حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
سعودی عرب کی ایک عدالت نے سات سائبر کارکنوں کو فیس بک کے ذریعے لوگوں کو احتجاج پر اکسانے کے الزام میں پانچ سے دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ان افراد کو گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے مقدمے کی سماعت اس سال اپریل میں شروع ہوئی تھی۔
ان لوگوں پر انٹر نیٹ پر ایسے پیغامات شائع کا الزام ہے جس سے احتجاج اور مظاہروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ان پر براہ راست مظاہروں میں شامل ہونے کا الزام نہیں ہے۔
اس فیصلے کو ملک میں آن لائن سیاسی مخالفت کے خلاف تازہ کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کی سماعت دہشت گرد مخالف عدالت میں کی گئی۔
سب سے زیاد دس سال کی سزا اس کارکن کو دی گئی ہے جس پر یہ الزام ہے کہ اس نے فیس بک پر دو ایسے گروپ بنائے تھے جس پر احتجاج کے بہتر طریقوں کی وضاحت کی گئی تھی۔
انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا ہے کہ ان تمام افراد نے فیس بک کے ذریعے ممتاز شیعہ عالم توفیق العمرو کی حمایت کی تھی۔
شیعہ عالم کو آئینی بادشاہت کے لیے آواز اٹھانے پر فروری سنہ 2011 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کی گرفتاری کے بعد ملک کے شمالی علاقوں میں جہاں ملک کے زیادہ تر خام تیل ہیں وہاں حکومت مخالف عوامی مظاہروں کی ایک لہر اٹھی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ان سات لوگوں کو جون کی 24 تاریخ کو عوامی مظاہرے بھڑکانے اور بد امنی پیداکرنے کی کوشش کے الزام میں سزا سنائی گئی۔
عدالت نے انہیں سفر کرنے کی بھی ممانعت کی ہے۔
ہیومن رائٹس کے مطابق ملزمان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں اقرار نامے پر دستخط کرنے کے لیے ٹارچر کیا گیا۔
مشرق وسطی میں بی بی سی کے مدیر سباسٹین یوشر کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں دو عناصر ہیں جن کے بارے میں سعودی حکومت تشویش رکھتی ہے ایک آن لائن سیاسی تنقید اور دوسرے ملک کے مشرقی علاقوں میں شیعہ اقلیت کے ذریعہ احتجاجی مظاہرے۔
واضح رہے کہ حال میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی رضاکاروں کو قید میں ڈالا گیا ہے۔
جون کے شروع میں دو خواتین کو مبینہ طور پر ایک عورت کو اسکے خاوند کے خلاف بھڑکانے کے جرم میں جیل ہوئی ہے۔ ان عورتوں نے کینیڈا کی ایک خاتون کی اس وقت مدد کرنے کی کوشش کی جب اس نے اپنے سعودی خاوند کے خلاف شکایت کی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ نے یورپی یونین کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ خلیجی ممالک کے سربراہ سے اتوار کو ملاقات سے قبل ان سزاؤں کی مذمت کریں۔ ربط
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ان افراد کو گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے مقدمے کی سماعت اس سال اپریل میں شروع ہوئی تھی۔
ان لوگوں پر انٹر نیٹ پر ایسے پیغامات شائع کا الزام ہے جس سے احتجاج اور مظاہروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ان پر براہ راست مظاہروں میں شامل ہونے کا الزام نہیں ہے۔
اس فیصلے کو ملک میں آن لائن سیاسی مخالفت کے خلاف تازہ کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کی سماعت دہشت گرد مخالف عدالت میں کی گئی۔
سب سے زیاد دس سال کی سزا اس کارکن کو دی گئی ہے جس پر یہ الزام ہے کہ اس نے فیس بک پر دو ایسے گروپ بنائے تھے جس پر احتجاج کے بہتر طریقوں کی وضاحت کی گئی تھی۔
انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا ہے کہ ان تمام افراد نے فیس بک کے ذریعے ممتاز شیعہ عالم توفیق العمرو کی حمایت کی تھی۔
شیعہ عالم کو آئینی بادشاہت کے لیے آواز اٹھانے پر فروری سنہ 2011 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کی گرفتاری کے بعد ملک کے شمالی علاقوں میں جہاں ملک کے زیادہ تر خام تیل ہیں وہاں حکومت مخالف عوامی مظاہروں کی ایک لہر اٹھی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ان سات لوگوں کو جون کی 24 تاریخ کو عوامی مظاہرے بھڑکانے اور بد امنی پیداکرنے کی کوشش کے الزام میں سزا سنائی گئی۔
عدالت نے انہیں سفر کرنے کی بھی ممانعت کی ہے۔
ہیومن رائٹس کے مطابق ملزمان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں اقرار نامے پر دستخط کرنے کے لیے ٹارچر کیا گیا۔
مشرق وسطی میں بی بی سی کے مدیر سباسٹین یوشر کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں دو عناصر ہیں جن کے بارے میں سعودی حکومت تشویش رکھتی ہے ایک آن لائن سیاسی تنقید اور دوسرے ملک کے مشرقی علاقوں میں شیعہ اقلیت کے ذریعہ احتجاجی مظاہرے۔
واضح رہے کہ حال میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی رضاکاروں کو قید میں ڈالا گیا ہے۔
جون کے شروع میں دو خواتین کو مبینہ طور پر ایک عورت کو اسکے خاوند کے خلاف بھڑکانے کے جرم میں جیل ہوئی ہے۔ ان عورتوں نے کینیڈا کی ایک خاتون کی اس وقت مدد کرنے کی کوشش کی جب اس نے اپنے سعودی خاوند کے خلاف شکایت کی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ نے یورپی یونین کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ خلیجی ممالک کے سربراہ سے اتوار کو ملاقات سے قبل ان سزاؤں کی مذمت کریں۔ ربط