• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعہ اَحرف‘ سے مراد اور قراء اتِ عشرہ کی حجیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’سبعہ اَحرف‘ سے مراد اور قراء اتِ عشرہ کی حجیت

ڈاکٹر مفتی عبدالواحد​

حدیث ’سبعہ اَحرف‘ کے مفہوم کے متعلق بحث معرکۃ الاراء مسائل میں سے ہے، حتیٰ کہ ان آراء اور تشریحات سے گھبرا کر بعض حضرات نے اس حدیث کے ’متشابہات‘ میں سے ہونے تک کا دعویٰ کردیا ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری رائے کے مطابق تعدد قراء ات یا متنوع اَسالیب ِتلاوت (سبعہ احرف) کے نزول کا توسلف و خلف میں کوئی اہل علم بھی انکاری نہیں،بحث صرف سبعہ اَسالیب ِتلاوت (سبعہ احرف) کی تعیین کے بارے میں ہے، جو کہ ایک علمی بحث ہے اور متنوع قراء ات کے ثبوت سے اس کا تعلق بھی اِضافی ہے۔
اس حدیث کی تشریح و تعبیر میں اہل علم کے متعدد اَقوال موجود ہیں، جن میں ہر صاحب قول کی کوشش یہ ہے کہ ایسی رائے اختیار کی جائے جس پر کم سے کم اِعتراضات وارد ہوں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مفتی عبد الواحدحفظہ اللہ اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی آراء کو ادارہ اس شمارہ میں شائع کررہا ہے، جبکہ دو معروف علمی شخصیات کے مضامین آئندہ شمارہ میں شامل ِاشاعت ہوں گے۔اسی ضمن میں تمام مضامین کے آخر میں کلِّیۃ القرآن الکریم کے اَرباب ِدانش کی رائے پر مبنی ایک مستقل مضمون بھی پیش کیا جائے گا، جس میں مذکورہ چاروں مضامین میںپیش کردہ اَفکار کاخلاصہ وموازنہ پیش کرتے ہوئے راجح موقف کی تعیین کی کوشش کی جائے گی۔ (ادارہ)
حروفِ سبعہ سے متعلق حدیثوں کواگر بنظر غائر دیکھاجائے تو وہ دوقسم کی ہیں۔ایک وہ ہیں جن میں قرآن پاک کے حروف سبعہ پر نازل کئے جانے کی تصریح ہے ۔دوسری وہ ہیں جن میں اس بات کا ذکر ہے کہ رسول اللہﷺنے اُمت کی خاطر سات کے عدد تک رعایت کی درخواست فرمائی جو منظور ہوئی اور سات تک مرادفات میں پڑھنے کی اِجازت ہوئی، لیکن یہ مرادفات نازل نہیں ہوئے۔نزول صرف اصل حرف ولفظ پر ہوا جو قریش کی لغت میں تھا۔
١ پہلی قسم
١ أن عثمان قال یوما وہو علی المنبر أذکر اﷲ رجلا سمع النبیﷺ قال إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف کلہا شاف کاف لما قام فقاموا حتی لم یحصوا فشہدوا أن رسول اﷲﷺقال أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلہا شاف کاف فقال عثمان رضی اﷲ عنہ وأنا أشہد معہم (سنن النسائی:۹۴۱)
’’ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب کہ وہ منبر پر تھے، کہا میں اس شخص کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں جس نے نبی کریمﷺکویہ فرماتے سنا کہ قرآن سات حروف پر نازل کیاگیا اوروہ تمام حروف کافی وشافی ہیں کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ تو بے شمارلوگ کھڑے ہوگئے اور ان سب نے گواہی دی کہ رسول اللہﷺنے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے اور وہ سب حروف کافی وشافی ہیں تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کی گواہی دیتاہوں۔‘‘
٢ امام بخار ی رحمہ اللہ اورامام مسلم رحمہ اللہ دونوں نے روایت کیا ہے، جبکہ الفاظ بخاری شریف کے ہیں:
’’ أن عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ یقول سمعت ہشام ین حکیم یقراء سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اﷲﷺ فاستمعت لقراء تہ فإذا ہو یقراء ہو علی حروف کثیرۃ لم یقرء نیہا رسول اﷲ ﷺ فکدت أساورہ فی الصلاۃ فانتظرتہ حتی سلم ثم لببتہ بردائہ أو بردائی فقلت من أقرأک ہذہ السورۃ فقال اقرء نیہا رسول اﷲ ﷺ فقلت لہ کذبت فو اﷲ أن رسول اﷲ ﷺ أقرانی ہذہ السورۃ التی سمعتک تقرء ہا فانطلقت أقودہ إلی رسول اﷲ ﷺ فقلت یارسول اﷲ إنی سمعت ہذا یقراء بسورۃ الفرقان علی حروف لم تقرء نیہا وأنت أقرأتنی سورۃ الفرقان فقال رسول اﷲﷺ أرسلہ یا عمر اقرا یا ہشام فقراء ہذہ القراء ۃ التی سمعتہ یقرؤہا قال رسول اﷲﷺ ہکذا أنزلت ثم قال رسول اﷲﷺ إن ہذاالقرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فقرأؤا ما تیسرمنہ (صحیح البخاری:۲۴۱۹،۵۰۴۱)
’’حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکی حیات میں ہشام بن حکیم (رضی اللہ عنہ )کوسورت فرقان پڑھتے سنا۔ میں نے جب ان کی قراء ت کی طرف کان لگائے تووہ ایسے بہت سے حروف پر پڑھ رہے تھے جو رسول اللہ رضی اللہ عنہ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے ۔قریب تھا کہ میں نماز ہی میں ان پر جھپٹ پڑوں،لیکن میں نے انتظار کیایہاں تک کہ انہوں نے سلام پھیرلیا۔پھر میں نے ان کو ان کی (یافرمایا اپنی )چادر سے کھینچا اور پوچھا کہ تمہیں یہ سورت کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے جواب دیاکہ یہ سورت مجھے رسول اللہﷺ نے پڑھائی ۔ میں نے ان سے کہا کہ تم غلط کہتے ہو اللہ کی قسم یہ سورت جو میں نے تمہیں پڑھتے ہوئے سنا ہے مجھے رسول اللہﷺنے پڑھائی ہے ۔ پھر میں ان کوکھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺکے پاس لے گیااور کہا کہ یارسول اللہ میں نے ان کوسورۃ الفرقان ان حرو ف پر پڑھتے ہوئے سنا جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے حالانکہ آپ ہی نے سورۃ الفرقان مجھے پڑھائی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اے عمر! ان کوچھوڑ دو۔پھرفرمایا اے ہشام تم پڑھو توانہوں نے وہی قراء ت پڑھی جو میں نے ان کوپڑھتے ہوئے سنا تھا ۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا(یہ سورت)اسی طرح نازل کی گئی ۔پھر رسول اللہﷺ نے فرمایایہ قرآن سات حروف پر نازل کیاگیا ہے جو چاہو پڑھو۔‘‘
٣ امام احمدرحمہ اللہ روایت کرتے ہیں:
’’عن أبی قیس مولی عمرو بن العاص عن عمرو أن رجلا قرأ آیۃ من القرآن فقال إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فأی ذلک قراء تم أصبتم فلا تماروا‘‘ (مسند أحمد:۴؍۲۰۴)
’’حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے قرآن کی ایک آیت پڑھی ۔اس شخص سے عمرورضی اللہ عنہ نے کہا یہ آیت تواس اس طرح ہے۔پھراس کاذکر نبیﷺسے کیاتو آپ نے فرمایا یہ قرآن سات حروف پر نازل کیاگیاہے جو حرف بھی تم پڑھو وہ درست ہے۔ لہٰذا آپس میں جھگڑا مت کرو۔ ‘‘
٤ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
’’عن أبی ہریرۃ أنہ قال قال رسول اﷲﷺ:(إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ولاحرج ولکن لا تختموا ذکر رحمۃ بعذاب ولا ذکر عذاب برحمۃ) (تفسیر الطبری:۱؍۴۲)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا۔ پس(جس حرف پر چاہو)بلاکسی حرج کے پڑھو،البتہ رحمت کے ذکر کو عذاب کے ساتھ اور عذاب کے ذکر کورحمت کے ساتھ ختم نہ کرو۔‘‘
ان حدیثوں میں ’’سبعہ احرف ‘‘سے اختلاف قراء ا ت کی سات مندرجہ ذیل نوعیتیں مراد ہیں۔
١ اسماء کاا ختلاف جس میں افراد، تثنیہ وجمع اور تذکیر وتانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے جیسے’تمت کلمۃ ربکاور’تمت کلمات ربک‘۔
٢ افعال کا اختلاف کہ کسی قراء ت میں صیغہ ماضی ہو کسی قراء ت میں مضارع اور کسی میں امرمثلاً ’ربنا باعد بین أسفارنا‘ اور’ربنا بعد بین أسفارنا‘۔
٣ وجو ہ اعراب کا اختلاف یعنی حرکتیں مختلف ہوں مثلاً’لایضار کاتب‘اور’ذوالعرش المجیدُ ‘ اور ’ذوالعرش المجیدِ‘۔
٤ الفاظ کی کمی وبیشی کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں کوئی لفظ کم اور دوسری قراء ت میں زیادہ ہومثلاً’وما خلق الذکر والانثی‘اور ’ماخلق‘کے بغیر صرف ’والذکر والانثی‘۔
٥ تقدیم وتاخیر کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ہے ’وجاء ت سکرۃ الموت بالحق‘ اور دوسری قراء ت میں حق کا لفظ مقدم ہے ’وجاء ت سکرۃ الحق بالموت‘۔
٦ بدلیت کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قرا ء ت میں اس کی جگہ دوسر ا لفظ ہے مثلاً ’ننشرھا‘اور ’ننشزھا‘ اور ’طلح‘اور’طلع‘۔
٧ لہجے کااختلاف جس میں تفخیم،ترقیق،امالہ،قصر،اخفاء،اظہاراور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں مثلاً ’موسی‘امالہ کے ساتھ اور امالہ کے بغیر۔
دوسری قسم
وہ حدیثیں جن میں آسانی وتسہیل کی خاطر سات کے عدد کا ذکر ہے:
١ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں:
عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما أنہ قال قال رسول اﷲﷺ:(اقراء نی جبرئیل علی حرف فراجعتہ فلم أزل استزیدہ ویزیدنی حتی انتہی إلی سبعۃ أحرف) (صحیح البخاري:۴۹۹۱)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مجھے جبرئیل نے ایک حرف پر قرآن پڑھایا تومیں نے ان سے مراجعت کی اور میں مزید طلب کرتارہا اوروہ (قرآن کے حرفوں میں) اضافہ کرتے رہے یہاں تک کہ وہ سات حرفوں تک پہنچ گئے ۔‘‘
٢ امام احمد رحمہ اللہ اپنی مسند میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
’’إن جبرئیل قال یا محمد اقرأء القرآن علی حرف قال میکائیل استزدہ فاستزادہ قال اقرأہ علی حرفین قال میکائیل استزدہ فاستزادہ حتی بلغ سبعۃ أحرف قال کل شاف کاف ما لم تخلط آیۃ عذاب برحمۃ أو رحمۃ بعذاب نحو قولک تعال وأقبل وہلم واذہب واسرع وعجل‘‘ (مسند احمد:۱۹۶۰۹)
’’کہ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمدقرآن کو ایک حرف پر پڑھیے۔میکائیل علیہ السلام نے نبی کریم ﷺسے کہا کہ اس میں اضافہ کروائیے۔یہاں تک کہ معاملہ سات حروف تک پہنچ گیا ۔جبرئیل علیہ السلام نے کہا ان میں سے ہرایک شافی کافی ہے تاوقتیکہ آپ عذاب کی آیت رحمت سے یا رحمت کو عذاب سے مخلوط نہ کردیں ۔یہ ایسا ہی ہوگا جیسے تعال کے معنی کو اقبل،ہلم ،اذہب،اسرع اورعجل کے الفاظ سے ادا کریں۔‘‘
٣ صحیح مسلم میں ہے :
’’عن أبی بن کعب قال کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراء ۃ انکرتہا علیہ ثم دخل آخر ثم فقراء قراء ۃ سوی قراء ۃ صاحبہ فلما قضینا الصلاۃ دخلنا جمیعا علی رسول اﷲﷺ فقلت إن ہذا قرأ قراء ۃ انکرتہا علیہ ودخل آخر فقراء سوی قراء ۃ صاحبہ فأمرہما رسول اﷲﷺ فقراء فحسن النبی ﷺ شأنہما فسقط فی نفسی من التکذیب ولا اذ کنت فی الجاہلیۃ فلما رای رسول اﷲﷺما قد غشینی ضرب فی صدری ففضت عرقا وکأنما أنظر إلی اﷲ فرقا فقال لی یا أبی أرسل إلی أن أقرأ القرآن علی حرف فرددت إلیہ أن ہوّن علی أمتی فردّ إلی الثانیۃ اقرأ ہ علی حرفین فرددت إلیہ أن ہوّن علی أمتی فرد إلی الثالثۃ اقرأہ علی سبعۃ أحرف ولک بکل ردۃ رددتہا مسألۃ تسالنیہا فقلت اللہم اغفرلأمتی وأخرت الثالثۃ لیوم یرغب إلی الخلق کلہم حتی إبراہیم ﷺ‘‘ (صحیح مسلم:۸۲۰)
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا کہ ایک شخص داخل ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ اس نے ایک ایسی قراء ت پڑھی جو مجھے اجنبی معلوم ہوئی۔پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے پہلے شخص کی قراء ت سے مختلف ایک اور قراء ت پڑھی۔ جب ہم نے نما ز ختم کرلی توہم سب رسول اللہﷺکی خدمت میں پہنچے میں نے عرض کیا کہ اس شخص نے ایسی قراء ت پڑھی ہے جو مجھے اجنبی معلوم ہوئی۔پھر ایک دوسرا شخص آیا ۔اس نے پہلے کی قراء ت کے سوا ایک دوسری قراء ت پڑھی ۔ اس پر آپ نے دونوں کو پڑھنے کا حکم دیا۔ان دونوں نے قراء ت کی توحضور ﷺنے دونوں کی تحسین فرمائی۔اس پر میرے دل میں تکذیب کے ایسے و سوسے آنے لگے کہ جاہلیت میں بھی ایسے خیالات نہیں آئے تھے۔پس جب رسول اللہ نے میری حالت دیکھی تومیرے سینے پر (اپنا ہاتھ) ماراجس سے میں پسینہ میں شرابور ہوگیا اور خوف کی حالت میں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اللہ کو دیکھ رہا ہوں ۔پھر آپ نے فرمایا اے ابی پرودگا رنے میر ے پاس پیغام بھیجا تھا کہ میں قرآن کو ایک حرف پر پڑھوںمیں نے جواب میں درخواست کی کہ میری امت پر آسانی فرمائیے تواللہ تعالیٰ نے مجھے دوبارہ پیغام بھیجا کہ میں دو حرفوں پر پڑھوں ۔میں نے جواب میں درخواست کی کہ میری امت پر آسانی فرمائیے تواللہ تعالی نے تیسری بار پیغام بھیجا کہ میں اسے سات حرفوں پر پڑھوں۔‘‘
٤ صحیح مسلم میں ہے:
’’عن أبی بن کعب أن النبی ﷺ کا ن عند أضاۃ بنی غفار قال فأتاہ جبریل علیہ السلام فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ أمتک القرآن علی حرف فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وأن أمتی لا تطیق ذلک ثم أتاہ الثانیۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ أمتک القرآن علی حرفین فقال أسأ ل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وأن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الثالثۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ أمتک القرآن علی ثلاثۃ أحرف فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وأن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الرابعۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف فأیما حرف قرء واعلیہ فقد أصابوا‘‘ (صحیح مسلم:۸۲۱)
’’نبیﷺبنوغفار کے تالاب کے پاس تھے آپ کے پاس جرئیل علیہ السلام آئے ا ور کہا کہ اللہ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ کی امت قرآن کو ایک حرف پر پڑھے ۔اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اللہ سے عافیت اورمغفرت مانگتاہوں ۔میری امت میں اس کی طاقت نہیں ہے ۔پھر جبرئیل علیہ السلام دوبارہ آپ کے پاس آ ئے او ر کہا کہ اللہ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ کی امت قرآن کودو حرفوں پر پڑھے ۔آپ نے فرمایا میں اللہ سے عافیت اور مغفرت مانگتا ہوں ۔میری امت میں اس کی طاقت نہیں ہے پھروہ تیسری بارآپ کے پاس آئے اورکہا کہ اللہ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ کی امت قرآ ن کو تین حرفوں پر پڑھے ۔آپ نے پھرفرمایا میں اللہ سے معافی اور مغفرت مانگتا ہوں میری امت میں اس کی طاقت نہیں ہے۔پھر وہ چوتھی بار آپ کے پاس آئے اور کہا کہ اللہ آپ کوحکم دیتے ہیں کہ آپ کی امت قرآن کو سات حرفوں پر پڑھے ۔پس امت کے لوگ جس حرف پر پڑھیں گے ان کی قراء ت درست ہوگی ۔‘‘
٥ سنن ترمذی میں بھی ہے :
’’عن أبی بن کعب قال لقی رسول اﷲ ﷺ جبریل عند أحجار المروۃ قال فقال رسول اﷲ ﷺ لجبریل إنی بعثت إلی أمۃ أمیین فیہم الشیخ الفانی والعجوز الکبیرۃ والغلام قال فمرہم فلیقرؤا القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ (مسند أحمد:۵؍۱۳۲)
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ مروہ کے پتھروں کے پاس رسول اللہ1 کی ملاقات حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہو ئی توآپﷺنے ان سے فرمایا مجھے ایک ان پڑھ امت کی طرف بھیجا گیا ہے جن میں بوڑھے بھی ہیں ،بوڑھیاں بھی ہیں اوربچے بھی ہیں۔حضرت جبرئیل نے کہاکہ آپ ان کوحکم دیجئے کہ وہ قرآن کو سات حرفوں پر پڑھیں۔‘‘
٦ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یوں ہے:
’’فقلت یاجبریل إنی أرسلت إلی أمۃ أمیۃ فیہم الرجل والمرأۃ والغلام والجاریۃ والرجل الذی لم یقرأ کتابا قط قال إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف‘‘ (سنن ترمذی:۲۹۴۴)
’’رسول اللہ ﷺنے فرمایامیں نے جبرئیل سے کہا کہ میں ایک ان پڑھ امت کی طرف بھیجا گیا ہوں جس میں مرد عورتیں بچے بچیاں اور ایسے لب گور بوڑھے جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی یہ سب ہی ہیں۔توجبرئیل علیہ السلام نے جواب میں کہا کہ قرآن سات حروف پرنا زل کیا گیا ہے۔‘‘
ان دوقسموں کی حدیثوں پر غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ دونوں کے مضمون مختلف ہیں۔ پہلی قسم کی حدیثوں میں اختلاف قراء ت کا ذکرتوہے، لیکن رسول اللہﷺنے اس بارے میں فقط یہ فرمایا کہ قرآن پا ک سبعہ احرف پر نازل کیاگیا ہے۔جبکہ دوسری قسم کی احادیث میں یہ ذکرکیا گیا ہے کہ رسول اللہ1کی درخواست ومطالبہ پریہ فرمایاگیا کہ آپ کی امت سات طریقوں سے پڑھے یا آپ اپنی امت کو سات طریقوں سے پڑھائیے۔پھروہ سات طریقے کیا ہیں؟حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ وہ سات تک مرادفات ہیں۔ فرمایا:جیسے تعال،اقبل ہلم اذہب،اسرع،عجل،ان دوسری قسم کی حدیثوںمیں ان سات طریقوں کے منزل من اللہ ہونے کی تصریح نہیں ہے سوائے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے جس میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرمانے پر کہ میری امت توامی ہے اور اس میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی کچھ پڑھا ہی نہیں یہ کہا کہ إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف، لیکن اس واقعہ سے متعلق جب عبداللہ بن عباس، ابوبکرہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کی روایتوں کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت بالمعنی ہے اورراوی کی جانب سے سات حروف یاسات طریقوں سے پڑھنے کی اجازت کو أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کے ساتھ تعبیرکیا گیا ہے یا پھرمجاز پر محمول ہے۔
عام طور پر علماء وقراء حضرات ان سب حدیثوں کا ایک ہی مضمون مانتے ہیں اس لئے ان کو ایک دوسرے پر محمول کرتے ہیں، لیکن اس صورت میں حروف سبعہ کی جو بھی تفسیر کی جائے وہ ایسی نہیں کہ اس پر کوئی اعتراض واشکال باقی نہ رہتاہو، مثلاً

١ جب دونوں طرح کی حدیثوں میں سبعۂ اَحرف سے مراد سات لغات ہوں

ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے سبعۂ احرف سے قبائل عرب کی سات لغات مراد لی ہیں اور وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورتک قرآن ان سات حروف پر پڑھا جاتا تھا،لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب اسلام دور دراز ممالک تک پھیلا توان حروف سبعہ کی حقیقت نہ جاننے کی وجہ سے لوگوں میں جھگڑے ہونے لگے ۔ مختلف لوگ مختلف حروف پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور ایک دوسرے کی تلاوت کوغلط ٹھہرانے لگے۔اس فتنہ کے انسداد کے لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورے سے پوری امت کیلئے صرف ایک حرف یعنی لغت قریش کے مطابق سات مصاحف مرتب فرماکرمختلف صوبوں میں بھیج دئیے اور باقی تمام مصاحف کو نذر آتش کرادیا تاکہ کوئی اختلاف پیدانہ ہوسکے۔لہٰذااب صرف لغت قریش کا حرف باقی رہ گیا ہے اور باقی چھ حروف محفوظ نہیں رہے اور قراء توں کاجو اختلاف آج تک باقی چلاآتاہے وہ اسی ایک حرف قریش کی ادائیگی کے مختلف طریقے ہیں۔
اس قول پرایک اعتراض یہ ہے کہ حافظ ابن جریر طبری رحمہ اللہ ایک طرف تویہ فر ماتے ہیں کہ ساتوں حروف منزل من اللہ تھے اور دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورے سے چھ حروف کی تلاوت کو ختم فرمادیا تھا حالانکہ یہ باور کرنا مشکل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کسی دلیل کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ چھ حروف کویکسر ختم کردیاہو۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے چھ حروف تو اختلاف کے ڈر سے ختم فرمادئیے اور قراءتیں جوں کی توں باقی رکھیں۔افتراق واختلاف کاجواندیشہ مختلف حروف کو باقی رکھنے میں تھا وہ قراء ت میں بھی تو ہے ؟

٢ جب دونوں قسم کی حدیثوں سے مراد سات مرادفات ہوں

امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک صرف قریش کی لغت پر نازل ہوا تھا ،لیکن چونکہ اہل عرب مختلف علاقوں اور مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور ہرایک کے لئے اس ایک لغت پر قرآن کریم کی تلاوت بہت دشوار تھی اس لئے ابتدائے اسلام میں اس بات کی اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ اپنی علاقائی زبان کے مطابق مرادف الفاظ کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرلیا کریں،چنانچہ جن لوگوں کے لئے قرآن پاک کے اصلی الفاظ سے تلاوت مشکل تھی ان کے لئے خود نبی کریم ﷺنے ایسے مرادفات متعین فرمادئیے تھے جن سے وہ تلاوت کرسکیں۔یہ مرادفات قریش اور غیر قریش دونوں کی لغات سے منتخب کئے گئے تھے۔ لیکن یہ اجازت صرف اسلام کے ابتدائی دور میں تھی ۔پھر جب رفتہ رفتہ اس قرآنی زبان کادائرہ اثر بڑھتا گیا اور اہل عرب اس کے عادی ہو گئے تو نبی کریم ﷺنے وفات سے پہلے رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا آخری دور کیاجسے عرضہ اخیرہ کہا جاتاہے ۔اس موقع پر مرادفات سے پڑھنے کی یہ اجازت ختم کردی گئی اور صرف وہی طریقہ باقی رہ گیا جس پر قرآن نازل ہواتھا ۔
اس قول پر یہ الجھن ہے کہ قرآن پاک کی جو مختلف قراء تیں آج تک متواتر چلی آرہی ہیں اس قول کے مطابق ان کی حیثیت واضح نہیں ہوتی۔

٣ جب دونوں قسم کی حدیثوں سے مراد قراء ات کے سات قسم کے اختلافات ہوں

اس قول پر یہ اعتراض ہوسکتاہے کہ قرآن پاک کوسات حروف پراس لئے نازل کیاگیاتاکہ امت کے لئے تلاوت قرآن پاک میں آسانی پیدا کی جائے ۔ یہ بات لب ولہجہ سے تعلق رکھنے والے کلمات تفخیم وترقیق،مدوامالہ وغیرہ میں توسمجھ میں آتی ہے،لیکن الفاظ کی تقدیم وتاخیراورحذف واثبات میں سمجھ میں نہیں آتی۔مثلاًسورہ توبہ میں ’أعدلہم جنت تجری تحتہاالانہار‘ اور’تجری من تحتہاالانہار‘ دوقراء تیں ہیں۔یہاں صرف من کی ادائیگی میں کون سی دشواری ہے اور اگر ہے تویہ اختلاف اسی جیسی تمام آیات میں ہونا چاہیے صرف ایک مقام میں کیوں ہے؟ پھر حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں جو مرادفات ذکرہیں ان کی توجیہ بھی نہیں کی جاسکتی۔
غرض اوپر ذکرکی گئیں دو قسم کی حدیثوں کو ایک دوسرے پر محمول کرتے ہوئے سبعہ احرف کی جو بھی تفسیر کی جائے وہ اعتراض اورالجھن سے خالی نہیں۔

٤ ان دوقسم کی حدیثوں کوعلیحد ہ علیحدہ مضمون پر محمول کریں

البتہ اگر حدیثوں کی مذکورہ بالا دوقسموں کوعلیحدہ علیحدہ مضمون پر محمول کیا جائے توپھر ان شاء اللہ کوئی اعتراض وارد نہ ہوگا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلی قسم کی حدیثیں جن میں یہ مضمون ہے کہ’ أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘ توان میں سبعہ احرف سے مراد قراء ات میں سات قسم کا اختلاف ہے۔ قرآن پاک انہی اختلافات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا۔یہ اب تک باقی ہیں اوران کا نسخ نہیں ہوا۔
دوسری قسم کی حدیثوں میں مرادفات کا ذکرہے ۔یہ مرادفات عرضہ اخیرہ میں منسوخ کردئیے گئے تھے ۔ان کے نسخ کے بارے میں امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قرآن کریم کانزول توصرف قریش کی لغت پر ہواتھا،لیکن چونکہ اہل عرب مختلف علاقوں اور مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اورہر ایک کیلئے اس ایک لغت پر قرآن کریم کی تلاوت بہت دشوار تھی۔اس لئے ابتدائے اسلام میں یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ اپنی علاقائی زبان کے مطابق مرادف الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرلیا کریں،چنانچہ جن لوگوں کے لئے قرآن کریم کے اصلی الفاظ سے تلاوت مشکل تھی ان کیلئے خود آنحضرتﷺنے ایسے مرادفات متعین فرمادیئے تھے جن سے وہ تلاوت کرسکیں۔یہ مرادفات قریش اور غیر قریش دونوں کی لغات سے منتخب کئے گئے تھے اوریہ بالکل ایسے تھے جیسے تعال کی جگہ ہلم یا اقبل یاادن پڑھ لیاجائے معنی سب کے ایک ہی رہتے ہیں،لیکن یہ اجازت صرف اسلام کے ابتدائی دور میں تھی،جبکہ تمام اہل عرب قرآنی زبان کے پوری طرح عادی نہیں ہوئے تھے ۔پھر رفتہ رفتہ اس قرآنی زبان کا دائر اثربڑھتا گیا۔اہل عرب اس کے عادی ہوگئے اور ان کے لئے اسی اصل لغت پر قرآن کی تلاوت آسان ہوگئی تو آنحضرت ﷺنے وفات سے پہلے رمضان میں حضرت جبریئل علیہ السلام سے قرآن کریم کا آخری دور کیا جسے عرضہ اخیرہ کہا جاتاہے ۔اس موقع پر یہ مرادفات سے پڑ ھنے کی اجازت ختم کردی گئے اور صرف وہی طریقہ باقی رہ گیا جس پر قرآن نازل ہوا تھا۔‘‘(مشکل الآثار للطحاوی ،بحوالہ علوم القرآن مولانا تقی عثمانی :ص۱۰۴)
محقق ابن جزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ولاشک أن القرآن نسخ منہ وغیر فیہ فی العرضۃ الاخیرۃ فقد صح النص بذلک عن غیر واحد من الصحابۃ وروینا بإسناد صحیح عن زر بن حبیش قال قال لی ابن عباس أی القراء تین تقرأ قلت الاخیرۃ قال النبی ﷺ کان یعرض القرآن علی جبرئیل علیہ السلام فی کل عام مرۃ قال فعرض علیہ القرآن فی العام الذی قبض فیہ النبیﷺمرتین فشہد عبد اﷲ یعنی ابن مسعود ما نسخ منہ ومابدل‘‘ (النشر فی القراء ت العشر:۱؍ ۳۲)
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عرضۂ اخیرہ کے موقع پر قرآن پاک میں نسخ اورتبدیلی ہوئی۔اس کی تصریح متعد د صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ہم تک صحیح سند کے ساتھ زربن حبیش رحمہ اللہ کایہ قول پہنچا ہے کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم کونسی قراء ت پڑھتے ہو ۔میں نے کہا آخری قراء ت ۔زربن حبیش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وجہ یہ تھی کہ نبی کریمﷺہر سال ایک مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام کوقرآن سنایا کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپﷺ نے دو مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام کوقرآن سنایااس موقع پر جوکچھ منسوخ ہوا اور جو تبدیلی کی گئی حضرت عبداللہ بن مسعو درضی اللہ عنہ اس کے شاہد تھے۔‘‘
ابن جزری رحمہ اللہ نے اپنے اس قول میں اگرچہ مرادفات کے عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہونے کی تصریح تونہیں کی، لیکن ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول مرادفات کے نسخ پر اس طر ح سے دلیل ہے کہ انہوں نے عرضہ اخیرہ میں نسخ کے واقع ہونے کی تصریح کی ہے اور مرادفات ہی اس نسخ کامصداق ہیں، کیونکہ مرادفات کا وجود حدیث سے ثابت ہے اور ان کی بقاء بالاجماع ثابت نہیں اور کسی اورموقع پر ان کامنسوخ ہونا بھی ثابت نہیں ہے۔لہٰذا قرین قیاس یہی ہے کہ عرضہ اخیرہ میں مرادفات ہی منسوخ ہوئے ہوں گے۔
بعض حضرات کاقول ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورمیں لغت قریش کے علاوہ باقی لغا ت موقوف کردی گئیں۔یہ قول بلادلیل ہے، کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب مصاحف لکھنے کے لیے ایک جماعت تشکیل دی تواس جماعت سے فرمایا:
’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شیء مـن القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانہم ‘‘(صحیح بخاری)
’’جب تمہار ے اورزید بن ثابت کے درمیان قرآن کے کسی حصہ میں اختلاف ہوتو اسے قریش کی زبان پر لکھنا، کیونکہ قرآن صرف ان کی زبان پر نازل ہوا ہے۔‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے صاف معلوم ہواکہ قرآن پاک کا نزول صرف لغت قریش پر ہوا، اگر اور لغات پربھی ہوتا،جیساکہ بعض وہ حضرات کہتے ہیں جو حروف سبعہ سے سات لغات مراد لیتے ہیں تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یوں حصر کے ساتھ کبھی نہ فرماتے کہ إنَّما نزل بلسانہم یعنی قرآن پاک محض قریش کی لغت پرنازل ہوا ہے۔
بعض حضرات نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے باقی لغات کو منسوخ نہ کرنے کی یہ دلیل دی ہے کہ روایت حفص کودیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس میں لغت قریش کے سوا اور لغات بھی موجود ہیں۔اس دلیل سے خیال ہوسکتا ہے کہ شائد قرآن کانزول سات لغتوں پرہوا ہو یاسات نہیں تو بہرحال متعدد لغتوں پر ہوا ہو۔اس خیال کے صحیح نہ ہونے کی یہ وجوہات ہیں:
١ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کامذکورہ بالا ارشاد اس خیال کے منافی ہے۔
٢ کسی کلام میں چند ایک الفاظ کسی دوسری لغت کے آجانے سے یہ نہیں کہا جاسکتاکہ یہ کلام دو لغتوں میں وارد ہوا ہے بلکہ وہ ایک ہی لغت پر شمار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ احتمال بھی ہوسکتاہے کہ وہ الفاظ اگرچہ اصالۃًدوسری لغت کے ہوں،لیکن اس لغت میں بھی ان کااستعمال ہونے لگا ہوبالکل غیر معروف نہ ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کو سبعہ اَحرف (اقسام اِختلاف)پرنازل کئے جانے کی حکمتیں

١ اُمت کے لئے خصوصاَ اہل عرب کے لئے سہولت وآسانی
٢ حکم کابیان
قرآن پاک میں ہے’’وَإنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَث کَلَالَۃً أوِ امْرَأۃٌ وَلَہُ أخٌ أوْ أخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ‘‘اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں ہے:’’ولہ أخ أو أخت من أم‘‘اس قراء ت میں اُم کے زائد ہونے سے ظاہر ہوا کہ مذکورہ حکم میں بھائی بہنوں سے ماں شریک بھائی بہن مراد ہیں۔
٣ دومختلف حکموں کو جمع کرنا:
مثلاًقرآن پاک میں ہے’’فَاعْتَزِلُوْا النِّسَائَ فِیْ الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ‘‘ یطہرن ایک قراء ت میں طاء کے سکون کے ساتھ ہے اور دوسری قراء ت میں طاء کی تشدید کے ساتھ ہے ۔مشدد کاصیغہ عورتوں کے حیض سے طہارت میں مبالغہ کامعنی دیتا ہے جس سے یہ بات حاصل ہوئی کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد عورت جب غسل کرلے اس وقت اس سے قربت کی جائے۔
٤ دومختلف حالتوں میں دو مختلف شرعی حکموں پر دلالت
قرآن پاک میں ہے: ’’فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ‘‘اس آیت میں ارجلکم کی لام پر ایک قراء ت میں نصب ہے اور دوسری قراء ت میں جر ہے۔نصب کی صورت میں پاؤں دھونے کا حکم ہے جس وقت پاؤں ننگے ہوں اور جرکی صورت میں مسح کرنے کاحکم ہے جبکہ پاؤں پر چمڑے کے موزے پہنے ہوئے ہوں۔نبیﷺنے ان دونوں حکموں کو اسی طر ح بتایاہے۔
٥ جو مرادنہ ہواس کے وہم کا دفعیہ
آیت ہے’’یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلاَۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إلٰی ذِکْرِ اﷲِ‘‘اوردوسری آیت میں ہے فامضوا إلی ذکراﷲ۔ فاسعوا سے یہ وہم ہوسکتاتھا کہ تیز تیز چلنے کاحکم ہے حالانکہ وہ مرادنہیں ہے۔اس وہم کادفعیہ فامضوا کے لفظ سے ہوگیا ،کیونکہ اس کے معنی میں سرعت او رتیزی شامل نہیں ہے۔
٦ ایسے الفاظ کابیان جو بعض پر مبہم ہوں
’’وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ‘‘ اورایک اور قراء ت میں ہے: کالصوف المنفوش دوسری قراء ت سے معلوم ہوا کہ عہن سے مراد صوف(اون)ہے۔
٧ ایسے عقیدے کی وضاحت جس میں بعض لوگ گمراہ ہوئے
جنت کے بارے میں آیت ہے’’وَاِذَا رَأیْتَ ثَمَّ رَأیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْکًاکَبِیْرًا‘‘ایک قراء ت میں ملکا کی میم کاضمہ اورلام کاسکون ہے جبکہ دوسری قراء ت میں میم کافتحہ اور لام کاکسرہ ہے۔دوسری قراء ت سے جنت میں مؤمنین کے لیے اللہ تعالیٰ کادیدارہونا ثابت ہوا جس کا بعض بدعتی فرقے انکار کرتے ہیں۔

صحت قراء ت کیلئے ضابطہ

١ قراء ت عربیت کے موافق ہو اگرچہ یہ موافقت ہو۔
٢ مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک ۲ کے رسم الخط کے مطابق ہوخواہ یہ مطابقت احتما لاًہو۔
جس قراء ت میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی ہوں وہ قراء ت صحیح اوران حروف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا۔
محقق رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’جوقراء ۃ ا س طرح ثابت ہویعنی اس ضابطہ پر پوری اترتی ہواس کاردوانکار جائز نہیں بلکہ مسلمانوں پر اس کاقبول کرنا واجب ہے ۔خواہ ائمہ سبعہ کی قراء ت ہوں یا عشرہ کی ہوں یا ان کے علاوہ کی ہوں اور اگر مذکورہ ارکان ثلاثہ میں سے کوئی رکن مختل ہوجائے تووہ ضعیف ،شاذ یافاسد وباطل ہے خواہ سبعہ سے ہو یامافوق سبعہ سے ہو۔تمام محققین ائمہ سلف وخلف اس تعریف کوصحیح کہتے ہیں۔(منجد المقرئین)
حافظ ابوشامہ رحمہ اللہ مرشد الوجیز میں کہتے ہیں:
’’’’ہر اس قراء ت کوجوائمہ سبعہ کی جانب منسوب ہواورصحیح کہلاتی ہواسی وقت منزل من اللہ اورصحیح کہ سکتے ہیں جب وہ اس ضابطہ میں آجائے اورضابطہ کے ساتھ مطابقت کی صورت میں کوئی مصنف اس کی نقل میں متفرد نہیں ہوسکتا اورنہ وہ کسی امام سے مختص ہوسکتی ہے۔اصل اعتماد ان اوصاف ثلاثہ پر ہے نہ کہ انتساب پر ۔اور بیشک ہرقراء ت میں خواہ سبعہ میں سے ہویا غیرسبعہ سے صحیح اورشاذ دونوںقسم کی وجوہ پائی جاتی ہیں۔البتہ قراء ت سبعہ میں شہرت اورمتفق علیہ صحیح وجوہ کی کثرت کی وجہ سے طمانینت اورمیلان خاطر زیادہ ہوتاہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحت قراء ت کیلئے بعض متاخرین کاتواتر کوشرط کہناصحیح نہیں

ابوشامہ رحمہ اللہ مرشدالوجیز میں کہتے ہیں:
’’متاخرین مقریوں اوران کے مقلدین کی زبان پر چڑھا ہوا ہے کہ قراء ت سبعہ بتمام وکمال متواتر ہیںیعنی قراء سبعہ سے جوحرف منقول ہے وہ متواتر من اللہ او رواجب التسلیم ہے۔ہم بھی یہی کہتے ہیں مگر صرف ان حروف کے بارے میں جن کوائمہ سے نقل کرنے میں تمام طر ق اوررواۃ متفق ہیں اور کوئی منکر نہیں۔جبکہ بعض حروف میں تفرقہ واختلاف شائع او رمشہورہے ۔پس اس حال میں کم ازکم ان حروف کے اندر تویہ ضابطہ ماننا پڑے گا جن میںتواتر ثابت نہیں ہوا‘‘۔
محقق ابن جزری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’بعض متاخرین نے صحت قر اء ۃ کیلئے ر سم و عربیت کی موافقت کیساتھ تواترکی شرط لگائی ہے اور صحت سند کوکافی نہیں سمجھا ۔وہ کہتے ہیں کہ تواترکے بغیر قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔مگر ان لوگوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ جب کوئی حرف تواتر سے ثابت ہوجائے تواس کیلئے نہ عربیت کی موافقت کی شرط ہے اورنہ رسم کی مطابقت کی بلکہ اس کاقبول کرنا بلاشرط واجب ہے،کیونکہ وہ قطعاَقرآن ہے۔لیکن جب ہم ہرحرف کے لئے تواتر کی شرط لگا دیں توقراء سبعہ کی بہت سی اختلافی وجوہ مرتفع ہوجائیں گی ۔(یعنی ان کے ثبوت کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہے گی)پہلے میرابھی یہی خیال تھا مگرجب مجھے اس کی خرابی معلوم ہوئی تومیں ائمہ سلف کی رائے کی جانب رجوع کرلیا۔‘‘(منجد المقرئین)
حضرت محقق رحمہ اللہ نے متاخرین کی جس رائے کاذکرکیاہے وہ چھٹی صدی کے بعد بعض علماء مصر نے قائم کی تھی، جس پر وہ صدیوں قائم رہے،چنانچہ سید الصفاقسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مذاہب اربعہ کے فقہاء اصولی اور تمام محدثین و قراء کامذہب ہے کہ صحت قراء ۃ کے لئے تواتر شرط ہے۔‘‘اس کے بعد مذکورہ بالاضابطہ نقل کرکے وہ ان الفاظ سے اس کی تردید کرتے ہیں:’’یہ بدعت ہے جس سے غیرقرآن ،قرآن کے مساوی ہوجاتاہے۔اور اختلاف قراء ۃ سے تواتر کے ثبوت میں کوئی خرابی نہیں آتی کیونکہ ایک قراء ۃ کسی قوم کومتواتراً پہنچی اور دوسری کو نہیں پہنچی۔اسی وجہ سے کسی قاری نے دوسرے کی قراء ت نہیں پڑھی،کیونکہ وہ اس کوتواتر کے طریق سے نہیں پہنچتی تھی۔ ‘‘الخ پھرکہتے ہیں: ’’جو متواتر نہیں وہ شاذ ہے اور اس وقت عشرہ کے علاوہ ہرقراء ت شاذ ہے۔‘‘(غیث النفع)
سید الصفاقسی رحمہ اللہ نے شدت سے کام لیا ہے ورنہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پرایساکہنا صحیح نہیں۔
اوّل:اُصولی فقہاء ومحدثین کہتے ہیں کہ قرآن متواتر ہے، یہ نہیں کہتے کہ اس کی ہراختلافی وجہ متواتر ہے۔باقی رہے قراء توںمیں سے مشاہیر ائمہ کا مسلک اوپر بیان ہو چکا ہے اورحضر ت محقق رحمہ اللہ کی اس تصریح کے بعد کہ جملہ اسلاف کا یہی مذہب ہے اور ان میں سے کوئی اس کے خلاف نہیں سیدرحمہ اللہ کاپہلا دعوی ہے جو قابل قبول نہیں۔
دوم:قراء ا ت سبعہ اورعشرہ کی ہراختلافی وجہ کے متواترہونے کاکسی نے دعوی نہیں کیابلکہ علامہ دانیؒ وغیرہ کی تصریحات اس کے متواترہونے کے خلاف موجود ہیں۔
سوم:کسی وجہ کے غیرمتواتر ہونے سے یہ لازم تونہیں آتا کہ وہ ضرور شاذہے جبکہ ان کے درمیان صحیح و مشہور کا مرتبہ موجود ہے خود سیدؒ اور دیگر شیوخ مصر نے اپنی کتابوں میں ایسی وجوہ بیان کی ہیں اور سیدؒ کایہ کہنا کہ کسی قاری نے دوسرے کی قراء ت اس لئے نہیں پڑھی کہ وہ اسے تواترسے نہیں پہنچی بے معنی بات ہے۔ شایدوہ رواۃ اورطرق کے اختلاف کے بارہ میں بھی یہی کہیں گے حالانکہ وہاں توشیخ اورامام ایک ہی ہے اورآیایہ ممکن ہے کہ جووجہ عاصم ؒاور ابن کثیرؒ کوتواترسے پہنچی ہوو ہ بصری ؒکوجو ان کے شاگردہیں، نہیں پہنچی اورجو حرف حمزہ کوپہنچا وہ کسائی کو نہیں پہنچا حالانکہ یہ امام حمزہ کے شاگرد ہیں،ہرگز نہیں۔حق بات وہی ہے جوائمہ سلف نے بیان کی اور نتیجہ بحث یہ ہے کہ قرآن میں جوالفاظ پڑھے جاتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں:
١ جوسب کے نزدیک بالاتفاق متواتر ہے۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا۔
٢ جوایک جماعت کے نزدیک متواترہو۔ جن حضرات کوتواترسے پہنچی ان کے طرق کااس پراجماع و اتفاق ہونا چاہیے۔
ان دونوں قسموں کے الفاظ کیلئے نہ عربیت کی موافقت کی شرط ہے اور نہ رسم کی مطابقت کی ،مگر امر واقع میں ناممکن ہے کہ عربیت کی کسی وجہ کے اور رسم کے احتمالاَمطابق نہ ہوں کیونکہ متواتر ہونے کی صورت میں اس کانبیﷺسے منقول ہونا اور اس کا منجانب اللہ ہونا قطعی ہوگا جوعربیت کے مخالف نہیں ہوسکتا۔
٣ صحیح ومشہور جس کو حضورنبی ﷺسے ثقہ وضابط و عادل بسند متصل روایت کریں اور ائمہ فن کے نزدیک مشہور ہو مگر تواتر کی حد کو نہ پہنچی ہو اس کو اسی شرط سے قبول کیا جائے گا کہ وہ اس ضابطہ کے موافق ہو ورنہ ضعیف و شاذ یا باطل ہے۔کما مرَّ

اشکال

جب نبی ﷺسے صاحب اختیار تک تواترشرط نہیں ہے صرف صحت نقل کافی ہے تو قراء ات کومتواترکیونکر کہاجاسکتاہے؟

حل

امام عبدالعظیم زرقانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’إن ہذہ الأرکان الثلاثۃ تکاد تکون مساویۃ للتواتر فی إفادۃ العلم القاطع بالقراء ات المقبولۃ بیان ہذہ المساواۃ أن ما بین دفتی المصحف متواتر ومجمع علیہ من الائمۃ فی أفضل عہودہا وہو عہد الصحابۃ فإذا صح سند القراء اۃ ووافقت قواعد اللغۃ ثم جاء ت موافقۃ لخط ہذا المصحف المتواتر کانت ہذہ الموافقۃ قرینۃ علی افادۃ ہذہ الروایۃ للعلم القاطع وإن کانت أحادا ولا تنس ما ہو مقرر فی علم الاثرمن أن خبرالآحاد یفید العلم إذا احتفت یہ قرینۃ توجب ذلک،فکان التواتر کان یطلب تحصیلہ فی الاسناد قبل أن یقوم المصحف وثیقۃ متواترۃ بالقرآن امابعد وجود ہذاالمصحف المجمع علیہ فیکفی فی الروایۃ صحتہاوشہرتہا حتی وافقت رسم ہذاالمصحف ولسان العرب قال الصاحب الکواکب الدریۃ نقلا عن المحقق ابن الجزری مانصہ قولنا’’وصح سندہا‘‘نعنی بہ ان یروی تلک القراء ۃ العد ل الضابط عن مثلہ وہکذا حتی ینتہی وتکون مع ذلک مشہورۃعند ائمۃہذا الشان الضابطین لہ غیر معدودۃ عندہم من الغلط اومما شذبہ بعضہم (مناہل العرفان فی علوم القرآن:ص ۴۲۰،۴۲۱)
’’مقبول قراء ات کے بارے میں(ضابطہ کے)یہ تین ارکان علم قطعی کافائدہ دینے میں تواترکے مساوی ہیں۔اس مساوات کابیان یہ ہے کہ مصحف کے اندر(کتابت شدہ صورت میں)جوکچھ ہے اس پر سب سے بہترزمانہ یعنی صحابہ کے زمانہ کے ائمہ کاتواتراور اجماع تھا ۔پھرجب کسی وجہ کی روایت کی سند صحیح ہوتوقواعد لغت اورمصحف متواتر کی رسم کے ساتھ موافقت روایت کے علم قطعی کا فائد ہ پر قرینہ بن جاتی ہے۔اگرچہ روایت آحاد میں سے ہو۔نیز یہ بھی مت بھولو کہ علم حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ قرائن کے ہوتے ہوئے خبرواحدعلم قطعی کافائدہ دیتی ہے۔گویامصحف کے متواتر وثقہ بننے سے پیشتر تو سند میں تواتر کوطلب کیا جاسکتا تھالیکن متفقہ مصحف کے وجو د کے بعد روایت کی صحت و شہرت ہی کافی ہے جبکہ وہ رسم خط اور عربی زبان کے موافق ہو۔‘‘
کواکب دریہ میں محقق ابن جزری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ روایت کی سند کے صحیح ہونے سے ہمار ی مراد یہ ہے کہ عادل وضابط اپنے جیسوں سے اس قراء ت کوروایت کریں اور اسی طر ح یہ سلسلہ آخر تک چلے ۔ پھر وہ قراء ت ماہرین فن کے نزدیک غلط اور شاذ نہ ہوبلکہ مشہور ہو۔
اس کلام کاحاصل یہ ہے کہ مصحف میں جوکچھ ہے وہ اجماعی اور متواتر ہے۔اب صرف اس کی ادائیگی کا مسئلہ رہ گیا؟تو اس کی ادائیگی کاکوئی طریقہ اگر سند صحیح سے ہو اگرچہ متواترنہ ہو،تب بھی وہ متواتر کے حکم میں ہے اور اس کاوہی حکم ہوگا جو متواتر کا ہوتا ہے۔ غرض حکم کے اعتبار سے وہ متواتر ہے۔اس لئے ان کوقراء ات متواترہ کہا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
انکار ِقراء ات کاحکم معلوم کرنے کے چند ضابطے

التحقیق الذی یؤیدہ الدلیل ہو أن القراء ات العشرکلہا متواترۃ وہو رأی المحققین من الاصولیین والقراء کابن السبکی وابن الجزری والنویری بل ہو رأی أبی شامۃ فی نقل آخر صححہ الناقلون عنہ (مناہل العرفان فی علوم القرآن:ص۴۳۴)
’’تحقیقی بات جس کی تائید دلیل سے ہوتی ہے یہ ہے کہ قراء ات عشرہ سب کی سب متواتر ہیں اور یہی محقق اصولیوں اور قراء مثلاًابن سبکی رحمہ اللہ ، ابن جزری رحمہ اللہ اور نویری رحمہ اللہ کا قول ہے، بلکہ ابوشامہ رحمہ اللہ کا یہ قول بھی منقول ہے اور نقل کرنیوالوں نے اس قول کو صحیح کہا ہے۔‘‘
لیکن قراء ات کا جوضابطہ ذکرہوچکا ہے اس کی رو سے ان کی سند دو مرحلوں میں ہے ۔ ایک مرحلہ وہ ہے جو ہم سے قراء سبعہ و عشرہ تک پہنچتاہے اور دوسرا مرحلہ وہ ہے جو ان قراء عشرہ سے رسول اللہ تک جاتا ہے۔

پہلا مرحلہ

علامہ سیوطی رحمہ اللہ علامہ ابن جزری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ قراء ات کی دو نوع ہیں:
الاول: المتواتر وہو مارواہ جمع من جمع لایمکن تواطئہم علی الکذب عن مثلہم مثالہ، مااتفقت الطرق فی نقلہ عن السبعۃ وہذا ہوالفائق فی القراء ات۔
الثانی:المشہور ہو ماصح سندہ بان رواہ العدل الضابط عن مثلہ وہکذا ووافق العربیۃ ووافق احدالمصاحف العثمانیہ سواء أکان عن الائمۃ السبعۃ أم العشر ۃ أم غیرہم من الائمۃ المقبولین واشتہر عنہ القر اء فلم یعدوہ من الغلط ولامن الشذوذ إلا أنہ لم یبلغ درجۃ المتواتر مثالہ ما اختلفت الطرق فی نقلہ عن السبعۃ فرواہ بعض الرواۃ عنہم دون بعض وہذان النوعان ہما اللذان یقرأ بہما مع وجوب اعتقادہما ولا یجوز انکار شیٔ منہما۔(مناہل العرفان:ص ۴۳۴ )
پہلی نوع متواتر کی ہے او روہ یہ ہے کہ جس کو ایک اتنی بڑی جماعت نے اتنی ہی بڑی جماعت سے نقل کیا ہو جس کا جھوٹ پر اتفاق ممکن نہ ہو ۔ اس کی مثال قر آن مجید کا وہ حصہ ہے جس میں تمام طرق متفق ہوں اور قراء ا ت میں اکثر حصہ ایسا ہی ہے۔
دوسری نوع مشہور کی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس کو عادل وضابط راوی نے اپنے جیسے سے نقل کیا ہو اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلا ہو ۔علاوہ ازیں یہ عربیت کے موافق بھی ہو اور مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق بھی، خواہ وہ قراء سبعہ، عشرہ یا دیگر مقبول ائمہ قراء سے منقول ہو۔پھر قراء میں اس کی شہرت ہوگئی ہواور انہوں نے اس کو غلط یا شاذ میں شمار نہ کیا ہو۔یہ نوع درجہ متواترکونہیں پہنچتی اس کی مثال قراء ت کا وہ حصہ ہے جس کے نقل میں طرق کااختلاف ہے ۔ یہ دونوںانواع وہ ہیں جن کی قراء ت کی جاتی ہے اور جن پر اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ ان میں سے کسی شے کا بھی انکار جائز نہیں۔‘‘
علامہ ابن جزری رحمہ اللہ کے اس قول سے یہ معلوم ہوا کہ ائمہ قراء ات تک تواتر قراء ت صرف اتنے حصے میں ہے جن میں طرق کا اتفاق ہے او رجو مختلف فیہ حصہ ہے اس میں شہرت توپائی جاتی ہے تواتر نہیں پایا جاتا۔
دوسرا مرحلہ

قراء ات کے بارے میں جو ضابطہ پہلے ذکر ہوچکا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب اختیار ائمہ نے اَخذ قراء ت میں تواتر کوشرط قرار نہیں دیا بلکہ عربیت اور رسم مصحف کی موافقت کے ساتھ صرف صحت سند پراکتفاء کیا۔ علاوہ ازیں بعض متاخرین نے تواتر کو شرط قرار دیا لیکن ان کے قول کورد کیا گیا اور علامہ ابن جزری رحمہ اللہ نے بھی تواتر کے شرط ہونے کے قول سے رجوع کیا ۔
امام ابومحمد مکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ان جمیع ماروی من القراء ا ت علی أقسام: قسم یقرأ بہ الیوم وذلک ما اجتمع فیہ ثلاث خلال وہن أن ینقل عن الثقات عن النبیﷺویکون وجہہ فی العربیۃ التی نزل بہا القرآن سائغا ویکون موافقا لحظ المصحف‘‘
’’نقل کردہ تمام قراء ا ت کی چند قسمیں ہیں ۔ایک قسم وہ ہے جس کی آج کل قراء ت کی جاتی ہے اور یہ وہ ہے جس میں تین باتیں جمع ہوں ۔وہ تین باتیں یہ ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثقہ لوگوں کے واسطے سے منقول ہو ۔ دوسرے یہ کہ عربیت جس میں قرآن نازل ہوا ہے اس میں اس کی کو ئی وجہ بنتی ہو اور خط مصحف کے موافق بھی ہو۔ ‘‘
ہم کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ ہوسکتا ہے کہ فی نفسہ تواتر پایا گیا ہو ،لیکن جب ائمہ نے ضابطہ میں تواترکا التزام نہیں کیا تو تواتر کا قول اختیار کرنا بہرحال ممکن نہیں بلکہ صحت سند پر ہی اکتفاء کیا جائے گا ۔
مذکورہ بالا دونوں مرحلوں کو جمع کیا جائے تو حاصل یہ ہو گا کہ قراء ات کی نقل میں تواتر ضروری مفقود ہے ۔البتہ بعد کے قرون میں تواتر اور تلقِّی بالقبول کے پائے جانے کے باعث یہ چونکہ مفید علم ہے، اس لئے یہ تواتر تقدیری یاتواترنظری ہے ۔
ان تمام باتوں کے ساتھ مندرجہ ذیل باتیںبھی پیش نظر رہیں:
١ قرآن اور چیز ہے اور قراء ت اور چیز ہیں ۔قرآن تواس چیز کانام ہے جومصاحف کے اندر ثبت ہے اور رسول اللہﷺپرنازل کیا گیا اور تواتر سے نقل ہوتا چلا آیا ۔جب کہ قراء ات زبان سے اس کی ادائیگی کا نام ہے۔قرآن ایک ہے اور قراء ات متعددہیں۔
٢ مناہل العرفان میں عبدالعظیم زرقانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وتناقش ہذا الدلیل بانا لا نسلم ان انکار شیٔ من القراء ات یقتضی التکفیرعلی القول بتواترہا وإنما یحکم بالتکفیرعلی من علم تواترہا ثم انکرہ والشیٔ قد یکون متواترا عند قوم غیرمتواتر عند آخرین ویمکن مناقشۃ ہذا الدلیل أیضا بأن طعن الطاعنین إنما ہو فیما اختلف فیہ وکا ن من قبیل الاداء أما ما اتفق علیہ فلیس بموضع طعن ونحن لا نقول الا بتواترما اتفق علیہ دون مااختلف فیہ‘‘
’’بعض بڑے علماء نے قراء ات پر طعن کیا ہے حالانکہ قراء ات اگرمتواتر ہوں توان کاطعن موجب تکفیر ہوگااس کا جواب دیتے ہوئے مناہل العرفان کے مصنف لکھتے ہیں)کہ تواترکے قول کولیتے ہوئے کسی قراء ت کاانکار ضروری نہیں کہ موجب تکفیر ہو کیونکہ تکفیر اس وقت کی جاتی ہے کہ جب کو ئی اس کے تواتر کا علم ہوتے ہوئے انکار کرے جبکہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک شے کے بارے میں کچھ لوگوں کے نزدیک تواتر ثابت ہو اور کچھ لوگوں کے نزدیک تواتر ثابت نہ ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان حضرات کاطعن مختلف فیہ حصہ میں ہو جوادائیگی کے قبیل سے ہو ۔رہا متفق علیہ حصہ تووہ طعن کا محل نہیں ہے اور ہم تواتر کا قول صرف متفق علیہ میںکرتے ہیں مختلف فیہ میں نہیں کرتے۔‘‘
٣ نبی ﷺ سے منقول اختلافات کی کوئی ترتیب بعینہ واجب نہیں تھی لہٰذا اصحاب اختیار ائمہ نے شرائط کی پابندی کرتے ہوئے اپنی اپنی ترتیب سے قراء ا ت اختیار کیں۔ اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِنکار قراء ات کاحکم

١ قرآن یا اس کے کسی جزو کاانکا رکفر ہے ۔
٢ کوئی اگر بعض قراء توں کوتسلیم کرتا ہومثلاًروایت حفص کو مانتا ہواور دیگر کا انکار کرتا ہوتواس میں مندر جہ ذیل شقیں ہیں۔
(الف)کسی محقق کے نزدیک دیگر قراء توںکا تواتر ثابت نہ ہو اس وجہ سے ان کا انکار کرتا ہو۔اس پر تکفیرنہ ہوگی ۔
(ب)اس کو دیگر قراء توں کاتواترسے ثابت ہونا معلوم نہ ہو جیسا کہ عام طو رپرعوام کو دیگر قراء توں کاعلم نہیں ہوتا اور صرف ان ہی لوگو ں کا ان کو علم ہوتا ہے جوان کے پڑھنے پڑھانے میں لگے ہوں ۔ایسی لاعلمی کی وجہ سے انکار پر بھی تکفیر نہ کی جائے گی،البتہ ایسے شخص کو حقیقت حال سے باخبر کیا جائے گا۔
(ج) تواترتسلیم ہونے کے بعد بھی انکار کرے تب بھی تکفیرنہیں کی جائے گی ۔کیونکہ حقیقتاَیہ تواترضروری وبدیہی نہیں بلکہ نظری وحکمی ہے جس کے انکا ر پر تکفیر نہیں کی جاتی ۔البتہ سخت گمراہی کی بات ہے۔
 
Top