رات کافی بیت چکی تھی۔ نصف شب گزرنے کے بعد اب اندھیرا تیزی سے سپیدیٔ سحری کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جیل میں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ قیدی اپنی اپنی کوٹھڑیوں میں سورہے تھے، جب کہ چوکنّا محافظ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ ایسے میں جیل کے ایک حصے میں کافی سرگرمی دکھائی دے رہی تھی۔
آج ایک مجرم کو اس کے کیے کی سزا ملنے والی تھی۔ تختۂ دار کے اردگرد پولیس اہل کار، ڈاکٹر موجود تھے، قیدی کو تختہ دار پر پہنچادیا گیا، بے رحمی سے دوسرے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا آج خود پھانسی گھاٹ پر آیا تو تھر تھر کانپ رہا تھا۔ جلاد نے اُس کے چہرے پر غلاف چڑھایا۔ پھانسی کا پھندا اس کی گردن میں ڈالا۔ پولیس اہل کاروں کی جانب دیکھا اور اشارہ ملتے ہی تختہ دار کا لیور کھینچ دیا۔ اس آواز کے ساتھ ہی مجرم کے پیروں تلے موجود تختے ہٹ گئے اور وہ لٹکادیا گیا۔ ایک مجرم کو کیے کی سزا مل گئی۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے بھی قاتل کے ملک عدم سدھارنے کی تصدیق کردی۔
یہ وہ منظر ہے جو عام طور پر ہمارے ملک میں سزائے موت پانے والے افراد کے آخری لمحات میں نظر آتا ہے گوکہ پاکستان میں طویل عرصے سے پھانسیوں پر عمل درآمد نہیں ہوا، لیکن جیلوں میں ماضی میں جب بھی کسی کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوا تو کم و بیش ایسے ہی مناظر وقوع پذیر ہوئے۔
مملکت خداداد پاکستان میں آئین کی دفعہ 302 کے تحت قاتلوں کے خلاف مقدمہ چلتا ہے اور انھیں سزائے موت دی جاتی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر تاحال ملک بھر کی عدالتوں نے ہزاروں افراد کو سزائے موت سنائی، لیکن ان سزاؤں پر عمل درآمد کی شرح بہت کم ہے۔ پھر2008 میں سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا گیا گیا۔
اب دسمبر 2014 میں سانحہ پشاور کے بعد حکومت میں شامل خواص سے لے کر ایک عام آدمی تک جب پشاور کے معصوم شہدا کے لیے فرط غم سے چیخ اٹھا تو ارباب اقتدار نے دشمنان پاکستان کو ان کے کیے کی سزا دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ 19 دسمبر کو سب سے پہلے 2 دہشت گردوں کو فیصل آباد سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی، جب کہ فیصل آباد ہی میں 21 دسمبر کو 4 مزید دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچے۔ یہ سلسلہ اب رکنا نہیں چاہیے۔
اعدادوشمار کے مطابق 2005ء میں پاکستان میں تقریباً 241 مجرموں کو پھانسی کی سزا دی گئی، ان میں دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث افراد بھی شامل تھے اور وہ بھی جنھوں نے دولت اور جائیداد کی لالچ میں دوسروں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ان 241 میں سے صرف 31 ہی کو تختۂ دار پر لٹکایا جاسکا۔ 2005 میں یہ تعداد دنیا بھر میں سزائے موت پانے پر عمل درآمد کے حوالے سے 5 ویں نمبر پر تھی۔ پاکستان کے علاوہ، چین، ایران، سعودی عرب اور امریکا بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
2005 کے بعد اور اس سے قبل بھی پھانسی کی سزائیں دی جاتی رہیں اور کچھ سزاؤں پر عمل درآمد بھی ہوا، تاہم عدالتی نظام، گواہوں کے خوف، مجرموں کے بااثر ہونے، عدالتوں میں کیسوں کی بہتات اور دیگر وجوہ نے بہت سارے قاتلوں اور مجرموں کو تاحال پھانسی کے پھندے سے بچایا ہوا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 1999 ء میں 13 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔ سزائے موت کے حوالے سے ایک اور معاملہ 18 سال سے کم عمر مجرموں کو پھانسی دینے کا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پاکستان دنیا کے اُن 8 ممالک میں شامل تھا، جہاں 18 سال یا اس سے کم عمر افراد کو ان کے سنگین جرائم کی پاداش میں سزائے موت دی گئی اور اُن پر عمل بھی ہوا۔ دیگر ملکوں میں چین، کانگو، ایران، نائجیریا، سعودی عرب، امریکا اور یمن شامل تھے۔
بعدازاں قانون میں تبدیلی کے بعد 18 سال سے کم عمر افراد کو سزائے موت دینے پر پابندی لگادی گئی۔ عالمی قانون کے تحت اب دنیا بھر میں 18 سال سے کم عمر افراد کو سزائے موت دینے پر پابندی ہے۔ تاہم ایران، سعودی عرب اور سوڈان ایسے ملک ہیں جو جرم کی پاداش میں عمر کی رعایت کیے بغیر مجرموں کو سزائے موت دے دیتے ہیں۔
زیادہ تر ملکوں میں سزائے موت ان افراد کو دی جاتی ہے جو ملک دشمنی، دہشت گردی، جاسوسی، بغاوت جیسے سنگین جرائم کے مرتکب ہوں۔ لیکن کچھ ملک ایسے بھی ہیں جہاں، زیادتی، منشیات کی خرید و فروخت، اسمگلنگ، جیسے جرائم پر بھی سزائے موت دے دی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں منشیات کے اسمگلروں کے سرقلم کرنا معمول کی بات ہے۔ چین میں منشیات کی اسمگلنگ کے ساتھ انسانی اسمگلنگ اور کرپشن کے بہت بڑے کیس پر بھی سزائے موت سنادی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک کی افواج کی جانب سے کورٹ مارشل کے موقع پر بھی سنگین جرم کرنے والوں کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف قبائل بھی اپنے اختلافات، دشمنیوں اور دیگر تنازعات کے موقع پر ذمے داروں کو سزائے موت سناتے ہیں۔
آج ایک مجرم کو اس کے کیے کی سزا ملنے والی تھی۔ تختۂ دار کے اردگرد پولیس اہل کار، ڈاکٹر موجود تھے، قیدی کو تختہ دار پر پہنچادیا گیا، بے رحمی سے دوسرے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا آج خود پھانسی گھاٹ پر آیا تو تھر تھر کانپ رہا تھا۔ جلاد نے اُس کے چہرے پر غلاف چڑھایا۔ پھانسی کا پھندا اس کی گردن میں ڈالا۔ پولیس اہل کاروں کی جانب دیکھا اور اشارہ ملتے ہی تختہ دار کا لیور کھینچ دیا۔ اس آواز کے ساتھ ہی مجرم کے پیروں تلے موجود تختے ہٹ گئے اور وہ لٹکادیا گیا۔ ایک مجرم کو کیے کی سزا مل گئی۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے بھی قاتل کے ملک عدم سدھارنے کی تصدیق کردی۔
یہ وہ منظر ہے جو عام طور پر ہمارے ملک میں سزائے موت پانے والے افراد کے آخری لمحات میں نظر آتا ہے گوکہ پاکستان میں طویل عرصے سے پھانسیوں پر عمل درآمد نہیں ہوا، لیکن جیلوں میں ماضی میں جب بھی کسی کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوا تو کم و بیش ایسے ہی مناظر وقوع پذیر ہوئے۔
مملکت خداداد پاکستان میں آئین کی دفعہ 302 کے تحت قاتلوں کے خلاف مقدمہ چلتا ہے اور انھیں سزائے موت دی جاتی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر تاحال ملک بھر کی عدالتوں نے ہزاروں افراد کو سزائے موت سنائی، لیکن ان سزاؤں پر عمل درآمد کی شرح بہت کم ہے۔ پھر2008 میں سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا گیا گیا۔
اب دسمبر 2014 میں سانحہ پشاور کے بعد حکومت میں شامل خواص سے لے کر ایک عام آدمی تک جب پشاور کے معصوم شہدا کے لیے فرط غم سے چیخ اٹھا تو ارباب اقتدار نے دشمنان پاکستان کو ان کے کیے کی سزا دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ 19 دسمبر کو سب سے پہلے 2 دہشت گردوں کو فیصل آباد سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی، جب کہ فیصل آباد ہی میں 21 دسمبر کو 4 مزید دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچے۔ یہ سلسلہ اب رکنا نہیں چاہیے۔
اعدادوشمار کے مطابق 2005ء میں پاکستان میں تقریباً 241 مجرموں کو پھانسی کی سزا دی گئی، ان میں دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث افراد بھی شامل تھے اور وہ بھی جنھوں نے دولت اور جائیداد کی لالچ میں دوسروں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ان 241 میں سے صرف 31 ہی کو تختۂ دار پر لٹکایا جاسکا۔ 2005 میں یہ تعداد دنیا بھر میں سزائے موت پانے پر عمل درآمد کے حوالے سے 5 ویں نمبر پر تھی۔ پاکستان کے علاوہ، چین، ایران، سعودی عرب اور امریکا بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
2005 کے بعد اور اس سے قبل بھی پھانسی کی سزائیں دی جاتی رہیں اور کچھ سزاؤں پر عمل درآمد بھی ہوا، تاہم عدالتی نظام، گواہوں کے خوف، مجرموں کے بااثر ہونے، عدالتوں میں کیسوں کی بہتات اور دیگر وجوہ نے بہت سارے قاتلوں اور مجرموں کو تاحال پھانسی کے پھندے سے بچایا ہوا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 1999 ء میں 13 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔ سزائے موت کے حوالے سے ایک اور معاملہ 18 سال سے کم عمر مجرموں کو پھانسی دینے کا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پاکستان دنیا کے اُن 8 ممالک میں شامل تھا، جہاں 18 سال یا اس سے کم عمر افراد کو ان کے سنگین جرائم کی پاداش میں سزائے موت دی گئی اور اُن پر عمل بھی ہوا۔ دیگر ملکوں میں چین، کانگو، ایران، نائجیریا، سعودی عرب، امریکا اور یمن شامل تھے۔
بعدازاں قانون میں تبدیلی کے بعد 18 سال سے کم عمر افراد کو سزائے موت دینے پر پابندی لگادی گئی۔ عالمی قانون کے تحت اب دنیا بھر میں 18 سال سے کم عمر افراد کو سزائے موت دینے پر پابندی ہے۔ تاہم ایران، سعودی عرب اور سوڈان ایسے ملک ہیں جو جرم کی پاداش میں عمر کی رعایت کیے بغیر مجرموں کو سزائے موت دے دیتے ہیں۔
زیادہ تر ملکوں میں سزائے موت ان افراد کو دی جاتی ہے جو ملک دشمنی، دہشت گردی، جاسوسی، بغاوت جیسے سنگین جرائم کے مرتکب ہوں۔ لیکن کچھ ملک ایسے بھی ہیں جہاں، زیادتی، منشیات کی خرید و فروخت، اسمگلنگ، جیسے جرائم پر بھی سزائے موت دے دی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں منشیات کے اسمگلروں کے سرقلم کرنا معمول کی بات ہے۔ چین میں منشیات کی اسمگلنگ کے ساتھ انسانی اسمگلنگ اور کرپشن کے بہت بڑے کیس پر بھی سزائے موت سنادی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک کی افواج کی جانب سے کورٹ مارشل کے موقع پر بھی سنگین جرم کرنے والوں کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف قبائل بھی اپنے اختلافات، دشمنیوں اور دیگر تنازعات کے موقع پر ذمے داروں کو سزائے موت سناتے ہیں۔