محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
سرقہ نویسی (Plagiarism)
کرپشن میں لت پت قوم کیلئے سرقہ نویسی تو ایک عام سی بات ہے۔
جہاں بڑے بڑے دنیا دار لوگ پی ایچ ڈی (PhD)کی ڈگریاں حاصل کرنے کیلئے سرقہ نویسی کا سہارا لیتے ہوں وہاں عام آدمی کی بات ہی کیا؟
افسوس تو اس بات کا ہے کہ تبلیغِ دین کا کام کرنے والے بھی سرقہ نویسی کا سہارا لیتے ہوئے کسی اور کی تقریر‘ تحریر اور تصنیف کو اپنی بلاگ ‘ ویب سائٹ یا سوشل میڈیا کی زینت بناتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے ہوں۔
تبلیغِ دین کیلئے کسی کامواد شائع کرنا بری بات نہیں لیکن ضروری ہے کہ اصل تحریر کنندہ کا نام لکھ دیا جائے اور اگر کسی تحریر میں نام نہ ملے تو ’ نا معلوم ‘ لکھنے میں کیا حرج ہے لیکن ایسا نہ کرکے اپنے نام سے شائع کر دینا ہی سرقہ نویسی کہلائےگا۔
اس کے علاوہ سرقہ نویسی یہ بھی ہے کہ
حوالہ دیئے بغیر یا غلط حوالہ کےساتھ ۔۔۔ کسی کی تصنیف سے کوئی اقتباس(quotation) لینا اور اسے اپنی تصنیف کی زینت بنانا۔
حوالہ دیئے بغیر یا غلط حوالہ کےساتھ۔۔۔کسی کی تصنیف میں چند الفاظ یا جملے ردوبدل کرکے اپنےنام سے شائع کرنا
حوالہ دیئے بغیر یا غلط حوالہ کےساتھ ۔۔۔کسی کی میوزک‘ ویڈیو یا تصویر ہوبہو یا کچھ ردوبدل کرکے اپنا بنا کر پیش کرنا
کسی کی تقریر‘ تحریر یا ایجادکو اپنے نام سے منسوب کرکے شائع کرنا۔
کسی کی سوچ‘ خیالات یا ایجادات کو اپنے نام سے پیش کرنا ۔
سرقہ نویسی کے ذریعے جنہیں دنیا میں اپنے نام کا ڈنکا بجانا مقصود ہو وہ دین کا کام کیا کریں گے؟
کیا اُنہیں نہیں معلوم کہسرقہ نویسی ایک نا قابل معافی قانونی و اخلاقی جرم ہے کیونکہ اس سےکسی بھی ملک و ملت کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور سرقہ نویس اپنی ہی ضمیر کی آگ میں ہمیشہ جلتا رہتا ہے۔
اگرسرقہ نویسی کی روک تھام نہ کی جائے تو معاشرے میں باصلاحیت افراد کے حوصلے بھی پست ہو جاتے ہیں ۔پھر ایسا معاشرہ نئی تحقیق و تخلیق سے بہرہ مند نہیں ہو پاتا اور معاشرے کی ترقی رک جاتی ہے۔اسلامی نقظۂ نظر سے سرقہ نویس کم از کم دو کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے:
ایک چوری کرنے کا
اور
دوسرا جھوٹ بولنے کا
مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے ہم سب اِن دونوں کبیرہ گناہوں کی سنگینی سے واقف ہیں۔اس لئے ہم سبھوں کو سرقہ نویسی جیسی کبیرہ گناہ سے بچنا چاہئے۔
پاکستان میں سرقہ نویسی کی روک تھام کیلئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نےHEC Pُlagiarism Policy بنایا ہے۔ اسکے علاوہ Copyright Ordinance of Pakistan بھی ہے اور اب Cybercrime bill بھی پاس ہو چکا ہے۔
لیکن اصل ہدف حاصل کرنے کیلئے قوانین بننے کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹے بڑے پر اُن کا نفاذ اور عمل درآمد (implementation) ضروری ہے اوراس سے بھی ضروری ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ سرقہ نویسی ایک ایسی گناہ ہے جس میں چوری اور جھوٹ جیسے کبیرہ گناہیں شامل ہیں۔
اللہ ہمیں اور ہمارے اہل و عیال اور دوست احباب کو ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ سے بچائے۔ آمین۔
اسے لکھتے وقت استفادہ کیا گیا:
1. http://www.plagiarism.org
2. https://www.express.pk/story/213027
کرپشن میں لت پت قوم کیلئے سرقہ نویسی تو ایک عام سی بات ہے۔
جہاں بڑے بڑے دنیا دار لوگ پی ایچ ڈی (PhD)کی ڈگریاں حاصل کرنے کیلئے سرقہ نویسی کا سہارا لیتے ہوں وہاں عام آدمی کی بات ہی کیا؟
افسوس تو اس بات کا ہے کہ تبلیغِ دین کا کام کرنے والے بھی سرقہ نویسی کا سہارا لیتے ہوئے کسی اور کی تقریر‘ تحریر اور تصنیف کو اپنی بلاگ ‘ ویب سائٹ یا سوشل میڈیا کی زینت بناتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے ہوں۔
تبلیغِ دین کیلئے کسی کامواد شائع کرنا بری بات نہیں لیکن ضروری ہے کہ اصل تحریر کنندہ کا نام لکھ دیا جائے اور اگر کسی تحریر میں نام نہ ملے تو ’ نا معلوم ‘ لکھنے میں کیا حرج ہے لیکن ایسا نہ کرکے اپنے نام سے شائع کر دینا ہی سرقہ نویسی کہلائےگا۔
اس کے علاوہ سرقہ نویسی یہ بھی ہے کہ
حوالہ دیئے بغیر یا غلط حوالہ کےساتھ ۔۔۔ کسی کی تصنیف سے کوئی اقتباس(quotation) لینا اور اسے اپنی تصنیف کی زینت بنانا۔
حوالہ دیئے بغیر یا غلط حوالہ کےساتھ۔۔۔کسی کی تصنیف میں چند الفاظ یا جملے ردوبدل کرکے اپنےنام سے شائع کرنا
حوالہ دیئے بغیر یا غلط حوالہ کےساتھ ۔۔۔کسی کی میوزک‘ ویڈیو یا تصویر ہوبہو یا کچھ ردوبدل کرکے اپنا بنا کر پیش کرنا
کسی کی تقریر‘ تحریر یا ایجادکو اپنے نام سے منسوب کرکے شائع کرنا۔
کسی کی سوچ‘ خیالات یا ایجادات کو اپنے نام سے پیش کرنا ۔
سرقہ نویسی کے ذریعے جنہیں دنیا میں اپنے نام کا ڈنکا بجانا مقصود ہو وہ دین کا کام کیا کریں گے؟
کیا اُنہیں نہیں معلوم کہسرقہ نویسی ایک نا قابل معافی قانونی و اخلاقی جرم ہے کیونکہ اس سےکسی بھی ملک و ملت کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور سرقہ نویس اپنی ہی ضمیر کی آگ میں ہمیشہ جلتا رہتا ہے۔
اگرسرقہ نویسی کی روک تھام نہ کی جائے تو معاشرے میں باصلاحیت افراد کے حوصلے بھی پست ہو جاتے ہیں ۔پھر ایسا معاشرہ نئی تحقیق و تخلیق سے بہرہ مند نہیں ہو پاتا اور معاشرے کی ترقی رک جاتی ہے۔اسلامی نقظۂ نظر سے سرقہ نویس کم از کم دو کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے:
ایک چوری کرنے کا
اور
دوسرا جھوٹ بولنے کا
مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے ہم سب اِن دونوں کبیرہ گناہوں کی سنگینی سے واقف ہیں۔اس لئے ہم سبھوں کو سرقہ نویسی جیسی کبیرہ گناہ سے بچنا چاہئے۔
پاکستان میں سرقہ نویسی کی روک تھام کیلئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نےHEC Pُlagiarism Policy بنایا ہے۔ اسکے علاوہ Copyright Ordinance of Pakistan بھی ہے اور اب Cybercrime bill بھی پاس ہو چکا ہے۔
لیکن اصل ہدف حاصل کرنے کیلئے قوانین بننے کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹے بڑے پر اُن کا نفاذ اور عمل درآمد (implementation) ضروری ہے اوراس سے بھی ضروری ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ سرقہ نویسی ایک ایسی گناہ ہے جس میں چوری اور جھوٹ جیسے کبیرہ گناہیں شامل ہیں۔
اللہ ہمیں اور ہمارے اہل و عیال اور دوست احباب کو ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ سے بچائے۔ آمین۔
اسے لکھتے وقت استفادہ کیا گیا:
1. http://www.plagiarism.org
2. https://www.express.pk/story/213027