محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کاصلہ آہنی زنجیریں تھیں
جب سیاست کاصلہ آہنی زنجیریں تھیں
سرفروشوں کے لیے دار و رسن قائم تھے
خان زادوں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں
خان زادوں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
از افق تابہ افق خوف کا سناٹا تھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
رہنماؤں کے لیے حکمِ زباں بندی تھا
جرمِ بے جرم کی پاداش میں تعزیریں تھیں
جرمِ بے جرم کی پاداش میں تعزیریں تھیں
جانشینانِ کلایو تھے خداوندِ مجاز
سرِ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں
سرِ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں
حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے
اور زنداں کے سزا وار فقط ہم ٹھہرے
اور زنداں کے سزا وار فقط ہم ٹھہرے
گفتنی وناگفتنی , از : آغا شورش کاشمیری ص ۷۲ ط. مکتبہ چٹان لاہور
__________________
__________________