مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,427
- ری ایکشن اسکور
- 411
- پوائنٹ
- 190
متعدد قرآنی آیات میں سرزمین شام جس میں فلسطین اور بیت المقدس بھی شامل ہے کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔
1۔ وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ
﴿الأنبياء: ٧١﴾
اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچاکر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل کو کافروں کی آگ سے بچا کر شام کے مقدس ملک میں پہنچا دیا۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں تمام میٹھا پانی شام کے صخرہ کے نیچے سے نکلتا ہے۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ علیہ السلام کو عراق کی سر زمین سے اللہ نے نجات دی اور شام کے ملک میں پہنچایا۔
شام ہی نبیوں کا ہجرت کدہ رہا۔ زمین میں سے جو گھٹتا ہے وہ شام میں بڑھتا ہے اور شام کی کمی فلسطین میں زیادتی ہوتی ہے۔ شام ہی محشر کی سر زمین ہے۔ یہیں عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے، یہیں دجال قتل کیا جائے گا۔ (ابن کثیر)
2۔ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴿الاسراء:١﴾
پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے
3۔ فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿العنكبوت:٢٦﴾
پس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حضرت لوط (علیہ السلام) ایمان ﻻئے اور کہنے لگے کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے واﻻ ہوں۔ وه بڑا ہی غالب اور حکیم ہے
قتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ کوفے سے ہجرت کر کے شام کے ملک کی طرف گئے۔ (ابن کثیر)
4-وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَقتادۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ کوفے سے ہجرت کر کے شام کے ملک کی طرف گئے۔ (ابن کثیر)
اردو:
اور ہم نے تیز ہوا سلیمان کے تابع فرمان کر دی تھی جو انکے حکم سے اس ملک میں چلتی تھی جس میں ہم نے برکت دی تھی یعنی شام کیطرف اور ہم ہر چیز سے خبردار ہیں۔
سورۃ الانبیاء ۔ آیہ 81
یعنی جس طرح پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے مسخر کر دیئے تھے، اسی طرح ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے وزرا سلطنت سمیت تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور جہاں چاہتے، مہینوں کی مسافت، لمحوں اور ساعتوں میں طے کرکے وہاں پہنچ جاتے، ہوا آپ کے تخت کو اڑا کر لے جاتی۔ بابرکت زمین سے مراد شام کا علاقہ ہے۔
تفسیر مکی ۔
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ
اردو:
اے بھائیو تم ارض مقدس یعنی ملک شام میں جسے اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھا ہے داخل ہو چلو اور دیکھنا مقابلے کے وقت پیٹھ نہ پھیر دینا ورنہ نقصان میں پڑ جاؤ گے۔
المائدہ آیہ ۔ 21
بنو اسرائیل کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن بیت المقدس تھا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے امارات مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر جا کر آباد ہوگئے تھے اور پھر تب سے اس وقت مصر میں ہی رہے، جب تک کہ موسیٰ علیہ السلام انہیں راتوں رات (فرعون سے چھپ کر) مصر سے نکال نہیں لے گئے۔ اس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی حکمرانی تھی جو ایک بہادر قوم تھی۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر بیت المقدس جا کر آباد ہونے کا عزم کیا تو اس کے لئے وہاں قابض عمالقہ سے جہاد ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور نصرت الٰہی کی بشارت بھی سنائی۔ لیکن اس کے باوجود بنو اسرائیل عمالقہ سے لڑنے پر تیار نہ ہوئے۔
(ابن کثیر)
جَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ
اردو:
اور ہم نے انکے اور ملک شام کی ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دی تھی ایک دوسرے کے متصل دیہات بنائے تھے جو سامنے نظر آتے تھے اور ان میں آمدورفت کا اندازہ مقرر کر دیا تھا کہ رات دن بےخوف و خطر چلتے رہو۔
سورۃ السبا ۔ آیۃ 18
برکت والی بستیوں سے مراد شام کی بستیاں ہیں یعنی ہم نے ملک سبا (یمن) اور شام کے درمیاں لب سڑک بستیاں آباد کی ہوئی تھیں ۔
بعض نے ظاھرۃ کے معنی متواصلۃ ایک دوسرے سے پیوست اور مسلسل کے لیے ہیں مفسریں نے ان بستیوں کی تعداد چار ہزار سات سو بتلائی ہے یہ ان کی تجارتی شاہراہ تھی جو مسلسل آباد تھی جس کی وجہ سے ایک تو ان کے کھانے پینے اور آرام کرنے کے لیے زاد راہ ساتھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی دوسرے ویرانی کی وجہ سے لوٹ مار اور قتل وغارت کا جو اندیشہ ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا تھا ۔
تفسیر مکی
وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ
اردو:
اور جو لوگ کمزور بنائے جاتے رہے انکو ہم نے زمین شام کے مشرق و مغرب کا جس میں ہم نے برکت دی تھی وارث کر دیا اور بنی اسرائیل کے بارے میں ان کے صبر کی وجہ سے تمہارے پروردگار کا وعدہ نیک پورا ہوا اور فرعون اور قوم فرعون جو محل بناتے اور انگور کے باغ جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ کر دیا۔
سورة الاعراف ۔ آیہ 137
یعنی مصر میں شریعتِ موسوی پر ایمان رکھنے والے بنی اسرائیل کو کمزور قوم سمجھ کر ان پر ظلم کیا جاتا تھا الله تعالی نے انہیں فرعونِ مصر اور اس کی ظالم افواج سے نجات دے کر بابرکت سر زمین یعنی شام کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا ۔
( تفسیر ابن کثیر )
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ
اردو:
اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسٰی اور انکی ماں کو ایک نشانی بنایا تھا اور انکو ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور جہاں نتھرا ہوا پانی جاری تھا پناہ دی تھی۔
المؤمنون آیہ ۔ 50
آیہ میں مذکور ٹیلے سے مراد کون سی جگہ ہے ؟
اس میں مفسرین کرام کی رائے مختلف ہے ۔ قتادہ اور ضحاک رحمہما الله نے اس سے بیت المقدس مراد لیا ہے ۔
اور حافظ ابن کثیر نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ
وَطُورِ سِينِينَ
وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
اردو:
انجیر کی قسم اور زیتون کی۔
اور طور سینین کی۔
اور اس امن والے شہر کی۔
سورۃ التین ۔ آیۃ ۔ 1-2-3
حافظ ابن کثیر نے ان آیات کی تفسیر میں بعض آئمہ کرام سے نقل کیا ہے کہ یہ دراصل تین مقامات مقدسہ کی قسم ہے جہاں الله رب العزت نے تین اولو العزم پیغمبروں کو مبعوث فرمایا ۔
انجیر اور زیتون سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں پر اس کی پیداوار ہوئی اور وہ ہے بیت المقدس، جہاں حضرت عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے ۔
دوسرا مقام طورِ سینا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی ۔
اور تیسرا مقام شہر مکہ ہے جہاں سیدالرسل حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔
بشکریہ ام اویس
اردو:
اور ہم نے انکے اور ملک شام کی ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دی تھی ایک دوسرے کے متصل دیہات بنائے تھے جو سامنے نظر آتے تھے اور ان میں آمدورفت کا اندازہ مقرر کر دیا تھا کہ رات دن بےخوف و خطر چلتے رہو۔
سورۃ السبا ۔ آیۃ 18
برکت والی بستیوں سے مراد شام کی بستیاں ہیں یعنی ہم نے ملک سبا (یمن) اور شام کے درمیاں لب سڑک بستیاں آباد کی ہوئی تھیں ۔
بعض نے ظاھرۃ کے معنی متواصلۃ ایک دوسرے سے پیوست اور مسلسل کے لیے ہیں مفسریں نے ان بستیوں کی تعداد چار ہزار سات سو بتلائی ہے یہ ان کی تجارتی شاہراہ تھی جو مسلسل آباد تھی جس کی وجہ سے ایک تو ان کے کھانے پینے اور آرام کرنے کے لیے زاد راہ ساتھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی دوسرے ویرانی کی وجہ سے لوٹ مار اور قتل وغارت کا جو اندیشہ ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا تھا ۔
تفسیر مکی
وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ
اردو:
اور جو لوگ کمزور بنائے جاتے رہے انکو ہم نے زمین شام کے مشرق و مغرب کا جس میں ہم نے برکت دی تھی وارث کر دیا اور بنی اسرائیل کے بارے میں ان کے صبر کی وجہ سے تمہارے پروردگار کا وعدہ نیک پورا ہوا اور فرعون اور قوم فرعون جو محل بناتے اور انگور کے باغ جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ کر دیا۔
سورة الاعراف ۔ آیہ 137
یعنی مصر میں شریعتِ موسوی پر ایمان رکھنے والے بنی اسرائیل کو کمزور قوم سمجھ کر ان پر ظلم کیا جاتا تھا الله تعالی نے انہیں فرعونِ مصر اور اس کی ظالم افواج سے نجات دے کر بابرکت سر زمین یعنی شام کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا ۔
( تفسیر ابن کثیر )
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ
اردو:
اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسٰی اور انکی ماں کو ایک نشانی بنایا تھا اور انکو ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور جہاں نتھرا ہوا پانی جاری تھا پناہ دی تھی۔
المؤمنون آیہ ۔ 50
آیہ میں مذکور ٹیلے سے مراد کون سی جگہ ہے ؟
اس میں مفسرین کرام کی رائے مختلف ہے ۔ قتادہ اور ضحاک رحمہما الله نے اس سے بیت المقدس مراد لیا ہے ۔
اور حافظ ابن کثیر نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ
وَطُورِ سِينِينَ
وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
اردو:
انجیر کی قسم اور زیتون کی۔
اور طور سینین کی۔
اور اس امن والے شہر کی۔
سورۃ التین ۔ آیۃ ۔ 1-2-3
حافظ ابن کثیر نے ان آیات کی تفسیر میں بعض آئمہ کرام سے نقل کیا ہے کہ یہ دراصل تین مقامات مقدسہ کی قسم ہے جہاں الله رب العزت نے تین اولو العزم پیغمبروں کو مبعوث فرمایا ۔
انجیر اور زیتون سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں پر اس کی پیداوار ہوئی اور وہ ہے بیت المقدس، جہاں حضرت عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے ۔
دوسرا مقام طورِ سینا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی ۔
اور تیسرا مقام شہر مکہ ہے جہاں سیدالرسل حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔
بشکریہ ام اویس