- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
سراج الحق، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر بنے تو مجھے خوشی ہوئی کہ سید منور حسن کی تباہ کن امارت کے بعد کوئی بھی امیر بن جاتاتو یقینی طور پر جماعت اسلامی جیسی نظریاتی جماعت سے ہمدردی رکھنے والوں کو خوشی ہی ہوتی، لہٰذا میرے احساسات کوئی غیر معمولی نہیں تھے ، جماعت اسلامی کی طرف سے نو منتخب امیر کی منصورہ میں ہونے والی تقریب حلف برداری ، وحدت روڈ پر ہونے والے استقبالیہ اور پھر رمضان المبارک میںافطار میں شرکت کی دعوت دی گئی تو ہر جگہ حاضری لگوا دی، وجہ صرف یہ تھی کہ سید منور حسن پر تنقید سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ جماعت اسلامی کے دوستوں کے ساتھ کسی قسم کی ذاتی ناراضی ہے، ہاں، کالم کا فرض اور قرض دونوں ہی ادا نہ ہو سکے حالانکہ سراج الحق کالمانہ ضرورت کے عین مطابق دلچسپ باتیں کرتے ہیں، تقاریب میں مہنگائی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لاہور میں ماش کی دال کا ریٹ پوچھا تو انہیں پتا چلا کہ ماش کا دال تو بدمعاش ہو گیا ہے۔ دل تو یہ چاہا کہ اگر آپ اس کا نرخ اس صوبے میں پوچھ لیتے جہاں آپ ( اس وقت تک ) خود وزیر خزانہ تھے تو اس کی بدمعاشی جاننے کے لئے آپ کو لاہور کا رخ نہ کرنا پڑتا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے ذرا آٹے کے فی کلو نرخ بھی جان لیتے تو آپ کو علم ہوجاتا کہ اصل بدمعاشی کہاں ہو رہی ہے۔
دوسری طرف جس اعلیٰ پائے کی وہ سیاست کر رہے ہیں وہ فی الحال مجھ سمیت بہت ساروںکی سمجھ میں نہیں آ رہی، کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ وہ تحریک انصاف کے بہترین اتحادی کے طورپر دھرنوں کو رستہ اور تحفظ فراہم کر رہے ہیں اور یہ خیال کچھ اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ لاہور سے آزادی مارچ کی محفوظ روانگی سے لے کر ریڈ زون تک پہنچانے میں سراج الحق کا جاندار کردار تاریخ میں ہمیشہ رقم رہے گا مگر وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عین آئینی ، سیاسی اور جمہوری کردار ادا کیا تو ہمیں ان کی بات پر عین اسی طرح یقین کرنا چاہئے جس طرح ایک ہمسایہ ملا نصیرالدین سے ان کا گدھا مانگنے کے لئے ان کے دروازے پر پہنچا۔ ہمسائے نے جونہی درخواست کی، ملانصیرالدین ترنت بولے کہ گدھا تو گھر پر موجود ہی نہیں ہے لہذا وہ اسے عاریتاً نہیں دے سکتے۔ ابھی ملا یہ بیان جاری کر ہی رہے تھے کہ اندر سے گدھے نے زور زور سے ڈھینچوں ڈھینچوں کرنا شروع کر دیا۔ ہمسائے نے ملا کو غصے سے گھورا اور کہا تم مجھ سے جھوٹ بول رہے تھے۔ ملا نے جواب دیا اب یہ تم پر ہے کہ تم میری بات پر یقین کرتے ہویا گدھے کی بات پر ۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ملا نصیرالدین کی بات پر ہی یقین کرنا چاہئے کہ کوئی صاحب عقل کسی گدھے کی بات پر یقین نہیں کر سکتا۔
یہ کنفیوژن تو بہت دنوں سے تھی کہ سراج الحق عمران خان کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں یا نواز شریف کو خفیہ مدد فراہم کر رہے ہیں، یہ کنفیوژن اس وقت بھی بڑھی جب ایک طرف وہ عمران خان صاحب کے کنٹینر کو تحفظ فراہم کر رہے تھے اور دوسری طرف خود ان کے کنٹینر پر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کھڑے خطاب کر رہے تھے۔ سراج الحق اک طرف تحریک انصاف کے دھرنے اور کنٹینر کو رستہ دلواتے ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ صاحب دھرنوں میں ہونے والے موج میلے پر سخت قسم کے بیانات بھی جاری کرتے ہیں۔عمران خان صاحب نے ان کے ساتھ وہی کیا جو وہ سب کے ساتھ کرتے ہیں یعنی بہت ہی بلنٹ انداز میں پوچھ لیا کہ وہ وکٹ کے کس طرف کھیل رہے ہیں۔ اس پر سراج الحق صاحب نے اپنے اس بیان کو جعلی قرار دیا جس میں انہوں نے عمران خان اور نواز شریف کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا تھا، میں نے برادرم امیر العظیم سے پوچھا کہ کیا وہ نواز شریف اور عمران خان کو ایک ہی سکے کے دور خ نہیں سمجھتے تو انہوں نے کہا ،نہیں، وہ ایسا نہیں سمجھتے۔ بہرحال عمران خا ن اور سراج الحق کے درمیان غلط فہمی ختم ہوئی توحکومت اور عمران خان کے درمیان ثالثی دیکھتے ہوئے مجھے پھر ملا نصیرالدین یاد آ گئے۔ ملا کو کسی مقدمے میں منصف بنا دیا گیا۔ انہوں نے مدعی کی بات سنی تو کہا کہ تم درست کہہ رہے ہو، جب ملزم کا موقف سنا تو اسے بھی درست قرار دیا، قریب ہی میرے جیسا کوئی کم فہم موجود تھا، ملا سے پوچھنے لگا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں مدعی اور ملزم دونوں درست ہوں، ملا نصیرالدین مسکرائے اور بولے تم بھی درست کہہ رہے ہو۔ سراج الحق جس قسم کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں اس میں فریقین کو اپنے پاس اکٹھے کرنا بھی تو ایک کام ہے، جیسے م±لا نصیر الدین سے کسی نے پوچھا:”پستے کا حلوہ مزیدار ہوتا ہے یا بادام کا“۔م±لا نے جواب دیا:” معاملہ انصاف کا ہے میں فریقین کی عدم موجودگی میں فیصلہ نہیں کر سکتا “، یہاں پستے ،بادام دونوں ان کے پاس حاضر ہیں۔
ایشو یہ ہے کہ سراج الحق ، ملا نصیرالدین کی طرح کچھ بھی نہیں بتا رہے، بالکل اسی طرح جیسے ملا نصیرالدین کو کچھ لوگوں نے اپنے اجتماع سے خطاب کرنے کے لئے مدعو کیا، ملا نے پوچھا ، کیا تمہیں علم ہے کہ میں کس موضوع پر کیا کہنے والا ہوں، لوگوں نے کہا ، ہاں معلوم ہے ، ملا یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ جب تمہیں پہلے ہی سب کچھ علم ہے تو میرے بولنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگلے روز دوبارہ مدعو کیا گیا تو ملا نے پھر وہی سوال کیا، لوگ تیار تھے، کہنے لگے ، نہیں ہمیں کیا علم کہ آپ نے کیا کہنا ہے، ملا نے جواب دیا کہ ایسے لاعلم لوگوں سے خطاب کرنے کا کیا فائدہ ، جنہیں کچھ علم ہی نہیں، تیسری مرتبہ مدعو ہوئے اور سامعین میں سے آدھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کہا کہ وہ جانتے ہیں اور آدھوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے، ملا کائیاں تھے، کہنے لگے جو جانتے ہیں وہ انہیں بتا دیں جو نہیں جانتے اور رخصت ہوگئے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان تنازعے کا شکار کامیابی سے کرتے ہیں یا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے ملانصیرالدین کی طرف سے ماہر شکار ی ہونے کے دعوے سن سن کردوست مرغابی کے شکار پر لے گئے، انہیں مرغابی کو نشانہ بنانے کے لئے کہا گیا، فائر کیا مگرتوقع کے عین مطابق وہ نشانے پر نہیں لگا او رمرغابی اڑ گئی، مولانا بالکل شرمندہ نہیں ہوئے اور بولے ، میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مری ہوئی مرغابی کو اڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ سراج الحق اس سیاسی تنازعے کو حل کروانے میں کامیاب ہوجائیں گے یا اسے حل کروانے کے اس بیان پر سالہا سال بعد بھی قائم نظر آئیں گے جیسے ملا نصیرالدین سے کسی نے ان کی عمر پوچھی، جواب ملا ، چالیس برس۔ کچھ مزید برس گزر گئے تو اسی شخص نے دوبارہ ملا سے ا ن کی عمر پوچھی، ملا نے دوبارہ چالیس برس ہی بتائی تو وہ حیران رہ گیا۔ ملا نے جواب دیا کہ ایک سچا اور صادق شخص کبھی اپنی بات سے نہیں پھرتا، دیکھو میں اپنی بات پر قائم ہوں۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ تنازع غائب ہو جائے گا مگر سراج الحق کی کوششیں اسی طرح موجود رہیں گی اور وہ اس پر اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتے نظر آئیں گے جیسے ملا نصیرالدین کامشہور و معروف گدھا گم ہو گیا،ملا نے بہت ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا، واپس آئے توہمسائے افسوس کرنے کے لئے آگئے، کہنے لگے گدھے کی گمشدگی کا سن کر بہت دکھ ہوا، ملا نصیرالدین نے جواب دیااس پر افسوس کرنے نہیں اللہ کا شکرادا کرنے کی ضرورت ہے کہ میں گدھے پرسوار نہیں تھا ورنہ میں اس کے ساتھ ہی گم ہوجاتا۔
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ سراج الحق مستقبل کے ایک بڑے مولانا فضل الرحمان ہیں، وہ سب کو اکاموڈیٹ، آئین اور جمہوریت کے تناظر میں ہر بات ثابت کر سکتے ہیں۔ اب یہ بات الگ ہے کہ دوسروں کو یہ بات سمجھ آتی ہے یا نہیں، لوگوں نے ملا سے پوچھا کہ ہماری زمین کا مرکزی نکتہ اور جگہ کون سی ہے، ملا نے جھٹ جواب دیا ، میرے گدھے کے پاو¿ں کے نیچے،اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو جائے پیمائش کر کے دیکھ لے۔ اب ہمارے سراج الحق بھی تنازعے کا اسی قسم کا حل ڈھونڈ رہے ہیں اور اگر کسی کو اس حل کے موثر ہونے کا یقین نہیں آتا تو وہ جائے اور اپنا حل نکال کر دکھا دے۔ میں تو جناب سراج الحق کو دیکھتا ہوں تو اپنے رب کا شکر ادا کرتاہوں کہ ان جیسی شخصیت ہمارے درمیان موجود ہے کہ اگر وہ بھی موجود نہ ہوتے تو مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان اس تاریخی تنازعے کا حل کون تلاش کرتا ۔۔۔ بس مجھے کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جو یہ سمجھا دے کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق جو حل تلاش کر رہے ہیں وہ کیا ہے؟
(از: نجم ولی خان، نئی بات، کراچی)
یہ کنفیوژن تو بہت دنوں سے تھی کہ سراج الحق عمران خان کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں یا نواز شریف کو خفیہ مدد فراہم کر رہے ہیں، یہ کنفیوژن اس وقت بھی بڑھی جب ایک طرف وہ عمران خان صاحب کے کنٹینر کو تحفظ فراہم کر رہے تھے اور دوسری طرف خود ان کے کنٹینر پر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کھڑے خطاب کر رہے تھے۔ سراج الحق اک طرف تحریک انصاف کے دھرنے اور کنٹینر کو رستہ دلواتے ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ صاحب دھرنوں میں ہونے والے موج میلے پر سخت قسم کے بیانات بھی جاری کرتے ہیں۔عمران خان صاحب نے ان کے ساتھ وہی کیا جو وہ سب کے ساتھ کرتے ہیں یعنی بہت ہی بلنٹ انداز میں پوچھ لیا کہ وہ وکٹ کے کس طرف کھیل رہے ہیں۔ اس پر سراج الحق صاحب نے اپنے اس بیان کو جعلی قرار دیا جس میں انہوں نے عمران خان اور نواز شریف کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا تھا، میں نے برادرم امیر العظیم سے پوچھا کہ کیا وہ نواز شریف اور عمران خان کو ایک ہی سکے کے دور خ نہیں سمجھتے تو انہوں نے کہا ،نہیں، وہ ایسا نہیں سمجھتے۔ بہرحال عمران خا ن اور سراج الحق کے درمیان غلط فہمی ختم ہوئی توحکومت اور عمران خان کے درمیان ثالثی دیکھتے ہوئے مجھے پھر ملا نصیرالدین یاد آ گئے۔ ملا کو کسی مقدمے میں منصف بنا دیا گیا۔ انہوں نے مدعی کی بات سنی تو کہا کہ تم درست کہہ رہے ہو، جب ملزم کا موقف سنا تو اسے بھی درست قرار دیا، قریب ہی میرے جیسا کوئی کم فہم موجود تھا، ملا سے پوچھنے لگا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں مدعی اور ملزم دونوں درست ہوں، ملا نصیرالدین مسکرائے اور بولے تم بھی درست کہہ رہے ہو۔ سراج الحق جس قسم کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں اس میں فریقین کو اپنے پاس اکٹھے کرنا بھی تو ایک کام ہے، جیسے م±لا نصیر الدین سے کسی نے پوچھا:”پستے کا حلوہ مزیدار ہوتا ہے یا بادام کا“۔م±لا نے جواب دیا:” معاملہ انصاف کا ہے میں فریقین کی عدم موجودگی میں فیصلہ نہیں کر سکتا “، یہاں پستے ،بادام دونوں ان کے پاس حاضر ہیں۔
ایشو یہ ہے کہ سراج الحق ، ملا نصیرالدین کی طرح کچھ بھی نہیں بتا رہے، بالکل اسی طرح جیسے ملا نصیرالدین کو کچھ لوگوں نے اپنے اجتماع سے خطاب کرنے کے لئے مدعو کیا، ملا نے پوچھا ، کیا تمہیں علم ہے کہ میں کس موضوع پر کیا کہنے والا ہوں، لوگوں نے کہا ، ہاں معلوم ہے ، ملا یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ جب تمہیں پہلے ہی سب کچھ علم ہے تو میرے بولنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگلے روز دوبارہ مدعو کیا گیا تو ملا نے پھر وہی سوال کیا، لوگ تیار تھے، کہنے لگے ، نہیں ہمیں کیا علم کہ آپ نے کیا کہنا ہے، ملا نے جواب دیا کہ ایسے لاعلم لوگوں سے خطاب کرنے کا کیا فائدہ ، جنہیں کچھ علم ہی نہیں، تیسری مرتبہ مدعو ہوئے اور سامعین میں سے آدھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کہا کہ وہ جانتے ہیں اور آدھوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے، ملا کائیاں تھے، کہنے لگے جو جانتے ہیں وہ انہیں بتا دیں جو نہیں جانتے اور رخصت ہوگئے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان تنازعے کا شکار کامیابی سے کرتے ہیں یا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے ملانصیرالدین کی طرف سے ماہر شکار ی ہونے کے دعوے سن سن کردوست مرغابی کے شکار پر لے گئے، انہیں مرغابی کو نشانہ بنانے کے لئے کہا گیا، فائر کیا مگرتوقع کے عین مطابق وہ نشانے پر نہیں لگا او رمرغابی اڑ گئی، مولانا بالکل شرمندہ نہیں ہوئے اور بولے ، میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مری ہوئی مرغابی کو اڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ سراج الحق اس سیاسی تنازعے کو حل کروانے میں کامیاب ہوجائیں گے یا اسے حل کروانے کے اس بیان پر سالہا سال بعد بھی قائم نظر آئیں گے جیسے ملا نصیرالدین سے کسی نے ان کی عمر پوچھی، جواب ملا ، چالیس برس۔ کچھ مزید برس گزر گئے تو اسی شخص نے دوبارہ ملا سے ا ن کی عمر پوچھی، ملا نے دوبارہ چالیس برس ہی بتائی تو وہ حیران رہ گیا۔ ملا نے جواب دیا کہ ایک سچا اور صادق شخص کبھی اپنی بات سے نہیں پھرتا، دیکھو میں اپنی بات پر قائم ہوں۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ تنازع غائب ہو جائے گا مگر سراج الحق کی کوششیں اسی طرح موجود رہیں گی اور وہ اس پر اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتے نظر آئیں گے جیسے ملا نصیرالدین کامشہور و معروف گدھا گم ہو گیا،ملا نے بہت ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا، واپس آئے توہمسائے افسوس کرنے کے لئے آگئے، کہنے لگے گدھے کی گمشدگی کا سن کر بہت دکھ ہوا، ملا نصیرالدین نے جواب دیااس پر افسوس کرنے نہیں اللہ کا شکرادا کرنے کی ضرورت ہے کہ میں گدھے پرسوار نہیں تھا ورنہ میں اس کے ساتھ ہی گم ہوجاتا۔
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ سراج الحق مستقبل کے ایک بڑے مولانا فضل الرحمان ہیں، وہ سب کو اکاموڈیٹ، آئین اور جمہوریت کے تناظر میں ہر بات ثابت کر سکتے ہیں۔ اب یہ بات الگ ہے کہ دوسروں کو یہ بات سمجھ آتی ہے یا نہیں، لوگوں نے ملا سے پوچھا کہ ہماری زمین کا مرکزی نکتہ اور جگہ کون سی ہے، ملا نے جھٹ جواب دیا ، میرے گدھے کے پاو¿ں کے نیچے،اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو جائے پیمائش کر کے دیکھ لے۔ اب ہمارے سراج الحق بھی تنازعے کا اسی قسم کا حل ڈھونڈ رہے ہیں اور اگر کسی کو اس حل کے موثر ہونے کا یقین نہیں آتا تو وہ جائے اور اپنا حل نکال کر دکھا دے۔ میں تو جناب سراج الحق کو دیکھتا ہوں تو اپنے رب کا شکر ادا کرتاہوں کہ ان جیسی شخصیت ہمارے درمیان موجود ہے کہ اگر وہ بھی موجود نہ ہوتے تو مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان اس تاریخی تنازعے کا حل کون تلاش کرتا ۔۔۔ بس مجھے کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جو یہ سمجھا دے کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق جو حل تلاش کر رہے ہیں وہ کیا ہے؟
(از: نجم ولی خان، نئی بات، کراچی)