السلام علیکم
@اسحاق سلفی بھائی جو لوگ انٹرنیٹ میل سروس کہ ذریعے کسی """امام جج یا قاضی""" سے فتوٰی پوچھتے ہیں ان پہ بھی حد واجبہ ہو جاتی ہے ؟؟؟
کیونکہ حد لگا نا تو انہیں کا کام ہے ۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ۔
پہلی بات تو یہ جان لیں ،شرعی سزا حد ہو یا تعزیر ۔۔اس کو نافذ کرنا اسلامی حکومت کا کام ہے ،
کسی عالم دین سے کسی گناہ کے متعلق صرف شرعی حکم معلوم کیا جاتا ہے ،اگر وہ عالم ،یا مفتی شرعی حکومت کا جج ،قاضی نہیں تو صرف شرعی حکم بتا سکتا ہے،
سزا نہیں دے سکتا ۔
اس طرح سائل کو اس جرم کی سزا معلوم ہونے سے اس پر صرف حقیقی توبہ واجب ہوتی ہے ،اور اگر وہ جرم از قسم حقوق انسانی ہو تو متاثرہ فریق کو اس حق کی ادائیگی
یا اس کی معافی مانگنا واجب ہو گی ۔
اور جہاں معاملہ شرعی عدالت تک نہ جائے ،کوئی دوسرا شرعی سزا نہیں دے سکتا ۔
گناہ گارپر توبہ تمام شرائط کے ساتھ بہرحال واجب ہے ،
ان عبادة بن الصامت رضي الله عنه وكان شهد بدرا وهو احد النقباء ليلة العقبة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وحوله عصابة من اصحابه:"بايعوني على ان لا تشركوا بالله شيئا ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا اولادكم ولا تاتوا ببهتان تفترونه بين ايديكم وارجلكم ولا تعصوا في معروف فمن وفى منكم فاجره على الله ومن اصاب من ذلك شيئا فعوقب في الدنيا فهو كفارة له ومن اصاب من ذلك شيئا ثم ستره الله فهو إلى الله إن شاء عفا عنه وإن شاء عاقبه"فبايعناه على ذلك (صحیح بخاری کتاب الایمان )
.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے (بارہ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں (اللہ کی) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے ۔
اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں (اسلامی قانون کے تحت) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے (گناہوں کے) لیے کفارہ ہو جائے گی ۔ اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے (گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا (معاملہ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دیدے۔ (عبادہ کہتے ہیں کہ) پھر ہم سب نے ان (سب باتوں) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔
ــــــــــــــــــــ
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:
ماعزاسلمي رضي اللہ تعالي عنہ كےزنا كا اقرار كرنےكےواقعہ سےاخذہوتا ہےكہ: جس سےبھي اس جيسا كام كا ارتكاب ہوجائے وہ پردہ پوشي كرتےہوئے اللہ تعالي كےسامنےتوبہ كرے اوركسي سےاس كا ذكر تك نہ كرے ...
اسي ليے امام شافعي رحمہ اللہ تعالي نےبالجزم يہ بات كہي ہےكہ: ميں ايسےشخص كےليے پسند كرتا ہوں جس سےگناہ سرزد ہوجائے اور اللہ تعالي نےاس كي پردہ پوشي كي ہو اسےچاہيے كہ وہ بھي اپني پردہ پوشي كرے اور توبہ كرے. اھ
ديكھيں فتح الباري ( 12 / 124- 125 )
اور درج ذیل حدیث بھی دیکھیں :
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " اجتنبوا هذه القاذورات التي نهى الله عنها فمن ألَمَّ بشيء منها فليستتر بستر الله وليتب إلى الله فإنه من يُبد لنا صفحته نُقم عليه كتاب الله تعالى عز وجل " . والقاذورات : يعني المعاصي .
رواه الحاكم في " المستدرك على الصحيحين " ( 4 / 425 ) والبيهقي ( 8 / 330 ) . وصححه الألباني في صحيح الجامع ( 149 )
عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالي عنھما بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
ان بےہودہ اشياء ( يعني معاصي وگناہ )سےاجتناب كرو جن اللہ سےاللہ تعالي نےمنع كياہے جس كسي سےبھي اس كا ارتكاب ہوجائےوہ اللہ تعالي كي پردہ پوشي كےساتھ اپني پردہ پوشي كرے اور اللہ تعالي كےسامنےتوبہ كرے اس ليےكہ جوبھي ہمارےليےاپناسينہ پيش كرےگا ہم اس پر كتاب اللہ لاگوكريں گے. اسےامام حاكم نےالمستدرك علي الصحيحن ( 4 / 425 ) اور امام بيھقي نے البيھقي ( 8 / 330 ) ميں روايت كيا اور علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح الجامع ( 149 ) ميں صحيح قرار دياہے۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
توبہ سے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں ؛
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ۔۔الزمر 53
آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقینا سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ بے حد بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے ‘‘
اس کی تفسیر میں علامہ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ ' اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ' کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا توبہ و استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کئے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں بہت زیادہ گنہگار ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا ؟ بلکہ سچے دل سے اگر ایمان قبول کر لے گا یا توبہ کر لے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ شان نزول کی روایت سے بھی یہی مفہوم ثابت ہوتا ہے کچھ کافر و مشرک تھے جنہوں نے کثرت سے قتل اور زنا کاری کا ارتکاب کیا تھا یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت صحیح ہے لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطا کار ہیں اگر ہم ایمان لے آئیں تو کیا وہ سب معاف ہو جائیں گے جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔
(صحیح بخاری، تفسیر سورۃ زمر )