رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
مشکاۃ وحی
بسم اللہ والحمد ﷲ والصلاۃ والسلام علی رسول اﷲ اما بعد
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جہاں مال ودولت کی تقسیم کے ذریعے انسانوں کو آزمائش میں ڈالا، وہاں اس آزمائش میں سرخرو ہونے کا طریقہ بھی اپنی کتاب میں اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے مرحمت فرما دیا۔ معاشرے میں دولت کی مناسب گردش کیلئے زکوٰۃ کو اپنے دین ہی کا تیسرا اہم رُکن قرار دیا۔ قرآن کریم میں صدقہ وخیرات کا حکم لگ بھگ 66 مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ دوسروں پر خرچ کرنا ہمارے دین میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مزید برآں ایسے شخص کیلئے تو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے جو دوسروں کو کھانا کھلانے کی تلقین نہ کرے۔ ولا یحض علی طعام المسکین۔۔۔
صاحبو! خیرات وصدقات کی اتنی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ وہ شخص جو اللہ سے ملاقات کی اُمید رکھتا ہو اُس کو تو بس یہی بھائے کہ اپنا سارا کچھ اللہ کی راہ میں ہی دے ڈالے اور آخرت کے بے حد وحساب منافع میں اپنے مالک کی رضا کو پالے۔ کامیابی کے آرزو مند کسی بھی مسلمان کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیئے!
مگر بھائیو، اللہ کا یہ دین، دین فطرت اور نہایت متوازن دین ہے! یہ دین ہمیں بتاتا ہے کہ خرچ کرنا ہے تو کیسے کرنا ہے اور کس حد سے آگے نہیں بڑھنا۔
قرآن ہمیں ہدایت دیتا ہے کہ سب کچھ ہی نہ لُٹا ڈالیں کہ جب اپنے اہل خانہ پر خرچ کرنے کا وقت آئے تو خالی ہاتھ درماندہ وپشیمان بیٹھ رہیں۔ (الاسراء: 29)
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل مبنی بر ہدایت وحکمت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں ہمارے لئے انفاق کے معاملے میں بھی رہنمائی موجود ہے۔ آئیے صحیح مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم سمجھیں۔
شریعت میں ذرائع آمدن کا تحفظ
تحریر: شیخ یوسف القاسم
اُردو استفادہ: مریم عزیز
’خیال رکھنا کہیں دودھیل جانور نہ ذبح کر بیٹھنا‘
(صحیح مسلم 3299)
یہ تھی وہ تاکید جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے میزبان کو فرمائی جب وہ اپنے محترم مہمانوں کی خاطر مدارت میں بھیڑ ذبح کرنے چلا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سے نفع حاصل کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔
دوستو، واقعہ یہ ہے کہ جوں ہی ہمیں کسی نئی ’یقینی‘ اور ’بے حد وحساب‘ منافع پہنچانے والی کاروباری سکیم کی خبر ملتی ہے تو ہم بلا توقف سوچنے کی زحمت کئے بغیر دھڑا دھڑ اپنی تمام جمع پونجی داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔ سکیم کی حقیقت کیا ہے، اتنے بڑے منافع ملنے کے وعدے سچے بھی ہیں یا نہیں۔ حواس اور عقول پر لالچ کا پردہ پڑ جاتا ہے اور یوں ہم کسی وقت مُنہ کے بل ناکامیوں اور پشیمانیوں کے کھڈ میں جا گرتے ہیں۔
یہ بات نہایت حیران کن ہے کہ ایک شخص اپنا چلتا پھرتا کاروبار، جس سے اُسے مستقل آمدنی ہوتی ہے، محض ایک مشکوک سکیم کے بدلے گنوا بیٹھے۔ ایسی نفسیات کا حامل شخص اس وقت بھی حیران ہوتا ہے جب اُس کی توقع سے کہیں کم پیسہ اُس کے ہاتھ لگے۔ ظاہر ہے اب مصیبت کی گھڑی سامنے آگئی کیونکہ وہ ذریعہ آمدن، جس پر اُس کے گھر بار اور خاندان کا انحصار تھا، لُٹ چکا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اس بات کی خاص فکر کیا کرتے تھے کہ کسی کا وسیلہء روزگار ہاتھ سے نہ جائے، جس پر اُس کا اور اُس کے خاندان کا ایک معقول عرصے تک گزارہ ہو سکتا ہو۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے۔ عمر اور ابوبکر، رضی اللہ عنہما سے باہر سامنا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ”کیا وجہ ہوئی اس وقت گھر سے باہر آنے کی؟“ اُنہوں نے عرض کی ”بھوک (ستا رہی تھی) یا رسول اللہ“۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرے باہر نکلنے کا بھی یہی سبب ہے۔ آؤ میرے ساتھ“۔ وہ دونوں اُٹھ کھڑے ہوئے اور ساتھ ہو لئے یہاں تک کہ وہ ایک انصاری کے گھر پہنچے۔ انصاری نے مسرت سے کہا ’الحمدللہ! آج میرے مہمانوں جیسے معزز کسی کے مہمان نہیں‘۔ وہ اُٹھا اور تازہ اور خشک کھجوروں کے ساتھ واپس لوٹا۔ اُس نے کہا ”تناول کیجئے“۔ اس دوران وہ چھری لا چکا تھا جب وہ چھری لے کر جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیال رکھنا کہیں دودھیل (بھیڑ) ہی ذبح نہ کر بیٹھنا“۔ (صحیح مسلم: 3799)
اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے الزرقانی لکھتے ہیں: اللہ کے رسول نے اُس شخص کے اہل وعیال کی آسانی کا خیال رکھتے ہوئے دودھ دینے والی بکری ذبح کرنے سے منع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں روزی پہنچانے والے ذریعے سے محروم نہ رکھنا چاہتے تھے کیونکہ گوشت کسی اور جانو رکو ذبح کرکے بھی حاصل کیا جا سکتا تھا۔
اس حدیث کو بنیاد بنا کر بہت سے علماءکرام کا یہ باقاعدہ فتویٰ ہے کہ ایسے تمام مویشیوں کا ذبح کیا جانا مکروہ ہے جو دودھ دیتے ہوں یا کھیتی باڑی کے کام آتے ہوں۔
اکمال المعلم (512/6) میں القاضی عیاض لکھتے ہیں کہ وہ علماءکرام جو حاملہ مویشیوں اور کھیتی باڑی والے جانوروں کے ذبیحہ سے منع کرتے ہیں وہ اس حدیث کو اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں جبکہ ایسا کرنا ضروری نہ ہو۔ بلاضرورت ایسا کرنا مال کمانے کے ذرائع اجاڑنے کے مترادف ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اُس زمانے میں مویشی ہی دولت کمانے اور وسیع پیمانے پر تجارت کرنے کا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ آج کل بھی مویشیوں سے حاصل ہونے والے دُدوھ سے کاروبار میں بے حد نفع کمایا جا سکتا ہے۔ دودھ اور دودھ سے بننے والی تمام اشیاءبازار کی تجارت کا اہم ترین حصہ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے کس قدر خیر خواہ تھے: حکمت ملاحظہ فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال مہربانی سے اُس شخص کو گھر والوں کے حق کا خیال رکھنے کا حکم دیا اور اُن کی آمدنی کے ایک اہم ذریعے ہی کو کھو دینے سے منع فرمایا۔ یوں کمال فہمی سے آخرت کے ساتھ ساتھ اُس کی دُنیا کا بھی خیال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پش نظر رہا۔
یہی حکم کسی بھی آمدن کے ذریعے کا ہے۔ آخرت کے خیال کے ساتھ ساتھ دُنیا داری کا بہترین متوازی سبق بھلا اور کہاں مل سکتا ہے۔ خرچ کے معاملے میں یوں احتیاط کرنے کی خاص تاکید کی گئی۔
اس ایک حدیث میں انمول پند ونصائح کے خزینے علمائے کرام نے مستنبط کئے ہیں۔ ہمیں اس حدیث سے نہ صرف روحانیت کی تعلیم ملتی ہے بلکہ اس دُنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے قواعد وضوابط بھی بلامشقت مل جاتے ہیں تاکہ ہمارے معاشرتی معاملات کے ساتھ ساتھ نجی مسائل بھی احسن طریقے سے انجام پائیں۔
چنانچہ یہاں یہ بات آپ کیلئے باعث حیرانی نہ ہو جب یہ کہا جائے کہ دولت کی حفاظت بھی اُن اہم پانچ باتوں (مقاصدِ شریعت) میں شمار ہوتی ہے جن کی حفاظت کیلئے اسلام آیا۔ ان معاملات کو شریعت اُن احکام کے ذریعے سلجھاتی ہے جو یہ واضح کرتے ہیں کہ دولت کیا ہے اور اُس کا وجود کیونکر برقرار رہ سکتا ہے، اُس کی تباہی، زیاں وسرقہ سے نبٹنے کے کیا اصول ہوں۔
اسی طرح سورہ النساءکی پانچویں آیت سے ہمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ حکم ملتا ہے کہ ایسے بندوں کے ہاتھ میں مال ودولت کا معاملہ نہ دیا جائے جو سفیہ (ناسمجھ) ہو۔ امام قرطبی اس آیت کے حکم کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے مال کو کاروبار کی خاطر ایسے شخص کے حوالے نہ کیا جائے جو روپے پیسے کو مناسب انداز میں صرف کرنے کا فہم نہ رکھتا ہو۔
اسلام فضول خرچی اور دولت کے زیاں سے منع فرماتا ہے۔ سرقہ ایک سنگین جرم قرار دیا گیا ہے جس کی سزا بھی بے انتہا کڑی رکھی گئی تاکہ پورا معاشرہ اس سے عبرت حاصل کرے۔ دھوکہ دہی اور فریب کے ذریعے مال بٹورنے کی بھی سزائیں ریاست اور قانون کے مطابق الگ سے مقرر کی گئی ہیں اور یہ سب انسان کے مال ودولت کی حفاظت کیلئے دین اسلام میں تجویز ہوا۔
اقول قولی ھذا استغفراﷲ لی ولکم
وآخردعوانا الحمد ﷲ رب العالمین
مضمون کا لنک
توضیح مفہومات (حدیث رسول)
سارا کچھ ہی نہ دے ڈالو....
بسم اللہ والحمد ﷲ والصلاۃ والسلام علی رسول اﷲ اما بعد
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جہاں مال ودولت کی تقسیم کے ذریعے انسانوں کو آزمائش میں ڈالا، وہاں اس آزمائش میں سرخرو ہونے کا طریقہ بھی اپنی کتاب میں اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے مرحمت فرما دیا۔ معاشرے میں دولت کی مناسب گردش کیلئے زکوٰۃ کو اپنے دین ہی کا تیسرا اہم رُکن قرار دیا۔ قرآن کریم میں صدقہ وخیرات کا حکم لگ بھگ 66 مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ دوسروں پر خرچ کرنا ہمارے دین میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مزید برآں ایسے شخص کیلئے تو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے جو دوسروں کو کھانا کھلانے کی تلقین نہ کرے۔ ولا یحض علی طعام المسکین۔۔۔
صاحبو! خیرات وصدقات کی اتنی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ وہ شخص جو اللہ سے ملاقات کی اُمید رکھتا ہو اُس کو تو بس یہی بھائے کہ اپنا سارا کچھ اللہ کی راہ میں ہی دے ڈالے اور آخرت کے بے حد وحساب منافع میں اپنے مالک کی رضا کو پالے۔ کامیابی کے آرزو مند کسی بھی مسلمان کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیئے!
مگر بھائیو، اللہ کا یہ دین، دین فطرت اور نہایت متوازن دین ہے! یہ دین ہمیں بتاتا ہے کہ خرچ کرنا ہے تو کیسے کرنا ہے اور کس حد سے آگے نہیں بڑھنا۔
قرآن ہمیں ہدایت دیتا ہے کہ سب کچھ ہی نہ لُٹا ڈالیں کہ جب اپنے اہل خانہ پر خرچ کرنے کا وقت آئے تو خالی ہاتھ درماندہ وپشیمان بیٹھ رہیں۔ (الاسراء: 29)
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل مبنی بر ہدایت وحکمت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں ہمارے لئے انفاق کے معاملے میں بھی رہنمائی موجود ہے۔ آئیے صحیح مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم سمجھیں۔
شریعت میں ذرائع آمدن کا تحفظ
تحریر: شیخ یوسف القاسم
اُردو استفادہ: مریم عزیز
’خیال رکھنا کہیں دودھیل جانور نہ ذبح کر بیٹھنا‘
(صحیح مسلم 3299)
یہ تھی وہ تاکید جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے میزبان کو فرمائی جب وہ اپنے محترم مہمانوں کی خاطر مدارت میں بھیڑ ذبح کرنے چلا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سے نفع حاصل کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔
دوستو، واقعہ یہ ہے کہ جوں ہی ہمیں کسی نئی ’یقینی‘ اور ’بے حد وحساب‘ منافع پہنچانے والی کاروباری سکیم کی خبر ملتی ہے تو ہم بلا توقف سوچنے کی زحمت کئے بغیر دھڑا دھڑ اپنی تمام جمع پونجی داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔ سکیم کی حقیقت کیا ہے، اتنے بڑے منافع ملنے کے وعدے سچے بھی ہیں یا نہیں۔ حواس اور عقول پر لالچ کا پردہ پڑ جاتا ہے اور یوں ہم کسی وقت مُنہ کے بل ناکامیوں اور پشیمانیوں کے کھڈ میں جا گرتے ہیں۔
یہ بات نہایت حیران کن ہے کہ ایک شخص اپنا چلتا پھرتا کاروبار، جس سے اُسے مستقل آمدنی ہوتی ہے، محض ایک مشکوک سکیم کے بدلے گنوا بیٹھے۔ ایسی نفسیات کا حامل شخص اس وقت بھی حیران ہوتا ہے جب اُس کی توقع سے کہیں کم پیسہ اُس کے ہاتھ لگے۔ ظاہر ہے اب مصیبت کی گھڑی سامنے آگئی کیونکہ وہ ذریعہ آمدن، جس پر اُس کے گھر بار اور خاندان کا انحصار تھا، لُٹ چکا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اس بات کی خاص فکر کیا کرتے تھے کہ کسی کا وسیلہء روزگار ہاتھ سے نہ جائے، جس پر اُس کا اور اُس کے خاندان کا ایک معقول عرصے تک گزارہ ہو سکتا ہو۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے۔ عمر اور ابوبکر، رضی اللہ عنہما سے باہر سامنا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ”کیا وجہ ہوئی اس وقت گھر سے باہر آنے کی؟“ اُنہوں نے عرض کی ”بھوک (ستا رہی تھی) یا رسول اللہ“۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرے باہر نکلنے کا بھی یہی سبب ہے۔ آؤ میرے ساتھ“۔ وہ دونوں اُٹھ کھڑے ہوئے اور ساتھ ہو لئے یہاں تک کہ وہ ایک انصاری کے گھر پہنچے۔ انصاری نے مسرت سے کہا ’الحمدللہ! آج میرے مہمانوں جیسے معزز کسی کے مہمان نہیں‘۔ وہ اُٹھا اور تازہ اور خشک کھجوروں کے ساتھ واپس لوٹا۔ اُس نے کہا ”تناول کیجئے“۔ اس دوران وہ چھری لا چکا تھا جب وہ چھری لے کر جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیال رکھنا کہیں دودھیل (بھیڑ) ہی ذبح نہ کر بیٹھنا“۔ (صحیح مسلم: 3799)
اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے الزرقانی لکھتے ہیں: اللہ کے رسول نے اُس شخص کے اہل وعیال کی آسانی کا خیال رکھتے ہوئے دودھ دینے والی بکری ذبح کرنے سے منع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں روزی پہنچانے والے ذریعے سے محروم نہ رکھنا چاہتے تھے کیونکہ گوشت کسی اور جانو رکو ذبح کرکے بھی حاصل کیا جا سکتا تھا۔
اس حدیث کو بنیاد بنا کر بہت سے علماءکرام کا یہ باقاعدہ فتویٰ ہے کہ ایسے تمام مویشیوں کا ذبح کیا جانا مکروہ ہے جو دودھ دیتے ہوں یا کھیتی باڑی کے کام آتے ہوں۔
اکمال المعلم (512/6) میں القاضی عیاض لکھتے ہیں کہ وہ علماءکرام جو حاملہ مویشیوں اور کھیتی باڑی والے جانوروں کے ذبیحہ سے منع کرتے ہیں وہ اس حدیث کو اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں جبکہ ایسا کرنا ضروری نہ ہو۔ بلاضرورت ایسا کرنا مال کمانے کے ذرائع اجاڑنے کے مترادف ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اُس زمانے میں مویشی ہی دولت کمانے اور وسیع پیمانے پر تجارت کرنے کا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ آج کل بھی مویشیوں سے حاصل ہونے والے دُدوھ سے کاروبار میں بے حد نفع کمایا جا سکتا ہے۔ دودھ اور دودھ سے بننے والی تمام اشیاءبازار کی تجارت کا اہم ترین حصہ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے کس قدر خیر خواہ تھے: حکمت ملاحظہ فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال مہربانی سے اُس شخص کو گھر والوں کے حق کا خیال رکھنے کا حکم دیا اور اُن کی آمدنی کے ایک اہم ذریعے ہی کو کھو دینے سے منع فرمایا۔ یوں کمال فہمی سے آخرت کے ساتھ ساتھ اُس کی دُنیا کا بھی خیال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پش نظر رہا۔
یہی حکم کسی بھی آمدن کے ذریعے کا ہے۔ آخرت کے خیال کے ساتھ ساتھ دُنیا داری کا بہترین متوازی سبق بھلا اور کہاں مل سکتا ہے۔ خرچ کے معاملے میں یوں احتیاط کرنے کی خاص تاکید کی گئی۔
اس ایک حدیث میں انمول پند ونصائح کے خزینے علمائے کرام نے مستنبط کئے ہیں۔ ہمیں اس حدیث سے نہ صرف روحانیت کی تعلیم ملتی ہے بلکہ اس دُنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے قواعد وضوابط بھی بلامشقت مل جاتے ہیں تاکہ ہمارے معاشرتی معاملات کے ساتھ ساتھ نجی مسائل بھی احسن طریقے سے انجام پائیں۔
چنانچہ یہاں یہ بات آپ کیلئے باعث حیرانی نہ ہو جب یہ کہا جائے کہ دولت کی حفاظت بھی اُن اہم پانچ باتوں (مقاصدِ شریعت) میں شمار ہوتی ہے جن کی حفاظت کیلئے اسلام آیا۔ ان معاملات کو شریعت اُن احکام کے ذریعے سلجھاتی ہے جو یہ واضح کرتے ہیں کہ دولت کیا ہے اور اُس کا وجود کیونکر برقرار رہ سکتا ہے، اُس کی تباہی، زیاں وسرقہ سے نبٹنے کے کیا اصول ہوں۔
اسی طرح سورہ النساءکی پانچویں آیت سے ہمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ حکم ملتا ہے کہ ایسے بندوں کے ہاتھ میں مال ودولت کا معاملہ نہ دیا جائے جو سفیہ (ناسمجھ) ہو۔ امام قرطبی اس آیت کے حکم کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے مال کو کاروبار کی خاطر ایسے شخص کے حوالے نہ کیا جائے جو روپے پیسے کو مناسب انداز میں صرف کرنے کا فہم نہ رکھتا ہو۔
اسلام فضول خرچی اور دولت کے زیاں سے منع فرماتا ہے۔ سرقہ ایک سنگین جرم قرار دیا گیا ہے جس کی سزا بھی بے انتہا کڑی رکھی گئی تاکہ پورا معاشرہ اس سے عبرت حاصل کرے۔ دھوکہ دہی اور فریب کے ذریعے مال بٹورنے کی بھی سزائیں ریاست اور قانون کے مطابق الگ سے مقرر کی گئی ہیں اور یہ سب انسان کے مال ودولت کی حفاظت کیلئے دین اسلام میں تجویز ہوا۔
اقول قولی ھذا استغفراﷲ لی ولکم
وآخردعوانا الحمد ﷲ رب العالمین
مضمون کا لنک