• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سعودی عرب میں پانچ لاکھ شامی پناہ گزینوں کی میزبانی

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سعودی عرب میں پانچ لاکھ شامی پناہ گزینوں کی میزبانی
دبئی ۔ العربیہ
بدھ 9 ستمبر 2015م
شام میں خانہ جنگی کے نتیجے میں لاکھوں شہریوں کی پُرخطر راستوں کے ذریعے یورپ منتقلی کی خبروں کے بعد یہ کہا جانے لگا تھا کہ خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ کیوں نہیں دے رہا ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والے اعدادو شمارمیں بتایا گیا ہے کہ یہ بات قطعی طور پر بے بنیاد ہے کہ سعودی عرب نے شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں پانچ لاکھ شامی پناہ گزین سعودی عرب میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے نہ صرف یہ کہ انہیں عارضی قیام کا حق دیا گیا ہے بلکہ اُنہیں روزگار کی فراہمی کے ساتھ مفت میں صحت اور تعلیم کی سہولتیں بھی مہیا کی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام سے تین لاکھ باشندے عارضی اورمحدود مدت کے ویزوں پر سعودی عرب آئے تھے مگر وہ واپس نہیں جا سکے ہیں۔ ان میں ایک لاکھ شامی طلباء سعودی عرب میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے انہیں واپس جانے کے لیے کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا ہے۔

شام سے نقل مکانی کر کے سعودی عرب آنے والے نصف ملین شہریوں کو عالمی سطح پر پناہ گزینوں میں اس لیے رجسٹرڈ نہیں کیا گیا کہ سعودی عرب نے انہیں اقامت، روزگار، صحت اور دیگر بنیادی شہری سہولتیں مہیا کر رکھی ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سنہ 2011ء سے قبل سعودی عرب میں شامی تارکین وطن کی تعداد دو سے اڑھائی لاکھ کے لگ بھگ تھی، آج ان میں تین چوتھائی ملین مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ ان میں ایک لاکھ کو اقامت کے ساتھ روزگار کی سہولتیں بھی حاصل تھیں۔ شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد وہاں سے مزید 3 لاکھ افراد سعودی عرب عارضی ویزوں پر آئے مگر واپس نہیں گئے۔ سعودی عرب ان کی بھی میزبانی کررہا ہے۔ انہیں مفت تعلیم، صحت اور دیگر سہولتیں بھی مہیا کی جا رہی ہیں۔

سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے پہلے سے موجود شامی تارکین وطن کو مشکلات میں گھرے اپنے اہل خانہ کو بھی لانے کی اجازت دے تھی جس کے بعد بڑی تعداد میں شام سے لوگ نقل مکانی کرتے ہوئے سعودی عرب میں داخل ہوئے۔

ح
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
بہت شکریہ محترم کنعان صاحب !
یہ خبر پڑھ کر دلی خوشی ہوئی ۔۔۔اور سعودیہ والوں کیلئے دل سے دعاء نکلی کہ اللہ تعالی انہیں امت مسلمہ اور انسانیت کیلئے مزید ’’ کارِ خیر ‘‘
کی توفیق دے ۔۔
پناہ گزینوں کی میزبانی، اور ان سے تعاون کے ضمن میں اہل پاکستان اور سعودی عرب نمایاں خدمات ہیں
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بی بی سی کی ایک بہودہ خبر پر میں اپنی رپورٹ پیش کرنے والا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ شائد کچھ دن تک کوئی خبر سامنے آ جائے، اب اس پر میں اپنی رائے پیش کر سکتا ہوں۔

اس خبر میں جو بھی لکھا ھے وہ درست ھے، الامارات میں میں نے ایک عرصہ گزارا ھے، وہاں ہر بڑے نیشنل سٹور میں داخل ہوتے وقت الگ سے کاؤنٹر بنے ہوئے ہوتے تھے جس پر ان کی امداد کیش میں یا خود مل کے یا کفالت کسی بھی طریقہ سے کر سکتے تھے، تو وہاں عرب نیشنل ہی دیکھنے کو ملتے تھے، اور ساتھ بورڈ سے ان کا نام اور تصاویر نکال دی جاتی تھیں، یہ سلسلہ اب بھی وہاں پر یقیناً ہو گا، مسئلہ یہ ھے کہ وہ نیکی پر واویلا نہیں کرتے بلکہ خاموشی سے یہ کام کرتے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ میں 1999 میں دو ہفتوں کے لئے جب لندن آیا تھا اس وقت میرا قیام گریوزینڈ کینٹ میں ہوا، وہاں گریوزینڈ مسجد میں شیخ مسجد سے اچھا تعلق بنا اس وقت انہوں نے بتایا کہ اس مسجد پر جگہ کسی نے ہدیہ کی اور ایسے ہی چادریں بچا کر نماز اور جمعہ پڑھا جاتا تھا، پھر ایک دن ایک عرب نیشنل جمعہ پڑھنے آیا اور کسی کو ایک چیک دے گیا کہ یہ شیخ کو دے دینا اور کہنا کہ پوری مسجد میں قالین بچھا لیں، جب چیک شیخ مسجد کو دیا تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی کو جلدی باہر جا کر دھونڈوں، جس پر وہ جا چکا تھا، پھر انہوں نے کہا کہ وہ آدمی دوبارہ جب بھی آئے تو مجھے بتانا، پھر کچھ دن بعد وہ عرب نیشنل دوبارہ آیا تو شیخ صاحب نے اس کو کہا کہ اس پوری مسجد کو تیار کروا دو، تو اس نے کسی کمپنی سے کنٹیکٹ کر کے وہ مسجد مکمل تیار کروا دی، جزاک اللہ خیر۔

والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
10408691_889952551060159_8162129360088418184_n.jpg


دشمن واویلا کر رہے ہیں کہ غیر مسلم پناہ دے رہے ہیں اور سعودی عرب نہیں .............. 8 لاکھ شامی سعودی عرب میں موجود اور 1 لاکھ متاثرہ شامی طلباء زیرِ تعلیم

 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سعودی عرب کی شامی پناہ گزینوں کی مدد کیلئے جرمنی میں 200 مساجد کے قیام کی پیشکش

روزنامہ پاکستان
11 ستمبر 2015

ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب نے شامی پناہ گزینوں کی مدد کیلئے جرمنی میں 200 مساجد کے قیام کی پیشکش کر دی ہے اور کہا ہے کہ سعودی عرب ہر 100 پناہ گزینوں کیلئے ایک مسجد قائم کرے گا۔ تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے جرمنی کی جانب رخ کرنے والے شامی پناہ گزینوں کی مدد کیلئے 200 مساجد کے قیام کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر 100 پناہ گزینوں کیلئے جرمنی میں ایک مسجد قائم کی جائے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ روز سے شامی پناہ گزینوں کو اپنے ممالک میں پناہ نہ دینے پر خلیجی ریاستوں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم اب سعودی حکام نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کا شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ نہ دینے کا تاثر بالکل غلط ہے کیونکہ شام میں جنگ کی شروعات کے بعد سے اب تک سعودی عرب میں 5 لاکھ کے قریب شامی شہریوں کو روزگار فراہم کیا گیا ہے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
'سعودی عرب میں شامی تارکین وطن کی تعداد 25 لاکھ'

شامی شہریوں کے ساتھ پناہ گزینوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا
العربیہ ڈاٹ نیٹ
ہفتہ 12 ستمبر 2015م

سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ ریاض حکومت شام مصیبت زدگان کے حوالے سے کی جانے والی امدادی مساعی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹ رہی ہے۔ یہ الزام بے بنیاد ہے کہ سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کوپناہ نہیں دے رہا ہے بلکہ۔ حقیقت یہ ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے بعد سے اب تک 25 لاکھ شامی شہریوں کو سعودی عرب میں پناہ دی گئی ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شام سے آنے والے بے سہارا شہریوں کے ساتھ دینی اور انسانی بنیادوں پر برابری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے شامی شہریوں کے لیے پناہ گزین یا مہاجرین کی اصطلاح استعمال کی ہے اور نہ انھیں پناہ گزینوں کے طور پر ڈیل کیا جاتا ہے۔ اب چونکہ ذرائع ابلاغ میں سعودی عرب پر شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کرنے کے باربار بھونڈے الزامات عاید کیے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شام میں عوامی انقلاب کی تحریک کے سب سے پر زور حامی سعودی عرب نے شامی پناہ گزینوں کو اپنی سرزمین میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ اس لیے اب یہ بتانا ضروری ہوچکا ہے کہ سعودی عرب پچھلے چار سال کے دوران پچیس لاکھ شامی شہریوں کا استقبال کرچکا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شام میں جاری بغاوت اور خانہ جنگی کے بعد پہلے مرحلے میں شہریوں نے سعودی عرب کی طرف نقل مکانی شروع کی تھی۔ غیر علانیہ طورپر سعودی عرب میں اب تک پچیس لاکھ کے قریب شامی شہری پہنچ چکے ہیں۔ سعودی حکومت نے انہیں فوج کی نگرانی میں قائم کیمپوں یا پناہ گزینوں کے مراکز میں نہیں رکھا بلکہ انہیں ہر قسم کی آزادی فراہم کی گئی ہے۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2012ء کے بعد سعودی عرب نے شام سے آنے والے طلبہ وطالبات کو اپنی جامعات میں تعلیم کے حصول کا بھی مفت حق دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف تین سال کے عرصے میں ایک لاکھ شامی طلبہ سعودی عرب کی جامعات میں زیرتعلیم ہیں۔ ان طلبہ کو سعودی عرب کے مقامی شہریوں کی طرح صحت، تعلیم اور دیگر سماجی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔

سعودی عرب میں آنے والی شامی پناہ گزینوں کی آباد کاری کےساتھ ساتھ الریاض حکومت نے شام کے اندر پھنسے شہریوں، لبنان اور اردن سمیت یورپی ملکوں کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کی بھی ہر ممکن مدد فراہم کی ہے۔ سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے خلیجی ممالک میں سب سے زیادہ نقد امداد فراہم کرتا ہے۔ 31 مارچ 2015ء کو کویت میں منعقدہ تیسری بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب کی طرف سے شامی شہریوں کی بحالی اور آباد کاری کے لیے 70 کروڑ ڈالرز کی رقم دی جا چکی ہے۔

حکومتی ذرائع نے ذرائع ابلاغ میں آنے والے الزامات اور گمرام کن پروپیگنڈے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ جتنی مدد سعودی عرب کی جانب سے شامی شہریوں کے لیے کی گئی ہے، کسی دوسرے ملک نے نہیں کی۔ اس لیے یہ الزام قطعی بے بنیاد ہے کہ سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روک رہا ہے بلکہ سعودی عرب نے پچیس لاکھ سے زائد شامیوں کو اپنے ہاں ہر قسم کی شہری سہولتیں مہیا کر رکھی ہیں۔

یہ امر قابل ذکر رہے کہ ان دنوں جب شامی پناہ گزینوں کے یورپی ملکوں کی طرف جانے کی خبریں سامنے آئیں تو ذرائع ابلاغ میں خلیجی ملکوں بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ملکوں پر کڑی تنقید کی گئی اور یہ کہا گیا کہ خلیجی ممالک نے شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کرکھے ہیں۔ جس کے باعث لاکھوں افراد یورپ کی طرف پناہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔

ح

 
Top