حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
خدا جانے یہ آجکل کیا وبا پھیل گئی ہے، عراق پر امریکی حملے کے بعد امریکی صدر پر جوتا باری کے بعد تو یہ سلسلہ تواتر سے جاری ہے، کہیں جوتا چل رہا ہے اور کہیں بوٹ، سمجھ نہیں آ رہا یہ کیا ہو رہا ہے ....
کہیں جوتا کہیں تھپڑ پڑا ہے
عجب یہ سلسلہ بد چلا ہے
بھارت میں عوامی سیاستدان و سابق وزیر اعلیٰ دہلی کو تو ایک ہی سیزن میں کئی بار تھپڑوں کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر آفرین ہے اس مردِ میدان پر کہ ا کے باوجود اسکے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی بلکہ آخری تھپڑ کو ان کو ایسا راس آیا کہ ان کی پارٹی کو پہلے سے زیادہ فنڈ عوام کی طرف سے ملا۔ شاید ووٹ بھی زیادہ مل جائیں اب کچریوال کے چاہنے والے کہیں اس تھپڑ مار رکشہ ڈرائیور کو "بابا تھپڑ سوامی" نہ بنا دیں اور توہم پرست لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی مالی حالت درست کروانے کیلئے لائن میں لگ کر اپنا رُخسار آگے کرتے نظر آئیں گے تاکہ وہ اپنے مقدس ہاتھوں سے تھپڑ رسید کریں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے ہی توہم پرستوں کی وجہ سے کہیں "پیر دھنکا" اور کہیں "بابا ڈنڈے والا" خاصے مقبول رہے ہیں۔
تھپڑ مارنے کے فوائد تو سامنے آ گئے ہیں مگر تاحال جوتے پھینکنے والوں کے اثرات معلوم نہیں ہو سکے اور اس کام میں ملوث افراد بیچاروں کو تو اُلٹا پولیس اپنا مہمان بنا کر ساتھ لے جاتی ہے تاکہ ان کی اچھی طرح سرکاری مہمان خانے میں خاطر مدارت کر سکیں۔ اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو خطرہ ہے کہ کہیں ایسی تقریبات میں جہاں اعلیٰ شخصیات موجود ہوں ان میں شرکت کیلئے جوتوں کے بغیر آنے کی پابندی نہ لگا دی جائے۔ اور کیا مزہ ہو جب یہ بڑے بڑے عالمی مرتبت شخصیات ننگے پاﺅں حاضری دینے کیلئے تشریف لاتی نظر آئیں۔ اگر جلسے جلوسوں میں بھی یہ پابندی لازمی ہو گئی تو پھر شاید ان لوگوں کو ننگے پاﺅں پھٹے کپڑوں میں نعرے لگانے والے عوام کی قدر آ جائے۔ جو ان کے جلوسوں اور جلسوں کی رونق ہوتے ہیں۔
کہیں جوتا کہیں تھپڑ پڑا ہے
عجب یہ سلسلہ بد چلا ہے
بھارت میں عوامی سیاستدان و سابق وزیر اعلیٰ دہلی کو تو ایک ہی سیزن میں کئی بار تھپڑوں کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر آفرین ہے اس مردِ میدان پر کہ ا کے باوجود اسکے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی بلکہ آخری تھپڑ کو ان کو ایسا راس آیا کہ ان کی پارٹی کو پہلے سے زیادہ فنڈ عوام کی طرف سے ملا۔ شاید ووٹ بھی زیادہ مل جائیں اب کچریوال کے چاہنے والے کہیں اس تھپڑ مار رکشہ ڈرائیور کو "بابا تھپڑ سوامی" نہ بنا دیں اور توہم پرست لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی مالی حالت درست کروانے کیلئے لائن میں لگ کر اپنا رُخسار آگے کرتے نظر آئیں گے تاکہ وہ اپنے مقدس ہاتھوں سے تھپڑ رسید کریں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے ہی توہم پرستوں کی وجہ سے کہیں "پیر دھنکا" اور کہیں "بابا ڈنڈے والا" خاصے مقبول رہے ہیں۔
تھپڑ مارنے کے فوائد تو سامنے آ گئے ہیں مگر تاحال جوتے پھینکنے والوں کے اثرات معلوم نہیں ہو سکے اور اس کام میں ملوث افراد بیچاروں کو تو اُلٹا پولیس اپنا مہمان بنا کر ساتھ لے جاتی ہے تاکہ ان کی اچھی طرح سرکاری مہمان خانے میں خاطر مدارت کر سکیں۔ اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو خطرہ ہے کہ کہیں ایسی تقریبات میں جہاں اعلیٰ شخصیات موجود ہوں ان میں شرکت کیلئے جوتوں کے بغیر آنے کی پابندی نہ لگا دی جائے۔ اور کیا مزہ ہو جب یہ بڑے بڑے عالمی مرتبت شخصیات ننگے پاﺅں حاضری دینے کیلئے تشریف لاتی نظر آئیں۔ اگر جلسے جلوسوں میں بھی یہ پابندی لازمی ہو گئی تو پھر شاید ان لوگوں کو ننگے پاﺅں پھٹے کپڑوں میں نعرے لگانے والے عوام کی قدر آ جائے۔ جو ان کے جلوسوں اور جلسوں کی رونق ہوتے ہیں۔