ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
مسند احمد اور ابن حبان میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے کہ
جناب جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،جناب جبریل علیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھاتو فرشتہ اتر رہا تھاچنانچہ جناب جبریل علیہ السلاماللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلانے لگے کہ جس روز اللہ نے (اسمان اور زمین کو)پیدا کیااس وقت سے لیکر آج تک یہ فرشتہ زمین پر نہیں آیا۔ ۔ ۔ پھر جب یہ فرشتہ اتر کر آیا گیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا :
ﯾﺎ ﻣﺣﻣد أرﺳﻟﻧﻲ إﻟﯾك رﺑك: أﻓﻣﻟﮐﺎ ﻧﺑﯾﺎ. ﯾﺟﻌﻟك أو ﻋﺑدا رﺳوﻻ''''
'' اے محمد مجھے اللہ نے آپ کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ اللہ
جناب صلی اللہ علیہ وسلم کو بادشاہ نبی بنا دے یا بندہ بنا دے ؟''
اس موقعہ پر جناب جبریل علیہ السلام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا:
( تواضع لربك یا محمد )
'' اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے سامنے عاجزی اختیار کیجیے۔''
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراًجوب دیا :
(بل عبداًرسولاً)
'' میں تو بندہ نبی بننا چاہتا ہوں۔''
آپ صلی للہ علیہ وسلم پر میرے ماں پاب قربان آپ کے چہرہ پر انوار کا رعب اتنا تھا کہ لوگ نظر بھر کر دیکھنے کی سکت اور طاقت اپنے اندر نہ رکھتے تھے :
أتى النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ رجلٌ ، فَكَلَّمَهُ ، فجَعلَ ترعدُ فرائصُهُ ، فقالَ لَهُ : هوِّن عليكَ ، فإنِّي لستُ بملِكٍ ، إنَّما أَنا ابنُ امرأةٍ تأكُلُ القَديدَ
الراوي: عقبة بن عمرو بن ثعلبة أبو مسعود المحدث:الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 2693
خلاصة حكم المحدث: صحيح
سیدناابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر گفتگو کرنے لگے (خوف سے) ان کا گوشت پھڑکنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا ڈرو مت کیونکہ میں بادشاہ نہیں۔ میں تو ایک (غریب) خاتون کا بیٹا ہوں جو دھوپ میں خشک کیا ہو گوشت کھاتی تھی۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 193
اور یہی بات رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قریبی ساتھی سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنی وفات کے وقت بیان کرتے ہیں کہتے ہیں :
مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قابو پا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دوں اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرو کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہجرت سے اس کے سارے گذشتہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر مجھے کسی سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی میری نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کا مقام تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت مبارک کے متعلق پوچھے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجہ عظمت وجلال دیکھ نہ سکا، اگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا پس جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کے ساتھ نہ کوئی رونے والی ہو اور نہ آگ ہو جب تم مجھے دفن کر دو تو مجھ پر مٹی ڈال دینا اس کے بعد میری قبر کے اردگرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے قرب سے مجھے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔(رضی اللہ عنہ وارضاہ)
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 321 کتاب الایمان
جناب جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،جناب جبریل علیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھاتو فرشتہ اتر رہا تھاچنانچہ جناب جبریل علیہ السلاماللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلانے لگے کہ جس روز اللہ نے (اسمان اور زمین کو)پیدا کیااس وقت سے لیکر آج تک یہ فرشتہ زمین پر نہیں آیا۔ ۔ ۔ پھر جب یہ فرشتہ اتر کر آیا گیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا :
ﯾﺎ ﻣﺣﻣد أرﺳﻟﻧﻲ إﻟﯾك رﺑك: أﻓﻣﻟﮐﺎ ﻧﺑﯾﺎ. ﯾﺟﻌﻟك أو ﻋﺑدا رﺳوﻻ''''
'' اے محمد مجھے اللہ نے آپ کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ اللہ
جناب صلی اللہ علیہ وسلم کو بادشاہ نبی بنا دے یا بندہ بنا دے ؟''
اس موقعہ پر جناب جبریل علیہ السلام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا:
( تواضع لربك یا محمد )
'' اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے سامنے عاجزی اختیار کیجیے۔''
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراًجوب دیا :
(بل عبداًرسولاً)
'' میں تو بندہ نبی بننا چاہتا ہوں۔''
آپ صلی للہ علیہ وسلم پر میرے ماں پاب قربان آپ کے چہرہ پر انوار کا رعب اتنا تھا کہ لوگ نظر بھر کر دیکھنے کی سکت اور طاقت اپنے اندر نہ رکھتے تھے :
أتى النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ رجلٌ ، فَكَلَّمَهُ ، فجَعلَ ترعدُ فرائصُهُ ، فقالَ لَهُ : هوِّن عليكَ ، فإنِّي لستُ بملِكٍ ، إنَّما أَنا ابنُ امرأةٍ تأكُلُ القَديدَ
الراوي: عقبة بن عمرو بن ثعلبة أبو مسعود المحدث:الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 2693
خلاصة حكم المحدث: صحيح
سیدناابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر گفتگو کرنے لگے (خوف سے) ان کا گوشت پھڑکنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا ڈرو مت کیونکہ میں بادشاہ نہیں۔ میں تو ایک (غریب) خاتون کا بیٹا ہوں جو دھوپ میں خشک کیا ہو گوشت کھاتی تھی۔
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 193
اور یہی بات رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قریبی ساتھی سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنی وفات کے وقت بیان کرتے ہیں کہتے ہیں :
مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قابو پا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دوں اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرو کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہجرت سے اس کے سارے گذشتہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر مجھے کسی سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی میری نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کا مقام تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت مبارک کے متعلق پوچھے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجہ عظمت وجلال دیکھ نہ سکا، اگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا پس جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کے ساتھ نہ کوئی رونے والی ہو اور نہ آگ ہو جب تم مجھے دفن کر دو تو مجھ پر مٹی ڈال دینا اس کے بعد میری قبر کے اردگرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے قرب سے مجھے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔(رضی اللہ عنہ وارضاہ)
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 321 کتاب الایمان