• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سائبر جنگ، جرمنی بھی اپنا حصہ ڈالنے کو تیار

شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
مستقبل کی جنگ کے لیے فوجی تربیتی علاقہ کمپیوٹر سائنس کے ایک کلاس روم کی طرح نظر آ رہا ہے۔ ایک بڑے سے کمر ے میں ہزاروں کی تعداد میں ڈیٹا کیبلز اور متعدد میزوں پر درجنوں فلیٹ سکرین کمپیوٹر رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ڈیجیٹل پروجیکٹر دیوار پر ورچوئل جنگ کے مناظر دکھا رہا ہے۔ ریڈ لینڈ نے بلیو لینڈ پر حملہ کرتے ہوئے اس ملک کے جزوی حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگی مداخلت کی اجازت دے دی ہے اور جرمن پارلیمان نے بھی اپنے سائبر اٹیک ڈیپارٹمنٹ کی اس جنگ میں شرکت کے لیے رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ چند گھنٹوں کی کوششوں کے بعد جرمن جنگی سائبر ٹیم ریڈ لینڈ کے ملٹری انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور اس نے حملہ آوروں کا فضائی دفاعی نظام مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ جرمن سائبر فوجیوں نے کامیابی کے ساتھ اپنا مشن مکمل کر لیا ہے۔ یہ ورچوئل جنگی مشق جرمنی کے سابق دارلاحکومت بون کے قریبی علاقے رائن باخ میں کی جا رہی ہے، جہاں جرمن اسٹریٹیجک کمانڈ (KSA) کا مرکزی دفتر ہے۔ اس فوجی یونٹ میں جرمنی کی تینوں مسلح افواج (بری، بحری، فضائی) کے اہلکار شامل ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے جرمنی کا ’کمپیوٹر نیٹ ورک آپریشن‘ (CNO)گروپ یہاں پر کام کر رہا ہے اور اب جرمنی کے ساٹھ بہترین کمپیوٹر سافٹ ویئر انجینئر یہاں سائبر جنگی مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ بات ابھی تک خفیہ رکھی گئی تھی۔ گزشتہ سال جرمن وزارت دفاع نے یہ بھی بتانے سے انکار کر دیا تھا کہ CNO میں کام کرنے والے فوجیوں کی تعداد کتنی ہے۔ حال ہی میں صحافیوں کے ایک گروپ کو یہ سینٹر وزٹ کرنے کی اجازت دی گئی لیکن کسی بھی صحافی کو موبائل فون، لیپ ٹاپ یا کیمرا ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جرمن وزارت دفاع کی طرف سے قائم کیے گئے اس یونٹ کا مقصد دشمن افواج کا انٹرنیٹ کے ذریعے مقابلہ کرنا ہے۔ دنیا میں سائبر اٹیک روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اور مستقبل میں ہیکرز صرف معلومات ہی چوری نہیں کریں گے بلکہ وہ اس سے ملکوں کے دفاعی نظام، اقتصادیات اور شہری زندگی کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ سن 2007ء میں اسرائیلی جنگی طیاروں نے شام کے ایک مشتبہ جوہری ری ایکٹر کو نشانہ بنایا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس حملے سے پہلے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے شام کے دفاعی نظام کو مفلوج کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال کمپیوٹر وائرس Stuxnet کی ہے، جس کے ذریعے سن 2010ء میں ایرانی ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ شک کیا جاتا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے امریکا یا اسرائیل کا ہاتھ تھا۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں سائبر جنگ کے حوالے سے امریکا اور چین یوری طرح مسلح نظر آتے ہیں۔
 
Top