• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سائیکل والا لڑکا

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سائیکل والا لڑکا​

[SUP]محمد حنیف بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: پير 11 فروری 2013 ,‭ 08:08 GMT 13:08 PST[/SUP]

[SUP]پاکستان میں سینکڑوں لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں[/SUP]

کوئٹہ کی سریاب روڈ سے حافظ سعید رحمان کی گمشدگی کے چھ سال بعد پولیس کو اُس کی تلاش میں ایک قبر کھودنا پڑی۔

ہائی کورٹ نے یہ قبر کھودنے کا حکم اس لیے دیا تھا کیونکہ کوئٹہ پولیس نے، اس کی گمشدگی کی نصف درجن دیگر وضاحتوں کے بعد، یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ حافظ سعید مارا جا چکا ہے۔

اُس کا باپ اللہ بخش بنگلزئی جو اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے چھ برس سے کوشاں تھا ، پولیس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا۔

اللہ بخش اپنے گھر کے قریب پنساری کی دکان چلاتا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ ’مجھے معلوم تھا کہ یہ قبر میرے بیٹے کی نہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ میرا بیٹا مر نہیں چکا‘۔

اللہ بخش بنگلزئی کوئی ایسا باپ بھی نہیں جو اپنے سب سے بڑے بیٹے کے مر چکے ہونے پر یقین کر لینے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ اس نے کھودی جانے والی اُس قبر میں دفنائے جانے والے شخص کی لاش کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ چھ برس پہلے اس نے اپنے نئے نئے گم ہو جانے والے بیٹے کی تلاش میں مردہ خانوں کے چکر بھی لگائے تھے۔

اللہ بخش کے مطابق ’انھوں نے مجھے دو افراد کی لاشیں دکھائیں جو میرے بیٹے کے ہم عمر تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے کا گلا کٹا ہوا تھا اور دوسرے کی ٹانگیں اس کے گھٹنوں سے ذرا نیچے سے کٹی ہوئی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر اطمینان ہوا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی میرا بیٹا نہیں تھا‘۔

اگلے چھ برسوں کے دوران اللہ بخش کا بیٹا مختلف رپورٹوں، سرکاری دستاویزات اور عدالت کی سماعتوں میں متواتر اپنی ہلکی سی جھلک دکھلاتا رہا۔ ایک مرتبہ تو بلوچستان ہائی کورٹ میں یہ بات تسلیم بھی کی گئی کہ وہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں ہے۔ ایک مرتبہ اللہ بخش کو بتایا گیا کہ اس کے بیٹے کو دہشت گرد ہونے کے سبب پچیس سال قید کی سزا دی گئی ہے۔

پھر ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ وہ گوجرانوالہ جیل میں وقت گزار رہا ہے۔ لیکن چھ برس تک اوپر سے نیچے تک ملک کی خاک چھاننے اور ہر دروازے پر دستک دینے کے بعد اللہ بخش ایک قبر کے کنارے پر کھڑا اس میں سے لاش نکالے جانے کا انتظار کر رہا تھا لیکن اس کے دل میں یہ یقین جاگزیں تھا کہ قبر سے اس کا بیٹا نہیں نکلنے والا۔

حافظ سعید چار جولائی سن دو ہزار تین کو اپنے گھر سے نکلا تھا۔ وہ جمعے کا دن تھا اور علاقے میں بم کا ایک بڑا دھماکا ہوا تھا۔ دھماکے میں چالیس افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کے بعد جلد ہی وہاں کرفیو لگا دیا گیا تھا۔

[SUP]قبر سے بیٹا نہیں نکلنے والا
چھ برسوں کے دوران اللہ بخش کا بیٹا مختلف رپورٹوں، سرکاری دستاویزات اور عدالت کی سماعتوں میں متواتر اپنی ہلکی سی جھلک دکھلاتا رہا۔ ایک مرتبہ تو بلوچستان ہائی کورٹ میں یہ بات تسلیم بھی کی گئی کہ وہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں ہے۔ ایک مرتبہ اللہ بخش کو بتایا گیا کہ اس کے بیٹے کو دہشت گرد ہونے کے سبب پچیس سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ پھر ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ وہ گوجرانوالہ جیل میں وقت گزار رہا ہے۔ لیکن چھ برس تک اوپر سے نیچے تک ملک کی خاک چھاننے اور ہر دروازے پر دستک دینے کے بعد اللہ بخش ایک قبر کے کنارے پر کھڑا اس میں سے لاش نکالے جانے کا انتظار کر رہا تھا لیکن اس کے دل میں یہ یقین جاگزیں تھا کہ قبر سے اس کا بیٹا نہیں نکلنے والا۔[/SUP]

اللہ بخش یاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’وہ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد گھر آیا، اپنی سائیکل لی اور نکل گیا‘۔

اللہ بخش بار بار یہی تفصیل دہراتا ہے جیسے اسے کچھ بھول سا گیا ہو یا جیسے اگر وہ واقعات کی پوری ترتیب ٹھیک ٹھیک دہرا سکے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس کا بیٹا اس وقت کہاں ہے۔ ’شہر کے ہمارے والے علاقے میں کرفیو نافذ تھا۔ کرفیو شام چھ بجے شروع ہوا اور حافظ سوا چھ بجے گھر سے نکلا‘ ۔

اپنی یادداشت کو چھ برس تک کھنگالتے رہنے کے باوجود وہ اس بات کا جواب نہیں دے پاتا کہ آخر اس کا بیٹا کرفیو نافذ ہونے کے بعد ہی گھر سے کیوں نکلا تھا۔ ’شاید اس نے یہ سوچا ہو کہ سائیکل پر سوار کسی شخص سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کرے گا۔ شاید اسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ کرفیو نافذ کیا جا چکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم وہ کیا سوچ رہا تھا‘۔

جب حافظ سعید غائب ہوا تو اس کی عمر پچیس برس تھی۔ وہ ایک تابعدار اور ذہین بیٹا تھا۔ اس نے پندرہ سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا تھا۔ اس کے بعد اس نے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے میٹرک کیا۔ وہ اقرا اسکول میں دوسرے بچوں کو حفظِ قرآن کی تعلیم دے رہا تھا۔ وہ خاندان میں سب سے بڑا تھا اور جب غائب ہوا تو اس کی منگنی کی جا چکی تھی اور ایک سال بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔

اپنے مدرسے کے پس منظر، پیشے کی نوعیت، داڑھی اور ٹخنوں سے اوپر شلوار کے ساتھ بہت سے لوگ اور خصوصاً سکیورٹی فورسز والے اس نتیجے پر جلد ہی پہنچ جاتے ہیں کہ حافظ ضرور کسی مذہبی گروپ یا کسی جہادی تنظیم سے متعلق رہا ہوگا۔

اس کا باپ بتاتا ہے ’اس نے کبھی ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ سکول میں تعلیم دینے کے بعد وہ سیدھا غریب آباد میں میری دکان پر آتا اور میرا ہاتھ بٹاتا۔ اس کے چچیرے بھائی بھی مدرسوں میں پڑھاتے تھے۔ کبھی کبھار وہ اُس سے ملنے بھی آتے۔ میں نے ان کی زبان سے سیاست کے موضوع پر کچھ نہیں سنا۔ ہاں وہ پرہیزگار تھا، لیکن وہ سیدھا سادھا لڑکا تھا۔ وہ میرے بچوں میں سب سے بڑا تھا اور میرے قریب بھی تھا۔ ایسی کوئی بات ہوتی تو مجھے ضرور علم ہوتا‘۔

اس رات حافظ سعید اپنے گھر واپس نہیں آیا۔ ’میرے بیٹے نے کبھی رات گھر سے باہر نہیں گزاری تھی۔ مجھے تشویش ہوئی اور میں نے اس کی تلاش شروع کر دی‘۔

حافظ سعید اور اس کے خاندان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ اس کے باپ نے سمجھا کہ سعید کو کرفیو کی خلاف ورزی کرنے پر قانون نافذ کرنے والی کسی ایجنسی نے پکڑ لیا ہے۔ اس کا خیال اغوا برائے تاوان کی جانب بھی گیا لیکن پھر اس نے سوچا کہ اس جیسے غریب آدمی سے تاوان وصول کرنے کا خیال کسے آئے گا ۔ اس نے ایف آئی آر درج کرائی، ہسپتالوں کے چکر لگائے اور جس سے بھی پوچھ سکتا تھا حافظ سعید سے متعلق پوچھا۔

اللہ بخش کے مطابق ’پندرہ روز بعد ایک شخص مجھے تلاش کرتا ہوا آیا۔ وہ موٹر بائیک پر سوار تھا اور اس نے خود کو ملٹری انٹیلی جینس کے اہل کار یاسین کے نام سے متعارف کرایا‘۔

اس اہلکار نے اللہ بخش سے پوچھا کہ اس کا بیٹا کسی جہادی تنظیم کے ساتھ متعلق تو نہیں تھا
۔’میں نے اُسے بتایا کہ وہ اپنے استادی کے پیشے اور میری دکان کے علاوہ کسی چیز یا کسی شخص کے ساتھ منسلک نہیں تھا‘۔

اس شخص نے اللہ بخش کو یقین دلایا کہ ملٹری انٹیلیجنس تفتیش کرے گی اور اگر وہ قانون نافذ کرنے والی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہوا تو اسے رہا کر دیا جائے گا۔ اگلے تین ماہ تک اللہ بخش منتظر رہا لیکن اسے کسی جانب سے مزید کچھ سنائی نہ دیا۔ تب اس نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی۔

اس اپیل کی سماعت کو اب چھ سال ہو چکے ہیں لیکن عدالت کی جانب سے اس حکم کے باوجود اس نے اب تک اپنے بیٹے کی جھلک بھی نہیں دیکھی کہ گم شدہ افراد کی ان کے اہلِ خانہ سے ملاقاتوں کا اہتمام کیا جائے۔

اس تمام عرصے کے دوران اس کا اپنے بیٹے سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

ابتدائی سماعت کے دوران آئی ایس آئی کی جانب سے عدالت میں ایک بیان جمع کرایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ حافظ سعید کو بم دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور اب اس سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ کرائم برانچ نے بھی ایک علیحدہ رپورٹ میں تصدیق کی کہ حافظ سعید ’حساس اداروں ‘ کی تحویل میں تھا۔

ہائی کورٹ نے ہدایت کی کہ اُس کی اس کے اہلِ خانہ سے ملاقات کرائی جائے۔ یہ ملاقات کبھی نہ ہو سکی۔ اس کے بجائے کرائم برانچ نے ایک اور رپورٹ جمع کرا دی جس میں اس مرتبہ یہ درج تھا کہ حافظ سعید ’حساس اداروں‘ کی تحویل میں نہیں ہے۔

اللہ بخش نے صدر اور چیف جسٹس کو خطوط بھی لکھے لیکن اسے کوئی جواب نہ آیا۔ وہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگے احتجاجی کیمپ میں گیارہ ماہ تک بیٹھا رہا۔ ان تمام برسوں میں اس کا بیٹا کہیں دیکھا گیا نہ اس کی کوئی خبر ملی، لیکن اللہ بخش نے اپنی کوششیں ترک نہ کیں۔

پھر اچانک ہی سن دو ہزار نو میں ہائی کورٹ میں ایک فہرست نمودار ہوئی۔ اس فہرست میں تیرہ گم شدہ افراد کا نام تھا۔ ان سب کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ جیلوں میں قید کاٹ رہے ہیں۔ اس فہرست میں حافظ سعید کا نام بھی تھا۔ فہرست کے مطابق اس کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا اور اسے پچیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وہ گوجرانوالہ جیل میں ہے۔

اللہ بخش انسانی حقوق کمیشن پاکستان سے رابطہ کرنے میں کام یاب ہو گیا جس نے اپنے ایک آدمی کو گوجرانوالہ جیل بھیجا۔ جیل حکام نے کہا کہ حافظ سعید ان کے پاس نہیں۔ اللہ بخش ایک بار پھر ہائی کورٹ گیا اور اس مرتبہ پولیس نے یہ اعتراف جمع کرایا کہ حافظ سعید در حقیقت اُس بم دھماکے میں مارا گیا تھا جس کے بعد اس کی تدفین کردی گئی تھی۔

اُس وقت تک حافظ سعید پر اس بم دھماکے میں ملوث ہونے اور اس میں زخمی ہونے کا شبہ پہلے ہی ظاہر کیا جا چکا تھا اور اب اس کے اہلِ خانہ کو بتایا جا رہا تھا کہ حافظ سعید تو درحقیقت چھ سال پہلے ہونے والے اس دھماکے میں ہلاک ہو گیا تھا حالانکہ حافظ سعید اس بم دھماکے کے چار گھنٹے بعد گھر سے نکلا تھا۔ ہائی کورٹ نے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دیا۔

پولیس کا بنیادی طور پر یہ موقف تھا کہ انھوں نے چھ سال پہلے اللہ بخش کو جو لاش دکھائی تھی وہ اس کے بیٹے کی ہی تھی۔ اللہ بخش ایک مرتبہ پھر کٹے ہوئے حلقوم اور ٹانگوں کی تفصیلی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہتا ہے’میں نے ان لاشوں کو اچھی طرح دیکھا تھا۔ ان میں سے کوئی بھی میرے بیٹے کی نہیں تھی‘۔

جو قبر اس کے بیٹے کی نہیں تھی اسے کھولنے سے پہلے انھوں نے اللہ بخش کو کچھ کپڑے دیے اور پوچھا کہ کیا وہ انھیں شناخت کر سکتا ہے۔ ’وہ کپڑے میرے بیٹے کے نہیں تھے۔ حافظِ قرآن ہو جانے کے بعد اس نے کبھی بٹن والی شرٹ نہیں پہنی تھی۔ لیکن پھر بھی میں وہ کپڑے حافظ سعید کی ماں کو دکھانے اپنے گھر لے گیا۔ اور اُس نے بھی کہا کہ وہ کپڑے اس کے نہیں تھے‘۔

قبرکشائی کی گئی اور، جیسا کہ اللہ بخش نے پیش گوئی کی تھی، اس میں سے نکالی جانے والی لاش اس کے بیٹے کی نہیں تھی۔ اسے اطمینان ہوا۔ لیکن یہ اطمینان زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ دل ہی دل میں ان لوگوں پر رشک کرتا ہے جنھیں اپنے پیاروں کی لاشیں مل چکی ہیں۔’وہ انھیں دفنا چکے ہیں اور اب وہ ان کا ماتم کر سکتے ہیں، جبکہ میں صرف انتظار کر سکتا ہوں‘۔

اور اس انتظار کے دوران اللہ بخش اس بدقسمت شام کے واقعات سوچنے سے خود کو روک نہیں پاتا۔ ’مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد گھر آیا تھا۔ علاقے میں ایک بم دھماکا اس سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ پھر اس نے اپنی سائیکل نکالی اور باہر نکل گیا۔ باہر کرفیو لگا ہوا تھا۔ مجھے نہیں معلوم وہ گھر سے باہر کیوں نکل گیا‘۔

[SUP]حوالہ[/SUP]
 
Top