126muhammad
مبتدی
- شمولیت
- اکتوبر 26، 2022
- پیغامات
- 81
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 21
ذاتی استعمال کی ایشیا زیور سونا چاندی (کپڑا جوتا یا گاڑی گھریلو فرنیچر) وغیرہ پر زکوۃ کا حکم اور اس کی دلیل
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ، عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَتْ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَقَالَ:"يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ! تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے خطاب کیااور فرمایا: 'اے گروہ عورتوں کی جماعت! زکاۃ دو ۱؎ گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو۔ کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہوگی'
جامع ترمذی حدیث نمبر: 635
کتاب: زکاۃ وصدقات کے احکام ومسائل
زیور کی زکاۃ کا بیان
حکم:
صحيح
https://shamilaurdu.com/hadith/tirmizi/635/
مندرجہ بالا حدیث میں واضح ہے کہ زیر استعمال زیور پر زکوۃ دینی ہوگی اسی طرح زیر استعمال سونا چاندی کے متبادل دوسری چیزیں کپڑے جوتا فرنیچر الیکٹرونکس گاڑی وغیرہ پر بھی زکوۃ دینی ہوگی
مندرجہ ذیل الحدیث کو ملاحظہ فرمائیں
https://mohaddis.com/SearchByTopic/1/7129
جو لوگ زیر استعمال چیزوں پر زکوۃ نہ دینے کے قائل ہیں ان کے دلائل اور ان کا رد
جو لوگ ذاتی استعمال کی چیزوں پر زکوۃ نہ دینے کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا ہے "غلام یا گھوڑے پر زکوۃ نہیں ہے" متفق علیہ
تو اس کا جواب یہ ہے کہ غلام یا گھوڑا کا گھریلو ایشیا سے یا ذاتی استعمال کی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں گھوڑا اور غلام علیحدہ علیحدہ مخلوق ہے جب کہ سونا چاندی ذاتی استعمال کا زیور کپڑا گاڑیاں فرنیچر الیکٹرانکس کا ان سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں اور کوئی انسان بھی ان چیزوں کو گھوڑا یا غلام نہیں کہہ سکتا لہذا گھوڑے اور غلام کو ان سے تشبیہ دینا یا قیاس کرنا بہت عجیب و غریب ہے
مثال کے طور پر رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ غلام پر بھی صدقۃ الفطر ہے تو اگر کوئی کہے کہ گاڑی یا مشینری کا بھی صدقۃ الفطر ہے تو یہ غلط ہوگا لہذا جو زکوۃ کی رخصت رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے غلام اور گھوڑے پر دی ہے تو وہ صرف غلام اور گھوڑے پر ہی اکتفا کیا جائے گا اسے دوسری چیزوں تک محدود کرنا مناسب نہیں
زیر استعمال چیزوں پر زکوۃ نہ دینے کے قائل دوسری دلیل پیش کرتے ہیں
(i) حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''لیس علی العوامل شيء'' (ابوداود:۱۵۷۲) ''کام کاج کرنے والے جانوروں پر زکوٰۃ نہیں ہے”۔
https://www.islamicurdubooks.com/hadith/hadith_.php?vhadith_id=18107&bookid=3&zoom_highlight=ابو+إسحاق+السبيعي+6155
مدرجہ بالا حدیث کی سند صحیح نہیں ہے ابو طاہر زبیر علی زئی اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے تفصیل کے لیے مندرجہ بالا لنک ملاحظہ فرمائیں
مزید براں یہ کہ اولا تو یہ دلیل ضعیف ہے اور دوسرا کہ یہ دلیل بھی پہلے جیسی ہی ہے کہ کام کاج کرنے والے جانوروں کا انسان کہ زیر استعمال سونا چاندی زیور اور اس کے متبادل دوسری ایشیا روپے پیسے کپڑے جوتے فرنیچر الیکٹرانکس سے کیا لینا دینا ہے کیا انہیں انسانوں جانوروں اور مشینری وغیرہ میں فرق نظر نہیں اتا
لہذا اگر کسی شخص کے کپڑے جوتا یا پھر گاڑی اور ذاتی استعمال کی اشیا یا گھر میں موجود فرنیچر وغیرہ اگر چاندی کے نصاب کو پہنچ جاتے ہیں تو اس پہ زکوۃ دینی ہوگی اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مال تجارت کے لیے ہو یا ذاتی استعمال کے لیے شریعت میں جو کوئی بھی شخص اگر مالدار ہے اسے زکوۃ دینی ہوگی
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ زکوۃ صرف تجارتی مال پر ہیں ذاتی استعمال پر نہیں حالانکہ غور کیا جائے تجارتی مال بھی ذاتی استعمال کے لیے ہی ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر کسی کے پاس پیسے ہیں گاڑی ہے تو اس کی ذاتی ہے یعنی تجارتی مال اس کا ذاتی مال ہی ہوتا ہے تو ذاتی مال یا تجارتی مال سے کوئی فرق نہیں پڑتا بس جو شخص مالدار ہے اسے زکوۃ دینی پڑے گی پھر چاہے اس کے پاس تجارت کا مال ہے وہ مال اس نے اس کا ذاتی ہے اس کا وراثتی ہے جو بھی ہے اگر اس کے پاس مال ہے اور وہ صاحب نصاب ہے تو اس سے زکوۃ دینی پڑے گی بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے دور میں گھر کی جو ذاتی استعمال کی ایشیا تھی اس پہ زکوۃ نہیں دی جاتی تھی مجھے ایک بھی صحیح سند حدیث دکھا دے جس میں رسول اللہ کے دور میں گھر میں موجود سونا چاندی یا اس کے مساوی دوسرا مال ، فرنیچر وغیرہ اگر وہ نصاب کو پہنچتی ہوں تو اس پہ کسی نے زکوۃ نہ دی ہو بلکہ ابوبکر صدیق کے متعلق اتا ہے کہ وہ اپنے گھر کا سارا سامان لے کر رسول اللہ کی خدمت میں صدقے کے لیے حاضر ہوئے لہذا گھوڑے اور غلام کا قیاس کر کے یہ کہنا کہ گھر کی جو استعمال کے ایشیا ان پہ صدقہ نہیں ہے یہ سب فضول باتیں ہیں
زیر استعمال گھر دکان پلاٹ اور زرعی زمین پر زکوۃ کا مسئلہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہر طرح کی زمین چاہے وہ کاشت کرنے والی ہو ہو یا دفینہ یعنی کان تیل یا خزانہ وغیرہ نکالنے والی یا پھر دکان یا پلاٹ، گھر کے طور پر استعمال ہونے والی ہو تو اس کے کرائے وغیرہ کی امدن والی یعنی ہر طرح کی زمین کی امدن پر زکوۃ تھی زمین کی اصل مالیتی قیمت پر زکوۃ نہیں تھی چاہے وہ زیر استعمال ہو یا چاہے وہ تجارت کے لیے ہو لہذا ہمیں سلف سے صرف زمین کی آمدن یعنی عشر خمس یا تیل یا خزانے کی صورت میں 20 فیصد یا کرائے کی صورت میں اس کے اوپر سال گزرنے پر زکوۃ کا ثبوت تو ملتے ہیں البتہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کسی نے زمین یا گھر کی جو اصل قیمت ہے اس پہ زکوۃ دی ہو لہذا زمین کی امدن چاہے زرعی پیداوار کی صورت میں یا چاہے وہ کرائے کی صورت میں ہو اس پر زکوۃ واجب ہے اگر زمین میں زراعت کاشت ہو رہی ہے تو اس کے اوپر خمس یا عشر ہوگا جس پر سال گزرنا شرط نہیں وہ فوری ادا کرنا ہوگا لیکن اگر زمین یا گھر پلاٹ وغیرہ کرائے پہ ہے تو اس کے کرائے کی امدن اگر نصاب جتنی ہے اور اس پر سال گزر چکا ہے تو 2.5 فیصد زکوۃ دینی ہوگی
زمین کی اصل مالیتی قیمت پر زکوۃ نہیں پھر چاہے وہ ذاتی استعمال کے لیے ہو یا چاہے تجارت کے لیے ہو باقی اللہ تعالی بہتر جانتا ہے
تنبیہ، زکوۃ اسلام کا اہم م رکن ہے اور زکوۃ نہ دینا گناہ کبیرہ ہے جبکہ زکوۃ کا منکر کافر ہے زکوۃ کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہے ہم زکوۃ کے احکامات پر ائمہ کرام کے قیاس پر اکتفا نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں اس پر قران و سنت سے مضبوط دلیل کی ضرورت ہے لہذا میری آرا کے خلاف اگر کسی کے پاس قران و صحیح حدیث سے کوئی مضبوط دلیل ہے تو وہ پیش کر سکتا ہے اور وہ قبول ہوگی۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اگر کسی مال پر ہمارے اوپر زکوۃ فرض نہیں بھی ہے تو ہم اس پر زکوۃ دیتے ہیں تو یہ ثواب ہے کوئی گناہ نہیں البتہ اگر کسی مال پہ زکوۃ فرض ہے اور اس پہ زکوۃ نہیں دیتے تو یہ گناہ کبیرہ ہے لہذا ازکوۃ کے معاملے میں احتیاط برتی جائے اور ضعیف روایتوں اور قیاسی فتووں سے پرہیز کیا جائے
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ، عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَتْ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَقَالَ:"يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ! تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے خطاب کیااور فرمایا: 'اے گروہ عورتوں کی جماعت! زکاۃ دو ۱؎ گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو۔ کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہوگی'
جامع ترمذی حدیث نمبر: 635
کتاب: زکاۃ وصدقات کے احکام ومسائل
زیور کی زکاۃ کا بیان
حکم:
صحيح
https://shamilaurdu.com/hadith/tirmizi/635/
مندرجہ بالا حدیث میں واضح ہے کہ زیر استعمال زیور پر زکوۃ دینی ہوگی اسی طرح زیر استعمال سونا چاندی کے متبادل دوسری چیزیں کپڑے جوتا فرنیچر الیکٹرونکس گاڑی وغیرہ پر بھی زکوۃ دینی ہوگی
مندرجہ ذیل الحدیث کو ملاحظہ فرمائیں
https://mohaddis.com/SearchByTopic/1/7129
جو لوگ زیر استعمال چیزوں پر زکوۃ نہ دینے کے قائل ہیں ان کے دلائل اور ان کا رد
جو لوگ ذاتی استعمال کی چیزوں پر زکوۃ نہ دینے کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا ہے "غلام یا گھوڑے پر زکوۃ نہیں ہے" متفق علیہ
تو اس کا جواب یہ ہے کہ غلام یا گھوڑا کا گھریلو ایشیا سے یا ذاتی استعمال کی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں گھوڑا اور غلام علیحدہ علیحدہ مخلوق ہے جب کہ سونا چاندی ذاتی استعمال کا زیور کپڑا گاڑیاں فرنیچر الیکٹرانکس کا ان سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں اور کوئی انسان بھی ان چیزوں کو گھوڑا یا غلام نہیں کہہ سکتا لہذا گھوڑے اور غلام کو ان سے تشبیہ دینا یا قیاس کرنا بہت عجیب و غریب ہے
مثال کے طور پر رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ غلام پر بھی صدقۃ الفطر ہے تو اگر کوئی کہے کہ گاڑی یا مشینری کا بھی صدقۃ الفطر ہے تو یہ غلط ہوگا لہذا جو زکوۃ کی رخصت رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے غلام اور گھوڑے پر دی ہے تو وہ صرف غلام اور گھوڑے پر ہی اکتفا کیا جائے گا اسے دوسری چیزوں تک محدود کرنا مناسب نہیں
زیر استعمال چیزوں پر زکوۃ نہ دینے کے قائل دوسری دلیل پیش کرتے ہیں
(i) حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''لیس علی العوامل شيء'' (ابوداود:۱۵۷۲) ''کام کاج کرنے والے جانوروں پر زکوٰۃ نہیں ہے”۔
https://www.islamicurdubooks.com/hadith/hadith_.php?vhadith_id=18107&bookid=3&zoom_highlight=ابو+إسحاق+السبيعي+6155
مدرجہ بالا حدیث کی سند صحیح نہیں ہے ابو طاہر زبیر علی زئی اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے تفصیل کے لیے مندرجہ بالا لنک ملاحظہ فرمائیں
مزید براں یہ کہ اولا تو یہ دلیل ضعیف ہے اور دوسرا کہ یہ دلیل بھی پہلے جیسی ہی ہے کہ کام کاج کرنے والے جانوروں کا انسان کہ زیر استعمال سونا چاندی زیور اور اس کے متبادل دوسری ایشیا روپے پیسے کپڑے جوتے فرنیچر الیکٹرانکس سے کیا لینا دینا ہے کیا انہیں انسانوں جانوروں اور مشینری وغیرہ میں فرق نظر نہیں اتا
لہذا اگر کسی شخص کے کپڑے جوتا یا پھر گاڑی اور ذاتی استعمال کی اشیا یا گھر میں موجود فرنیچر وغیرہ اگر چاندی کے نصاب کو پہنچ جاتے ہیں تو اس پہ زکوۃ دینی ہوگی اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مال تجارت کے لیے ہو یا ذاتی استعمال کے لیے شریعت میں جو کوئی بھی شخص اگر مالدار ہے اسے زکوۃ دینی ہوگی
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ زکوۃ صرف تجارتی مال پر ہیں ذاتی استعمال پر نہیں حالانکہ غور کیا جائے تجارتی مال بھی ذاتی استعمال کے لیے ہی ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر کسی کے پاس پیسے ہیں گاڑی ہے تو اس کی ذاتی ہے یعنی تجارتی مال اس کا ذاتی مال ہی ہوتا ہے تو ذاتی مال یا تجارتی مال سے کوئی فرق نہیں پڑتا بس جو شخص مالدار ہے اسے زکوۃ دینی پڑے گی پھر چاہے اس کے پاس تجارت کا مال ہے وہ مال اس نے اس کا ذاتی ہے اس کا وراثتی ہے جو بھی ہے اگر اس کے پاس مال ہے اور وہ صاحب نصاب ہے تو اس سے زکوۃ دینی پڑے گی بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے دور میں گھر کی جو ذاتی استعمال کی ایشیا تھی اس پہ زکوۃ نہیں دی جاتی تھی مجھے ایک بھی صحیح سند حدیث دکھا دے جس میں رسول اللہ کے دور میں گھر میں موجود سونا چاندی یا اس کے مساوی دوسرا مال ، فرنیچر وغیرہ اگر وہ نصاب کو پہنچتی ہوں تو اس پہ کسی نے زکوۃ نہ دی ہو بلکہ ابوبکر صدیق کے متعلق اتا ہے کہ وہ اپنے گھر کا سارا سامان لے کر رسول اللہ کی خدمت میں صدقے کے لیے حاضر ہوئے لہذا گھوڑے اور غلام کا قیاس کر کے یہ کہنا کہ گھر کی جو استعمال کے ایشیا ان پہ صدقہ نہیں ہے یہ سب فضول باتیں ہیں
زیر استعمال گھر دکان پلاٹ اور زرعی زمین پر زکوۃ کا مسئلہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہر طرح کی زمین چاہے وہ کاشت کرنے والی ہو ہو یا دفینہ یعنی کان تیل یا خزانہ وغیرہ نکالنے والی یا پھر دکان یا پلاٹ، گھر کے طور پر استعمال ہونے والی ہو تو اس کے کرائے وغیرہ کی امدن والی یعنی ہر طرح کی زمین کی امدن پر زکوۃ تھی زمین کی اصل مالیتی قیمت پر زکوۃ نہیں تھی چاہے وہ زیر استعمال ہو یا چاہے وہ تجارت کے لیے ہو لہذا ہمیں سلف سے صرف زمین کی آمدن یعنی عشر خمس یا تیل یا خزانے کی صورت میں 20 فیصد یا کرائے کی صورت میں اس کے اوپر سال گزرنے پر زکوۃ کا ثبوت تو ملتے ہیں البتہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کسی نے زمین یا گھر کی جو اصل قیمت ہے اس پہ زکوۃ دی ہو لہذا زمین کی امدن چاہے زرعی پیداوار کی صورت میں یا چاہے وہ کرائے کی صورت میں ہو اس پر زکوۃ واجب ہے اگر زمین میں زراعت کاشت ہو رہی ہے تو اس کے اوپر خمس یا عشر ہوگا جس پر سال گزرنا شرط نہیں وہ فوری ادا کرنا ہوگا لیکن اگر زمین یا گھر پلاٹ وغیرہ کرائے پہ ہے تو اس کے کرائے کی امدن اگر نصاب جتنی ہے اور اس پر سال گزر چکا ہے تو 2.5 فیصد زکوۃ دینی ہوگی
زمین کی اصل مالیتی قیمت پر زکوۃ نہیں پھر چاہے وہ ذاتی استعمال کے لیے ہو یا چاہے تجارت کے لیے ہو باقی اللہ تعالی بہتر جانتا ہے
تنبیہ، زکوۃ اسلام کا اہم م رکن ہے اور زکوۃ نہ دینا گناہ کبیرہ ہے جبکہ زکوۃ کا منکر کافر ہے زکوۃ کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہے ہم زکوۃ کے احکامات پر ائمہ کرام کے قیاس پر اکتفا نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں اس پر قران و سنت سے مضبوط دلیل کی ضرورت ہے لہذا میری آرا کے خلاف اگر کسی کے پاس قران و صحیح حدیث سے کوئی مضبوط دلیل ہے تو وہ پیش کر سکتا ہے اور وہ قبول ہوگی۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اگر کسی مال پر ہمارے اوپر زکوۃ فرض نہیں بھی ہے تو ہم اس پر زکوۃ دیتے ہیں تو یہ ثواب ہے کوئی گناہ نہیں البتہ اگر کسی مال پہ زکوۃ فرض ہے اور اس پہ زکوۃ نہیں دیتے تو یہ گناہ کبیرہ ہے لہذا ازکوۃ کے معاملے میں احتیاط برتی جائے اور ضعیف روایتوں اور قیاسی فتووں سے پرہیز کیا جائے
Last edited: