ظفر اقبال
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 22، 2015
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 104
سفر نامہ ظفر
انسان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے اور اس کی تخلیق کا مقصد بھی بڑا عظیم ہے اسطرح کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو بغیر مقصد کے تخلیق کی گئی ہو ۔انسان کی کامیابی اس بات میں ہے کہ وہ جو بھی کام کرے اس کام کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہو اور اس کی زندگی بغیر کسی مقصد کے نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اپنی منزل اور مقصد حیات کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے ۔جو بندہ بغیر مقصد کے کوئی بھی کام کرتا ہے کامیابی نام کی کوئی چیز اسے حاصل نہیں کو سکتی جب تک وہ اپنا مقصد واضع نہیں کرتا اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دنیا میں ہمیشہ ترقی بھی انہی لوگوں نے کی ہے جو زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد رکھتے تھے۔اور تاریخ اس بات سے بھر ی پڑی ہے جنہوں نے بغیر مقصد کے زندگی گزاری اور وقت نے سوائے ذلت کے کچھ ان کے ہاتھ نہیں آنے دیا ۔ انسان کی زندگی میں کوئی بھی کام مقصد سے خالی نہیں ہونا چاہیے ۔چاہیے وہ سیرو تفری ہو یا کوئی اور کام مگر سیروتفری بھی کسی بڑے مقصد کی تکمیل کےلیے ہو ۔یہ نہ ہو کے انسان پیسہ بھی لگائے اور وقت بھی ضائع کر بیھٹے مگر سوائے شرمندگی اٹھانے کے کچھ ہاتھ نہ آئے ۔ راقم الحروف کو 5اگست 2016 بروزجمعرات اپنے محسن ڈاکٹرحافظ محمدشفیق طاہر صاحب اور عاطف یوسفی صاحب امام جامعہ محمدی مسجد برما ٹاؤن اسلام آباد کی طرف سے فون کال موصول ہوئی جس کا مقصد مجھ جیسے ناچیز کو تین روزہ دعوتی ‘سیاحتی اور اصلاحی پروگرام مرکزی جمعیت اہلحدیث اسلام آباد کی طرف سے دعوت دینا تھی ۔میں تھاکہ انکار نہ کرسکا ۔محسنین کے حکم پر راقم الحروف جمعرات تقریباً 4 بجے لاہور لاری اڈے سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا اور رات تقریباً 9 بجے کے قریب کھنہ پل اسلام آبا داسٹاپ پہ پہنچا۔ میرے انتظار میں ڈاکٹر حافظ محمدشفیق طاہر صاحب کھنہ پل کھڑے میرا انتظار کر رہے تھے ۔ مجھے ملے انتہائی خوشی ہوئی کیونکہ میں واہا ں ایک اجنبی علاقہ میں مسافر کی حثیت رکھتا تھا جسے واہاں سوائے ڈاکٹر صاحب کے کوئی نہیں جانتا تھا ۔سفر کی تھکاوٹ آپنی جگہ مگر ڈاکٹر صاحب کی شفقت اور مہمان نوازی اور خندہ پیشانی سے ملنے کی وجہ سے سب کچھ بھول گیا۔ اسلام آباد ایک ہوٹل میں داخل ہوئے اور سیر ہو کر کھانا کھانےکے بعدبرما ٹاؤن قیام گاہ کی طرف روانہ ہوگے ۔ واہاں پہنچے تو رات کا کافی حصہ بیت چکا تھا ۔ننید تھی کہ غلبہ جمائے بیٹھی تھی۔ واہاں مسجد میں پہنچے کمرے میں داخل ہوئے سامان سفر رکھا اور سو گئے ۔ کچھ دیر بعد مؤذن نے فجر کی آذان کہی اور نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوئے ۔اپنے محسن عاطف یوسفی صاحب سے پہلی ہی ملاقات تھی کہ محبت و شفقت کے ساتھ ساتھ مہمان نوازی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔سلام دعا ہوئی اور راقم الحروف کو روانگی کا الٹی میٹ دے دیا گیا کہ ہم نے جمعہ کی نماز پڑھ کر (مدرسہ صوت القرآن علی مسجد ای 8۔1 اسلام آباد)کے لیے روانہ ہونا ہے اور عصر کی نماز ان شاء اللہ وہاں جا کر ادا کرنی ہے ۔اسی ترتیب سے عصر کی نماز ادا کرنے کے بعدراقم الحروف اور میزبان عاطف یوسفی صاحب برما ٹاؤن سے جامعہ مسجد علی کے لیے روانہ ہوگے ۔واہاں پہنچے قافلہ تیار تھا ۔ 150 کے قریب علماء کرام گاڑیوں میں موجود تھے۔ واہاں عصر کی نماز ادا کی گاڑی میں بیٹھے اور خیبر پختوخواں توحیدآباد ضلع آیبٹ آباد کے لیے روانہ ہو گے ۔واہاں شام4:30 بجےپہنچے۔واہاں پہنچ کر مغرب کی نماز ادا کی علاقے کے لوگوں سے ملے سامان محفوظ کیا اور اتنی دیر کو عشاء کی آذان ہوئی نماز ادا کرنے کے بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آ باد کے صدر محترم حافظ مقصود سلفی صاحب خطاب کے لیے کرسی پر بیٹھے علماء کے جم غفیر کو سلام اور اہلا وسہلا و مرحبا کہا اور ابتدائیہ کلمات کہنے کے بعد اپنی گفتگوں کا آغاز اس حدیث رسول سے کیا۔
حدیث: انماالاعمال بالنيت (بخاري )
اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد مسجد کی طرف چل کرجانے کی فضیلت اور مہمان نوازی کی فضیلت کو احادیث مبارکہ کی روشنی میں واضع کیا اور اس 3روزہ دورے کا مقصد سامعین کے سامنے بیان کیا۔ ذکر الہی کے لیے مجالس منعقد کرنے کی فضیلت پر بھی اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالی ۔
--ولذکراللہ اکبر---فاذکرونی اذکرکم۔
آیت:الذین یستمعون القول .........اولئك الذین ھداھم اللہ.....۔
حدیث مبارکہ :
النیت المؤمن خیرمن العمل۔
آیت: اطیع اللہ و اطیع الرسول واول الامر منکم۔
اس آیت میں مذکور اول الامر منکم سے استدلال کرتے ہوئے امیرکی اطاعت کو واضع کیا۔
آخر میں مولانا صاحب فرمانے لگےکہ علما کی مجالس کی برکت اور علماء کے درمیان وقت گزارنا اور نصیحتوں کو حاصل کرنا کسی سعادت سے کم نہیں اس لیے اس بابرکت مجلس کو معمولی خیال مت کرنا ۔
٭مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد کے نائب امیر جناب حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی جن کا موضوع گفتگوں تھا۔
((دعوتی اور اصلاحی دوراہ کے مقاصد کیا ہیں))۔؟
شیخ محترم نے اپنی گفتگوں کا آغاز اس بات سے کیا کہ سب سے قبل میں انتظامیہ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس با مقصدو بابرکت دورے کا انعقاد کیا ۔اس کے بعد فرمانے لگے اس دعوتی اور اصلاحی و تربیتی و سیاحتی دوراجات کا مقصد اصلاح احوال اور نفس کی تربیت کے ساتھ ساتھ امیر کی اطاعت کی ضرورت اور اہمیت کو بیان کرنا ہے ۔
حدیث:من اطاع امیری فقد اطاعنی ۔
دوراہ کے مندرجہ ذیل مقاصد:
1۔امیر کی اطاعت کی اہمیت بیان کرنا ہے ۔
2۔دعوتی و اصلاحی پروگرام سے لوگوں اور نفس کے اصلاح پر توجہ دلانا ہے۔
آخر میں کھانے کے آداب اور اپنے کو دوسرے پر ترجیع کی ترف سامعین کی توجہ مبذول کروائی۔
٭حضرت مولانا مقصود احمد سلفی صاحب نے (6۔8۔2016)بروز ہفتہ بعد از نماز فجر درس قرآن کا 4:35پہ آغاز کیا۔
آیت :یدعون ربھم خوف وطمعا ومما رزقنھم......۔
مذکورہ آیت ذکر کرنے کے بعد شیخ محترم فرمانے لگے کہ تہجد کی نماز کا اہتمام کریں اور اللہ تعالیٰ سے محبت کا اظہار کرنا ۔
آیت:وما خلفت الجن والانس الا لیعبدون ۔
اس مذکورہ آیت کو بیان کرنے کے بعد مولانا صاحب فرمانے لگے کہ:
عبادت کیا ہے: ؟
جھکنا ‘عاجزی ‘انکساری عبادت توقیفی ہے ۔
اور توقیفی عبادا ت اپنی عقل سے نہیں بلکہ اللہ کی مرضی اور حکم کے مطابق کرنی چاہیے تب ہی وہ عبادت کہلائے گئی اور وحی سنت طریقہ ہو گا۔
آیت:
تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ(سورۃسجدہ آیت نمبر16)
مذکورہ آیت کو بیان کرنے کے بعد شیخ محترم فرمانے لگے کہ اللہ سے محبت اور قرب کا سبب کثرت نوافل و سجود ہیں ۔
حدیث قدسی ہے :
اللہ فرماتے ہیں میرا بندہ نفل نماز کے ساتھ میرے قریب ہو جاتا ہے تو میں اس کا ہاتھ جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا کان جس سے وہ سنتا ہے اس کا پاؤ بن جاتا ہو جس سے وہ چلتا ہے ۔
حدیث :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رضى الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
« إِنَّ أَحَبَّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ ، وَأَحَبَّ الصَّلاَةِ إِلَى اللَّهِ صَلاَةُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ، كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ ، وَكَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا »....۔
حدیث مبارکہ:
ففي الصحيحين من حديث أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من صام رمضان إيمانا ً واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه. قال الحافظ ابن حجر في " فتح الباري‘‘"
ان مذکورہ احادیث کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا :
نیت خالص ہو تو رات کو نہ اٹھ سکنے کا ڈر ہو تو عشاء کی نماز پڑھ کر تہجد کی نماز ادا کرلے اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرے تو اللہ تما م قسم کی ضروریات پوری اور تمام مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا۔
شیخ محترم کا ذاتی واقع:
اسلام آباد کے ایک شعیہ ڈی ایس پی نے مجھ پر مقدمہ درج کردیا ۔جس کی سزا ہو سکتی تھی میں نے سفارشات کروائیں مگر کچھ نہ ہو سکا میں نے تہجد کے وقت اٹھ کر اللہ سے دعا کی صبح مجھے فون آیا جلدی اسلام آباد آؤ میں گیا تو بتایا گیا کہ اس ڈی ایس پی کو معطل کر دیا گیا ہے ۔
حدیث مبارکہ:
رات کے ایک تہائی حصہ میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں تو فرماتا ہے کوئی ہے بیماز جسے شفاء چاہیےمیں اس کو شفاہ دو ؟ کوئی ہے جسے رزق چاہیےمیں اسے رزق دو؟ کوئی ہے جسے اولاد چاہیے میں اس کو اولاد دو؟
عزم اور توکل کی کمزوری :
توکل اور عزم میں کمزوری مایوسی کا سبب ہے اور توکل و عزم کی مضبوطی سے نا امیدی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
اصول :
والجزاء من جنس العمل .....۔
جوانی میں عبادت کا اہتمام کرنے والے نوجوانوں کو اللہ قیامت کے روز اپنے عرش کا سایا نصیب فرمائے گا۔
اس کے متصل ہی مرکزی جمعیت اسلام آپاد کے نائب امیر عبدالرؤف صاحب فرمانے لگے کہ دو رکعت نماز اشراق 360 جوڑوں کا صدقہ ادا ہو جاتا ہے ۔فجر کی نماز کے بعد ذکر میں مشغول رہنے والا طلوع شمس کے بعد دو رکعت نماز اشراق ادا کرے تو حج اور عمرے کا ثواب ملے گا۔
٭خطاب :سعودی عرب سے آئے مہمان (عبدالستار قاسم صاحب ) نےجن کا موضوع تھا((آداب مجلس کی ضرور ت و اہمیت)انہوں نے اپنی گفتگوں کا آغاز 5:14پر کیا اور حمدو ثناء کے بعد :
آیت مبارکہ:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحْ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعْ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴿11: سورة المجادلة﴾
آیت مبارکہ:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِفَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (آل عمران:185)
1۔مجلس میں بھیٹے لوگ دوسروں کے لے کچھ گنجائش نکالیں۔
2۔اہل عمل کو مقام دینا چاہیے ۔
حدیث مبارکہ:
ایک شخص حضورنبی کریم ﷺ کی مجلس میں داخل ہوا جگہ کم پڑھنے پر درمیان میں بیٹھ گیا ۔دوسرا آیاٰ آ خر میں بیٹھ گیا ۔ تیسرا آیا جگہ نہ ملنے پر واپس چلا گیا۔
اصول :اجزاء من جنس العمل .....۔ اس اصول کی احادیث میں بہت ساری مثالیں ہیں۔
1۔من بناللہ مسجدا .......۔
2۔من ستر مسلم ستر ہ اللہ یوم القیامۃ.....۔
3۔بندہ مسلمان کی مدد میں جب تک لگا رہتا ہے اللہ اس کبی مدد میں لگا رہتا ہے ۔(حدیث)
4۔کما تدین تدان...۔
5۔وشاق الرسول قم یا فلا وانت اجلس اخہ....۔
آیت مبارکہ:
تفصحوا فی المجالس ......(القرآن)
نوٹ: مذکورہ ادلا میں مجلس میں بیٹھنے کے آداب اور باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے بارے میں تر غیب دی گی ہے ۔اور باہر سے آنے والے کو بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب وہ کسی مجلس میں آئے تو جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے۔
اس طرح مجلس میں داخل ہو کر سلام کرنا چاہیے ۔اور کسی کے لیے احتراماً کھڑا نہ ہوا جائے ۔ آنے والے مہمان کو مجلس میں لانے کے لیے آگے سے جانا اور لا کر مجلس میں بیٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔مجلس سے جاتے وقت سلام کرنا اور اٹھتے وقت دعا پڑھ کر اٹھنا چاہیے ۔مجلس میں کسی کی غیبت نہ کی جائے ۔
مجلس سے اٹھنے کی دعا:
نوٹ:مجلس میں تین قسم کے آنے والے لوگوں کا ذکر ہے ان میں ایک نے کوشش کی تو اللہ نے اس کی مدد کی اسے مجلس میں جگہ مل گئی ۔دوسرے نے لوگوں کی گردنیں پھیلانے سے حیاء محسوس کی اور آخر میں ہی بیٹھ گیا تو اللہ نے بھی اس کا حیا ء کیا۔تسیرے نے منہ موڑا اور چلا گیا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا ........۔اختتام :5:56پر اس کے بعد اشراق کا وقفہ تھااس کے بعدناشتہ تھا۔
٭ حمزہ صاحب آف پنڈی نے تلاوت قرآن پاتک کی سعادت حاصل کی اور اس کے متصل بعد محترم سعید بھیگ صاحب نے نظم سنائی ۔
نظم: مؤمنا توحید والامسئلہ پکار ......چھڈ کے کہ تو سر اک اللہ آگے جھکا۔
دوسری نظم:یعقوب بھائی نے پڑھی ۔
اعلیٰ مقام مؤمن آپنی خودی نہ مٹا.......در در کر نہ سجدے ہر جگہ سر نہ جھکا۔
٭خطاب: مولانا عبد الرؤف صاحب نائب امیر مرکزی حمعیت اہل حدیث اسلام آباد جن کا موضوع تھا ۔
((تین روزہ اس دورے کے اغراض و مقاصدکیا ہیں ))
آیت مبارکہ:
کنتم خیر امت اخرجت لناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر......۔
ایک داعی کے اوصاف کیا ہونے چاہیے :
1۔اخلاص:
انمالاعمال بالنیات .....۔
حدیث مبارکہ:
عمل کی قبولیت کی شرط اخلاص العمل ہے ۔
2۔ علم نافع:
حدیث مبارکہ:فضل العالم کفضل العابد....۔
حدیث مبارکہ:
قیامت کے قریب لوگ ہونگے جو بغیر علم کے لوگوں کو دین بتائیں گئے اور لوگوں کو گمراہ کریں گے ۔
3۔نیک اعمال :
لم تقول ما لا تفعلون ......۔
حدیث مبارکہ:
وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون ....۔
4۔نرمی اور در گزر :
آیت مبارکہ:
فبما رحمۃ من اللہ ....۔
حدیث مبارکہ: مسجد میں پیشاب کرنے والے پڑ نبی اکرم ﷺ کا نرمی کرنا۔
5۔مصائب پر صبر کرنا:
نبی اکرم اور صحابہ اکرام کی دعوتی زندگی کو دیکھ لیں مصائب سے بھری پڑی ہے ۔
6۔حسن اخلاق سے پیش آنا :
آیت:وَ اِنَّكَ لَعَلي خُلُقٍ عَظيمٍ(سوره قلم، آيه4)
حدیث مبارکہ:
حضرت انس نے فرمایا :نبی کریم ﷺ سب سے ذیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔
7۔جگڑے اور تکرار اور غصہ سے پچنا:
حدیث مبارکہ:
آیت المنافق ثلاث اذا حدث کذب و اذا وعدیٰ اخلف و اذا تؤمن خان .....دوسری روایت میں ہے ۔واذا خاصم فجر...۔
٭خطاب :اسحاق زاہد صاحب رکن ’’جمعیت الاحیاء التراث کویت‘‘2:15پراپنی گفتگوں کا آغاز کیا ۔
حدیث:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (سورۃ فصلٰت:33)
تمہید باتیں ذکر کرتے شیخ محترم فرمانے لگے کہ ہمارا اور آپ کا رستہ دین کی بنیاد پر ہے ۔یہاں ہمیں جمع کرنے والے اگر کوئی چیرز ہے تو دین محمدی ﷺ ہے ۔
آیت:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات:10)
جمعیت الاحیاء التراث کویت کا تعارف کرواتے ہوئے فرمانے لگے کہ جمعیت کے تقریباً 9 قسم کے کام ہیں۔
کویت سے زکوۃ اکٹھی کرنا اور غرابا ء میں تقسیم کرنا۔مساجدکی تعمیر کا کام کرنا۔ بیواؤں کی کفالت کرنا ۔دعوت دین کوعام کرنا ۔
گھر کے سربراء کی حثیت سے :
آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ دعوت دین کی طرف گھر والوں کو توجہ دلائیں ۔اخلاص ۔عمل صالح پر توجہ دیں۔اہل آیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں ۔ بچوں کی دینی تر بیت کریں ۔سوشل میڈیاں پر موجود اولاد کے اکاؤنٹس چیک کریں ۔
آیت:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ( سورة التحريم :6) ﴾
٭ خطاب : عبدالستار حماد صاحب ۔
داعی کا کام یہ ہی نہیں صرف امر بالمعروف نہی عن المنکر کا کام کرے بلکہ مساجدو مدارس سے نکل کر باہر فتنوں کی سرکوبی کے لیے بھی کوشش کرے ۔
حدیث:
ایک وقت آئے گالوگ صبح کے وقت مؤمن ہونگےشام کو کافر ہوجائیں گے۔شام کو کافر ہونگے صبح مؤمن ہوجائیں گے۔
جاہل لوگوں سے بحث مت کریں۔
آیت:
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (سورۃالفرقان:63)
حدیث:حضرت عمر نے فرمایا حذیفہ جانتے ہوفتنہ کیا ہے؟
حضرت حذیفہ نے فرمایا :نہیں ۔حضرت عمر نے فرمایا:جو دروازہ فتنوں کے درمیان رکاوٹ ہے وہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا ۔؟مسروق راوی فرماتے ہیں حذیفہ نے فرمایا توڑا جائے گا اور اس مراد خود حضرت عمر ہیں۔
سب سے پہلا فتنہ:
حضرت عثمان کو محصور کرنا تھا۔جس کے بعد بغاوت شروع ہوئی اور مصر سے چل کر آنے والے باغیوں نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا۔
نوٹ:قرآن پاک میں 58 دفع لفظ فتنہ استعمال ہوا ہے ۔
فتنہ کی اقسام:
1۔ باہمی اختلاف :
آیت:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُواوَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَاكَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (آل عمران:103)
2۔بد عملی کا فتنہ:
3۔فتنہ تکفیر :
4۔جہالت کا فتنہ:
5۔لوگوں کے درمین تنگی پیدا کرنے کا فتنہ:
6۔خاوند کی نا فرانی کا فتنہ:
7۔تنفیر کا فتنہ(نفرت پیدا کرنے کا فتنہ)
8۔فتنہ تضخیر( بم دھماکوں کا فتنہ)
9۔تقلید کا فتنہ:
10۔شرک کا فتنہ:
11۔خروج کا فتنہ:
12۔تکبر اور حسد کا فتنہ:
13۔ریاکاری کا فتنہ:
14۔ تصویر کا فتنہ:
15۔فحاشی کا فتنہ:
16۔ بے پردگی کا فتنہ:
17۔ چوری اور قتل کا فتنہ:
18۔لو میرج اور کورٹ میرج کا فتنہ:
19۔دجال کا فتنہ:(اس فتنے میں اسفہان کے 70 ہزار لوگ شریک ہونگے ۔)
20۔منکرین حدیث کا فتنہ:
21۔ شرک کا فتنہ:
22۔شعیت کا فتنہ:
23۔ قادیانیت کا فتنہ:
24۔بہائیت و اسماعیلیت کا فتنہ:
25۔دہشت گردی کا فتنہ:
26۔ملحدین کا فتنہ:
27۔ انکار معجزات کا فتنہ:
28۔لباس کا فتنہ:
29۔زبان کا فتنہ:
30۔زنا کاری اور منشیات کا فتنہ:
٭خطاب :ڈاکٹر ابو بکر صاحب ۔
موضوع: مسجد کا معاشرے کی تربیت پراثر
آیت:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (سورۃ الجن:18)
مسجد: جہاں اللہ کے لیے سجدہ ہوتا ہے۔
معاشرے :افراد کا مجموعہ
اصلاح:مسجد میں جا کر جوتیاں ترتیب سے رکھنا۔
تربیت: درس کے درمیان میں کوئی کہے کسی کو کہ جاؤ جا کر جوتیاں ترتیب سے رکھیں ۔
حدیث: حضرت انس سے رویات ہے کہ :
ایک انصاری صحابی آئے آپ ﷺ سے حاجت کا سوال کیا آپﷺ ۃنے فرمایا تیرے پاس کیا ہے ۔ کہا میرے پاس ایک چٹائی ایک پیالہ آپ ﷺ نے اونچا کیا اور کہا کہ اس کو کون خریدے گا ؟ایک صحابی نے فرمایا میں دو دینار میں خریدتا ہوں تو آپ ﷺ نے اس انصاری صحابی کو فرمایا :جاؤ ایک ایک دینار کا کھانا اور ایک کا گلہاڑا خرید کر لاؤ اور جنگل میں جاؤ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ بیچ کر روزی حاصل کر 15 دن تک آپ مجھے کہیں نظر نہ آئیں ‘یہ ایک مسجدکا کردار ہے ۔
1۔تعلیم و تربیت کے لیے صفحہ اکیڈمی کا انتظام کیا ۔
2۔دارالقضاء کا قیام کیا جہاں فیصلے ہوتے تھے۔
3۔معا شرتی مسائل میں سے قراء کرام گھرو میں جا کر پڑھاتے ہیں جس نے مسجد کا کردار چھین لیا ہے ۔
4۔ تربیت اور منہج کی کتب مساجد میں نمازیوں کو پڑھانی چاہیے۔
5۔اہل علم مسائل پوچھنیں والوں کی رہنمائی کرنی چاہیے ۔
6۔مسجد میں کثرت سے آنے والے کے ایمان کی گواہی دینا۔
7۔مسجد میں آنے والوں کو ٹوکنا نہیں چاہیے۔
8۔نمازیوں کے لیے موسم کے مطابق مشروب کا انتظام کرنا۔
نوٹ: مجلس میں ایک اہل علم عالم دین تھا جو جوتوں کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھتا تھا ساتھیوں کے کہنے پرٹس سے مس نہ ہوا اور ان کے ساتھیوں نے ڈاکٹر عبد الستار حماد صاحب سے جوتے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو حافظ صاحب فرمانے لگے یہ کسی فتنے سے کم نہیں آج کے دور میں گھر میں کلین ہو تو کس کی جرت ہے جوتے میں کلین پر جائے کیا مسجد آن اتنی مظلوم ہو گئی ہے ۔
٭خطاب:ڈاکٹر نصر اللہ صاحب۔
موضوع:تربیت کی ضرورت و اہمیت
حدیث مبارکہ:
إن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما وأورثوا العلم فمن أخذه أخذ بحظ وافر ۔ (أخرجه ابن حبان في صحيحه , وابن ماجه , وابو داوود , والدارمي .)
اس آیت کے مصداق علماء کرام ہیں جن میں بطور مثال مولانا عبد المنان وزیر آبادی اور حضرت گوندلوی صاحب ہیں ۔
حدیث:
7873 :حدثنا يزيد أخبرنا همام عن قتادة عن أبي ميمونة عن أبي هريرة قال قلت يا رسول الله إني إذا رأيتك طابت نفسي وقرت عيني فأنبئني عن كل شيء فقال كل شيء خلق من ماء قال قلت يا رسول الله أنبئني عن أمر إذا أخذت به دخلت الجنة قال أفش السلام وأطعم الطعام وصل الأرحام وقم بالليل والناس نيام ثم ادخل الجنة بسلام (مسار الكتاب: » مسند أحمد » باقي مسند المكثرين » مسند أبي هريرة رضي الله عنه)
1۔تبلیغ کرنے والے کا عمل لوگوں کے لیے نمونہ ہوتا ہے ۔
2۔ایک دوسرے کے لیے دل صاف رکھیں۔
3۔ کسی بھی جگہ سے جو بھی خیر کی بات سنو گھر جا کر بتلائیں۔
آیت:
{ بل هو قرآنٌ مجيد ، في لوحٍ محفوظ } ( البروج 21 – 22)
٭خطاب:ایک عالم و باضل شخصیت
عنوان:دعوت توحید کی اہمیت و افادیت ۔
آیت:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُفَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (36:سورۃ النحل:36)
مقصد حیات:انسانیت کو اللہ کی بندگی کی طرف لوگوں کو دعوت دینا مخلوق کی عبادت سے منع کرنا طاغوت سے منع کرنا۔
طاغوت:اللہ کے علاوہ کسی نظام کو قبول کرنا اس کی بندگی کرنا۔
1۔ تو حید ربوبیت سے بنیاد اور انبیاء کی دعوت کا بنیادی مقصد ہے۔
2۔ دعا کی قبولیت کا سبب توحید ربوبیت کا وسیلہ ہے۔
3۔توحید الوہیت سے دعا کی ابتداء کرنی چاہیے۔
4۔معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔
5۔عقیدے کی درستگی اور زندگی کے باقی معاملات کی درستگی ہونی چاہیے۔
6۔الوہیت سے عقیدے کی خرابی کا خلتمہ ہوتا ہے۔
7۔توحید اسماء الصفات سے تقویٰ کا حصول ممکن ہے۔
8۔تمام خرابیوں سے بچاؤں اور پاکیزگی سے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
9۔قریب المرگ شخص کو نیکی کی نصیحت کرنا
دلیل:حضرت یعقوب نے بچوں کو قریب المرگ کے وقت فرمایا:
مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (سورۃالبقرۃ:133)
10۔دعوت کی بنیاد توحید پرہوتومعاشرے کی تمام خرابی ختم ہو جائے گی۔
11۔توحید باری تعالیٰ اتحاد کا سبب بنتی ہے۔
12۔اخلاص اور خشوع توحید کے سبب ممکن ہے۔
حدیث:
الاحسانُ اَن تَعبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاہُ، فان لَم تَکن تَرَاہُ فَانَّہ یَرَاکَ۔
( بخاری، الصحیح : ٤٣، رقم: ٠٥، کتاب الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان و وجوب الایمان)
٭خطاب: ارشاد الحق اثری صاحب
حمدوثناء کے بعد۔
آیت:
(اللَّهم إني أعوذ بك من قلب لا يخشع)( سورة الزمر، الآية: 22)
حدیث:معاذ بن جبل سے روایت ہے۔
قبیلہ انصار میں سے معاذ بن جبل تھے بیعت عقبہ کے وقت اسلام لائے حج پرگئے تو جمرہ عقبہ کے قریب آپﷺ سے ملاقات ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا :
معاذ میں تم سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں اور اہل یمن کو لکھا کہ اے اہل یمن میں ایک محبوب صحابی کو تمہاری طرف مبلغ بنا کر بھیج رہا ہوں اور اللہ فرشتوں میں معاذ کا ذکر کرتا ہے۔
حدیث:حضرت عمر نے فرمایا:
معاذ نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہو جاتااور عورتیں بانج ہو گیں ہیں کہ معاذ جیسا بچا جنیں۔
حدیث:معاذ بن جبل راوی ہیں:
کہ میں آپ ﷺکے ساتھ سفر میں تھا میں نے آپﷺ کو کہا مجھے کوئی ایسی بات بتاؤ جس سے میں داخل ہو جاؤ۔
آپﷺ نے فرمایا:
ان تعبد اللہ ولا تشرک بہ شیء.......۔
مزید فرمایا:
لا تشرک باللہ وان قطعت و حرکت ولا تترک صلاۃ المکتوبۃ متعمدہ..........۔
اللہ یغفر من یشاء ویعذب من یشاء.......۔
ابراھیم نے فرمایا:
ربنا تقبلمنا انک انت السمیع العلیم........۔
ابو بکر صدیق نے فرمایا:
حضور نماز میں کیا دعا کرو؟
آپﷺ نے فرمایا:
اللھم إنی ظلمت نفسی ظلما کثیرا.......۔
حضرت عائشہ نے فرمایا:
لیلۃ القدر کو کیا پڑھوں ؟
آپﷺ نے فرمایا:
اللھم انی عفوا تحب الافوا........۔
ابن قیم:لکھتے ہیں۔
کہ حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کاش میں کسی درخت کا پتہ ہوتا میرا حساب و کتاب نہ ہوتا۔
حدیث: آپﷺ نے فرمایا :
یا معاذان تمام باتوں کی تجھے اصل نہ بتاؤ؟فرمایا یا رسول اللہ کیوں نہیں فرمائیں:
آپﷺ نے فرمایا:زبان کو کنٹرول میں رکھو حضرت معاذ نے فرمایا کیا ان کی وجہ سے ہماری پکڑ ہو گئی اے اللہ کے رسول ﷺآپﷺ نے فرمایا :
اے معاذ تیری ماں تجھے گم پائے جہنم میں اسی زبان کی وجہ سے لوگ قیامت کے دن اوندھے منہ جہنم میں گرائے جائیں گے ۔
حدیث: آپﷺ نے فرمایا زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت پر میں محمدﷺ تجھے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔
حدیث : من صمت نجاۃ.........۔
حدیث:فلیقل خیر او لیصمت......۔
امام ابن قیم : فرماتے ہیں زبان کو ذکر الہی میں مشغول کرنے میں جو لذت ہے اس کا اندازہ اگڑ بادشاہوں کو لگ جائے تو وہ تخت چھوڑ کر مصلے پر بیٹھ جائیں ۔
٭خطاب: عبد الرشید حجازی صاحب۔
عنوان: ایک نوجوان اپنی دعوت لے کر کیسے چل سکتا ہے۔
شعر سے گفتگوں کا آغاز کیا ۔
جتھے ذکر چلن آم کے آڑوہ دے .......اوتھے کی مجال اے لسوڑیاں دی
فرمانے لگے بڑے بڑے علماؤ کی موجودگی میں میرے جیسا عام آدمی کیا بیان کرے گا کیونکہ دعوت دین کا کام بڑا مشکل اور بڑا عظیم کام ہے ۔اس لیے تیری دعوت کی تمام تر صلاحیتیں اس بات پر بسر ہونکے تیری دعوت سے کوئی ا پنی اصلاح کرلے ۔
داؤد غزنوی کا واقع بیان کرتے ہیں:
کہ ایک دن وہ فرمانے لگے کہ وہ بھ کوئی خطیب ہے جس کے الفاظ اس کی چغلی کریں۔
مندرجہ ذیل باتیں یاد رکھنا:
1۔عنوان کا تعارف اور دعوت دینے کا صحیح طریقہ اور اس کا مطالعہ ضرور کریں۔
2۔ اپنے علم پر پہلے خود عمل کریں ۔
3۔عاجزی و انکساری اور نرمی کے ساتھ امت کی اصلاح کی فکر کرنا۔
حدیث: میری اور تمہاری مثال ان پتنگوں کی ہے جوبھاگ کر آگ پر گر رہے ہیں اور میں کمر سے پکڑ کر تمہیں بچارہا ہوں۔
4۔ لوگوں کے جذبات اور احساسات کو پڑنا اچھے داعی کی نشانی ہے۔
شورش کاشمیری:
لاہور آئے تو مائک سے ہٹ کر کھڑے ہو گے لوگوں نے بتایا حضور مائک ادھر ہے تو فرمانے لگے میں لوگوں کے چہروں سے موضوع تلاش کر رہا ہوں۔
5۔ داعی نرم بات کرے سختی کا جواب نرمی سے دے۔
6۔ داعی لوگوں کو خوشخبری دینے والا ہوں لوگوں کو متنفر کرنے والا نہ ہوں ۔
7۔تشدد سے پاک ذہن رکھنے والا ہوداعی ہونا چاہیے۔
سید نذیر حسین محدث دہلوی کا واقع:
ایک دن اسٹیشن پہ کھڑے تھے کسی طالب علم نے ان کے مدرسے کا نام پوچھا تو فرمانے لگے لا ؤ اپنا سامان مجھے دے دو سامان اتھا کر اپنے مدرسے لے گے ایک دن شیخ کو اس طالب علم نے مسند پر بیٹھے دیکھا تو فرمانے لگا میری مدد کرنے والا شیخ آپ کی طرح تھا تو دعا فرما دیں اللہ ان می عمر میں برکت عطا ء فرما دے ۔
نوٹ: مولانا صاحب فرمانے لگے جو اپنی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے وہ راستے میں آنے والے کتوں کو پتھر نہ مارے بلکہ توجہ سے چلتا رہے
8۔خطیب کو موقع محل اور نفسیات کے مطابق بات کرنی چاہیے ۔
9۔ خطیب و داعی کو مایوس نہیں ہونا چاہیے اور نہ گھبرانا چاہیے۔
10۔تعصب اور نفرت سے پرہیز کرے ۔
11۔ امیر اطاعت اور محبت و اتحاد کی بات کرنے والا ہو۔
٭درس قرآن:ارشاد الحق اثری صاحب۔
آیت: وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔
1۔ تمام مخلوقات کے بعد حضرت آدم کو پیدا فرمایا۔
2۔حضرت انسان کی تخلیق اپنے ہاتھ سے کی ۔
3۔فرشتوں کو حضرت آدم کو سجدہ کرنے کو کہا۔
4۔انسان کو پیدا کرنے کے بعد فرمایا : لقد خلق الانسان فی احسن تقویم ۔
5۔ امام قرطبی نے فرمیا انسان خلاصہ کائنات ہے۔
نوٹ: فرمایا شیخ محترم نے کہ آخری چیزیں بڑی محبوب ہیں۔
1۔ تمام مخلوقات کے بعد حضرت آدم کی تخلیق۔
2۔آخری نبی حضرت محمدﷺتمام انبیاء سے افضل۔
3۔آخری امت محمدی۔
4۔رات کا آخری حصہ۔
5۔دن کی نمازو میں عصر رات کی نمازو میں عشاء۔
٭خطاب: مولانا عبد الوحید لوہی بھیروالے۔
آیت: یا ایھا الرسل بلغ ما انزل الیک من ربک.....۔
حدیث: العلماء ورثت الانبیاء......۔
اصول:الامر فوق الآدب.....۔
منہج دعوت قرآن و سنت پر مبنی ہے ہونا چاہیے کیونکہ اہل کی منہج قرآن و حدیث ہی ہے۔
حجۃ الوداع:
کہ موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:کیا میں نے تمہیں دعوت پہنچا دی ہے؟صحابہ نے فرمایا’’قد بلغت رسالتک‘‘اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت:الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی.......۔
داعی کا مقصد:
یہ ہونا چاہیے کہ میں نے گمراہی سے لوگوں کو بچانا ہے اور اپنے گرد لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہو۔
٭پروفیسرڈاکٹر عزیزالرحمان۔
عنوان:دعوت کے میدان میں جدید وسائل کا ستعمال ۔
سب سے قبل ایجادات کا استعمال اور تعارف بہت ضروی ہے جب قبائلی نظام کے بعد نو آبادیاتی نظام آیا تو وسائل لیجا کرغیر مسلموں نے ترقی کی ۔جاتے وقت انہوں نے دنیا کا نقشہ سامنے رکھ کر خطوں کی تقسیم کی جو ریاست کے نلم سے مشہور ہوئے ۔اس کے ساتھ ہی ثقافت اور نظریہ کی بنیا د
بر ممالک کی تقسیم کی گئی۔
سوال:اس دنیا کو سمجھنا کیو ں ضروری ہے؟
جواب:ہر ملک کی تاریخ اور ثقافت کودیکھ کر ہر خطے کے نظام اور تبدیلوں کو نہ سمجھا جائے تو بغاوت اور فساد برپا ہو سکتا ہے۔
جبکہ کہ فقہ الواقع اور حالات اور لوگوں کے مزاج کو دیکھ کر اگر واہاں دعوت کا کام کیا جائے تو دور رس نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔اس وقت یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ دینا اس وقت کس موڑ پر کھڑی ہے تاکہ فرد کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کی حدود و قیود متعین کی جا سکیں ۔مغرب کے نظریہ مساوات کو جانے بغیر اس کی خرابیوں کو معلوم کیے بغیر دعوت کسی صورت مؤثر نہیں ہوسکتی ۔
جاپان: 40 سال پرانی تہذیب کو یکسر بدل کر رکھ دیا واہاں شراب اور بے حیائی نے عروج پکڑا اور تہذیب ماضی کو دیمک کے طرح چاٹ کر رکھ دیا۔
چین:چین کے لوگ مغربی تہذیب کو ماڈرن تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔
انڈیا:انڈیا نے بھی اپنی تہذیب کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو قبول کرنے میں عافیت سمجھی ۔
پاکستان: مشرف دور میں مغربی تہذیب کو عروج اس وقت میں جب میڈیا کو آزادی دی گئی جس نے نظریہ پاکستان کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔
پاکستانی تہذیب کے مغربی تہذیب کو قبول کرنےکے اسباب :
1۔میڈیا کی آزادی ۔
2۔نصاب تعلیم میں تبدیلی۔
3۔مسئلہ کی نوعیت کو سمجھے بغیر تبدیلی کی کوشش کرنا۔
4۔ موجودہ دور میں خرابی کو سمجھے بغیر تبدیلی کی کوشش کرنا۔
5۔مؤثر طریقہ کا وضع کرنا۔
٭خطاب :سید آصف شاہ بخاری :
عنوان : جماعتی زندگی کی ضرورت و اہمیت۔
جماعتی زندگی میں اتفاق و اتحادکی برکت سے فتنہ و فساد اور غلط نظریات کی تشہیر سے بچا جا سکتا ہے ۔
آیت:اے ایمان والوں جب تم کسی جماعت سے ملوتو ثابت قدمی اختیار کرو اس پر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ملے گی۔
آیت:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا(سورۃ النسا:59) ﴾
آیت:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ َاصْبِرُواِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (:الأنفال :46)
نوٹ: جماعت میں اگر تم سے کوئی مشورہ طلب کیا جائے تو اس پر عمل نہ کیا جائے تو صبر سے کا م لینا اور اطاعت امیر کو لازم پکڑنا۔
دلیل: طائف سے پتھر کھا کر آپﷺ نے دعوت کا کام چھوڑا نہیں بلکہ حکمت اور دنائی سے کام جاری رکھا ۔
دلیل: قیدیوں کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر سے مشورہ طلب کیا مگڑ اس پر عمل نہیں کیا اور حضرت عمر جماعت سے الگ نہیں ہوئے ۔
دلیل: مؤمن کی مثال دیوار کی ہے جس کی ایک اینٹ دوسری طو تقویت دیتی ہے ۔
آیت : سورہ حجرات( اسلام کر لوگوں نے تمہیں تقویت نہیں دی بلکہ یہ ان پر اللہ کا فضل ہے ۔
آیت:سورہ آل عمران:
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران:139)
٭خطاب ابوبکر صدیق:
عنوان: مدینۃ الرسول کے فضائل و مناقب۔
مندرجہ ذیل اس شہرکے مناقب ہیں ۔
1۔ اس شہر کے لیے آپ ﷺ نے امن کی دعا کی ۔
2۔یہ پاکیزہ شہر ہے۔
3۔اس شہر کو ذرۃ محسنت بھی کہاٰگیا۔
4۔ اس شہر کے ناپ طول کے پیمانوں میں برکت ڈال دی گئی ۔
5۔مدینہ میں حرم کی حدود کا تعین کیا گیا ۔
6۔ اس میں گھاس و درخت کاتنے سے منع کر دیا گیا ۔
حدیث: مکہ و مدینہ کی حفاظت فرشتے کر رہے ہیں اور اس شہر عظیم میں دجال کا داخلہ بند کر دیا گیا ۔
7۔ اہل مدینہ کو تکلیف دینے سے منع کر دیا گیا۔
8۔ انصار سے بغض رکھنے سے منع کر دیا گیا۔
9۔فتح مکہ میں حاصل ہونے والے مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کرنے پر آپ ﷺ نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایاکہ تم اس بات پر راضی نہیں کہ دوسروں کے حصے میں بھیڑ بکریا ہوں اور تمہارے حصے میں اللہ اور اس کے روسول ہوتو اس بات پر انصار خوش ہوگے۔
10۔ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کو ہزار نماز کےاجر کے برابر کرار دیا۔
11۔مدینہ میں آپﷺ کی حضرت عمر فاروق اور حضرت ابو بکر صدیق کی قبریں موجود ہیں۔
نوٹ: موجودہ دور میں ہمیں مدینۃ الرسول کے دفاع کے لیے اپنا کردرار واضع کرنا چاہیے ۔
٭خطاب پروفیسر عنایت اللہ مکی
حدیث: ابو سعید خدری سے رویات ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:من اکل طیباً و عمل فی سنۃ اور لوگ ان کی شرارطوں سے محفوظ رہیں تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا۔
٭خطاب عبدالوحید خطیب برما ٹاؤن.....۔
آیت:
وَ ما أُمِرُوا إِلاَّ لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفاءَ وَ يُقيمُوا الصَّلاةَ وَ يُؤْتُوا الزَّکاةَ وَ ذلِکَ دينُ الْقَيِّمَةِ(سورۃ البینة:5)
آیت:
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ (:سورة المجادله:19)
اخلاص اور محنت سے دین کا کام کریں لوگوں کی ملامت کی پروا نہ کریں۔
٭حافظ یحییٰ مقصود بن حافظ مقصود احمد صاحب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد محمد بن سلمان یونیورسٹی اسلام آباد۔
عنوان: علم اور اہل علم کی فضیلت و مناقب۔
ابن قیم:
کتا نجس ہے کسی برتن میں منہ ڈال جائے تو سات دفع دھونے کا حکم ہے اگر یہی کتا جو شکار کے لیے تیار کیا جائے تو اس کا شکار حلال ہے یہ علم کی بنیاد پر ہے ۔
عطا ء بن ابی رباح: حجاز کے مفتی اعظم تھے ۔کالے ر نگ کے موٹی اور چپٹی ناک والے مگر عمل کا یہ عالم تھا کہ جب خطاب کرتے باشاہوں کی گردنیں جھک جاتیں۔
خضر کے پاس موسیٰ کا چل کر علم حاصل کرنے کے لیے جانا۔
اصول: وفوق کل ذی علم علیم........۔
آیت : قال الله تعالى في سورة العلق:
( اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ{1}خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ{2}اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ{3}الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ{4} عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ){5} حدیث: انماالاعمال بالنيت (بخاري )
اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد مسجد کی طرف چل کرجانے کی فضیلت اور مہمان نوازی کی فضیلت کو احادیث مبارکہ کی روشنی میں واضع کیا اور اس 3روزہ دورے کا مقصد سامعین کے سامنے بیان کیا۔ ذکر الہی کے لیے مجالس منعقد کرنے کی فضیلت پر بھی اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالی ۔
--ولذکراللہ اکبر---فاذکرونی اذکرکم۔
آیت:الذین یستمعون القول .........اولئك الذین ھداھم اللہ.....۔
حدیث مبارکہ :
النیت المؤمن خیرمن العمل۔
آیت: اطیع اللہ و اطیع الرسول واول الامر منکم۔
اس آیت میں مذکور اول الامر منکم سے استدلال کرتے ہوئے امیرکی اطاعت کو واضع کیا۔
آخر میں مولانا صاحب فرمانے لگےکہ علما کی مجالس کی برکت اور علماء کے درمیان وقت گزارنا اور نصیحتوں کو حاصل کرنا کسی سعادت سے کم نہیں اس لیے اس بابرکت مجلس کو معمولی خیال مت کرنا ۔
٭مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد کے نائب امیر جناب حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی جن کا موضوع گفتگوں تھا۔
((دعوتی اور اصلاحی دوراہ کے مقاصد کیا ہیں))۔؟
شیخ محترم نے اپنی گفتگوں کا آغاز اس بات سے کیا کہ سب سے قبل میں انتظامیہ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس با مقصدو بابرکت دورے کا انعقاد کیا ۔اس کے بعد فرمانے لگے اس دعوتی اور اصلاحی و تربیتی و سیاحتی دوراجات کا مقصد اصلاح احوال اور نفس کی تربیت کے ساتھ ساتھ امیر کی اطاعت کی ضرورت اور اہمیت کو بیان کرنا ہے ۔
حدیث:من اطاع امیری فقد اطاعنی ۔
دوراہ کے مندرجہ ذیل مقاصد:
1۔امیر کی اطاعت کی اہمیت بیان کرنا ہے ۔
2۔دعوتی و اصلاحی پروگرام سے لوگوں اور نفس کے اصلاح پر توجہ دلانا ہے۔
آخر میں کھانے کے آداب اور اپنے کو دوسرے پر ترجیع کی ترف سامعین کی توجہ مبذول کروائی۔
٭حضرت مولانا مقصود احمد سلفی صاحب نے (6۔8۔2016)بروز ہفتہ بعد از نماز فجر درس قرآن کا 4:35پہ آغاز کیا۔
آیت :یدعون ربھم خوف وطمعا ومما رزقنھم......۔
مذکورہ آیت ذکر کرنے کے بعد شیخ محترم فرمانے لگے کہ تہجد کی نماز کا اہتمام کریں اور اللہ تعالیٰ سے محبت کا اظہار کرنا ۔
آیت:وما خلفت الجن والانس الا لیعبدون ۔
اس مذکورہ آیت کو بیان کرنے کے بعد مولانا صاحب فرمانے لگے کہ:
عبادت کیا ہے: ؟
جھکنا ‘عاجزی ‘انکساری عبادت توقیفی ہے ۔
اور توقیفی عبادا ت اپنی عقل سے نہیں بلکہ اللہ کی مرضی اور حکم کے مطابق کرنی چاہیے تب ہی وہ عبادت کہلائے گئی اور وحی سنت طریقہ ہو گا۔
آیت:
تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ(سورۃسجدہ آیت نمبر16)
مذکورہ آیت کو بیان کرنے کے بعد شیخ محترم فرمانے لگے کہ اللہ سے محبت اور قرب کا سبب کثرت نوافل و سجود ہیں ۔
حدیث قدسی ہے :
اللہ فرماتے ہیں میرا بندہ نفل نماز کے ساتھ میرے قریب ہو جاتا ہے تو میں اس کا ہاتھ جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا کان جس سے وہ سنتا ہے اس کا پاؤ بن جاتا ہو جس سے وہ چلتا ہے ۔
حدیث :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رضى الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
« إِنَّ أَحَبَّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ ، وَأَحَبَّ الصَّلاَةِ إِلَى اللَّهِ صَلاَةُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ، كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ ، وَكَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا »....۔
حدیث مبارکہ:
ففي الصحيحين من حديث أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من صام رمضان إيمانا ً واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه. قال الحافظ ابن حجر في " فتح الباري‘‘"
ان مذکورہ احادیث کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا :
نیت خالص ہو تو رات کو نہ اٹھ سکنے کا ڈر ہو تو عشاء کی نماز پڑھ کر تہجد کی نماز ادا کرلے اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرے تو اللہ تما م قسم کی ضروریات پوری اور تمام مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا۔
شیخ محترم کا ذاتی واقع:
اسلام آباد کے ایک شعیہ ڈی ایس پی نے مجھ پر مقدمہ درج کردیا ۔جس کی سزا ہو سکتی تھی میں نے سفارشات کروائیں مگر کچھ نہ ہو سکا میں نے تہجد کے وقت اٹھ کر اللہ سے دعا کی صبح مجھے فون آیا جلدی اسلام آباد آؤ میں گیا تو بتایا گیا کہ اس ڈی ایس پی کو معطل کر دیا گیا ہے ۔
حدیث مبارکہ:
رات کے ایک تہائی حصہ میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں تو فرماتا ہے کوئی ہے بیماز جسے شفاء چاہیےمیں اس کو شفاہ دو ؟ کوئی ہے جسے رزق چاہیےمیں اسے رزق دو؟ کوئی ہے جسے اولاد چاہیے میں اس کو اولاد دو؟
عزم اور توکل کی کمزوری :
توکل اور عزم میں کمزوری مایوسی کا سبب ہے اور توکل و عزم کی مضبوطی سے نا امیدی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
اصول :
والجزاء من جنس العمل .....۔
جوانی میں عبادت کا اہتمام کرنے والے نوجوانوں کو اللہ قیامت کے روز اپنے عرش کا سایا نصیب فرمائے گا۔
اس کے متصل ہی مرکزی جمعیت اسلام آپاد کے نائب امیر عبدالرؤف صاحب فرمانے لگے کہ دو رکعت نماز اشراق 360 جوڑوں کا صدقہ ادا ہو جاتا ہے ۔فجر کی نماز کے بعد ذکر میں مشغول رہنے والا طلوع شمس کے بعد دو رکعت نماز اشراق ادا کرے تو حج اور عمرے کا ثواب ملے گا۔
٭خطاب :سعودی عرب سے آئے مہمان (عبدالستار قاسم صاحب ) نےجن کا موضوع تھا((آداب مجلس کی ضرور ت و اہمیت)انہوں نے اپنی گفتگوں کا آغاز 5:14پر کیا اور حمدو ثناء کے بعد :
آیت مبارکہ:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحْ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعْ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴿11: سورة المجادلة﴾
آیت مبارکہ:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِفَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (آل عمران:185)
1۔مجلس میں بھیٹے لوگ دوسروں کے لے کچھ گنجائش نکالیں۔
2۔اہل عمل کو مقام دینا چاہیے ۔
حدیث مبارکہ:
ایک شخص حضورنبی کریم ﷺ کی مجلس میں داخل ہوا جگہ کم پڑھنے پر درمیان میں بیٹھ گیا ۔دوسرا آیاٰ آ خر میں بیٹھ گیا ۔ تیسرا آیا جگہ نہ ملنے پر واپس چلا گیا۔
اصول :اجزاء من جنس العمل .....۔ اس اصول کی احادیث میں بہت ساری مثالیں ہیں۔
1۔من بناللہ مسجدا .......۔
2۔من ستر مسلم ستر ہ اللہ یوم القیامۃ.....۔
3۔بندہ مسلمان کی مدد میں جب تک لگا رہتا ہے اللہ اس کبی مدد میں لگا رہتا ہے ۔(حدیث)
4۔کما تدین تدان...۔
5۔وشاق الرسول قم یا فلا وانت اجلس اخہ....۔
آیت مبارکہ:
تفصحوا فی المجالس ......(القرآن)
نوٹ: مذکورہ ادلا میں مجلس میں بیٹھنے کے آداب اور باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے بارے میں تر غیب دی گی ہے ۔اور باہر سے آنے والے کو بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب وہ کسی مجلس میں آئے تو جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے۔
اس طرح مجلس میں داخل ہو کر سلام کرنا چاہیے ۔اور کسی کے لیے احتراماً کھڑا نہ ہوا جائے ۔ آنے والے مہمان کو مجلس میں لانے کے لیے آگے سے جانا اور لا کر مجلس میں بیٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔مجلس سے جاتے وقت سلام کرنا اور اٹھتے وقت دعا پڑھ کر اٹھنا چاہیے ۔مجلس میں کسی کی غیبت نہ کی جائے ۔
مجلس سے اٹھنے کی دعا:
نوٹ:مجلس میں تین قسم کے آنے والے لوگوں کا ذکر ہے ان میں ایک نے کوشش کی تو اللہ نے اس کی مدد کی اسے مجلس میں جگہ مل گئی ۔دوسرے نے لوگوں کی گردنیں پھیلانے سے حیاء محسوس کی اور آخر میں ہی بیٹھ گیا تو اللہ نے بھی اس کا حیا ء کیا۔تسیرے نے منہ موڑا اور چلا گیا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا ........۔اختتام :5:56پر اس کے بعد اشراق کا وقفہ تھااس کے بعدناشتہ تھا۔
٭ حمزہ صاحب آف پنڈی نے تلاوت قرآن پاتک کی سعادت حاصل کی اور اس کے متصل بعد محترم سعید بھیگ صاحب نے نظم سنائی ۔
نظم: مؤمنا توحید والامسئلہ پکار ......چھڈ کے کہ تو سر اک اللہ آگے جھکا۔
دوسری نظم:یعقوب بھائی نے پڑھی ۔
اعلیٰ مقام مؤمن آپنی خودی نہ مٹا.......در در کر نہ سجدے ہر جگہ سر نہ جھکا۔
٭خطاب: مولانا عبد الرؤف صاحب نائب امیر مرکزی حمعیت اہل حدیث اسلام آباد جن کا موضوع تھا ۔
((تین روزہ اس دورے کے اغراض و مقاصدکیا ہیں ))
آیت مبارکہ:
کنتم خیر امت اخرجت لناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر......۔
ایک داعی کے اوصاف کیا ہونے چاہیے :
1۔اخلاص:
انمالاعمال بالنیات .....۔
حدیث مبارکہ:
عمل کی قبولیت کی شرط اخلاص العمل ہے ۔
2۔ علم نافع:
حدیث مبارکہ:فضل العالم کفضل العابد....۔
حدیث مبارکہ:
قیامت کے قریب لوگ ہونگے جو بغیر علم کے لوگوں کو دین بتائیں گئے اور لوگوں کو گمراہ کریں گے ۔
3۔نیک اعمال :
لم تقول ما لا تفعلون ......۔
حدیث مبارکہ:
وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون ....۔
4۔نرمی اور در گزر :
آیت مبارکہ:
فبما رحمۃ من اللہ ....۔
حدیث مبارکہ: مسجد میں پیشاب کرنے والے پڑ نبی اکرم ﷺ کا نرمی کرنا۔
5۔مصائب پر صبر کرنا:
نبی اکرم اور صحابہ اکرام کی دعوتی زندگی کو دیکھ لیں مصائب سے بھری پڑی ہے ۔
6۔حسن اخلاق سے پیش آنا :
آیت:وَ اِنَّكَ لَعَلي خُلُقٍ عَظيمٍ(سوره قلم، آيه4)
حدیث مبارکہ:
حضرت انس نے فرمایا :نبی کریم ﷺ سب سے ذیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔
7۔جگڑے اور تکرار اور غصہ سے پچنا:
حدیث مبارکہ:
آیت المنافق ثلاث اذا حدث کذب و اذا وعدیٰ اخلف و اذا تؤمن خان .....دوسری روایت میں ہے ۔واذا خاصم فجر...۔
٭خطاب :اسحاق زاہد صاحب رکن ’’جمعیت الاحیاء التراث کویت‘‘2:15پراپنی گفتگوں کا آغاز کیا ۔
حدیث:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (سورۃ فصلٰت:33)
تمہید باتیں ذکر کرتے شیخ محترم فرمانے لگے کہ ہمارا اور آپ کا رستہ دین کی بنیاد پر ہے ۔یہاں ہمیں جمع کرنے والے اگر کوئی چیرز ہے تو دین محمدی ﷺ ہے ۔
آیت:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات:10)
جمعیت الاحیاء التراث کویت کا تعارف کرواتے ہوئے فرمانے لگے کہ جمعیت کے تقریباً 9 قسم کے کام ہیں۔
کویت سے زکوۃ اکٹھی کرنا اور غرابا ء میں تقسیم کرنا۔مساجدکی تعمیر کا کام کرنا۔ بیواؤں کی کفالت کرنا ۔دعوت دین کوعام کرنا ۔
گھر کے سربراء کی حثیت سے :
آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ دعوت دین کی طرف گھر والوں کو توجہ دلائیں ۔اخلاص ۔عمل صالح پر توجہ دیں۔اہل آیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں ۔ بچوں کی دینی تر بیت کریں ۔سوشل میڈیاں پر موجود اولاد کے اکاؤنٹس چیک کریں ۔
آیت:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ( سورة التحريم :6) ﴾
٭ خطاب : عبدالستار حماد صاحب ۔
داعی کا کام یہ ہی نہیں صرف امر بالمعروف نہی عن المنکر کا کام کرے بلکہ مساجدو مدارس سے نکل کر باہر فتنوں کی سرکوبی کے لیے بھی کوشش کرے ۔
حدیث:
ایک وقت آئے گالوگ صبح کے وقت مؤمن ہونگےشام کو کافر ہوجائیں گے۔شام کو کافر ہونگے صبح مؤمن ہوجائیں گے۔
جاہل لوگوں سے بحث مت کریں۔
آیت:
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (سورۃالفرقان:63)
حدیث:حضرت عمر نے فرمایا حذیفہ جانتے ہوفتنہ کیا ہے؟
حضرت حذیفہ نے فرمایا :نہیں ۔حضرت عمر نے فرمایا:جو دروازہ فتنوں کے درمیان رکاوٹ ہے وہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا ۔؟مسروق راوی فرماتے ہیں حذیفہ نے فرمایا توڑا جائے گا اور اس مراد خود حضرت عمر ہیں۔
سب سے پہلا فتنہ:
حضرت عثمان کو محصور کرنا تھا۔جس کے بعد بغاوت شروع ہوئی اور مصر سے چل کر آنے والے باغیوں نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا۔
نوٹ:قرآن پاک میں 58 دفع لفظ فتنہ استعمال ہوا ہے ۔
فتنہ کی اقسام:
1۔ باہمی اختلاف :
آیت:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُواوَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَاكَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (آل عمران:103)
2۔بد عملی کا فتنہ:
3۔فتنہ تکفیر :
4۔جہالت کا فتنہ:
5۔لوگوں کے درمین تنگی پیدا کرنے کا فتنہ:
6۔خاوند کی نا فرانی کا فتنہ:
7۔تنفیر کا فتنہ(نفرت پیدا کرنے کا فتنہ)
8۔فتنہ تضخیر( بم دھماکوں کا فتنہ)
9۔تقلید کا فتنہ:
10۔شرک کا فتنہ:
11۔خروج کا فتنہ:
12۔تکبر اور حسد کا فتنہ:
13۔ریاکاری کا فتنہ:
14۔ تصویر کا فتنہ:
15۔فحاشی کا فتنہ:
16۔ بے پردگی کا فتنہ:
17۔ چوری اور قتل کا فتنہ:
18۔لو میرج اور کورٹ میرج کا فتنہ:
19۔دجال کا فتنہ:(اس فتنے میں اسفہان کے 70 ہزار لوگ شریک ہونگے ۔)
20۔منکرین حدیث کا فتنہ:
21۔ شرک کا فتنہ:
22۔شعیت کا فتنہ:
23۔ قادیانیت کا فتنہ:
24۔بہائیت و اسماعیلیت کا فتنہ:
25۔دہشت گردی کا فتنہ:
26۔ملحدین کا فتنہ:
27۔ انکار معجزات کا فتنہ:
28۔لباس کا فتنہ:
29۔زبان کا فتنہ:
30۔زنا کاری اور منشیات کا فتنہ:
٭خطاب :ڈاکٹر ابو بکر صاحب ۔
موضوع: مسجد کا معاشرے کی تربیت پراثر
آیت:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (سورۃ الجن:18)
مسجد: جہاں اللہ کے لیے سجدہ ہوتا ہے۔
معاشرے :افراد کا مجموعہ
اصلاح:مسجد میں جا کر جوتیاں ترتیب سے رکھنا۔
تربیت: درس کے درمیان میں کوئی کہے کسی کو کہ جاؤ جا کر جوتیاں ترتیب سے رکھیں ۔
حدیث: حضرت انس سے رویات ہے کہ :
ایک انصاری صحابی آئے آپ ﷺ سے حاجت کا سوال کیا آپﷺ ۃنے فرمایا تیرے پاس کیا ہے ۔ کہا میرے پاس ایک چٹائی ایک پیالہ آپ ﷺ نے اونچا کیا اور کہا کہ اس کو کون خریدے گا ؟ایک صحابی نے فرمایا میں دو دینار میں خریدتا ہوں تو آپ ﷺ نے اس انصاری صحابی کو فرمایا :جاؤ ایک ایک دینار کا کھانا اور ایک کا گلہاڑا خرید کر لاؤ اور جنگل میں جاؤ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ بیچ کر روزی حاصل کر 15 دن تک آپ مجھے کہیں نظر نہ آئیں ‘یہ ایک مسجدکا کردار ہے ۔
1۔تعلیم و تربیت کے لیے صفحہ اکیڈمی کا انتظام کیا ۔
2۔دارالقضاء کا قیام کیا جہاں فیصلے ہوتے تھے۔
3۔معا شرتی مسائل میں سے قراء کرام گھرو میں جا کر پڑھاتے ہیں جس نے مسجد کا کردار چھین لیا ہے ۔
4۔ تربیت اور منہج کی کتب مساجد میں نمازیوں کو پڑھانی چاہیے۔
5۔اہل علم مسائل پوچھنیں والوں کی رہنمائی کرنی چاہیے ۔
6۔مسجد میں کثرت سے آنے والے کے ایمان کی گواہی دینا۔
7۔مسجد میں آنے والوں کو ٹوکنا نہیں چاہیے۔
8۔نمازیوں کے لیے موسم کے مطابق مشروب کا انتظام کرنا۔
نوٹ: مجلس میں ایک اہل علم عالم دین تھا جو جوتوں کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھتا تھا ساتھیوں کے کہنے پرٹس سے مس نہ ہوا اور ان کے ساتھیوں نے ڈاکٹر عبد الستار حماد صاحب سے جوتے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو حافظ صاحب فرمانے لگے یہ کسی فتنے سے کم نہیں آج کے دور میں گھر میں کلین ہو تو کس کی جرت ہے جوتے میں کلین پر جائے کیا مسجد آن اتنی مظلوم ہو گئی ہے ۔
٭خطاب:ڈاکٹر نصر اللہ صاحب۔
موضوع:تربیت کی ضرورت و اہمیت
حدیث مبارکہ:
إن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما وأورثوا العلم فمن أخذه أخذ بحظ وافر ۔ (أخرجه ابن حبان في صحيحه , وابن ماجه , وابو داوود , والدارمي .)
اس آیت کے مصداق علماء کرام ہیں جن میں بطور مثال مولانا عبد المنان وزیر آبادی اور حضرت گوندلوی صاحب ہیں ۔
حدیث:
7873 :حدثنا يزيد أخبرنا همام عن قتادة عن أبي ميمونة عن أبي هريرة قال قلت يا رسول الله إني إذا رأيتك طابت نفسي وقرت عيني فأنبئني عن كل شيء فقال كل شيء خلق من ماء قال قلت يا رسول الله أنبئني عن أمر إذا أخذت به دخلت الجنة قال أفش السلام وأطعم الطعام وصل الأرحام وقم بالليل والناس نيام ثم ادخل الجنة بسلام (مسار الكتاب: » مسند أحمد » باقي مسند المكثرين » مسند أبي هريرة رضي الله عنه)
1۔تبلیغ کرنے والے کا عمل لوگوں کے لیے نمونہ ہوتا ہے ۔
2۔ایک دوسرے کے لیے دل صاف رکھیں۔
3۔ کسی بھی جگہ سے جو بھی خیر کی بات سنو گھر جا کر بتلائیں۔
آیت:
{ بل هو قرآنٌ مجيد ، في لوحٍ محفوظ } ( البروج 21 – 22)
٭خطاب:ایک عالم و باضل شخصیت
عنوان:دعوت توحید کی اہمیت و افادیت ۔
آیت:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُفَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (36:سورۃ النحل:36)
مقصد حیات:انسانیت کو اللہ کی بندگی کی طرف لوگوں کو دعوت دینا مخلوق کی عبادت سے منع کرنا طاغوت سے منع کرنا۔
طاغوت:اللہ کے علاوہ کسی نظام کو قبول کرنا اس کی بندگی کرنا۔
1۔ تو حید ربوبیت سے بنیاد اور انبیاء کی دعوت کا بنیادی مقصد ہے۔
2۔ دعا کی قبولیت کا سبب توحید ربوبیت کا وسیلہ ہے۔
3۔توحید الوہیت سے دعا کی ابتداء کرنی چاہیے۔
4۔معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔
5۔عقیدے کی درستگی اور زندگی کے باقی معاملات کی درستگی ہونی چاہیے۔
6۔الوہیت سے عقیدے کی خرابی کا خلتمہ ہوتا ہے۔
7۔توحید اسماء الصفات سے تقویٰ کا حصول ممکن ہے۔
8۔تمام خرابیوں سے بچاؤں اور پاکیزگی سے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
9۔قریب المرگ شخص کو نیکی کی نصیحت کرنا
دلیل:حضرت یعقوب نے بچوں کو قریب المرگ کے وقت فرمایا:
مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (سورۃالبقرۃ:133)
10۔دعوت کی بنیاد توحید پرہوتومعاشرے کی تمام خرابی ختم ہو جائے گی۔
11۔توحید باری تعالیٰ اتحاد کا سبب بنتی ہے۔
12۔اخلاص اور خشوع توحید کے سبب ممکن ہے۔
حدیث:
الاحسانُ اَن تَعبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاہُ، فان لَم تَکن تَرَاہُ فَانَّہ یَرَاکَ۔
( بخاری، الصحیح : ٤٣، رقم: ٠٥، کتاب الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان و وجوب الایمان)
٭خطاب: ارشاد الحق اثری صاحب
حمدوثناء کے بعد۔
آیت:
(اللَّهم إني أعوذ بك من قلب لا يخشع)( سورة الزمر، الآية: 22)
حدیث:معاذ بن جبل سے روایت ہے۔
قبیلہ انصار میں سے معاذ بن جبل تھے بیعت عقبہ کے وقت اسلام لائے حج پرگئے تو جمرہ عقبہ کے قریب آپﷺ سے ملاقات ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا :
معاذ میں تم سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں اور اہل یمن کو لکھا کہ اے اہل یمن میں ایک محبوب صحابی کو تمہاری طرف مبلغ بنا کر بھیج رہا ہوں اور اللہ فرشتوں میں معاذ کا ذکر کرتا ہے۔
حدیث:حضرت عمر نے فرمایا:
معاذ نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہو جاتااور عورتیں بانج ہو گیں ہیں کہ معاذ جیسا بچا جنیں۔
حدیث:معاذ بن جبل راوی ہیں:
کہ میں آپ ﷺکے ساتھ سفر میں تھا میں نے آپﷺ کو کہا مجھے کوئی ایسی بات بتاؤ جس سے میں داخل ہو جاؤ۔
آپﷺ نے فرمایا:
ان تعبد اللہ ولا تشرک بہ شیء.......۔
مزید فرمایا:
لا تشرک باللہ وان قطعت و حرکت ولا تترک صلاۃ المکتوبۃ متعمدہ..........۔
اللہ یغفر من یشاء ویعذب من یشاء.......۔
ابراھیم نے فرمایا:
ربنا تقبلمنا انک انت السمیع العلیم........۔
ابو بکر صدیق نے فرمایا:
حضور نماز میں کیا دعا کرو؟
آپﷺ نے فرمایا:
اللھم إنی ظلمت نفسی ظلما کثیرا.......۔
حضرت عائشہ نے فرمایا:
لیلۃ القدر کو کیا پڑھوں ؟
آپﷺ نے فرمایا:
اللھم انی عفوا تحب الافوا........۔
ابن قیم:لکھتے ہیں۔
کہ حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کاش میں کسی درخت کا پتہ ہوتا میرا حساب و کتاب نہ ہوتا۔
حدیث: آپﷺ نے فرمایا :
یا معاذان تمام باتوں کی تجھے اصل نہ بتاؤ؟فرمایا یا رسول اللہ کیوں نہیں فرمائیں:
آپﷺ نے فرمایا:زبان کو کنٹرول میں رکھو حضرت معاذ نے فرمایا کیا ان کی وجہ سے ہماری پکڑ ہو گئی اے اللہ کے رسول ﷺآپﷺ نے فرمایا :
اے معاذ تیری ماں تجھے گم پائے جہنم میں اسی زبان کی وجہ سے لوگ قیامت کے دن اوندھے منہ جہنم میں گرائے جائیں گے ۔
حدیث: آپﷺ نے فرمایا زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت پر میں محمدﷺ تجھے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔
حدیث : من صمت نجاۃ.........۔
حدیث:فلیقل خیر او لیصمت......۔
امام ابن قیم : فرماتے ہیں زبان کو ذکر الہی میں مشغول کرنے میں جو لذت ہے اس کا اندازہ اگڑ بادشاہوں کو لگ جائے تو وہ تخت چھوڑ کر مصلے پر بیٹھ جائیں ۔
٭خطاب: عبد الرشید حجازی صاحب۔
عنوان: ایک نوجوان اپنی دعوت لے کر کیسے چل سکتا ہے۔
شعر سے گفتگوں کا آغاز کیا ۔
جتھے ذکر چلن آم کے آڑوہ دے .......اوتھے کی مجال اے لسوڑیاں دی
فرمانے لگے بڑے بڑے علماؤ کی موجودگی میں میرے جیسا عام آدمی کیا بیان کرے گا کیونکہ دعوت دین کا کام بڑا مشکل اور بڑا عظیم کام ہے ۔اس لیے تیری دعوت کی تمام تر صلاحیتیں اس بات پر بسر ہونکے تیری دعوت سے کوئی ا پنی اصلاح کرلے ۔
داؤد غزنوی کا واقع بیان کرتے ہیں:
کہ ایک دن وہ فرمانے لگے کہ وہ بھ کوئی خطیب ہے جس کے الفاظ اس کی چغلی کریں۔
مندرجہ ذیل باتیں یاد رکھنا:
1۔عنوان کا تعارف اور دعوت دینے کا صحیح طریقہ اور اس کا مطالعہ ضرور کریں۔
2۔ اپنے علم پر پہلے خود عمل کریں ۔
3۔عاجزی و انکساری اور نرمی کے ساتھ امت کی اصلاح کی فکر کرنا۔
حدیث: میری اور تمہاری مثال ان پتنگوں کی ہے جوبھاگ کر آگ پر گر رہے ہیں اور میں کمر سے پکڑ کر تمہیں بچارہا ہوں۔
4۔ لوگوں کے جذبات اور احساسات کو پڑنا اچھے داعی کی نشانی ہے۔
شورش کاشمیری:
لاہور آئے تو مائک سے ہٹ کر کھڑے ہو گے لوگوں نے بتایا حضور مائک ادھر ہے تو فرمانے لگے میں لوگوں کے چہروں سے موضوع تلاش کر رہا ہوں۔
5۔ داعی نرم بات کرے سختی کا جواب نرمی سے دے۔
6۔ داعی لوگوں کو خوشخبری دینے والا ہوں لوگوں کو متنفر کرنے والا نہ ہوں ۔
7۔تشدد سے پاک ذہن رکھنے والا ہوداعی ہونا چاہیے۔
سید نذیر حسین محدث دہلوی کا واقع:
ایک دن اسٹیشن پہ کھڑے تھے کسی طالب علم نے ان کے مدرسے کا نام پوچھا تو فرمانے لگے لا ؤ اپنا سامان مجھے دے دو سامان اتھا کر اپنے مدرسے لے گے ایک دن شیخ کو اس طالب علم نے مسند پر بیٹھے دیکھا تو فرمانے لگا میری مدد کرنے والا شیخ آپ کی طرح تھا تو دعا فرما دیں اللہ ان می عمر میں برکت عطا ء فرما دے ۔
نوٹ: مولانا صاحب فرمانے لگے جو اپنی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے وہ راستے میں آنے والے کتوں کو پتھر نہ مارے بلکہ توجہ سے چلتا رہے
8۔خطیب کو موقع محل اور نفسیات کے مطابق بات کرنی چاہیے ۔
9۔ خطیب و داعی کو مایوس نہیں ہونا چاہیے اور نہ گھبرانا چاہیے۔
10۔تعصب اور نفرت سے پرہیز کرے ۔
11۔ امیر اطاعت اور محبت و اتحاد کی بات کرنے والا ہو۔
٭درس قرآن:ارشاد الحق اثری صاحب۔
آیت: وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔
1۔ تمام مخلوقات کے بعد حضرت آدم کو پیدا فرمایا۔
2۔حضرت انسان کی تخلیق اپنے ہاتھ سے کی ۔
3۔فرشتوں کو حضرت آدم کو سجدہ کرنے کو کہا۔
4۔انسان کو پیدا کرنے کے بعد فرمایا : لقد خلق الانسان فی احسن تقویم ۔
5۔ امام قرطبی نے فرمیا انسان خلاصہ کائنات ہے۔
نوٹ: فرمایا شیخ محترم نے کہ آخری چیزیں بڑی محبوب ہیں۔
1۔ تمام مخلوقات کے بعد حضرت آدم کی تخلیق۔
2۔آخری نبی حضرت محمدﷺتمام انبیاء سے افضل۔
3۔آخری امت محمدی۔
4۔رات کا آخری حصہ۔
5۔دن کی نمازو میں عصر رات کی نمازو میں عشاء۔
٭خطاب: مولانا عبد الوحید لوہی بھیروالے۔
آیت: یا ایھا الرسل بلغ ما انزل الیک من ربک.....۔
حدیث: العلماء ورثت الانبیاء......۔
اصول:الامر فوق الآدب.....۔
منہج دعوت قرآن و سنت پر مبنی ہے ہونا چاہیے کیونکہ اہل کی منہج قرآن و حدیث ہی ہے۔
حجۃ الوداع:
کہ موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:کیا میں نے تمہیں دعوت پہنچا دی ہے؟صحابہ نے فرمایا’’قد بلغت رسالتک‘‘اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت:الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی.......۔
داعی کا مقصد:
یہ ہونا چاہیے کہ میں نے گمراہی سے لوگوں کو بچانا ہے اور اپنے گرد لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہو۔
٭پروفیسرڈاکٹر عزیزالرحمان۔
عنوان:دعوت کے میدان میں جدید وسائل کا ستعمال ۔
سب سے قبل ایجادات کا استعمال اور تعارف بہت ضروی ہے جب قبائلی نظام کے بعد نو آبادیاتی نظام آیا تو وسائل لیجا کرغیر مسلموں نے ترقی کی ۔جاتے وقت انہوں نے دنیا کا نقشہ سامنے رکھ کر خطوں کی تقسیم کی جو ریاست کے نلم سے مشہور ہوئے ۔اس کے ساتھ ہی ثقافت اور نظریہ کی بنیا د
بر ممالک کی تقسیم کی گئی۔
سوال:اس دنیا کو سمجھنا کیو ں ضروری ہے؟
جواب:ہر ملک کی تاریخ اور ثقافت کودیکھ کر ہر خطے کے نظام اور تبدیلوں کو نہ سمجھا جائے تو بغاوت اور فساد برپا ہو سکتا ہے۔
جبکہ کہ فقہ الواقع اور حالات اور لوگوں کے مزاج کو دیکھ کر اگر واہاں دعوت کا کام کیا جائے تو دور رس نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔اس وقت یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ دینا اس وقت کس موڑ پر کھڑی ہے تاکہ فرد کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کی حدود و قیود متعین کی جا سکیں ۔مغرب کے نظریہ مساوات کو جانے بغیر اس کی خرابیوں کو معلوم کیے بغیر دعوت کسی صورت مؤثر نہیں ہوسکتی ۔
جاپان: 40 سال پرانی تہذیب کو یکسر بدل کر رکھ دیا واہاں شراب اور بے حیائی نے عروج پکڑا اور تہذیب ماضی کو دیمک کے طرح چاٹ کر رکھ دیا۔
چین:چین کے لوگ مغربی تہذیب کو ماڈرن تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔
انڈیا:انڈیا نے بھی اپنی تہذیب کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو قبول کرنے میں عافیت سمجھی ۔
پاکستان: مشرف دور میں مغربی تہذیب کو عروج اس وقت میں جب میڈیا کو آزادی دی گئی جس نے نظریہ پاکستان کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔
پاکستانی تہذیب کے مغربی تہذیب کو قبول کرنےکے اسباب :
1۔میڈیا کی آزادی ۔
2۔نصاب تعلیم میں تبدیلی۔
3۔مسئلہ کی نوعیت کو سمجھے بغیر تبدیلی کی کوشش کرنا۔
4۔ موجودہ دور میں خرابی کو سمجھے بغیر تبدیلی کی کوشش کرنا۔
5۔مؤثر طریقہ کا وضع کرنا۔
٭خطاب :سید آصف شاہ بخاری :
عنوان : جماعتی زندگی کی ضرورت و اہمیت۔
جماعتی زندگی میں اتفاق و اتحادکی برکت سے فتنہ و فساد اور غلط نظریات کی تشہیر سے بچا جا سکتا ہے ۔
آیت:اے ایمان والوں جب تم کسی جماعت سے ملوتو ثابت قدمی اختیار کرو اس پر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ملے گی۔
آیت:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا(سورۃ النسا:59) ﴾
آیت:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ َاصْبِرُواِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (:الأنفال :46)
نوٹ: جماعت میں اگر تم سے کوئی مشورہ طلب کیا جائے تو اس پر عمل نہ کیا جائے تو صبر سے کا م لینا اور اطاعت امیر کو لازم پکڑنا۔
دلیل: طائف سے پتھر کھا کر آپﷺ نے دعوت کا کام چھوڑا نہیں بلکہ حکمت اور دنائی سے کام جاری رکھا ۔
دلیل: قیدیوں کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر سے مشورہ طلب کیا مگڑ اس پر عمل نہیں کیا اور حضرت عمر جماعت سے الگ نہیں ہوئے ۔
دلیل: مؤمن کی مثال دیوار کی ہے جس کی ایک اینٹ دوسری طو تقویت دیتی ہے ۔
آیت : سورہ حجرات( اسلام کر لوگوں نے تمہیں تقویت نہیں دی بلکہ یہ ان پر اللہ کا فضل ہے ۔
آیت:سورہ آل عمران:
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران:139)
٭خطاب ابوبکر صدیق:
عنوان: مدینۃ الرسول کے فضائل و مناقب۔
مندرجہ ذیل اس شہرکے مناقب ہیں ۔
1۔ اس شہر کے لیے آپ ﷺ نے امن کی دعا کی ۔
2۔یہ پاکیزہ شہر ہے۔
3۔اس شہر کو ذرۃ محسنت بھی کہاٰگیا۔
4۔ اس شہر کے ناپ طول کے پیمانوں میں برکت ڈال دی گئی ۔
5۔مدینہ میں حرم کی حدود کا تعین کیا گیا ۔
6۔ اس میں گھاس و درخت کاتنے سے منع کر دیا گیا ۔
حدیث: مکہ و مدینہ کی حفاظت فرشتے کر رہے ہیں اور اس شہر عظیم میں دجال کا داخلہ بند کر دیا گیا ۔
7۔ اہل مدینہ کو تکلیف دینے سے منع کر دیا گیا۔
8۔ انصار سے بغض رکھنے سے منع کر دیا گیا۔
9۔فتح مکہ میں حاصل ہونے والے مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کرنے پر آپ ﷺ نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایاکہ تم اس بات پر راضی نہیں کہ دوسروں کے حصے میں بھیڑ بکریا ہوں اور تمہارے حصے میں اللہ اور اس کے روسول ہوتو اس بات پر انصار خوش ہوگے۔
10۔ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کو ہزار نماز کےاجر کے برابر کرار دیا۔
11۔مدینہ میں آپﷺ کی حضرت عمر فاروق اور حضرت ابو بکر صدیق کی قبریں موجود ہیں۔
نوٹ: موجودہ دور میں ہمیں مدینۃ الرسول کے دفاع کے لیے اپنا کردرار واضع کرنا چاہیے ۔
٭خطاب پروفیسر عنایت اللہ مکی
حدیث: ابو سعید خدری سے رویات ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:من اکل طیباً و عمل فی سنۃ اور لوگ ان کی شرارطوں سے محفوظ رہیں تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا۔
٭خطاب عبدالوحید خطیب برما ٹاؤن.....۔
آیت:
وَ ما أُمِرُوا إِلاَّ لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفاءَ وَ يُقيمُوا الصَّلاةَ وَ يُؤْتُوا الزَّکاةَ وَ ذلِکَ دينُ الْقَيِّمَةِ(سورۃ البینة:5)
آیت:
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ (:سورة المجادله:19)
اخلاص اور محنت سے دین کا کام کریں لوگوں کی ملامت کی پروا نہ کریں۔
٭حافظ یحییٰ مقصود بن حافظ مقصود احمد صاحب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد محمد بن سلمان یونیورسٹی اسلام آباد۔
عنوان: علم اور اہل علم کی فضیلت و مناقب۔
ابن قیم:
کتا نجس ہے کسی برتن میں منہ ڈال جائے تو سات دفع دھونے کا حکم ہے اگر یہی کتا جو شکار کے لیے تیار کیا جائے تو اس کا شکار حلال ہے یہ علم کی بنیاد پر ہے ۔
عطا ء بن ابی رباح: حجاز کے مفتی اعظم تھے ۔کالے ر نگ کے موٹی اور چپٹی ناک والے مگر عمل کا یہ عالم تھا کہ جب خطاب کرتے باشاہوں کی گردنیں جھک جاتیں۔
خضر کے پاس موسیٰ کا چل کر علم حاصل کرنے کے لیے جانا۔
اصول: وفوق کل ذی علم علیم........۔
آیت : قال الله تعالى في سورة العلق:
حدیث:
وعن جبیر بن مطعم عن ابیہ قال قام رسول اللہ بالخیف من منی فقال نضراللہ عبداًسمع مقالتی مرفوعا.....۔
اختتام کلمات:
عنوان: میں مرکزی حمعیت کے ساتھ کیوں وابسطہ ہوں؟
1۔دعوت سلف کی حامل حماعت ہے۔
2۔انبیاء و رسل ‘صحابہ ‘تابعین و تبع تابعین ‘محدثین ‘سید نذیر حسین محدث دہلوی ‘ شاہ اسماعیل شہید‘عبد اللہ غزنوی ‘عبدالجبار غزنوی ‘محمد بارک اللہ لکھوی ‘عبداللہ محدث روپڑی‘عبدالعزیز عظیمہ آبادی ‘ علامہ احسان الہی ظہیر شہید کی جماعت ہے ۔
3۔ توحید خالص کی حامل جماعت ہے ۔
4۔ اس جماعت میں شوریٰ کا نظام ہے ۔
5۔ اس جماعت کے بانی حافظ ثناء اللہ امرتسری ہیں۔
عجیب واقع:
اس تین دن قیام کے دوران ہمارے ساتھ ایک عالم دین تھے جو فوت شدہ سنت کو زندہ کرنے والی حدیث سے استدلال کرتے تینوں دن شاندار مسجد کے کلین پر جوتنوں سمیت نماز پڑھتے رہے۔ شیخ محترم عبدالستار حماد اور اس عالم کے رفقاء کے استفسار کے باوجود وہ اپنے موقف پر من و عن ڈٹے رہے اور حد یہ تھی کہ دروس و نماز کے بعد بلا ججھک مسجد میں گومتے اور کوئی عار محسوس نہ کرتے لوگوں کی ملامت کی کوئی پرواہ کیے بغیر اپنا دعوتی دورہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
واپسی :(دوران قیام نتھیا گلی ۔ڈونگی گلی ( ضلع آیبٹ آباد)ایوبیہ۔ لالہ زار پارک)کی سیر کے لیے ہم پانچ آدمی گئے جن میں راقم الحروف ۔پنڈی سے وقار احمد۔ عبید اللہ۔صدیق احمد اورا یک ارو ساتھی قابل ذکر ہیں۔
4:00پی ایم بروز اتوار (7۔8۔2016)بعد از نماز عصر تقریباً توحیدآباد سے چلتے ہوئےخیر گلی ۔ ۔کالی مٹی ۔عزیزآباد۔ڈھوک صادق آباد۔ڈھوک کرتاہ ۔شانگلہ گلی۔دربا گلی۔گلیات ۔کلڈنہ۔جھیکا گلی ۔مال روڈ ( مری)۔چٹا موڑ۔ بانسرہ گلی۔مری شہر ۔بھہارہ کہوہ۔بابال موڑ۔فاریسٹ پارک۔کمپنی باغ۔گھوڑا گلی۔ مارگلہ ۔راولا ڈیم۔چھرا پانی۔ امامیہ سٹاپ۔مانگا۔ اسلام آباد (برما ٹاؤن) عشاء کی نماز کے بعد لاہور کو روانگی۔
ظفراقبال ظفر:رکن (مجلس التحقیق الاسلامی 99جے ماڈل ٹاؤن لاہور (المعروف محدث لائیبریری)
اختتام کلمات:
عنوان: میں مرکزی حمعیت کے ساتھ کیوں وابسطہ ہوں؟
1۔دعوت سلف کی حامل حماعت ہے۔
2۔انبیاء و رسل ‘صحابہ ‘تابعین و تبع تابعین ‘محدثین ‘سید نذیر حسین محدث دہلوی ‘ شاہ اسماعیل شہید‘عبد اللہ غزنوی ‘عبدالجبار غزنوی ‘محمد بارک اللہ لکھوی ‘عبداللہ محدث روپڑی‘عبدالعزیز عظیمہ آبادی ‘ علامہ احسان الہی ظہیر شہید کی جماعت ہے ۔
3۔ توحید خالص کی حامل جماعت ہے ۔
4۔ اس جماعت میں شوریٰ کا نظام ہے ۔
5۔ اس جماعت کے بانی حافظ ثناء اللہ امرتسری ہیں۔
عجیب واقع:
اس تین دن قیام کے دوران ہمارے ساتھ ایک عالم دین تھے جو فوت شدہ سنت کو زندہ کرنے والی حدیث سے استدلال کرتے تینوں دن شاندار مسجد کے کلین پر جوتنوں سمیت نماز پڑھتے رہے۔ شیخ محترم عبدالستار حماد اور اس عالم کے رفقاء کے استفسار کے باوجود وہ اپنے موقف پر من و عن ڈٹے رہے اور حد یہ تھی کہ دروس و نماز کے بعد بلا ججھک مسجد میں گومتے اور کوئی عار محسوس نہ کرتے لوگوں کی ملامت کی کوئی پرواہ کیے بغیر اپنا دعوتی دورہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
واپسی :(دوران قیام نتھیا گلی ۔ڈونگی گلی ( ضلع آیبٹ آباد)ایوبیہ۔ لالہ زار پارک)کی سیر کے لیے ہم پانچ آدمی گئے جن میں راقم الحروف ۔پنڈی سے وقار احمد۔ عبید اللہ۔صدیق احمد اورا یک ارو ساتھی قابل ذکر ہیں۔
4:00پی ایم بروز اتوار (7۔8۔2016)بعد از نماز عصر تقریباً توحیدآباد سے چلتے ہوئےخیر گلی ۔ ۔کالی مٹی ۔عزیزآباد۔ڈھوک صادق آباد۔ڈھوک کرتاہ ۔شانگلہ گلی۔دربا گلی۔گلیات ۔کلڈنہ۔جھیکا گلی ۔مال روڈ ( مری)۔چٹا موڑ۔ بانسرہ گلی۔مری شہر ۔بھہارہ کہوہ۔بابال موڑ۔فاریسٹ پارک۔کمپنی باغ۔گھوڑا گلی۔ مارگلہ ۔راولا ڈیم۔چھرا پانی۔ امامیہ سٹاپ۔مانگا۔ اسلام آباد (برما ٹاؤن) عشاء کی نماز کے بعد لاہور کو روانگی۔
ظفراقبال ظفر:رکن (مجلس التحقیق الاسلامی 99جے ماڈل ٹاؤن لاہور (المعروف محدث لائیبریری)
Last edited: