھتے ہی بم پھٹ پڑا۔
اس دن سے روزانہ بحث و تکرار اور جھگڑا شروع ہوا، گھر کا سکون غارت ہوا اور بالآخر طلاق پر معاملہ ختم ہوا۔
**
تیسرا منظر: ( الیاس صاحب اور بڑے میاں)
الیاس صاحب: ارے بڑے میاں! اس بڑھاپے کھیتوں میں خود کام کرکے اتنی تکلیفیں اٹھا رہے ہو۔
آپ کا بیٹا، ماشاء اللہ کراچی میں اچھی سرکاری نوکری کر رہا ہے۔ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ آپ دونوں کو وہاں لے جا نہیں سکتا؟ اسے تو کبھی گاؤں میں دیکھا بھی نہیں، کیا آپ لوگوں کو دیکھنے نہیں آتا؟
بڑے میاں : نہیں نہیں، میرا بیٹا بہت اچھا ہے۔ وہ باقاعدگی سے ہمیں خرچ بھیجتا رہتا ہے۔ روزانہ فون کرکے ہماری خیریت پوچھتا ہے۔ بس ذرا مصروف رہتا ہے، اس لئے گاؤں آ نہیں سکتا۔
الیاس صاحب: کیا ایسی مصروفیت کہ پیدا کرنے والے ماں باپ کو دیکھنے بھی نہیں آسکے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اب ہفتے میں دو دنوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں، پھر عید وغیرہ کی چھٹیاں الگ ہیں۔ بس سائیں رہنے دیں۔ خون سفید ہوگئے ہیں۔ بچوں کو اپنے بوڑھے باپ ماں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں رہا۔ وہ کراچی میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ عیاشیاں کرتے رہتے ہیں ادھر گاؤں میں بوڑھے ماں باپ سڑتے رہتے ہیں۔
الیاس صاحب بڑے میاں کے ذہن میں زہر بھر کر چلتے بنے۔
بڑے میاں : گھر آکر اپنی بیوی کو یہ سب بتاتے ہیں۔
بیوی: آپ کو غلطی فہمی ہوئی ہے۔ میرا بیٹا واقعی مصروفیت کی وجہ کر گاؤں آ نہیں پاتا۔
بڑے میاں: تو کیا الیاس صاحب نے جھوٹ کہا ہے؟ ارے وہ کراچی سے ہوکر آئے ہیں۔ سب دیکھا ہے انہوں نے۔
’’جسے خون پسینہ ایک کرکے سرکاری آفیسر بنایا ، آج وہ اپنی بیوی بچوں میں مست ہے۔ ہمیں دیکھنے بھی نہیں آتا، ہماری تو کوئی پرواہ ہی نہیں اسے۔ ایسے بیٹے کا کیا فائدہ؟‘‘
**
بعض ایسے خیرخواہ ہوتے ہیں جن کی منفی اور زہریلی سوچ ہمارے رگ و پے میں زہر بھر کر ہماری خوشگوار زندگی کو زہریلا بنا دیتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو زہریلے لوگ (Toxic People) کہا جاتا ہے۔ 1960 میں جب مغربی ممالک میں مثبت سوچ (Positive Thinking) اور منفی سوچ (Negative Thinking) کی اصطلاحات متعارف ہوئی تو ساتھ ساتھ ہی ’’زہریلے لوگ (Toxic People) ‘‘ ایک نئی اصطلاح بھی سامنے آئی۔
یہ زہریلے لوگ بظاہر ہماری خیرخواہی کرنے ہمارے قریب آتے ہیں لیکن اپنی منفی سوچ کی زہر ہمارے دل و دماغ میں ڈال کر ہماری بدخواہی کر جاتے ہیں۔ ان زہریلے لوگوں کی زہر کا ہمیں شروع میں کوئی ادراک نہیں ہوتا بلکہ یوں لگتا ہے جیسے وہ ہمارے خیرخواہ ہیں اور ہماری خیرخواہی کر رہے ہیں لیکن جب ان کا زہر اثر دکھاتا ہے تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس لئے ایسے زہریلے لوگوں کو پہچاننا اور ان سے دور رہنا بہت ضروری ہے۔
ہمیں خود بھی اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ کہیں ہم بھی کسی کی زندگی میں زہر گھول کر زیریلے لوگوں کا کردار ادا نہ کریں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’آسانی پیدا کرو، تنگی نہ پیدا کرو، لوگوں کو تسلی اور تشفی دو، نفرت نہ دلاؤ“۔ (صحیح البخاری: 6125)
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو دین کی باتیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان
مثبت اور منفی سوچ پر مبنی تحریر کا سلسلہ جاری ہے۔
۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی کے خیرخواہ ہوتے ہیں اور اس کی خیرخواہی چاہتے ہیں لیکن ہماری خیرخواہی بدخواہی میں بدل جاتی ہے اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
آئیے آج ہم آپ کو ایسے ہی تین مختلف مناظر دکھاتے ہیں کہ کس طرح خیرخواہی بدخواہی میں بدل جاتی ہے۔
**
پہلا منظر: (اصغر اور سلیم)مثبت
اصغر: سلیم! آج کل تم کہاں جاب کر رہے ہو؟
سلیم: کاربن فیکٹری میں
اصغر: تنخواہ کتنی ہے؟
سلیم: یہی کوئی 25000 روپے
اصغر: گاڑی دی ہے کمپنی نے؟
سلیم: نہیں بس تنخواہ ہے۔
اصغر: بس 25000 تنخواہ اور کچھ بھی نہیں؟ یہ تو بڑی زیادتی ہے تمہارے ساتھ۔، تم تو اس سے کہیں زیادہ کے اہل ہو اور سنا ہے تمہارا باس تم سے دیر تک کام بھی لیتا ہے۔ یہ سارے سرمایہ دار اسی طرح غریبوں پر ظلم کرتے ہیں، غریبوں کا خون چوس کر یہ بڑے ہوئے ہیں۔ تم تو ہنس کر اس سے زیادہ کما سکتے ہو، کہیں اور ٹرائی کیوں نہیں کرتے۔
سلیم کے ذہن میں زہر بھر دیا گیا اور پھر وہ ان ہی منفی سوچوں میں گم جب وہ دفتر پہنچا تو سارا دن کام میں دھیان نہ دے سکا۔ لہذا جب باس اسے اپنے پاس بلا کر ڈانٹا تو وہ پھٹ پڑا۔ باس سے جھگڑ پڑا اور بحث تکرار کرتا رہا۔ نتیجتاً دوسرے دن جاب سے فارغ کر دیا گیا۔
اب سلیم بے روزگار ہے۔
**
دوسرا منظر: (پڑوسن خالہ اور بہو رانی)
پڑوسن خالہ: مبارک ہو بہو! پہلے بچے کی پیدائش پر، بہت بہت مبارک ہو، اللہ تقدیر اچھی کرے۔
بہو: جی خالہ آپ کو بھی مبارک ہو۔
پڑوسن خالہ: اور سناؤ، شوہر نے کوئی تحفہ وغیرہ دیا۔
بہو: نہیں خالہ، تحفہ کیوں؟ یہ ہمارا بچہ کیا کم بڑا تحفہ ہے؟
پڑوسن خالہ: بیٹا یہ بچہ تو تم نے اپنے شوہر کو تحفہ دیا ہے۔ اب شوہر کا بھی تو کوئی حق بنتا ہے نا تمہیں خوش کرنے کا، تمہیں کوئی تحفہ وغیرہ دینے کا۔
بہو: ابھی تک تو نہیں دیا، شاید بعد میں دیں۔
پڑوسن خالہ: لو جی، یہ تو نقد دینے والی بات ہے۔ میں تو تمہارے خالو سے لڑ کر لی تھی۔ خیر چھوڑوں ، تمہیں خرچ وغیرہ کیلئے اوپر سے تو کچھ دیتا ہی ہوگا۔
بہو: نہیں خالہ! انکی اتنی انکم کہاں؟ گھر کا خرچ ہی بڑی مشکل سے چلاتے ہیں۔
پڑوسن خالہ: ارے بہو! رہنے دو۔ اس کے نظر میں تمہاری تو کوئی اہمیت ہی نہیں، بس نوکرانی سمجھ رکھا ہے تمہیں۔ نا ہی ہاتھ خرچ دیتا ہے نا ہی کوئی تحفہ، بڑا کنجوس ہے۔ سارے مرد ہی اپنی بیویوں سے تنخواہ چھپاتے ہیں، دوسری عورتوں پر خوب خرچ کرتے ہیں اور انہیں تحفہ بھی دیتے ہیں۔ ’’میری مانو تو شوہر کے ہاتھ میں روپیہ رہنے ہی نہ دو، سب نکلوا لیا کرو ورنہ پچھتاؤ گی۔
پڑوسن خالہ بہو رانی کے ذہن میں زہر انڈھیل کر چل دیں۔
اور بہو رانی سارا دن یہی سوچتی رہی کہ خالہ نے تو سچ ہی کہا ہے۔
دو سال شادی کو ہوگئے، نا کبھی کوئی تحفہ اور نہ ہی ہاتھ خرچ کیلئے کوئی روپیہ پیسہ۔ میری تو کوئی اہمیت ہی نہیں انکی نظر میں۔ رات گھر بھی دیر سے آتے ہیں۔ دوسری عورتوں پر خرچ کرتے ہوں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ منفی سوچ سے دماغ پھٹنے لگا۔
رات کو جب شوہر صاحب گھر آئے، تو موڈ خراب دیکھا اور پوچھتے ہی بم پھٹ پڑا۔
اس دن سے روزانہ بحث و تکرار اور جھگڑا شروع ہوا، گھر کا سکون غارت ہوا اور بالآخر طلاق پر معاملہ ختم ہوا۔
**
تیسرا منظر: ( الیاس صاحب اور بڑے میاں)
الیاس صاحب: ارے بڑے میاں! اس بڑھاپے کھیتوں میں خود کام کرکے اتنی تکلیفیں اٹھا رہے ہو۔
آپ کا بیٹا، ماشاء اللہ کراچی میں اچھی سرکاری نوکری کر رہا ہے۔ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ آپ دونوں کو وہاں لے جا نہیں سکتا؟ اسے تو کبھی گاؤں میں دیکھا بھی نہیں، کیا آپ لوگوں کو دیکھنے نہیں آتا؟
بڑے میاں : نہیں نہیں، میرا بیٹا بہت اچھا ہے۔ وہ باقاعدگی سے ہمیں خرچ بھیجتا رہتا ہے۔ روزانہ فون کرکے ہماری خیریت پوچھتا ہے۔ بس ذرا مصروف رہتا ہے، اس لئے گاؤں آ نہیں سکتا۔
الیاس صاحب: کیا ایسی مصروفیت کہ پیدا کرنے والے ماں باپ کو دیکھنے بھی نہیں آسکے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اب ہفتے میں دو دنوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں، پھر عید وغیرہ کی چھٹیاں الگ ہیں۔ بس سائیں رہنے دیں۔ خون سفید ہوگئے ہیں۔ بچوں کو اپنے بوڑھے باپ ماں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں رہا۔ وہ کراچی میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ عیاشیاں کرتے رہتے ہیں ادھر گاؤں میں بوڑھے ماں باپ سڑتے رہتے ہیں۔
الیاس صاحب بڑے میاں کے ذہن میں زہر بھر کر چلتے بنے۔
بڑے میاں : گھر آکر اپنی بیوی کو یہ سب بتاتے ہیں۔
بیوی: آپ کو غلطی فہمی ہوئی ہے۔ میرا بیٹا واقعی مصروفیت کی وجہ کر گاؤں آ نہیں پاتا۔
بڑے میاں: تو کیا الیاس صاحب نے جھوٹ کہا ہے؟ ارے وہ کراچی سے ہوکر آئے ہیں۔ سب دیکھا ہے انہوں نے۔
’’جسے خون پسینہ ایک کرکے سرکاری آفیسر بنایا ، آج وہ اپنی بیوی بچوں میں مست ہے۔ ہمیں دیکھنے بھی نہیں آتا، ہماری تو کوئی پرواہ ہی نہیں اسے۔ ایسے بیٹے کا کیا فائدہ؟‘‘
**
بعض ایسے خیرخواہ ہوتے ہیں جن کی منفی اور زہریلی سوچ ہمارے رگ و پے میں زہر بھر کر ہماری خوشگوار زندگی کو زہریلا بنا دیتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو زہریلے لوگ (Toxic People) کہا جاتا ہے۔ 1960 میں جب مغربی ممالک میں مثبت سوچ (Positive Thinking) اور منفی سوچ (Negative Thinking) کی اصطلاحات متعارف ہوئی تو ساتھ ساتھ ہی ’’زہریلے لوگ (Toxic People) ‘‘ ایک نئی اصطلاح بھی سامنے آئی۔
یہ زہریلے لوگ بظاہر ہماری خیرخواہی کرنے ہمارے قریب آتے ہیں لیکن اپنی منفی سوچ کی زہر ہمارے دل و دماغ میں ڈال کر ہماری بدخواہی کر جاتے ہیں۔ ان زہریلے لوگوں کی زہر کا ہمیں شروع میں کوئی ادراک نہیں ہوتا بلکہ یوں لگتا ہے جیسے وہ ہمارے خیرخواہ ہیں اور ہماری خیرخواہی کر رہے ہیں لیکن جب ان کا زہر اثر دکھاتا ہے تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس لئے ایسے زہریلے لوگوں کو پہچاننا اور ان سے دور رہنا بہت ضروری ہے۔
ہمیں خود بھی اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ کہیں ہم بھی کسی کی زندگی میں زہر گھول کر زیریلے لوگوں کا کردار ادا نہ کریں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’آسانی پیدا کرو، تنگی نہ پیدا کرو، لوگوں کو تسلی اور تشفی دو، نفرت نہ دلاؤ“۔ (صحیح البخاری: 6125)
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو دین کی باتیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان
مثبت اور منفی سوچ پر مبنی تحریر کا سلسلہ جاری ہے۔
۔