• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سزا والے گناہ !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
سزا والے گناہ

@بنت زیب النساء سسٹر نے سوال کیا ہے

http://forum.mohaddis.com/threads/سزا-والے-گناہ.31269/


السلام علیکم !

امام مالك رحمہ اللہ نے موطا ميں زيد بن اسلم سے روايت كى ہے اس ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" لوگو! تمہارے ليے ايك وقت آئيگا كہ تم اللہ تعالى كى حدود سے رك جاؤ، جو شخص بھى ان غلط كاموں كا ارتكاب كرے تو اسے چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كى پردہ پوشى كو پردہ ميں ہى رہنے دے، كيونكہ جو بھى ہمارے سامنے اپنا پہلو ظاہر كريگا، ہم اس پر اللہ تعالى كى كتاب جارى كرينگے "
تو میرا یہ سوال ہے کہ حدی گناہ پر سزا تب ثابت ہوتی ہے جب معاملہ عدالت جائے تو جو لوگ انٹرنیٹ میل سروس کہ ذریعے کسی امام جج یا قاضی سے فتوٰی پوچھتے ہیں ان پہ بھی حد واجب ہو جاتی ہے ؟؟؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی اس سوال کا جواب دے دیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
حد كے بغير توبہ كى قبوليت :

ميرا ايك سوال ہے جو مجھے پريشان كيے ہوئے ہے، اور ميں اس كے متعلق سوچتا رہتا ہوں:

جب كوئى شادى شدہ يا غير شادى شدہ شخص فحش كام اور كبيرہ گناہ چورى اور غيبت اور سود وغيرہ كا مرتكب ہو، اور بہت عرصہ اس كا مرتكب رہا ہو، پھر اس نے اللہ تعالى كو جان ليا اور خالص اللہ كى رضا كى ليے سچى توبہ كر لى، اور جن لوگوں كى غيبت كى تھى ان سے معافى بھى طلب كى، اور چورى كا مال واپس كر ديا، اور سود كے مال سے بھى خلاصى اور چھٹكارا حاصل كر ليا، اور زنا و شراب نوشى، اور نمازوں ميں كوتاہى جيسے كام اس كے اور اللہ كے مابين تھے ان سے بھى توبہ كر لى، اور دوبارہ ان كا ارتكاب نہ كيا، ليكن اس شخص كو حد نہ لگے تو كيا اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كر لےگا ؟
اور كيا اس كى ادا كردہ عبادت قبول ہو گى، چاہے گناہ كتنے بھى زيادہ ہوں، يا اللہ تعالى اس كى توبہ قبول نہيں كريگا، اور اس كى عبادت رد كر ديگا ؟
اور كيا اللہ تعالى اسے عذاب قبر سے نجات دے ديگا، اور آگ ميں داخل نہيں كريگا ؟
اور اسے اللہ تعالى كو راضى كرنے اور عذاب سے بچنے كے ليے كونسے عمل كرنا ہونگے ؟


الحمد للہ:

ميرے بھائى آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ اس نے جس گناہ سے توبہ كر لى ہو اسے عظيم اور بڑا سمجھے؛ كيونكہ اللہ تعالى كى رحمت اور اس كى معافى و مغفرت اس كے گناہوں سے بھى بڑھ كر ہے.

اور جن گناہوں كا تعلق كسى شخص اور آدمى سے ہو، اس كا حق واپس كرنا واجب ہے، اور جن گناہوں كا تعلق اللہ اور بندے كے مابين ہے تو اس سے صرف توبہ و استغفار، اور اس كام پر ندامت كا اظہار، اور آئندہ ان گناہوں كى طرف نہ پلٹنے كا عزم كرنا ضرورى ہے.

توبہ كى شرط ميں شامل نہيں كہ توبہ كرنے والے كو حد لگائى جائے تو اللہ تعالى كى جانب سے اس كے گناہوں كى پردہ پوشى، اور سچى اور پكى توبہ كرنا حد لگوانے كے ليے گناہوں كے اعتراف كرنے سے بہتر ہے.

اور اس شخص نے اپنى توبہ بہتر طريقہ سے كى ہے، اور حقداروں كو ان كے حقوق بھى واپس كر ديے ہيں، چنانچہ جس كى توبہ قبول ہو چكى ہو شيطان آكر اس كى توبہ كو خراب نہ كرے.

آپ يہ بھى علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى توبہ كرنے والے كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور وہ لوگ جو اللہ تعالى كے ساتھ كسى اور كو الہ نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس كو ناحق قتل كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ گنہگار ہے، اسے روز قيامت ڈبل عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذليل ہو كر اس ميں ہميشہ رہے گا، ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے، تو يہى وہ لوگ ہيں اللہ تعالى جن كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتے ہيں، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، اور جو كوئى توبہ كر لے اور نيك و صالح اعمال كرے تو اس نے اللہ كى طرف توبہ كر لى ہے ﴾

الفرقان ( 68 - 71 ).


اور جو حدود حكمران تك پہنچ جائيں ان كا جارى كرنا واجب ہو جاتا ہے، ليكن جو نہ پہنچے تو افضل يہى ہے كہ اس سے توبہ كر لى جائے اور اللہ تعالى كى پردہ پوشى كو پردہ ميں ہى رہنے ديا جائے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:

" جب شرعى حاكم كے پاس كسى حد كا معاملہ پہنچ جائے، اور كافى دلائل كے ساتھ وہ ثابت بھى ہو جائے تو اس حد كو لگانا واجب ہے، اور بالاجماع وہ حد توبہ سے ساقط نہيں ہو گى، غامدى قبيلہ كى عورت توبہ كرنے كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور مطالبہ كيا كہ اسے حد لگائى جائے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے بارہ ميں فرمايا تھا:

" يقينا اس نے ايسى توبہ كى ہے اگر اہل مدينہ وہ توبہ كريں تو انہيں كافى ہو جائے "

اور اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو شرعى حد لگائى، ليكن حكمران كے علاوہ كسى اور كو يہ حق حاصل نہيں.

ليكن جب سزا حكمران كے پاس نہ پہنچى ہو:

تو مسلمان آدمى كو چاہيے كہ اللہ تعالى نے جس كو پردہ ميں ركھا ہے اسے پردہ ميں رہنے دے، اور وہ اللہ تعالى كے سامنے سچى اور پكى توبہ كرے، اميد ہے كہ اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائيگا "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 15 ).

زنا سے توبہ قبول ہونے ميں شك كرنے اور حد لگوانے كى رغبت ركھنے والے شخص كے رد ميں كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:

" جب انسان اپنے پروردگار كے سامنے پكى اور سچى خالص توبہ كر ليتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى نے وعدہ كيا ہے كہ وہ توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كريگا، بلكہ وہ اس كے عوض ميں اسے نيكياں عطا فرمائيگا، جو كہ اللہ تعالى كے جود و كرم ميں شامل ہوتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور وہ لوگ جو اللہ تعالى كے ساتھ كسى اور كو الہ نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس كو ناحق قتل كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ گنہگار ہے، اسے روز قيامت ڈبل عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذليل ہو كر اس ميں ہميشہ رہے گا، ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے، تو يہى وہ لوگ ہيں اللہ تعالى جن كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتے ہيں، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے ﴾

الفرقان ( 68 - 70 ).

اور توبہ كى شروط ميں گناہ كو فورى طور پر چھوڑ دينا، اور جو ہو چكا ہے اس پر ندامت كا اظہار كرنا، اور آئندہ اس كام كو نہ كرنے كا عزم كرنا شامل ہے، اور اگر اس كا تعلق كسى آدمى كے حقوق سے ہو تو پھر اس شخص سے معافى طلب كرنا بھى توبہ كى شروط ميں شامل ہوتا ہے.

عورتوں كى بيعت كے متعلق عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے جس نے بھى اپنا عہد پورا كيا تو اس كا اجر اللہ كے ذمہ ہے، اور جس نے اس ميں سے كسى چيز كا ارتكاب كر ليا اور اسے سزا مل گئى تو وہ اس كے ليے كفارہ ہوگا، اور جس نے اس ميں سے كسى چيز كا ارتكاب كيا اور اللہ تعالى نے اس كى پردہ پوشى كيے ركھى تو اس كا معاملہ اللہ كے سپرد ہے، اگر اللہ چاہے تو اسے عذاب دے، اور اگر چاہے تو اسے بخش دے "

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سچى توبہ كرنے كى ترغيب دلاتے ہوئے توبہ پر ابھارا بھى ہے، اور ماعز اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ كے قصہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم نے اسے چھوڑ كيوں نہ ديا، اميد ہے وہ توبہ كرتا تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرما ليتا "

اور امام مالك رحمہ اللہ نے موطا ميں زيد بن اسلم سے روايت كى ہے اس ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" لوگو! تمہارے ليے ايك وقت آئيگا كہ تم اللہ تعالى كى حدود سے رك جاؤ، جو شخص بھى ان غلط كاموں كا ارتكاب كرے تو اسے چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كى پردہ پوشى كو پردہ ميں ہى رہنے دے، كيونكہ جو بھى ہمارے سامنے اپنا پہلو ظاہر كريگا، ہم اس پر اللہ تعالى كى كتاب جارى كرينگے "

اس ليے آپ كو سچى اور پكى توبہ كرنى چاہيے، اور آپ نماز باجماعت كى پابندى كريں، اور نيكى كے كام كثرت سے كيا كريں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 44 ).

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 624 ) اور ( 23485 ) اور ( 20983 ) اور ( 728 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/47834


باقی وضاحت شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی کر دے گے - ان شاءاللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
حد كے بغير توبہ كى قبوليت
ميرا ايك سوال ہے جو مجھے پريشان كيے ہوئے ہے، اور ميں اس كے متعلق سوچتا رہتا ہوں:
جب كوئى شادى شدہ يا غير شادى شدہ شخص فحش كام اور كبيرہ گناہ چورى اور غيبت اور سود وغيرہ كا مرتكب ہو، اور بہت عرصہ اس كا مرتكب رہا ہو، پھر اس نے اللہ تعالى كو جان ليا اور خالص اللہ كى رضا كى ليے سچى توبہ كر لى، اور جن لوگوں كى غيبت كى تھى ان سے معافى بھى طلب كى، اور چورى كا مال واپس كر ديا، اور سود كے مال سے بھى خلاصى اور چھٹكارا حاصل كر ليا، اور زنا و شراب نوشى، اور نمازوں ميں كوتاہى جيسے كام اس كے اور اللہ كے مابين تھے ان سے بھى توبہ كر لى، اور دوبارہ ان كا ارتكاب نہ كيا، ليكن اس شخص كو حد نہ لگے تو كيا اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كر لےگا ؟
اور كيا اس كى ادا كردہ عبادت قبول ہو گى، چاہے گناہ كتنے بھى زيادہ ہوں، يا اللہ تعالى اس كى توبہ قبول نہيں كريگا، اور اس كى عبادت رد كر ديگا ؟
اور كيا اللہ تعالى اسے عذاب قبر سے نجات دے ديگا، اور آگ ميں داخل نہيں كريگا ؟
اور اسے اللہ تعالى كو راضى كرنے اور عذاب سے بچنے كے ليے كونسے عمل كرنا ہونگے ؟
"""""""""""""""""""""""""
الجواب :

الحمد للہ:

ميرے بھائى آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ اس نے جس گناہ سے توبہ كر لى ہو اسے عظيم اور بڑا سمجھے؛ كيونكہ اللہ تعالى كى رحمت اور اس كى معافى و مغفرت اس كے گناہوں سے بھى بڑھ كر ہے.

اور جن گناہوں كا تعلق كسى شخص اور آدمى سے ہو، اس كا حق واپس كرنا واجب ہے، اور جن گناہوں كا تعلق اللہ اور بندے كے مابين ہے تو اس سے صرف توبہ و استغفار، اور اس كام پر ندامت كا اظہار، اور آئندہ ان گناہوں كى طرف نہ پلٹنے كا عزم كرنا ضرورى ہے.

توبہ كى شرط ميں شامل نہيں كہ توبہ كرنے والے كو حد لگائى جائے تو اللہ تعالى كى جانب سے اس كے گناہوں كى پردہ پوشى، اور سچى اور پكى توبہ كرنا حد لگوانے كے ليے گناہوں كے اعتراف كرنے سے بہتر ہے.

اور اس شخص نے اپنى توبہ بہتر طريقہ سے كى ہے، اور حقداروں كو ان كے حقوق بھى واپس كر ديے ہيں، چنانچہ جس كى توبہ قبول ہو چكى ہو شيطان آكر اس كى توبہ كو خراب نہ كرے.

آپ يہ بھى علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى توبہ كرنے والے كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

( والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاماً . يضاعف له العذاب يوم القيامة ويخلد فيه مهاناً . إلا من تاب وآمن وعمل عملا صالحا فأولئك يبدل الله سيئاتهم حسنات وكان الله غفورا رحيماً . ومن تاب وعمل صالحا فإنه يتوب إلى الله متاباً ) الفرقان/68 – 71 ..
﴿ اور وہ لوگ جو اللہ تعالى كے ساتھ كسى اور كو الہ نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس كو ناحق قتل كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ گنہگار ہے، اسے روز قيامت ڈبل عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذليل ہو كر اس ميں ہميشہ رہے گا، ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے، تو يہى وہ لوگ ہيں اللہ تعالى جن كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتے ہيں، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، اور جو كوئى توبہ كر لے اور نيك و صالح اعمال كرے تو اس نے اللہ كى طرف توبہ كر لى ہے ﴾الفرقان ( 68 - 71 )

اور جو حدود حكمران تك پہنچ جائيں ان كا جارى كرنا واجب ہو جاتا ہے، ليكن جو نہ پہنچے تو افضل يہى ہے كہ اس سے توبہ كر لى جائے اور اللہ تعالى كى پردہ پوشى كو پردہ ميں ہى رہنے ديا جائے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:

" جب شرعى حاكم كے پاس كسى حد كا معاملہ پہنچ جائے، اور كافى دلائل كے ساتھ وہ ثابت بھى ہو جائے تو اس حد كو لگانا واجب ہے، اور بالاجماع وہ حد توبہ سے ساقط نہيں ہو گى، غامدى قبيلہ كى عورت توبہ كرنے كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور مطالبہ كيا كہ اسے حد لگائى جائے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے بارہ ميں فرمايا تھا:

" يقينا اس نے ايسى توبہ كى ہے اگر اہل مدينہ وہ توبہ كريں تو انہيں كافى ہو جائے "

اور اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو شرعى حد لگائى، ليكن حكمران كے علاوہ كسى اور كو يہ حق حاصل نہيں.

ليكن جب سزا حكمران كے پاس نہ پہنچى ہو: تو مسلمان آدمى كو چاہيے كہ اللہ تعالى نے جس كو پردہ ميں ركھا ہے اسے پردہ ميں رہنے دے، اور وہ اللہ تعالى كے سامنے سچى اور پكى توبہ كرے، اميد ہے كہ اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائيگا "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 15 ).

زنا سے توبہ قبول ہونے ميں شك كرنے اور حد لگوانے كى رغبت ركھنے والے شخص كے رد ميں كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:

" جب انسان اپنے پروردگار كے سامنے پكى اور سچى خالص توبہ كر ليتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى نے وعدہ كيا ہے كہ وہ توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كريگا، بلكہ وہ اس كے عوض ميں اسے نيكياں عطا فرمائيگا، جو كہ اللہ تعالى كے جود و كرم ميں شامل ہوتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور وہ لوگ جو اللہ تعالى كے ساتھ كسى اور كو الہ نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس كو ناحق قتل كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ گنہگار ہے، اسے روز قيامت ڈبل عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذليل ہو كر اس ميں ہميشہ رہے گا، ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے، تو يہى وہ لوگ ہيں اللہ تعالى جن كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ديتے ہيں، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے ﴾الفرقان ( 68 - 70 ).

اور توبہ كى شروط ميں گناہ كو فورى طور پر چھوڑ دينا، اور جو ہو چكا ہے اس پر ندامت كا اظہار كرنا، اور آئندہ اس كام كو نہ كرنے كا عزم كرنا شامل ہے، اور اگر اس كا تعلق كسى آدمى كے حقوق سے ہو تو پھر اس شخص سے معافى طلب كرنا بھى توبہ كى شروط ميں شامل ہوتا ہے.
وقد ثبت عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه في بيعة النساء أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " ... فمن وفَّى منكم فأجره على الله ، ومن أصاب من ذلك شيئاً فعوقب به فهو كفارة له ، ومن أصاب منها شيئاً من ذلك فستره الله فهو إلى الله ، إن شاء عذَّبه وإن شاء غفر له " ، وقد حثَّ صلى الله عليه وسلم على التوبة الصادقة ، وقال في قصة ماعز " هلا تركتموه لعله أن يتوب فيتوب الله عليه " ، وروى مالك في " الموطأ " عن زيد بن أسلم وفيه " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " أيها الناس قد آن لكم أن تنتهوا عن حدود الله ، مَن أصاب من هذه القاذورات شيئاً فليستتر بستر الله ، فإنه مَن يُبدِ لنا صفحته : نُقِم عليه كتاب الله " .
فعليك بالتوبة الصادقة ، والمحافظة على الصلوات مع الجماعة ، والإكثار من الحسنات

.
عورتوں كى بيعت كے متعلق عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے جس نے بھى اپنا عہد پورا كيا تو اس كا اجر اللہ كے ذمہ ہے، اور جس نے اس ميں سے كسى چيز كا ارتكاب كر ليا اور اسے سزا مل گئى تو وہ اس كے ليے كفارہ ہوگا، اور جس نے اس ميں سے كسى چيز كا ارتكاب كيا اور اللہ تعالى نے اس كى پردہ پوشى كيے ركھى تو اس كا معاملہ اللہ كے سپرد ہے، اگر اللہ چاہے تو اسے عذاب دے، اور اگر چاہے تو اسے بخش دے "

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سچى توبہ كرنے كى ترغيب دلاتے ہوئے توبہ پر ابھارا بھى ہے، اور ماعز اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ كے قصہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم نے اسے چھوڑ كيوں نہ ديا، اميد ہے وہ توبہ كرتا تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرما ليتا "

اور امام مالك رحمہ اللہ نے موطا ميں زيد بن اسلم سے روايت كى ہے اس ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" لوگو! تمہارے ليے ايك وقت آئيگا كہ تم اللہ تعالى كى حدود سے رك جاؤ، جو شخص بھى ان غلط كاموں كا ارتكاب كرے تو اسے چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كى پردہ پوشى كو پردہ ميں ہى رہنے دے، كيونكہ جو بھى ہمارے سامنے اپنا پہلو ظاہر كريگا، ہم اس پر اللہ تعالى كى كتاب جارى كرينگے "

اس ليے آپ كو سچى اور پكى توبہ كرنى چاہيے، اور آپ نماز باجماعت كى پابندى كريں، اور نيكى كے كام كثرت سے كيا كريں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 44 ).
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فحاشی سے توبہ
مجھے پتہ نہیں چل رہا کہ میں کیا کروں میں بہت ہی بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں مجھے یہ بھی علم ہے کہ دین اسلام میں کاہن اورنجومی کے پاس جانا اوراس کی تصدیق کرنے کا وجود ہی نہیں ، لیکن بات یہ ہے کہ میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں اوراب توبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی میرے گناہ معاف کرتے ہوۓ مجھ سے درگزر فرماۓ ۔
سورۃ النور کا مطالعہ کرنےکے بعد مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ میں کسی پاکباز عورت سےشادی کرسکوں اب آپ بتائيں کہ مجھے کیا کرنا چاہيۓ ؟
میری آّپ سے گزارش ہے کہ آپ اللہ تعالی سے میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالی میرے گناہ معاف فرماتے ہوۓ جہنم کے اندر میری سزا میں تخفیف کردے ۔
الحمد للہ
اول :
آپ اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہوں اوراللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان پر غورکریں :

فرمان باری تعالی ہے :
: ( قُلْ يَاعِبَادِي الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) سورة الزمر / 53
{ میری جانب سے کہہ دو اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں زیادتی کی ہے تم اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ ، یقینا اللہ تعالی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، واقعی وہ بڑی بخشش اوربڑی رحمت والا ہے } الزمر ( 53 ) ۔

دوم :

آپ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے توبہ کرتے ہوۓ ہراس کام سے دور رہيں جوحرام کی طرف لے جاۓ اورجرم کا ارتکاب کرنے کا باعث بنے اورپھر آپ نیکیاں کثرت کے ساتھ کریں کیونکہ نیکیاں کرنے سے برائياں ختم ہو جاتی ہيں ۔

سوم :

توبہ کے بعد زنا کا جرم ختم ہوجاۓ‌ گا اورپھر آپ کسی پاکباز عورت سے شادی بھی کرسکتے ہیں ۔

چہارم :

مومن کودعاکرتے وقت عالی ھمت ہونا چاہۓ‌ یہ نہیں کہ وہ صرف اللہ تعالی سے عذاب جہنم کی تخفیف کی دعا کرے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے یہ دعا کرے کہ اللہ تعالی اسے جہنم سے چھٹکارا دے کر جنت عطا فرماۓ ۔

بلکہ اسے اعمال صالحہ اوراپنے گناہوں سے توبہ کرنے کے ساتھ کوشش اوراللہ تعالی سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی اسے جنت الفردوس عطا فرماۓ ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

نے ایک عورت سے حرام کام کیا ہے لیکن دخول نہيں کیا توکیا اس پر رجم کی سزا لاگو ہوتی ہے اوروہ توبہ کس طرح کرے ؟
الحمد للہ
آپ کے دوست نے جوکچھ کیا ہے وہ ایک عظیم جرم اورکبیرہ گناہ ہے جس سے توبہ کرنا ضروری ہے ۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم :
" الْعَيْنَانِ تَزْنِيَانِ وَالْيَدَانِ تَزْنِيَانِ وَالرِّجْلانِ تَزْنِيَانِ وَالْفَرْجُ يَزْنِي " . رواه الإمام أحمد وهو في صحيح الجامع 4150


( آنکھیں ، ہاتھ ، اورٹانگیں بھی زناکرتی ہیں اورشرمگاہ بھی زنا کرتی ہے ) مسند احمد یہ حدیث صحیح الجامع میں بھی موجود ہے دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 4150 ) ۔

روى عَبْد اللَّهِ بن مسعود قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَقِيتُ امْرَأَةً فِي الْبُسْتَانِ فَضَمَمْتُهَا إِلَيَّ وَبَاشَرْتُهَا وَقَبَّلْتُهَا وَفَعَلْتُ بِهَا كُلَّ شَيْءٍ غَيْرَ أَنِّي لَمْ أُجَامِعْهَا قَالَ فَسَكَتَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : ( إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ ) ، قَالَ فَدَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهَا عَلَيْهِ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَهُ خَاصَّةً أَمْ لِلنَّاسِ كَافَّةً فَقَالَ : " بَلْ لِلنَّاسِ كَافَّةً . " رواه الإمام أحمد
اپنے دوست سے کہیں کہ وہ بھلائی اورنیکی کے کام کثرت سے کرے ہوسکتا ہے ان کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کردے ، جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہنے لگا :

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں باغ میں ایک عورت سے ملا تواسے اپنے جسم کے ساتھ لگایا اورمباشرت کی اسے چوما اورہر کام کیا لیکن جماع نہیں کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کرلی پھر اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئي :

{ بلاشبہ یقینا نیکیاں بدیوں کوختم کردیتی ہے یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے }

عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کوبلایا اوراس کویہ آیت پڑھ کرسنائي ، توعمررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : کیا یہ صرف اس کے لیے خاص ہے یا کہ سب لوگوں کے عام ہے ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

یہ آیت سب لوگوں کے لیے عام ہے ۔ مسند احمد ۔

آپ زنا سے توبہ کے لیے مزيد تفصیل سوال نمبر ( 624 ) ۔

اورآپ کا یہ سوال کہ اس فعل کوزنا شمار کیا جاۓ گا جس کی حد رجم ہے ؟

تواس کا جواب یہ ہے رجم اورسنگسارشادی شدہ زانی اورغیرشادی شدہ کوکوڑوں کی سزا اورحد اس وقت لگائي جاۓ گی جب کہ جماع کیا جاۓ اورایک دوسرے کی شرمگاہ آپس میں داخل ہو ۔

لیکن اگر یہ کام یعنی جماع نہيں ہوا تواس پر دوسری سزائيں ہونگی جوکہ گناہ کی حرمت کے اعتبار سے لگائي جائيں گی ۔

اوراس گناہ کا اعتراف قاضی کے سامنے کرنا ضروری اور واجب نہیں بلکہ وہ اللہ تعالی کے سامنے توبہ کرے جوکہ اس کے اوراللہ کے درمیان ہے اوراللہ تعالی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے والا ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہماری اوراس کی اورسب مسلمانوں کی توبہ قبول فرماۓ‌ آمین یا رب العالمین ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
دسمبر 30، 2015
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
8
السلام علیکم
@اسحاق سلفی بھائی جو لوگ انٹرنیٹ میل سروس کہ ذریعے کسی """امام جج یا قاضی""" سے فتوٰی پوچھتے ہیں ان پہ بھی حد واجبہ ہو جاتی ہے ؟؟؟
کیونکہ حد لگا نا تو انہیں کا کام ہے ۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام علیکم
@اسحاق سلفی بھائی جو لوگ انٹرنیٹ میل سروس کہ ذریعے کسی """امام جج یا قاضی""" سے فتوٰی پوچھتے ہیں ان پہ بھی حد واجبہ ہو جاتی ہے ؟؟؟
کیونکہ حد لگا نا تو انہیں کا کام ہے ۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ۔
پہلی بات تو یہ جان لیں ،شرعی سزا حد ہو یا تعزیر ۔۔اس کو نافذ کرنا اسلامی حکومت کا کام ہے ،
کسی عالم دین سے کسی گناہ کے متعلق صرف شرعی حکم معلوم کیا جاتا ہے ،اگر وہ عالم ،یا مفتی شرعی حکومت کا جج ،قاضی نہیں تو صرف شرعی حکم بتا سکتا ہے،
سزا نہیں دے سکتا ۔
اس طرح سائل کو اس جرم کی سزا معلوم ہونے سے اس پر صرف حقیقی توبہ واجب ہوتی ہے ،اور اگر وہ جرم از قسم حقوق انسانی ہو تو متاثرہ فریق کو اس حق کی ادائیگی
یا اس کی معافی مانگنا واجب ہو گی ۔
اور جہاں معاملہ شرعی عدالت تک نہ جائے ،کوئی دوسرا شرعی سزا نہیں دے سکتا ۔
گناہ گارپر توبہ تمام شرائط کے ساتھ بہرحال واجب ہے ،
ان عبادة بن الصامت رضي الله عنه وكان شهد بدرا وهو احد النقباء ليلة العقبة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وحوله عصابة من اصحابه:‏‏‏‏"بايعوني على ان لا تشركوا بالله شيئا ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا اولادكم ولا تاتوا ببهتان تفترونه بين ايديكم وارجلكم ولا تعصوا في معروف فمن وفى منكم فاجره على الله ومن اصاب من ذلك شيئا فعوقب في الدنيا فهو كفارة له ومن اصاب من ذلك شيئا ثم ستره الله فهو إلى الله إن شاء عفا عنه وإن شاء عاقبه"فبايعناه على ذلك (صحیح بخاری کتاب الایمان )
.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے (بارہ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں (اللہ کی) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے ۔ اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں (اسلامی قانون کے تحت) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے (گناہوں کے) لیے کفارہ ہو جائے گی ۔ اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے (گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا (معاملہ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دیدے۔ (عبادہ کہتے ہیں کہ) پھر ہم سب نے ان (سب باتوں) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔
ــــــــــــــــــــ
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

ماعزاسلمي رضي اللہ تعالي عنہ كےزنا كا اقرار كرنےكےواقعہ سےاخذہوتا ہےكہ: جس سےبھي اس جيسا كام كا ارتكاب ہوجائے وہ پردہ پوشي كرتےہوئے اللہ تعالي كےسامنےتوبہ كرے اوركسي سےاس كا ذكر تك نہ كرے ... اسي ليے امام شافعي رحمہ اللہ تعالي نےبالجزم يہ بات كہي ہےكہ: ميں ايسےشخص كےليے پسند كرتا ہوں جس سےگناہ سرزد ہوجائے اور اللہ تعالي نےاس كي پردہ پوشي كي ہو اسےچاہيے كہ وہ بھي اپني پردہ پوشي كرے اور توبہ كرے. اھ

ديكھيں فتح الباري ( 12 / 124- 125 )
اور درج ذیل حدیث بھی دیکھیں :
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " اجتنبوا هذه القاذورات التي نهى الله عنها فمن ألَمَّ بشيء منها فليستتر بستر الله وليتب إلى الله فإنه من يُبد لنا صفحته نُقم عليه كتاب الله تعالى عز وجل " . والقاذورات : يعني المعاصي .
رواه الحاكم في " المستدرك على الصحيحين " ( 4 / 425 ) والبيهقي ( 8 / 330 ) . وصححه الألباني في صحيح الجامع ( 149 )
عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالي عنھما بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
ان بےہودہ اشياء ( يعني معاصي وگناہ )سےاجتناب كرو جن اللہ سےاللہ تعالي نےمنع كياہے جس كسي سےبھي اس كا ارتكاب ہوجائےوہ اللہ تعالي كي پردہ پوشي كےساتھ اپني پردہ پوشي كرے اور اللہ تعالي كےسامنےتوبہ كرے اس ليےكہ جوبھي ہمارےليےاپناسينہ پيش كرےگا ہم اس پر كتاب اللہ لاگوكريں گے. اسےامام حاكم نےالمستدرك علي الصحيحن ( 4 / 425 ) اور امام بيھقي نے البيھقي ( 8 / 330 ) ميں روايت كيا اور علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح الجامع ( 149 ) ميں صحيح قرار دياہے۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
توبہ سے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں ؛
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ۔۔الزمر 53
آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقینا سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ بے حد بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے ‘‘
اس کی تفسیر میں علامہ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ ' اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ' کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا توبہ و استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کئے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں بہت زیادہ گنہگار ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا ؟ بلکہ سچے دل سے اگر ایمان قبول کر لے گا یا توبہ کر لے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ شان نزول کی روایت سے بھی یہی مفہوم ثابت ہوتا ہے کچھ کافر و مشرک تھے جنہوں نے کثرت سے قتل اور زنا کاری کا ارتکاب کیا تھا یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت صحیح ہے لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطا کار ہیں اگر ہم ایمان لے آئیں تو کیا وہ سب معاف ہو جائیں گے جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔
(صحیح بخاری، تفسیر سورۃ زمر )
 
Last edited:
Top