• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعودی حکومت کو غیر ملکی کارکنوں کو انتباہ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سعودی حکومت کو غیر ملکی کارکنوں کو انتباہ

سعودی عرب کی ایک تہائی آبادی غیر ملکی کارکنوں پر مشتمل ہے۔

سعودی عرب حکومت ملک میں موجود لاکھوں غیر ملکی کارکنوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اپنے ویزا دستاویزات درست کر لیں یا ملک سے نکل جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔

برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق سعودی ریاست ایک عرصہ تک ویزا کی چھوٹی موٹی بے قاعدگیوں سے صرف نظر کرتی رہی ہے تاکہ ملک میں سستے مزدوروں کی کمی واقع نہ ہو۔

یمن ، مصر، لبنان، اتھوپیہ، انڈیا، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور فلپائن سے تعلق رکھنے والے محنت کش لوگ سعودی عرب کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اپنے ملکوں کے لیے بھی زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ رہے ہیں۔

سعودی عرب میں اصلاحات کے عمل کے تحت گذشتہ دو برس سے حکومت کی کوشش ہے کہ سعودی شہریوں میں بے روزگاری شرح کم کی جائے جو اب بھی بارہ فیصد کے قریب ہے۔

اس شرح میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے اور روزگار ان کی ضرورت بھی نہیں ہے اور ان کی شرح کہیں زیادہ ہے۔

سعودی عرب کے اعلی حکام اکثر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ دنیا کی اس تیل پیدا کرنے والی بڑی معیشت کے لیے مقامی لوگوں میں بے روز گاری کی شرح کو کم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

سعودی شہریوں کی اکثریت سرکار کی ملازمت میں ہے لیکن مرکزی بینک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ ایک دہائی میں معاشی اصلاحات سے پیدا ہونے والے معاش کے مواقعے کا فائدہ غیر ملکیوں کو ہوا ہے۔

مقامی اور غیر ملکی کمپنیوں کو بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر وہ مقامی لوگوں کے لیے نوکریوں میں مختص کوٹے کی پابندی نہیں کرتیں۔

اس کے علاوہ سعودی حکومت نے ہر کمپنی پر ایک غیر ملکی کو نوکری دینے پر چوبیس سو ریال کا ٹیکس لگا دیا ہے۔ اگر کوئی کمپنی کسی غیر ملکی کو نوکری دیتی ہے تو اسے چوبیس سو ریال کا اضافی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔

یہ ٹیکس ہر سال اس وقت ادا کرنا پڑتا ہے جب اس غیر ملکی کے پرمٹ کے دوبارہ اجراء کا وقت آتا ہے۔

اس سال کے اوائل میں حکومت نے غیر ملکی کارکنوں کے خلاف غیر معمولی مہم شروع کی تھی۔ چار نومبر کو سات ماہ کی مہلت کے خاتمے پر یہ مہم دوبارہ شروع کی جا رہی ہے جس میں مختلف کمپنیوں پر چھاپے مارے جائیں گے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق تریپن لاکھ غیر ملکی کارکن اپنی دستاویزات درست کروا چکے ہیں۔ لیکن لاکھوں کی تعداد میں سعودی عرب چھوڑ چکے ہیں۔

بدھ 9 اکتوبر 2013
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سعودی عرب: تصادم میں دو افراد ہلاک، متعدد زخمی

سعودی عرب میں حکام کا کہنا ہے کہ غیر ملکی ملازمین اور پولیس کے درمیان تصادم میں دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔

یہ تصادم سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے ایک ضلعے منفوحہ میں اس وقت رونما ہوا جب تارکین وطن ملازمت کے نئے قانون کے خلاف غیر ملکی ملازمین احتجاج کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب میں رواں برس ملازمت کے نئے قوانین متعارف کروائے جانے کے بعد لاکھوں غیر ملکی کارکنوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ تین نومبر تک اپنی ویزا دستاویزات درست کر لیں یا ملک سے نکل جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔

پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس ضمن میں سینکڑوں افراد کو ریاض کے جنوب میں واقع منفوحہ کے نواحی علاقوں سے گرفتار کیا گیا ہے۔

ہلاک ہونے والے دو افراد میں سے ایک شخص کا تعلق سعودی عرب سے ہے جبکہ دوسرے شخص کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

حکام نے کہا کہ اس ضمن میں 70 افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ 560 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ سعودی سکیورٹی فورسز حفاظتی لباس میں ہیں اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ڈنڈوں کا استعمال کر رہی ہیں۔

نئے سعودی قانون کے مطابق غیر قانونی طور پر ملک میں رہنے والے غیر ملکیوں کو تین نومبر تک کی مہلت دی گئی تھی

پولیس کا کہنا ہے کہ جب غیر ملکی مظاہرین نے سنیچر کو فسادات برپا کرنے کی کوشش کی، سعودی باشندوں پر حملے کیے اور دوسرے غیر ملکی باشندوں کو پتھروں اور چاقو سے حملہ کیا تو انھوں نے انھیں روکنے کی کوشش کی۔

منفوحہ میں تارکین وطن کی بڑی تعداد رہتی ہے اور ان میں زیادہ تر افراد مشرقی افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔

اتوار کو عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس نے منفوحہ ضلعے کو محاصرے میں لے لیا ہے جبکہ وہاں نیشنل گارڈ اور سپیشل فورسز کی نفری بھی روانہ کی گئی ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا کہ سینکڑوں بچے، خواتین اور مردوں کو پولیس حراست میں لے کر انھیں ان کے ممالک بھیج رہی ہے۔

گذشتہ سوموار کو سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق محکمۂ محنت کے اہلکاروں نے مختلف شہروں میں چھاپے مار کر ہزاروں افراد کو حراست میں لیا تھا۔

پير 11 نومبر 2013
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ہزاروں کو سعودی عرب سے ملک بدری کا خطرہ

سعودی عرب سے جہاں شمالی افریقہ، انڈیا، انڈونیشیا، فلپائین اور دیگر ممالک کے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق سعودی عرب میں معاش کی غرض سے مقیم غیر ملکیوں کے لیے نئے قوانین کے نفاذ کے بعد سے چون ہزار پاکستانیوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے جبکہ ہزاروں پاکستانی مزدورں کو نئے قوانین کی خلاف ورزی پر قید، جرمانے اور ملک بدری کی سزائیں سنائے جانے کا خطرہ ہے۔

ریاض میں موجود پاکستانی سفیر محمد نعیم نے بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ سعودی عرب میں پندرہ لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔

سعودی عرب سے جہاں شمالی افریقہ، انڈیا، انڈونیشیا، فلپائین اور دیگر ممالک کے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کا سلسلہ جاری ہے، وہاں پاکستانی وزارتِ خارجہ کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی کارکنوں کو سفارت خانے کی کوششوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

محمد نعیم خان نے کہا کہ جب ملازمت کے نئے قوانین متعارف کروائے جا رہے تھے تو انہوں نے سعودی حکومت سے رعایت کی بات کی۔

انہوں نے کہا کہ: 'ہم نے شروع سے اس مسئلہ کو سمجھا اور یقین جانیے کہ ہمارے کہنے پر سعودی حکومت نے تارکینِ وطن کے کاغذات پورے نہ ہونے پر ملک بدر کرنے کی تاریخ آگے بڑھا دی۔'

انہوں نے کہا کہ انہوں نے شاہ عبداللہ کہ صاحبزادے اور نائب وزیرِ خارجہ عبد العزیز بن عبداللہ سے ملاقات کی اور رعایت کی درخواست کی۔

انہوں نے بتایا کہ اس سال مئی سے تین نومبر تک، سعودی عرب کی وزارتِ محنت کے مطابق، آٹھ لاکھ پاکستانیوں کو قانونی حیثیت دی گئی جبکہ چون ہزار پاکستانی اپنی مرضی سے واپس لوٹ گئے ہیں جن کی ویزے کی مدت ختم ہو چکی تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سنہ 2008 سے قبل حج یا عمرے کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔

پاکستانی سفیر نے مزید بتایا کہ چار قسم کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا تھا،
1۔ ایک وہ جنہوں نے اپنا پیشہ بدلا تھا،
2۔ دوسرا جن کے کفیل کے ساتھ ملازت نہیں رہی،
3۔ تیسرے جو حج اور عمرے کے لیے گئے مگر وہاں رک گئے
4۔ اور چوتھے جنہوں نے اپنی نوکریاں چھوڑ دی تھیں۔

محمد نعیم خان نے کہا کہ آٹھ لاکھ پاکستانیوں کو قانونی حیثیت دلوانے کے لیے پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے اور پاکستانی برادری کے تعاون سے آگاہی کی مہم چلائی جس میں ذرائع ابلاغ شامل تھے اور دور دراز علاقوں میں ٹیمیں بھی بھیجوائی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ چھ ماہ کے اندر صبح سے شام تک کیمپ لگا کر بڑی تعداد میں لوگوں کے کاغذات درست کیے گئے۔

پاکستان میں حسبِ مخالف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے حکومتِ پاکستان کے دعووں کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں اس کی وجہ سے عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

بارہ نومبر کو عوامی نیشنل پارٹی کے تین سینیٹروں افرسیاب خٹک، زاہد خان اور امر جیت نے ایوانِ بالا میں اسی سلسلے میں تحریکِ التوا جمع کروائی۔ سینیٹر زاہد خان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ غیر قانونی پاکستانی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کا معاملہ اگلے اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزارتِ خارجہ کا دعوی درست نہیں ہو سکتا اور وہ اس حوالے سے اپنے طور پر اعداد و شمار جمع کر رہے ہیں جو سینیٹ کے اگلے اجلاس میں پیش کریں گے۔ 'ہم ثابت کر دیں گے کہ یہ اعداد و شمار غلط ہیں۔ خیبر پحتونخوا کی عوام بہت پریشان ہیں۔'

انہوں نے بتایا کہ جب سے سعودی عرب میں ملازمت کے نئے قوانین کی بات شروع ہوئی، عوامی نیشنل پارٹی نے حکومتِ پاکستان کو متنبہ کرنے کی کوشش کی تاہم، حکومت خاموش رہی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ خاموشی کی وجہ سعودی عرب کے ساتھ غیر متوازن تعلقات ہیں تو انہوں کہا 'ہمارے لوگوں نے محنت مزدوری کر کے سعودی عرب کو آباد کیا۔ ہم امریکہ سے ڈرتے ہیں، چین سے ڈرتے ہیں، سعودی عرب سے ڈرتے ہیں۔ اتنے کمزور ہوں گے تو اپنے لوگوں اور قوم کے تحفظات کیسے دور کریں گے؟'

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں، خاص کر صوبہ خیبر پختونخوا میں، بے روزگاری کی شرح دہشت گردی کی وجہ سے بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے مشرقِ وسطی سے آنے والا زرِ مبادلہ انتہائی اہم ہے۔

ادھر محمد نعیم خان کا کہنا ہے کہ جن پاکستانیوں کی حیثیت اب بھی غیر قانونی ہے، سفارت خانہ ان کے لیے اندراج کی مہم چلا رہا ہے۔ 'ہم نے ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں میں 78 مرکز قائم کیے ہیں جہاں پشتو اور اردو میں فارم موجود ہوں گے اس بات کا جائزہ لینے کے لیے کے کتنے لوگ کس وجہ سے غیر قانونی ہیں۔ جب یہ معلومات ہمارے ہاتھ میں آئے گی، تو پھر ہم دوبارہ سعودی حکومت سے رابطہ کریں گے۔'

خیال رہے کہ غیر قانونی پاکستانی تارکینِ وطن میں زیادہ تر مزدور ہیں، اور ان میں ایک بڑی تعداد کا تعلق صوبے خیبر پختونخوا سے ہے۔ ان کے لیے اپنے ویزا کی درستگی کے لیے تین نومبر کی تاریخ گزر چکی ہے اور اگر پاکستانی سفارت خانے کی کوششیں ناکام رہیں تو ہزاروں لوگوں کو قید اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا، یا انہیں ملک بدر کیا جائے گا۔

بدھ 13 نومبر 2013
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سعودی عرب: غیر ملکیوں کی ملک بدری پر بحث

غیر قانونی طور پر کام کرنے والے افراد امیگریشن کی قطار میں حکام کا کہنا ہے کہ وہ 60,000 افراد کو ملک بدر کر چکے ہیں

ابو اسامہ الکیتی کو سعودی عرب کے شہر ریاض میں ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کاروبار کے لیے لائسنس فیس اور انشورنس ادا کر دی ہے، وزارت محنت کی تمام شرائط بھی پوری کر دی ہیں لیکن ان کا کاروبار ابھی تک شروع نہیں ہو سکا کیونکہ کام کرنے کے لیے مزدوروں کی کمی ہے۔

ابو اسامہ کہتے ہیں 'میں نے غیر ملکی افراد کے ویزوں کے لیے تین ماہ قبل درخواست دی تھی لیکن ابھی تک انتظار کر رہا ہوں۔ حکومت کا وہی معمول کا جواب ہے کہ آپ کی درخواست پر غور کیا جا رہا ہے۔ ہر گزرتا دن اہم ہے کیونکہ مجھے دکان کا کرایہ دینا پڑ رہا ہے۔'

سعودی حکام نے ملک میں ملازمت کے نئے قوانین متعارف کروائے جانے کے بعد چار نومبر سے غیر قانونی طور پر کام کرنے والوں کو حراست میں لے کر ملک بدر کرنے کا عمل شروع کر دیا تھا۔

غیر ملکیوں کے خلاف اس کارروائی کے بعد کاروبار کرنے والوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

گرفتاری یا کسی قسم کی قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے غیر قانونی طور پر کام کرنے والے کئی افراد چھپ گئے تھے یا پھر اپنے وطن واپس چلے گئے جس کی وجہ سے ملک بھر میں درجنوں دکانیں اور ریسٹورانٹ بند پڑے ہیں۔

وزارت محنت کے حکام کے مطابق رہائش اور ملازمت کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے 60,000 غیر ملکیوں کو اب تک ملک بدر کیا جا چکا ہے۔

حکومت کی جانب سے اس مہم کے آغاز پر ریاض کے پسماندہ علاقوں میں مظاہرے ہوئے جن میں اطلاعات کے مطابق کئی افریقی نژاد افراد پولیس کے ساتھ تصادم میں ہلاک ہو گئے۔

مکہ میں چھ ہزار خاکروب امیگریشن حکام کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پانچ دن کی ہڑتال پر چلے گئے تھے۔

ان افراد نے جن میں زیادہ تر کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، حکام کی جانب سے اپنے معاہدوں کی تجدید اور انہیں قانونی حیثیت دینے پر ہڑتال ختم کی۔

ابو اسامہ کو ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ ملک میں قانونی طور پر کام کرنے والے افراد کی اجرت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ ان کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

اپنے ہم وطن سعودی شہریوں کو ملازمت دینے میں چار سے پاچ گنا زیادہ خرچ ہوتا ہے اور ان میں سے زیادہ تر اس قسم کی ملازمت کرنے پر تیار ہی نہیں جنہیں سعودی شہریوں کی ایک بڑی تعداد معمولی سمجھتی ہے جیسا کہ صفائی یا دکان پر کام کرنا۔

ابو اسامہ کہتے ہیں 'انہیں ماہانہ 2,000 ریال قبول نہیں۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اگر اسے 7,000 ریال دیے جائیں وہ تب بھی یہ ملازمت نہیں کرے گا۔'

حالیہ برسوں میں غیر ملکی افراد کے خلاف قوانین میں سختی کی گئی ہے جن کی تعداد تقریباً نوے لاکھ بتائی جاتی ہے جوکہ سعودی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے۔

جدہ میں چیمبر آف کامرس کے سیکریٹری جنرل عدنان مندورا نے بی بی سی کو بتایا 'ایک بہت بڑی تعداد جوکہ تقریباً ستّر لاکھ ہے، ملک میں غیر قانونی طور پر کام کر رہی ہے۔'

کئی غیر ملکی افرادن نے خکومت کی جانب سے دی ۔یی مہلت ختم ہونے سے پہلے ملک چھوڑ دیا۔

مندورا ان الزامات سے انکار کرتے ہیں کہ حکومت نے بے صبری سے کام لیا اور غیر محتاط رویہ اختیار کیا۔

'نئے قوانین دسمبر 2012 میں لاگو کیے گئے تھے۔ لیکن لاکھوں محنت کشوں کی ملک بدری کے بعد پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے اس پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا۔'

'شاہ عبداللہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت ملک میں کام کرنے والی تمام نجی کمپنیوں اور کاروباروں کو سات ماہ کی مہلت دی گئی تھی کہ وہ اپنے غیر قانونی ملازمین کے دستاویزات درست کر لیں۔ جولائی میں اس مہلت کے خاتمے کے بعد مزید چار ماہ کا وقت دیا گیا تھا تاکہ یہ افراد خود ملک چھوڑ دیں یا پھر گرفتاری اور ملک بدری کا سامنا کریں۔'

غیر ملکیوں کے خلاف اس کارروائی کا مقصد سعودی شہریوں کے لیے نوکریوں کے مواقع پیدا کرنا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بیروزگاری کی شرح تقریباً 12 فیصد ہے جو کہ حیران کن اس لیے بھی ہے کہ سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور عرب دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط معیشت والا ملک تصور کیا جاتا ہے۔

حکومت نے ایسی کمپنیوں پر بھی جرمانے عائد کرنے شروع کیے ہیں جو ایک مخصوص تناسب میں سعودی شہریوں کو نوکریاں نہیں دے رہیں۔ حکومت نے بعض شعبوں میں غیر ملکیوں کو ملازمت دینے پر پابندی عائد کر دی ہے اور غیر ملکی افراد مہیا کرنے والی ایجنسیوں پر بھی چند پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

دوسری عرب ریاستوں نے بھی حالیہ برسوں میں اسی قسم کے سخت قوانین متعارف کروائے ہیں تاکہ غیر ملکی افراد پر انحصار کرنے میں کمی لائی جائے۔

بعض افراد کا کہنا ہے کہ سعودی حکام نے ایک ایسی متوازی مارکیٹ بنانے میں کردار ادا کیا ہے جو کہ قانون کے مطابق نہیں۔

المدینہ اخبار میں کام کرنے والے حسن السوبھی کا کہنا ہے کہ 'غیر ملکیوں کو ملازم رکھنے کا عمل مہنگا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے لیے ویزوں کی تعداد محدود ہے جو کہ بہتر تعلقات رکھنے والی کمپنیاں حاصل کر لیتی ہیں۔ ان تمام عوامل نے چوری چھپے کام کرنے والوں کی ایک دنیا بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ '

سوبھی کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کئی عرب ممالک میں استعمال ہونے والے کفالت کے نظام کا شکار بھی ہوئے ہیں۔

'لالچی اور بدعنوان کفیلوں کی جانب سے ایجنٹوں کو ویزا بیچے جانے پر ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ یہ ایجنٹ ان غیر ملکیوں کی تنخواہوں سے ماہانہ ایک مخصوص رقم لیتے ہیں۔ یہ غیر قانونی طور پر لگایا گیا ٹیکس ان کے ویزے کے میعاد ختم ہونے کے بعد بھی اس شرط پر جاری رہتا ہے کہ ایجنٹ حکام کو اطلاع نہیں کریں گے۔'

موجودہ نظام کفیل کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی وقت بھی غیر ملکی ملازم کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دے اور ان کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔

غیر قانونی طور پر کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی نے سعودی عرب کی سڑکوں اور سوشل میڈیا پر ایک گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے۔

خالد العمار نے ٹوئٹر پر لکھا 'اس کا ہمارے ملک پر سکیورٹی، معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مثبت اثر ہوگا۔ یہ ہمارے ملک کے بیٹوں کے لیے ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ غیر قانونی ملازمین کی جگہ لے لیں۔'

لیکن انہیں کے ہم وطن ابو عضوض الشامل کا کہنا ہے کہ غیر ملکی افراد چاہے وہ ہنر مند ہوں یا غیر ہنر مند، کے جانے سے پیدا ہونے والے خلا کو سعودی پر نہیں کر سکیں گے۔

انہوں نے مزید کہا 'حکومت 100,000 افراد کو ملک بدر کرے گی تو ان کی جگہ بیس لاکھ افراد آجائیں گے۔ وہ امیگریشن کے گیٹ سے جاتے ہیں لیکن نئے ملازمین کے گیٹ سے واپس آ جاتے ہیں۔'

احمد مہر بی بی سی، عربی: جمعـہء 29 نومبر 2013
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سعودیہ: دستاویزات کی درستگی کی مدت میں اضافہ

سعودی حکام نے ملک میں مقیم ہزاروں غیر ملکی کارکنوں کو دستاویزات کی درستگی کے لیے دی گئی مدت میں دو ماہ کا اضافہ کر دیا ہے۔

حکام کے مطابق وہ افراد جو سات ماہ کی دی گئی مدت میں اپنی قانونی حیثیت کی تصدیق نہیں کروا سکے وہ اب یکم مارچ 2014 تک ایسا کر سکیں گے۔

یہ مدت گذشتہ برس تین نومبر کو ختم ہوئی تھی اور اس کے خاتمے پر ہزاروں افراد کو سعودی عرب سے بے دخلی کے خطرے کا سامنا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ایسے ممالک نے جن کے شہری روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہیں، سعودی حکومت سے اس مدت میں اضافے کی اپیل کی تھی ۔

صحافی راشد حسین کے مطابق سعودی عرب کے شعبۂ پاسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل سلیمان الیحییٰ نے جمعہ کو مقامی ذرائع کو بتایا کہ سعودی وزیرِ داخلہ شہزادہ محمد بن نائف نے ان کے محکمے کو حکم دیا ہے کہ وہ تارکینِ وطن کی ایسی دستاویزات کی تصحیح کا عمل مکمل کریں جو پہلے دی گئی مدت کے دوران وزارتِ محنت میں جمع کی گئی تھیں۔

سعودی حکام نے ملک میں ملازمت کے نئے قوانین متعارف کروائے جانے کے بعد چار نومبر 2013 سے غیر قانونی طور پر کام کرنے والوں کو حراست میں لے کر ملک بدر کرنے کا عمل شروع کر دیا تھا۔

کفیل لازمی ہے
سعودی عرب میں ویزا اور رہائشی پرمٹ ہونے کے باوجود اپنے کفیل کے علاوہ کسی اور جگہ کام کرنا غیرقانونی ہے اور ایسا کرنے والے کو دو برس تک قید اور ایک لاکھ سعودی ریال تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

اس کارروائی کے آغاز کے بعد ایسے افراد میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی جن کی دستاویزات تین نومبر کو معافی کی مدت کے اختتام پر تصدیقی مراحل میں تھیں اور ان افراد نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انھیں دستاویزات نہ ہونے پر حراست میں لیا جا سکتا ہے اور انھیں ملک بدری کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایمنسٹی سکیم میں دو ماہ کے اضافے کی وجہ سے سعودی حکام اب اس عرصے کے دوران غیر قانونی تارکینِ وطن کی تلاش میں مزدوروں کے رہائشی علاقوں، دکانوں اور کاروباری اداروں پر چھاپے بھی نہیں مار سکیں گے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں معاش کی غرض سے مقیم پاکستانیوں کی تعداد 15 لاکھ ہے اور نئے قوانین کے نفاذ کے بعد وہاں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر 54 ہزار پاکستانیوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک ساڑھے نو لاکھ پاکستانیوں سمیت چالیس لاکھ غیر ملکی سعودی حکام سے اپنی دستاویزات کی تصدیق کروا چکے ہیں جبکہ ملک میں غیرقانونی طور پر موجود افراد کی تعداد اب بھی دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

جمعـہ 3 جنوری 2014
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سعودی عرب: تارکین وطن کے مسائل میں اضافہ

سلطنت میں کام کرنے والے افراد کی کمی کے مسائل کے باوجود زیادہ سے زیادہ سعودیوں کو نوکری دینے کی پالیسی جاری ہے۔

سعودی عرب میں اچھے روزگار کا خواب اگرچہ بہت سے جوان تارکینِ وطن کے لیے مکمل چکنا چور نہیں ہوا لیکن یہ معاملہ اب تلخ صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔

گزشتہ 20 سے 30 سالوں سے سعودی عرب میں رہائش پذیر ایسے غیر ملکی کارکنوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو یہاں سے نکل جانے کے امکانات پر بات کر رہے ہیں۔

ان لوگوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ اب یہاں حالات مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا ایسا قانون منظور کیا جا رہا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ سعودی شہریوں کو نجی شعبے میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور انھیں ترجیح دینا شامل ہے۔

سعودی عرب میں رہائش کا اجازت نامہ (اقامہ) صرف ایک سال کے لیے جاری کرنا، یہاں پرورش پانے والے بچوں کی عمر بڑھنے پر ان کے ویزے کے لیے زیادہ سختی جیسی مشکلات کی وجہ سے سلطنت میں عرصہ دراز سے رہائش پذیر غیر ملکی کارکنوں اور ان کے خاندانوں کے لیے رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

خطے میں'عرب سپرنگ' یا احتجاجی لہر کے اثرات بھی ہیں اور تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح کم از کم دو ہندسوں میں جا چکی ہے۔ حکومت پر اس صورتحال میں اقدامات کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان، بنگلہ دیش، فلپائن، یمن، ایتھوپیا اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کو گزشتہ تین ماہ کے دوران ملک سے نکال دیا گیا ہے۔

غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف چھاپے مارے جا رہے ہیں

سعودی وزارتِ داخلہ کے مطابق چار نومبر 2013 سے اب تک دو لاکھ 84 ہزار غیرقانونی کارکنوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کو جرمانے اور ویزا پالیسی کی خلاف ورزی میں دی گئی مہلت کے دوران مارچ اور نومبر کے درمیان دس لاکھ غیر ملکی کارکنوں نے سعودی عرب چھوڑ دیا۔ ان میں ایک لاکھ 40 ہزار بھارتی، ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی اور 50 ہزار کے قریب بنگلہ دیشی شامل تھے۔

غیر ملکی کارکن ملک بدر
سعودی وزارتِ داخلہ کے مطابق چار نومبر سال 2013 سے اب تک دو لاکھ 84 ہزار غیر قانونی کارکنوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کو جرمانے اور ویزہ پالیسی کی خلاف ورزی میں دی گئی مہلت کے دوران مارچ اور نومبر کے درمیان دس لاکھ غیر ملکی کارکنوں نے سعودی عرب چھوڑ دیا۔ ان میں ایک لاکھ 40 ہزار بھارتی، ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی اور 50 ہزار کے قریب بنگلہ دیشی شامل ہیں۔

سعودی عرب میں موجود غیرقانونی کارکنوں کے سیکیورٹی اہلکار بھی مستعد ہو چکے ہیں اور انہیں پکڑنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ریاض، جدہ اور مکہ کی کچی بستیوں میں چھاپوں کے دوران ہزاروں غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار کیے جانے والے تارکین میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پولیس کو مختلف جرائم میں مطلوب تھے، جبکہ غیر قانونی تارکین وطن کے ممکنہ ٹھکانوں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ جاری ہے۔

ملک میں آئے روز نئے قواعد و ضوابط متعارف کرانے سے غیر ملکی کارکنوں کے لیے ماحول میں تبدیلی آ رہی ہے، تاہم اخباری اطلاعات کے مطابق ان اقدامات کو مزید مشاورت کے لیے ابھی روک دیا گیا ہے۔ سعودی وزارتِ محنت اور افرادی قوت ان تجاویز کا جائزہ بھی لے رہی ہے جس کے تحت غیر ملکی کارکنوں کی سعودی عرب میں قیام کی زیادہ سے زیادہ مدت کو سات سال کر دیا جائے اور اس عرصے کے دوران اپنے اہل خانہ کو لانے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

تجویز کردہ نظام کے تحت روز گار کے لیے آنے والا ایک غیر ملکی کارکن اگر اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اسے ایک کی بجائے دو غیر ملکی افراد تصور کیا جائے گا۔ ایک ترک وطن کو اپنی بیوی کے ساتھ سعودی عرب میں رہنے کے لیے ایک اعشاریہ پانچ پوائنٹس حاصل کرنے ہوں گے اور ہر بچے کے لیے ایک پوائٹ کا ایک چھوتھائی حصہ اپنے ذمے لینا ہو گا۔

بہت سارے یہ سمجھتے ہیں کہ اب یہاں زندگی گزارنے کے لیے حالات مشکل ہوتے جا رہے ہیں

اس کے علاوہ نوکری دینے والے شخص کو اتنی ہی سعودی شہریوں کو ملازمت دینا ہوگی جتنی وہ غیر ملکی تارکین وطن کو دیتا ہے۔

تارکین وطن کا خیال ہے کہ نئے قوانین کو متعارف کرانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تارکین وطن کے خرچ پر زیادہ سے زیادہ سعودی شہریوں کو روزگار دیا جائے۔

ٹھیکیداروں کو مزوور حاصل کرنے اور اپنے منصوبے وقت پر مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

راشد حسین جدہ: بدھ 5 فروری 2014
===========

بدلتے حالات اور قانون کے مطابق نئے ویزہ پر گلف میں جانے والے پہلے پوری معلومات اپنے کسی مخلص عزیز سے حاصل کر لیں ورنہ جو رقم لگائی ھے اس کے ساتھ وقت بھی ضائع ہو گا۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
کویت میں غیر ملکی لیبرز کو پانچ سال مکمل کرنے کے بعد نکال دیا جائے گا

کویت: کویت میں غیر ملکی لیبرز کو پانچ سال مکمل کرنے کے بعد نکال دیا جائے گا؟۔

کویت میں غیر ملکی کارکنوں کو پانچ سال پورے کرنے کے بعد ڈیپورٹ کرنے کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔

کویت میں انسانی حقوق کی تنظیموں، سماجی تنظیموں اور میونسپل کونسل ممبران نے مسودے کو مسترد کرتے ہوئے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انسانی حقوق کویت کے سابق چیئر پرسن علی البغلی نے کویت سے غیر ملکی لیبر میں کمی کے اس طریقہ کار کو حیران کن قرار دیا ہے۔ انہوں نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مسودے سے کویت کے مفادات بین الاقوامی سطح پر متاثر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن غیر ملکیوں نے کویت میں مسلسل 25 سال کام کیا ہے ان کو تو مستقل سکونت کا حق ملنا چاہیے۔

میونسپل کونسل کے رکن ڈاکٹر حسن کمال نے کہا کہ تارکین وطن کو پانچ سال بعد ڈیپورٹ کرنے والا مسودہ ناقابل قبول ہے۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر کویت کا وقار خراب ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی تارکین وطن کو کویت میں اپنے پیشے میں قدم جمانے کیلئے پانچ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اگر غیر ملکی لیبر کم کرنا چاہتی ہے تو وہ ویزوں کی تجارت کرنے والوں گرفتار کرے۔

ٹریڈ یونین فیڈریشن کویت میں غیر ملکی لیبر کے آفیسر عبدالرحمن الغانم نے مسودے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غیر منطقی اور ناممکن ہے۔ اس طرح کا مسودہ کویت میں نافذ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مسودے کویت میں جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہیں۔ کویت کی قومی اسمبلی ویزہ تاجروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا قانون پاس کرے تاکہ ملک میں غیر ضروری لیبر کی آمد کو روکا جا سکے

دی پاکستانی نیوزپیپر: 2014 - 02 - 04
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
جدہ میں زیرِحراست پاکستانیوں کی حالت زار پر سپریم کورٹ کا نوٹس

پاکستان کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سعودی عرب کے شہر جدہ کے ایک حراستی مرکز میں مقیم پاکستانیوں کی حالت زار سے متعلق نوٹس لیتے وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔

چیف جسٹس نے یہ نوٹس سعودی عرب میں مقیم علی خان نامی شخص کی طرف سے بھیجی جانے والی ایک ای میل پر لیا ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق اس ای میل میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر تین ہزار سے زائد پاکستانیوں کو سعودی حکام نے گرفتار کر کے ملک واپس بھیجنے کے لیے جدہ میں واقع ایک مرکز میں رکھا ہوا ہے جہاں پر متعدد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

ای میل میں مزید کہا گیا ہے کہ وطن واپس بھیجنے کے لیے پاکستانی سفارت خانے نے کاغذات تیار کرنے ہیں لیکن سفارت خانے کے حکام اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

چیف جسٹس نے وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں ایک ہفتے میں جامع رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔ رپورٹ جمع کروائے جانے کے بعد عدالت اس معاملے کی سماعت کرے گی۔

کفیل لازمی ہے
سعودی عرب میں ویزا اور رہائشی پرمٹ ہونے کے باوجود اپنے کفیل کے علاوہ کسی اور جگہ کام کرنا غیرقانونی ہے اور ایسا کرنے والے کو دو برس تک قید اور ایک لاکھ سعودی ریال تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

یاد رہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفیر نعیم خان نے چند روز قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ سفارت خانے نے اس معاملے کو سعودی حکام کے ساتھ اُٹھایا ہے جنہوں نے اس بارے میں پاکستانیوں کے ساتھ خاصا نرم رویہ رکھا ہے۔

اُنہوں نے کہا تھا کہ سعودی حکام نے پاکستانیوں سمیت اُن غیر ملکیوں کا سعودی عرب میں قیام غیر قانونی قرار دیا ہے جو مزدور کے ویزے پر تو آتے ہیں لیکن یہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تدریس کے شعبے سے منسلک ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ وہ افراد بھی اس شعبے میں شامل ہیں جن کے کفیل کے پاس کوئی کام نہیں ہے اور وہ چھپ چھپا کر کام کرتے ہیں۔

نعیم خان کے بقول پاکستانی سفارت خانے کا عملہ دن رات ان افراد کو وطن واپس بھیجنے کی کوششوں میں مصروف ہے تاہم سعودی عرب میں مقیم پاکستانی شہری ان کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔

شہزاد ملک: جمعرات 6 فروری 2014
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سعودی عرب: کئی پاکستانی کفیلوں کے ہاتھوں بلیک میل

بعض تارکینِ وطن کا کہنا ہے کہ جو پاکستانی قانونی طور پر کفیلوں کے پاس کام کر رہے ہیں اُن میں سے اکثریت کو پیسے نہیں مل رہے اور تنخواہ کا مطالبہ کرنے پر پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔

ظہور عباسی اُن ہزاروں پاکستانیوں میں سے ہیں جو لاکھوں روپے خرچ کر کے ویزا حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن وہ بھی سعودی عرب میں چھپ چھپا کر کام کر رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پہلے تو اُن کا سٹیٹس قانونی تھا لیکن نئے قوانین کے بعد وہ بھی غیر قانونی قرار دیے گئے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اب اُن کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ چھپ کر ہی کام کریں کیونکہ پاکستان میں اُن کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ واپس آکر وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔

ظہور عباسی کا کہنا تھا کہ 'جب تک کفیل کو پیسے نہیں دیں گے تو وہ باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دے گا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ پولیس کو اطلاع بھی دے سکتا ہے جس کے بعد پولیس گرفتار کر کے وطن واپس بجھوا دے گی۔'

ایک اور پاکستانی محمد فیاض کا کہنا تھا کہ 'چھپ چھپا کر کام کرنے والے پاکستانی اپنی تنخواہ کا اسّی فیصد حصّہ کفیلوں کو دے رہے ہیں جبکہ صرف بیس فیصد اپنے گھروں کو بجھوانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔'

اُنھوں نے دعوی کیا کہ جو پاکستانی قانونی طور پر کفیلوں کے پاس کام کر رہے ہیں اُن میں سے اکثریت کو پیسے نہیں مل رہے اور تنخواہ کا مطالبہ کرنے پر پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔

غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی حالت زار سے متعلق پاکستانی سفارت خانے کے رویے کے بارے میں محمد فیاض کا کہنا تھا کہ دو دو روز تک پاکستانی سفارت خانے کے باہر لائنوں میں لگے ہوتے ہیں لیکن اُن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سفارت خانے کا عملہ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے اور اُنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

محمد فیاض کا کہنا تھا کہ سفارت خانے کے عملے کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو سفارت خانے کے باہر لوگوں کی مدد نہیں کرتے وہ حراستی مرکز میں قید پاکستانیوں کی مدد کو کہاں پہنچتے ہوں گے۔

سعودی عرب میں مقیم صحافی راشد حسین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں کفیلوں کے خلاف کارروائی کرنے کا قانون تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہونے کی مثالیں بہت کم ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ اب سعودی عرب میں اس بات کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر ایک طرف غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تو دوسری اُن کفیلوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو پیسے لے کر ویزے بیچتے ہیں اور بعد میں اُن غیر ملکیوں سے پیسے لے کر اُنھیں دوسری جگہ کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

شہزاد ملک: جمعرات 6 فروری 2014
 
Top