حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
دوستو!۔
یہ عرصہ جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنھم، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے چند انصاری بزرگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔۔۔
چنانچہ پہلے میں اس واقعہ کو امام طبری رحمہ اللہ کی تاریخ کے حوالے سے ابومخنف کذاب کی زبانی بیان کردوں۔۔۔۔ پھر اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کروں گا۔۔۔ پھر دونوں روایتوں کے درمیان موازنہ کرلیں۔۔۔ قارئین کو اندازہ ہوجائے گا کہ ابومخنف (رافضی) نے کتنی باتیں بڑھائی ہیں۔۔۔ اور شاید ہمارے بہت سے لوگوں کے ہاں یہ اضافی باتیں مسلمہ تاریخی حقائق بن چکی ہوں اور (ابومخنف کے من گھڑتے اضافے) حادثہ شورٰی میں بھی موجود ہیں۔۔۔ چنانچہ امام حمد بن جریر طبری (شیعہ) بیان کرتے ہیں کہ!۔
ہمیں ہشمان بن محمد نے ابومخنف کے حوالے سے بیان کیا، کہ وہ کہتا ہے مجھے عبداللہ بن عبداللہ الرحمٰن بن ابی عمرو بن بن ابی عمرہ انصاری نے بتایا، کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو انصار، سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ!۔
ہم جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سعد بن عبادہ کو سربراہ مقرر کریں گے ان میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ۔۔۔
تمہاری تلواروں کی وجہ سے عربوں نے سرتسلیم خم کیا اور اللہ کے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں فوت ہوئے کہ وہ تم سے راضی اور خوش تھے اور ان کی آنکھیں تمہیں دیکھ کر ٹھنڈی ہوجاتی تھی لہذا تم آگے بڑھ کر اس ذمہ داری کو سنبھال لو، بجائے اس کے کہ دورے لوگ اسے اپنے ہاتھ میں لے لیں۔۔۔
سب نے مل کر جواب دیا کہ تو نے ٹھیک کہا!۔۔۔
ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ اگر قریش کے مہاجرین اس رائے کو تسلیم نہ کریں تو ہم کہیں گے کہ ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے۔۔۔
حضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ یہ پہلی کمزوری ہے۔۔۔
اسی دوران حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی کہ چند انصار، سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو کر کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہم سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے یہ بات آپ کو کسی انصاری نے بتائی تھی چنانچہ آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں معاملے سے آگاہ کیا کہ ہمارے انصاری بھائی جمع ہوئے ہیں اور اس طرح کہہ رہے ہیں آؤ ہم ان کے پاس چلیں۔۔۔
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے چل پڑے اور انہوں نے (راستہ میں) حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو اسے بھی اپنے ساتھ لے لیا اور انصار کے پاس پہنچ گئے حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ذہن میں اس موقع پر گفتگو کرنے کا خاکہ ترتیب دیا جب میں نے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اشارے سے خاموش رہنے کا حکم دیا چنانچہ آپ رضی اللہ نے اللہ کی حمد اور اس کی تعریف بیان کرنے کے بعد فرمایا۔۔۔
اللہ تعالٰی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔۔۔ الخ،،، راوی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مکمل خطبہ بیان کیا اور ان کی یہ بات بھی بیان کی کہ مہاجرین خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔۔۔
حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے، کہ ! اے انصار کے قبیلو! اپنے منصب امارت کو اپنے ہاتھ میں لے لو کیونکہ لوگ تمہارے ساے اور تمہارے کیمپ میں ہیں اور کوئی شخص تمہاری مخالفت کی جرآت نہیں کرے گا اور لوگ تمہاری رائے سے انحراف بھی نہیں کریں گے کیونکہ تم جاہ وحشمت اور مال ودولت والے ہو اور اکثریت تمہارے پاس اگر وہ تمہاری خلافت کو تسلیم نہ کریں تو تم انہیں یہاں سے نکال دو اور امور خلافت اپنے ہاتھ میں لے لو اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔۔۔ اللہ کی قسم تم ان کی نسبت منصب خلافت کے زیادہ حقدار ہو کیونکہ لوگوں نے اس دین کو قبول کیا ہے تو تمہاری تلواروں کے صدقے سے کیا ہے۔۔۔
ان جذیلھا المحکک وعذیقھا المرجب
یعنی میں صائب الرائے ہوں اور تمہاری خیر خواہی سوچتا ہوں اگر تم نے میری بات نہ مانی تو پچھتاؤ گے (جذیل محکک لکڑی کے اس تنے کو کہت ہیں جو اونٹوں کے باڑے میں اس لئے گاڑا جاتا ہے کہ خارش والے اونٹ اس سے کھجلا کر سکون حاصلکریں اور عذیق کھجور کے چھوٹے پودے کو کہتے ہیں اور مرجب پتھر کی حفاظتی باڑ کو کہتے ہیں اور یہ محاورہ اس سوقت بولا جاتا ہے جب آدمی اپنی رائے کی عظمت بیان کرے اور اس پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے خسارے سے ڈرائے (دیکھئے النہایہ فی غریب الحدیث جلد ٢ صفحہ ١٩٧)۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ! اپنا ہاتھ بڑھاؤ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں، جب دونوں بیعت کے لئے اٹھے تو بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر ان سے پہلے بیعت کرلی جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت مکمل ہوگئی تو (عقبہ ثانیہ کے) نقیب حضرت اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر کھڑے ہوئے اور کہا کہ " اللہ کی قسم اگر ایک مرتبہ خزرج تمہارے سربراہ بن گئے تو ہمیشہ کے لئے ان کو تمہارے اوپر فضیلت رہے گی
چنانچہ انہوں نے اسے اٹھایا اور گھر لے گئے چند دن خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا! اللہ کی قسم! جب تک میرے گھروالے اور میرے قبیلے والے میری اطاعت کرتے رہیں گے اس وقت تک میں اپنے ترکش سے تم پر تیر پھینکتا رہوں گا اور اپنے نیزے کے پھل خون آلود کرتا رہوں گا اور جب تک میرے ہاتھوں میں طاقت رہی میں اپنی تلوا سے تمہیں مارتا رہوں گا۔۔۔
روای کہتا ہے کہ اس کے بعد نہ تو سعد رضی اللہ نے ان کے ساتھ نماز پڑھی نہ ان کے ساتھ وہ جمعہ ادا کرتا اور حج کرتا تو ان کے ساتھ اضافہ نہ کرتا چنانچہ جب تک ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت نہیں ہوئے اس وقت تک وہ اسی طرح کرتارہا ( تاریخ جریر طبری جلد ٢ صفحہ ٤٥٥ مختصرا)۔۔۔
اب اس سلسلے میں امام بخاری کی روایت پڑھو اور اس کا ابومخنف (رافضی) کی روایت سے موازنہ کرو۔۔۔
ہمیں اسماعیل بن عبداللہ نے سلیمان بن بلال کے واسطے سے ہشام بن عروہ سے بیان کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے عروہ بن زبیر نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا!۔
جب اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ کے پاس اکھٹے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم میں سے بھی امیر ہوگا اور تم میں سے بھی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر بن فاروق رضی اللہ عنہ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ان کی طرف گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بات کرنے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں خاموش کرا دیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بنان فارمتے کہ!۔
میں نے اس موقع پر بیان کرنے کے لئے شاندار تقریر کی تیاری کرلی تھی اور مجھے خطرہ تھا کہ شاید حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایسی تقریر نہیں کرسکیں گے لیکن اللہ کی قسم، حضرت ابوبکر نے بڑی بلیغ اور پُراثر تقریر کی (اور میرے دل کی تمام باتیں بھی بیان کردیں) انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا " ہم امیر ٹھہرے اور تم وزیر"
حضرت حباب رضی اللہ عنہ بن منذر نے فرمایا!۔۔۔
نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں کریں گے ہم میں بھی امیر ہوگا اور تم میں بھی۔۔۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا!۔
نہیں بلکہ ہم امیر اور تم وزیر (اور قریش کے متعلق بیان کیا کہ) وہ گھرانوں کے اعتبار سے معتدل اور حسب کے اعتبار سے نہایت معزز ہیں لہذا تم حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلو۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا!۔
بلکہ ہم تمہاری بیعت کرتے ہیں کیونکہ تم ہمارے سردار اور ہم سے برتر، بہتر ہو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے زہادہ پیارے ہو۔۔۔
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کاہاتھ پکڑا اور بیعت کرلی اور لوگوں نے بھی بیعت کی ( صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب لوکنت متخدا خلیلا رقم الحدیث ٣٦٦٨)۔۔۔
لیجئے یہ ہے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی روایت!
تم دیکھ رہے ہو کہ یہ مختصر ہے اور چھوٹی ہے اور سقیفہ بنی ساعدہ کی حقیقت بھی اتنی ہی ہے ۔۔۔
رہے ابومخنف (رافضی) کے اضافے کہ سعد بن عبادہ نے فرمایا۔۔۔
میں تم سے لڑوں گا اور وہ ان کے ساتھ نہ حج کرتے تھے اور نہ نماز پڑھتے تھے نہ جمعہ پڑھتے تھے نہ ان کے ساتھ طواف کرتے تھے اور یہ کہ حضرت حباب رضی اللہ عنہ نے ابوبکر کو ترکی بہ ترکی جواب دیا (اور اس طرح کی دیگر باتوں کا اس روایت میں کوئی ذکر نہیں) حالانکہ سقیفہ کا معاملہ نصف گھنٹے سے زیادہ موضوع بحث نہ بنا لیکن (کذاب راویوں نے) کیسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔۔۔
رہے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تو ان کے متعلق مسند امام احمد رحمہ اللہ میں حضرت حمید بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے تقریر کی اور ایسی کوئی بات نہ چھوڑی جو انصار کی شان میں نازل ہوئی ہو، یا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شان کے متعلق بیان کی ہو اور فرمایا کہ!۔۔۔
تم جانتے ہو اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا!۔
کہ اگر لوگ کسی اور وادی میں چلیں اور انصار کسی اور وادی میں چلیں تو میں انصار کی وادی میں ہی چلوں گا اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔۔۔
اے سعد تم جانتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور آپ بیٹھے ہوئے تھے کہ قریش اس امارت کے معیار پیں، نیک لوگ ان کے نیکوں کے تابع ہیں اور بُرے لوگ ان کے بروں کے تابع ہیں۔۔۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔
آپ رضی اللہ عنہ نے ٹھیک فرمایا ہم وزیر ٹھہرے اور تم امیر۔۔۔
یہ روایت حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے حضرت حمید بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف سے صحیح مرسل سند سے روایت کی، یہ ان روایتوں سے کئی درجے قوی ہے جنہیں کذاب رافضی ابومخنف نے روایت کیا ہے(مسند احمد جلد ١ صفحہ ١٨)۔۔۔
یاد رکھیں۔۔۔۔
حضر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کے سردار اور افضل واکمل معلم ہیں لہذا ہمیں ماننا پڑے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد اور تلامذہ بھی تمام امتیوں سے افضل واکمل انسان تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاگردوں، جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی صورت میں موجود ہیں ان کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ وتصفیہ کا فریضہ اس خوبی اور کمال سے سرانجام دیا کہ حق تعالٰی نے انہیں راشدوں، صادقون، مفلحون اور فائزون کے القاب سے نوازا اس ضمن میں ذیل کی آیت عظمت صحابہ کی قدرومنزلت اور جلالت پر روشنی ڈالتی ہیں۔۔۔
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۗ
مومنو! تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی ہدایت کیلئے میدان میں لایا گیا ہے کہ تم نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ( آل عمران ١١٠)۔۔۔
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ اللَّـهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وه ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں یہ خدائی لشکر ہے، آگاه رہو بیشک اللہ کے گروه والے ہی کامیاب لوگ ہیں( سورة المجادلة -٢٢)۔۔۔
اللہ رب العالمین ان الفاظ میں جن کی تعریف فرمارہا ہے۔۔۔
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، (سورة الفتح ٢٩)۔۔۔
مسلمان قوم میں سے چند لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس قدر غلو آمیز محبت کی کہ آپ رضی اللہ عنہ کا معاملہ مکمل طور پر الجھا کر رکھ دیا اور آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کردیں، جو اصل واقعات اور تاریخ سے میل نہیں رکھتیں اور اسی (کھیل کے) دوران دوسرے صحابہ کرام کی شان میں گھٹانے کی ناکام کوششیں کیں اور انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق غصب کرنے، ان پر طلم کرنے نیز خود اپنے حق میں برا بیج بونے والوں کے روپ میں پیش کیا، بلکہ اس محبت نما دشمنی میں اولاد علی رضی اللہ عنہ کو منصوص علیھم آئمہ قرار دیا اور انہیں انبیائے کرام علیھم الصلوہ والسلام کی طرح معصوم قرار دینے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان سے بھی بڑھا دیا۔۔۔
اور صحیح تحقیق کے مطابق صحابہ کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتداء تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیں کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے احوال اور ان کی صحیح روایات میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا شیعہ رافضی حضرات ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔۔۔
بلکہ اس کے برعکس مورخین متفق ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دی اور اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر وعمر رکھ کر اپنے پیشتر صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور امارت میں منصب قضاء قبول فرمایا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام کی مدح فرمائی۔۔۔
حدیث محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔۔۔
میری اُمت کبھی گمراہی پر متفق نہیں ہوگی۔۔۔
وماعلینا الالبلاغ۔۔۔
واللہ تعالٰی عالم۔۔۔
یہ عرصہ جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنھم، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے چند انصاری بزرگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔۔۔
چنانچہ پہلے میں اس واقعہ کو امام طبری رحمہ اللہ کی تاریخ کے حوالے سے ابومخنف کذاب کی زبانی بیان کردوں۔۔۔۔ پھر اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کروں گا۔۔۔ پھر دونوں روایتوں کے درمیان موازنہ کرلیں۔۔۔ قارئین کو اندازہ ہوجائے گا کہ ابومخنف (رافضی) نے کتنی باتیں بڑھائی ہیں۔۔۔ اور شاید ہمارے بہت سے لوگوں کے ہاں یہ اضافی باتیں مسلمہ تاریخی حقائق بن چکی ہوں اور (ابومخنف کے من گھڑتے اضافے) حادثہ شورٰی میں بھی موجود ہیں۔۔۔ چنانچہ امام حمد بن جریر طبری (شیعہ) بیان کرتے ہیں کہ!۔
ہمیں ہشمان بن محمد نے ابومخنف کے حوالے سے بیان کیا، کہ وہ کہتا ہے مجھے عبداللہ بن عبداللہ الرحمٰن بن ابی عمرو بن بن ابی عمرہ انصاری نے بتایا، کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو انصار، سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ!۔
ہم جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سعد بن عبادہ کو سربراہ مقرر کریں گے ان میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ۔۔۔
تمہاری تلواروں کی وجہ سے عربوں نے سرتسلیم خم کیا اور اللہ کے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں فوت ہوئے کہ وہ تم سے راضی اور خوش تھے اور ان کی آنکھیں تمہیں دیکھ کر ٹھنڈی ہوجاتی تھی لہذا تم آگے بڑھ کر اس ذمہ داری کو سنبھال لو، بجائے اس کے کہ دورے لوگ اسے اپنے ہاتھ میں لے لیں۔۔۔
سب نے مل کر جواب دیا کہ تو نے ٹھیک کہا!۔۔۔
ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ اگر قریش کے مہاجرین اس رائے کو تسلیم نہ کریں تو ہم کہیں گے کہ ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے۔۔۔
حضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ یہ پہلی کمزوری ہے۔۔۔
اسی دوران حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی کہ چند انصار، سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو کر کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہم سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے یہ بات آپ کو کسی انصاری نے بتائی تھی چنانچہ آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں معاملے سے آگاہ کیا کہ ہمارے انصاری بھائی جمع ہوئے ہیں اور اس طرح کہہ رہے ہیں آؤ ہم ان کے پاس چلیں۔۔۔
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے چل پڑے اور انہوں نے (راستہ میں) حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو اسے بھی اپنے ساتھ لے لیا اور انصار کے پاس پہنچ گئے حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ذہن میں اس موقع پر گفتگو کرنے کا خاکہ ترتیب دیا جب میں نے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اشارے سے خاموش رہنے کا حکم دیا چنانچہ آپ رضی اللہ نے اللہ کی حمد اور اس کی تعریف بیان کرنے کے بعد فرمایا۔۔۔
اللہ تعالٰی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔۔۔ الخ،،، راوی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مکمل خطبہ بیان کیا اور ان کی یہ بات بھی بیان کی کہ مہاجرین خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔۔۔
حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے، کہ ! اے انصار کے قبیلو! اپنے منصب امارت کو اپنے ہاتھ میں لے لو کیونکہ لوگ تمہارے ساے اور تمہارے کیمپ میں ہیں اور کوئی شخص تمہاری مخالفت کی جرآت نہیں کرے گا اور لوگ تمہاری رائے سے انحراف بھی نہیں کریں گے کیونکہ تم جاہ وحشمت اور مال ودولت والے ہو اور اکثریت تمہارے پاس اگر وہ تمہاری خلافت کو تسلیم نہ کریں تو تم انہیں یہاں سے نکال دو اور امور خلافت اپنے ہاتھ میں لے لو اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔۔۔ اللہ کی قسم تم ان کی نسبت منصب خلافت کے زیادہ حقدار ہو کیونکہ لوگوں نے اس دین کو قبول کیا ہے تو تمہاری تلواروں کے صدقے سے کیا ہے۔۔۔
ان جذیلھا المحکک وعذیقھا المرجب
یعنی میں صائب الرائے ہوں اور تمہاری خیر خواہی سوچتا ہوں اگر تم نے میری بات نہ مانی تو پچھتاؤ گے (جذیل محکک لکڑی کے اس تنے کو کہت ہیں جو اونٹوں کے باڑے میں اس لئے گاڑا جاتا ہے کہ خارش والے اونٹ اس سے کھجلا کر سکون حاصلکریں اور عذیق کھجور کے چھوٹے پودے کو کہتے ہیں اور مرجب پتھر کی حفاظتی باڑ کو کہتے ہیں اور یہ محاورہ اس سوقت بولا جاتا ہے جب آدمی اپنی رائے کی عظمت بیان کرے اور اس پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے خسارے سے ڈرائے (دیکھئے النہایہ فی غریب الحدیث جلد ٢ صفحہ ١٩٧)۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ! اپنا ہاتھ بڑھاؤ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں، جب دونوں بیعت کے لئے اٹھے تو بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر ان سے پہلے بیعت کرلی جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت مکمل ہوگئی تو (عقبہ ثانیہ کے) نقیب حضرت اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر کھڑے ہوئے اور کہا کہ " اللہ کی قسم اگر ایک مرتبہ خزرج تمہارے سربراہ بن گئے تو ہمیشہ کے لئے ان کو تمہارے اوپر فضیلت رہے گی
پھر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! اگر میرے اندر اٹھنے کی طاقت ہوتی تو زمین کے راستوں اور گوشے گوشے میں تو میری ایسی دھاڑ سنتا جو تجھے اور تیرے ساتھیوں کو زخمی کردیتی اللہ کی قسم اب میں تجھے اس قوم سے ملا کر جس میں تیری حیثیت متبوع کی بجائے تابع کی ہوگی، مجھے اس جگہ سے اٹھا لو۔۔۔(گویا اسید بن خضیر نے حاشاللہ سعد بن عبادہ خزرجی پر حسد کیا)۔۔۔
چنانچہ انہوں نے اسے اٹھایا اور گھر لے گئے چند دن خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا! اللہ کی قسم! جب تک میرے گھروالے اور میرے قبیلے والے میری اطاعت کرتے رہیں گے اس وقت تک میں اپنے ترکش سے تم پر تیر پھینکتا رہوں گا اور اپنے نیزے کے پھل خون آلود کرتا رہوں گا اور جب تک میرے ہاتھوں میں طاقت رہی میں اپنی تلوا سے تمہیں مارتا رہوں گا۔۔۔
روای کہتا ہے کہ اس کے بعد نہ تو سعد رضی اللہ نے ان کے ساتھ نماز پڑھی نہ ان کے ساتھ وہ جمعہ ادا کرتا اور حج کرتا تو ان کے ساتھ اضافہ نہ کرتا چنانچہ جب تک ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت نہیں ہوئے اس وقت تک وہ اسی طرح کرتارہا ( تاریخ جریر طبری جلد ٢ صفحہ ٤٥٥ مختصرا)۔۔۔
اب اس سلسلے میں امام بخاری کی روایت پڑھو اور اس کا ابومخنف (رافضی) کی روایت سے موازنہ کرو۔۔۔
ہمیں اسماعیل بن عبداللہ نے سلیمان بن بلال کے واسطے سے ہشام بن عروہ سے بیان کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے عروہ بن زبیر نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا!۔
جب اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ کے پاس اکھٹے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم میں سے بھی امیر ہوگا اور تم میں سے بھی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر بن فاروق رضی اللہ عنہ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ان کی طرف گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بات کرنے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں خاموش کرا دیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بنان فارمتے کہ!۔
میں نے اس موقع پر بیان کرنے کے لئے شاندار تقریر کی تیاری کرلی تھی اور مجھے خطرہ تھا کہ شاید حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایسی تقریر نہیں کرسکیں گے لیکن اللہ کی قسم، حضرت ابوبکر نے بڑی بلیغ اور پُراثر تقریر کی (اور میرے دل کی تمام باتیں بھی بیان کردیں) انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا " ہم امیر ٹھہرے اور تم وزیر"
حضرت حباب رضی اللہ عنہ بن منذر نے فرمایا!۔۔۔
نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں کریں گے ہم میں بھی امیر ہوگا اور تم میں بھی۔۔۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا!۔
نہیں بلکہ ہم امیر اور تم وزیر (اور قریش کے متعلق بیان کیا کہ) وہ گھرانوں کے اعتبار سے معتدل اور حسب کے اعتبار سے نہایت معزز ہیں لہذا تم حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلو۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا!۔
بلکہ ہم تمہاری بیعت کرتے ہیں کیونکہ تم ہمارے سردار اور ہم سے برتر، بہتر ہو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے زہادہ پیارے ہو۔۔۔
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کاہاتھ پکڑا اور بیعت کرلی اور لوگوں نے بھی بیعت کی ( صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب لوکنت متخدا خلیلا رقم الحدیث ٣٦٦٨)۔۔۔
لیجئے یہ ہے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی روایت!
تم دیکھ رہے ہو کہ یہ مختصر ہے اور چھوٹی ہے اور سقیفہ بنی ساعدہ کی حقیقت بھی اتنی ہی ہے ۔۔۔
رہے ابومخنف (رافضی) کے اضافے کہ سعد بن عبادہ نے فرمایا۔۔۔
میں تم سے لڑوں گا اور وہ ان کے ساتھ نہ حج کرتے تھے اور نہ نماز پڑھتے تھے نہ جمعہ پڑھتے تھے نہ ان کے ساتھ طواف کرتے تھے اور یہ کہ حضرت حباب رضی اللہ عنہ نے ابوبکر کو ترکی بہ ترکی جواب دیا (اور اس طرح کی دیگر باتوں کا اس روایت میں کوئی ذکر نہیں) حالانکہ سقیفہ کا معاملہ نصف گھنٹے سے زیادہ موضوع بحث نہ بنا لیکن (کذاب راویوں نے) کیسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔۔۔
رہے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تو ان کے متعلق مسند امام احمد رحمہ اللہ میں حضرت حمید بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے تقریر کی اور ایسی کوئی بات نہ چھوڑی جو انصار کی شان میں نازل ہوئی ہو، یا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شان کے متعلق بیان کی ہو اور فرمایا کہ!۔۔۔
تم جانتے ہو اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا!۔
کہ اگر لوگ کسی اور وادی میں چلیں اور انصار کسی اور وادی میں چلیں تو میں انصار کی وادی میں ہی چلوں گا اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔۔۔
اے سعد تم جانتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور آپ بیٹھے ہوئے تھے کہ قریش اس امارت کے معیار پیں، نیک لوگ ان کے نیکوں کے تابع ہیں اور بُرے لوگ ان کے بروں کے تابع ہیں۔۔۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔۔۔
آپ رضی اللہ عنہ نے ٹھیک فرمایا ہم وزیر ٹھہرے اور تم امیر۔۔۔
یہ روایت حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے حضرت حمید بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف سے صحیح مرسل سند سے روایت کی، یہ ان روایتوں سے کئی درجے قوی ہے جنہیں کذاب رافضی ابومخنف نے روایت کیا ہے(مسند احمد جلد ١ صفحہ ١٨)۔۔۔
یاد رکھیں۔۔۔۔
حضر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کے سردار اور افضل واکمل معلم ہیں لہذا ہمیں ماننا پڑے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد اور تلامذہ بھی تمام امتیوں سے افضل واکمل انسان تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاگردوں، جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی صورت میں موجود ہیں ان کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ وتصفیہ کا فریضہ اس خوبی اور کمال سے سرانجام دیا کہ حق تعالٰی نے انہیں راشدوں، صادقون، مفلحون اور فائزون کے القاب سے نوازا اس ضمن میں ذیل کی آیت عظمت صحابہ کی قدرومنزلت اور جلالت پر روشنی ڈالتی ہیں۔۔۔
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۗ
مومنو! تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی ہدایت کیلئے میدان میں لایا گیا ہے کہ تم نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ( آل عمران ١١٠)۔۔۔
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ اللَّـهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وه ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں یہ خدائی لشکر ہے، آگاه رہو بیشک اللہ کے گروه والے ہی کامیاب لوگ ہیں( سورة المجادلة -٢٢)۔۔۔
اللہ رب العالمین ان الفاظ میں جن کی تعریف فرمارہا ہے۔۔۔
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، (سورة الفتح ٢٩)۔۔۔
مسلمان قوم میں سے چند لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس قدر غلو آمیز محبت کی کہ آپ رضی اللہ عنہ کا معاملہ مکمل طور پر الجھا کر رکھ دیا اور آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کردیں، جو اصل واقعات اور تاریخ سے میل نہیں رکھتیں اور اسی (کھیل کے) دوران دوسرے صحابہ کرام کی شان میں گھٹانے کی ناکام کوششیں کیں اور انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق غصب کرنے، ان پر طلم کرنے نیز خود اپنے حق میں برا بیج بونے والوں کے روپ میں پیش کیا، بلکہ اس محبت نما دشمنی میں اولاد علی رضی اللہ عنہ کو منصوص علیھم آئمہ قرار دیا اور انہیں انبیائے کرام علیھم الصلوہ والسلام کی طرح معصوم قرار دینے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان سے بھی بڑھا دیا۔۔۔
اور صحیح تحقیق کے مطابق صحابہ کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتداء تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیں کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے احوال اور ان کی صحیح روایات میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا شیعہ رافضی حضرات ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔۔۔
بلکہ اس کے برعکس مورخین متفق ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دی اور اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر وعمر رکھ کر اپنے پیشتر صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور امارت میں منصب قضاء قبول فرمایا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام کی مدح فرمائی۔۔۔
حدیث محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔۔۔
میری اُمت کبھی گمراہی پر متفق نہیں ہوگی۔۔۔
وماعلینا الالبلاغ۔۔۔
واللہ تعالٰی عالم۔۔۔