السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
چند فرقوں کا تعارف اور دورحاضر میں ان کے اثرات
تا ریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام جس تبلیغ تمام نبی کی نے کی ہے اس کا مخزن وحی الٰہی تھا۔ اور اس دین میں جب کبھی بگاڑ ہوا ہے تو وہ وحی الٰہی میں تشکیک اور اس کے مقابلہ میں عقل یا وجدان کے استعمال میں افراط و تفریط سے ہوا ہے۔ کشف و وجدان نے جب وحی الٰہی میں بے جا تنقید و مداخلت کی تو ایک الگ " طریقت" کی بنیاد ڈالی، پھر اس میں مزید فرقے پیدا ہوگئے۔ جیسا کہ ان صوفیوں کے سلسلہ جات کے ناموں سے بھی ظا ہر ہے۔ ان صوفیوں نے اپنے خیالات، خوابوں ، جھوٹے قصے کہانوں، اور نام نہاد کشف و الہام کو بنیاد بنا کر قرآن و حدیث یعنی وحی الٰہی کی ایسی تاولیں کی کہ ان کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت اور توحید الوہیت خالص نہ رہا، بلکہ معاذاللہ! خالق اور مخلوق کے فرق کو ہی ختم کر دیا ۔ ان صوفیوں کے عقائد کے حوالے سے انشاءاللہ کبھی تفصیلی بحث کی جائے گی۔ اس وقت ہم ان فرقوں کا تعارف کرانا چاہتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت اور توحید الوہیت میں تو کلام میں کیا مگر توحید اسما ء و صفات میں کلام کرنے کے مرتکب ہوئے۔
یہ عقل پرست زبانی طور پر تو وحی الٰہی کی برتری کے قائل ہوتے ہیں لیکن عملاً ہر دور کے غالب رجحانات اور مخصوص نظریات کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور وحی الٰہی کی تاویل و تحریف کرکے ان نظریات و افکار کو الہامی کتابوں سے ثابت کرنے کی لا حاصل سعی میں لگ جاتے ہیں۔ ہم ان فرقوں کا مختصر تعارف کرانا چاہتے ہیں اور بتلانا چاہتے ہیں کہ اسلام میں عقل پرستی کا آغاز کب ہوا، اور کس راستے سے یہ ہم تک پہنچا ہے اور کون کون سے غیر اسلامی تصورات ان فرقوں نے اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن اس سے قبل ایک نصحیت :
مرغ پر نا رستہ چوں پراں شود
طعمہ ہر گربئہ دراں شود
جو پرندہ ابھی ننھا سا ہو اور پروں سے بھی محروم ہو اس کے باوجود اڑنے کی کوشش کرے گا تو قریب ہی تاک میں بیٹھی ہوئی بلی اسے یقیناً دبوچ لے گی اور وہ اس کا لقمہ تر بن کر رہ جائے گا۔
یہاں یہ بات سمجھانا مقصود ہے کہ جس کسی کو قرآن و حدیث کا علم نہ ہو اور نہ ہی وہ اس کی فہم رکھتا ہو، اور کسی غیر مسلم سے بحث ومباحثہ کرنے لگ جائے تو عین ممکن ہے کہ اس غیر مسلم کو دین اسلام کی طرف مائل کرنا تو کجا بلکہ وہ خود غیر اسلامی نظریات و افکار کا شکار ہو جائے۔
یہی معاملہ ان لوگوں کے ساتھ پیش آیا جنہوں نے اسلام میں یونانی فلسفہ اور نصاریٰ کے نظریات کو دین اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی اور نئے نئے فرقے تشکیل دیئے۔
ہمیں بھی اس بات کا خیال کرنا چاہئے کہ یہود و نصاریٰ یا اہل البدعۃ و الضلال یعنی ان صوفیوں اور اہل الکلام سےبغیر علم کے بحث ومباحثہ نہ کیا جائے۔
فرقہ جہمیہ:
دوسری صدی کے آغاز میں ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں جہم بن صفوان ظاہر ہوا وہ بزعِم خویش اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ بیان کرتا تھا۔ یعنی کہ قرآن و حدیث میں وارد اللہ تعالیٰ کی صفات جو اس کی عقل کے مطابق عیب کی بات ہیں ، ان تمام صفات کا انکار کرتا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے جہت یا سمت متعین کرنے کو شرک قرار دیتا تھا ، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہاتھ، پاؤں، چہرا، پنڈلی کا ذکر کیا ہے، ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنے کو بھی نا جائز قرار دیتا تھا۔
مثلاً قرآن کی ان آیات :
﴿ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ﴾ سُوۡرَةُ الاٴعرَاف – آية 54 " پھر وہ عرش پر جا ٹھرا "
﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى ﴾ سُوۡرَةُ طٰه - آية 05 " رحمٰن نے عرش پر قرار پکڑا"
ان آیات میں لفظ استویٰ کی تاویل و تحریف استولیٰ سے کی۔ امام ابن قیم الجوزیۃ رحمہ اللہ نے اپنے قصیدہ نونیہ کے درج ذیل شعر میں بہترین نکیر کی ہے۔
نون اليهود ولام جهمي هما
في وحي رب العرش زائدتان
یہودیوں کا "ن" اور جہمیہ کا "ل" رب العرش کی وحی سے زائد ہیں۔
جیسا کہ اللہ نے
"حطة" کہنے کا حکم دیا یہود نے "ن" کا اضافہ کر کے "حنطة"کہا بالکل اسی طرح جہمیہ نے "استوى" میں "ل" کا اضافہ کر کے " استولى" بنا لیا۔
ہم اس کی مزید تفصیل انشاءاللہ کسی اور موقع پربیان کریں گے۔
معتزلہ:
اسی زمانہ میں ایک اور شخص واصل بن عطاء ظاہر ہوا۔ مروی ہے کہ واصل بن عطاء ، حسن بصریؒ کے درس میں بیٹھا ہوا تھا، اس کا کسی بات پر حسن بصریؒ سے اختلاف ہوااس بنا پر وہ اپنے ہم خیال ساتھوں کے ساتھ حسن بصریرحمہ اللہ کے حلقے سے علیحدہ ہو کر دوسرے کونے میں جا بیٹھا تو حسن بصریؒ نے کہا کہ: " اعتزل عنا"یعنی وہ ہم سے کنارہ کر گیا۔
بات صرف یہاں تک ہی نہ رہی بلکہ واصل بن عطاء ایک مکتب فکر کا بانی بن کر سامنے آیا جو بعد میں اعتزال کے نام سے مشہور ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کے عقائد جہم بن صفوان سے ملتے جلتے تھے۔ اس پربھی یونانی فلسفہ کا بھوت سوار تھا۔ اس کے معتقدین معتزلہ کہلائے۔ یہ لوگ یونانی فلسفہ سے مرعوب ہو کر اس کے سامنے سرنگوں ہو گئے ۔اس فرقہ کا بیج تو واصل بن عطاء نے بویا تھا اس پودے کی آب جوئی یونانی فلسفہ کی ان کتابوں نے کی جو اس دور میں عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ یہ لوگ خود کو "اہل العدل و التوحید" گردانتے تھے مگر اہل سنت والجماعت انہیں معتزلہ کے نام سے پکارتے تھے اور پکارتے ہیں۔
قدریہ و جبریہ:
جس طرح جہمیہ فرقہ نے معتزلہ کو جنم دیا اسی طرح معتزلہ نے بھی مزید فرقوں کو جنم دیا جس میں قدریہ اور جبریہ شامل ہیں۔ ان عقل پرستوں نے اپنی عقل سے عقیدہ تقدیر کو سمجھنے کی کوشش کی ، اور یہ لوگ ناصرف علم دین سے عاری تھے بلکہ جس چیز پر ان کے دین و مذہب کا دارومدار تھا یعنی کہ عقل غالباً وہ بھی ان کے ہاں معدوم تھی۔جب ان کی "عقل شریف" میں کچھ نہ آیا تو ایک فرقہ یعنی فرقہ جبریہ نے انسان کو مجبور محض قرار دے کر یہ عقیدہ رکھا کہ انسان کا اس کے اعمال پر کوئی بھی اختیار نہیں اور دوسرے فرقے یعنی قدریہ نے عقیدہ تقدیر کا ہی انکار کر دیا ۔
ان تمام فرقوں کی آپس میں بڑی قرابت ہے۔ یہ اگر ایک دوسرے کے سگے بھائی نہیں تو سوتیلے ضرور ہیں۔
فتنہ خلق قرآن بھی اسی سلسلے کی ایک لڑی ہے کہ ان جہمیہ اور معتزلہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات کی طرح بولنے اور کلام کرنے کی صفت بھی حادث ہے۔ لہذا وہ قرآن کو قدیم(یعنی کہ ہمیشہ سے جیسے اللہ ہمشہ سے ہے) نہیں مانتے تھے بلکہ اسے حادث (یعنی کہ بعد میں وجود میں آنے والی) مانتے تھے۔لہذا وہ قرآن کو مخلوق مانتے تھے۔
ہم یہاں پوری تفصیل تو بیان کرنا نہیں چاہتے نہ ہی ان کے عقیدوں کا بطلان ثابت کرنا یہاں مقصود ہے لیکن صرف ایک واقعہ جو منقول ہے درج کرنا چاہتے ہیں:
واثق باللہ کے دربار کا خاص مسخرا ایک دن خلیفہ کے سامنے آیا تو کہنے لگا : "اللہ تعالیٰ امیر المومنین کو قرآن کے بارے میں صبر جمیل کی توفیق بخشے"
واثق : "اللہ تجھے سمجھے! نالائق کیا قرآن کی وفات ہو گئی ؟"
مسخرا : "امیرالمومنین! آخر کیا چارہ ہے ہر مخلوق کو موت واقع ہونے والی ہے، اور قرآن بھی مخلوق ہے۔ آج نہیں تو کل یہ حادثہ ہو کر رہے گا۔"
مسخرے کے اس جواب پر واثق سوچ میں ڈوب گیا تو مسخرے نے دوسرا سوال کر دیا اور بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا : امیرالمومنین آئندہ لوگ نماز تراویح میں کیا پڑھا کریں گے؟"
اللہ تعالیٰ نے امام احمد بن حنبل ؒ وغیرہ کو توفیق دی اور انہوں نے اس فتنہ کی خوب بیخ کنی کی۔ اللہ ان کی قبور کو منور کرے ۔ آمین
اشعریہ و ماتریدیہ :
اشعریہ:
اشعری فرقہ امام ابوالحسن الاشعری ؒ کی طرف منسوب ہے ، ابوالحسن اشعری پر تین مرحلے یا ادوار گذرے ہیں جن میں اس کے خيالات میں بھی اختلاف پیدا ہوتا رہا جنہیں مختصر طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ سب سے پہلے وہ معتزلی ہوا پھرکلابی یعنی ابن کلاب کے پیروکاروں میں شامل ہوا اورپھر آخر میں اہل سنت کی موافقت کرلی ۔ اہل سنت والجماعت کے سرخيل امام احمد بن حنبل ؒ شامل ہیں ، ابوالحسن اشعری ؒ نے اپنے اس آخری موقف کی تصریح اپنی تینوں کتابوں
" رسالة إلى أهل الثغر " اور
"مقالات الإسلاميين " اور
" الإبانةعن اصول الديانة " میں بھی صراحت سے بیان کی ہے ۔
ابوالحسن اشعری کی طرف منسوب متاخرین نے اس کے عقیدہ کے دوسرے مرحلے سے اخذ کیا اوراس کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالی کی صفات میں تاویل کا راستہ اختیار کیا ، اورصرف مندرجہ ذيل شعرمیں بیان کی گئی سات صفات کے علاوہ کوئی اورصفت ثابت نہیں کرتے بلکہ ان سب کی تاویل کرتے ہیں :
حي عليم قدير والكلام له إرادة وكذا السمع والبصر
وہ حی ّ و علیم وقدیر ہے ، اس کی کلام بھی ہے اورارادہ بھی اوراسی طرح سمع وبصر بھی ہے ۔
اور یہ سات صفات بھی اہل سنت والجماعت کی طرح نہیں مانتے اس کے اثبات کی کیفیت میں بھی ان کا اختلاف ہے۔ مقام حیرت ہے کہ ان سات صفات باری تعالیٰ کو جو یہ بادل ناخواستہ تسلیم کرتےبھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت بھی شامل نہیں۔
ماتریدیہ :
ماتریدیہ فرقے کا بانی ابومنصور ماتریدی ہے جس کی پیدائیش 238 ہجری اور وفات 333 ہجری میں ہوئی ابو منصور چالاکی و جدل میں کافی مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے فرقے کی تاسیس میں بزرگ اساتذہ سے استفادہ کیا ہے ان میں محمد بن مقاتل رازی ،ابو نصر عیاضی ،ابوبکر احمد بن اسحاق الجوزجانی اور نصیر جن یحی بلخی قابل ذکر ہیں ۔
ابو منصور نے بزرگ اساتذہ سے استفادہ کرنے کے علاوہ بہت سے شاگردوں کی تربیت کی ہے ان میں ابوالقاسم حکیم سمرقندی ،علی رستغفنی ،ابو محمد عبدالکریم بردوی ،اور احمد عیاضی قابل ذکر ہیں ۔ ابو منصور نے تاویلات قرآن کے بارے میں ایک تاویلی تفسیر لکھی ہے اور علم کلام میں کتاب التوحید تحریر کی ہے جس میں مختلف
فرقوں کے کلامی آراء کا ذکر کیا ہے ان کی دو اور کتابیں ہیں جس کے نام
"شرح فقہ الاکبر" اور
" رسالة فی العقیدہ " ہے ان کی فقہی کتابوں میں
"ماخذالشرایع والجدل " قابل ذکر ہیں ۔
ماتریدیہ کی مشہورشخصیتوں میں ابو یسر بزدوی، ابولمعین نسفی، نجم الدین نسفی اور نورالدین صابونی شامل ہیں۔
ماتریدیہ کی کلامی روش کے بارے مین تین قول ہیں ۔
1: ماتریدیہ کی روش اشعری کی طرح ہے
2: ان کی روش معتزلہ سے نزدیک ہے
3: اشعری اور معتزلہ کے مابین ہے
ماتریدیہ کے نزدیک عقل و نقل (نقل یعنی قرآن و حدیث) دین و شریعت کے سمجھنے کے دواہم ذرائع ہیں اور ان کا عقیدہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حصول نقل (نقل یعنی قرآن و حدیث) سے پہلے عقل سے ثابت ہوتی ہے اورہر انسان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت عقل کے ذریعے حاصل کرے اسی بناپر حسن و قبح عقلی پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
ماتریدیہ اور ابومنصور کا عقیدہ ہےکہ صفات باری تعالیٰ کے متعلق جو نصوص قرآن و حدیث میں وارد ہیں انہیں ان کے حقیقی معنی پر محمول کرنے سے تجسیم وتشبیہ لازم آتی ہے بنابریں قرآن و حدیث میں مجاز کا استعمال ہواہے لہذا تاویل و تفویض ایسے اصول ہیں جن پر ماتریدیہ کے اصول عقائد استوار ہیں۔
ماتریدیہ نے بھی اپنی عقل کو قرآن و حدیث پر مقدم رکھااور اپنی عقل سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اور قرآن و حدیث میں وارد صفات باری تعالیٰ ان کی عقل کے مطابق تجسیم وتشبیہ ٹھرتی ہے۔ اب قرآن وحدیث کا انکار تو نہ کرسکے لیکن تاویل و تحریف کا سہارا لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کر دیا۔
اب شاید کوئی یہ خیال کرے کے آخر ان بد عقیدہ فرقوں کے بارے میں اتنی معلومات حاصل کرنا اور ان کی کتابوں میں سر کھپا نا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ایک حد تک تو یہ بات صحیح ہے، مگر ایک حد تک ۔ اگر یہ باطل عقیدے اور فرقے دنیا سے معدوم ہو چکے ہوتے تب یہ بات صحیح تھی اور قرآن کی یہ آیت تلاوت کر دی جاتی :
﴿ تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡۚ وَلَا تُسۡـَٔـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ﴾ سُوۡرَةُ البَقَرَة آية ۱۴۱
"وہ ایک امت ہے جو گزر چکی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا تمہارے لئے ، تم ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے۔"
مگر آج بھی بہت سے فرقے جو اہل سنت و الجماعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان ہی باطل عقیدوں کے حامل ہیں۔ اور نہ صرف حامل ہیں بلکہ گلی گلی نگر نگر جا کر اس کی تبلیغ بھی کر رہے ہیں۔ ہم بطور ثبوت آپ کو دو کتابوں کے حوالے پیش کرتےہیں ۔
اسکین صفحات میں سرخ رنگ میں نشان شدہ عبارات کا مطالعہ بغور کیجئے۔
عنوان الکتاب : المہند علی المفند یعنی عقائد علماء اہل سنت دیوبند
المؤلف : مولانا خلیل احمد سہارنپوری صاحب
باضافہ : عقائد اہل سنۃ و الجماعۃ
از مولانا مفتی سید عبدالشکور ترمذی
ناشر : ادارہ اسلامیات، 190-انار کلی لاہور
صفحہ ۲۹ اور ۴۷- ۴۸
««"اس سے پہلے کہ ہم جواب شروع کریں جاننا چاہئے کہ ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری جماعت بحمداللہ فروعات میں مقلد ہیں مقتدائے خلق حضرت امام ہمام امام اعظم نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے، اور اصول و اعتقادیات میں پیرو ہیں امام ابوالحسن اشعری اور امام ابومنصور ماتریدی رضی اللہ عنہما کے اور طریقہائے صوفیہ میں ہم کوانتساب حاصل ہے سلسلۂ عالیہ حضراتِ نقشبندیہ، اور طریقۂ زکیہ مشائخ چشت اور طریقۂ مرضیہ مشائخ سُہروردیہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ۔"»»
مذکورہ بالا عبارت میں علماء دیوبند اپنی مسلکی دستاویز میں علی اعلان فرماتے ہیں کہ دیوبندی صرف فروعی مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں ، اور عقیدہ اور اصول دین میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پیروکار نہیں بلکہ امام ابوالحسن اشعری اور امام ابومنصور ماتریدی کے پہروکار ہیں۔ یعنی کہ یہ اشعری اور ماتریدی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
««تیرھواں اور چودھواں سوال
"کیا کہتے ہو حق تعالیٰ کے اس قسم کے قول میں کہ رحمٰن عرش پر مستوی ہوا، کیا جائز سمجھتے ہو باری تعالیٰ کے لیے جہت ومکان کا ثابت کرنا یا کیا رائے ہے؟
جواب
اس قسم کی آیات میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت سے بحث نہیں کرتے، یقینا جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ مخلوق کے اوصاف سے منزّہ اور نقص و حدوث کی علامات سے مبّرا ہے جیسا کہ ہمارے متقدمین کی رائے ہےاور ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت و شرع کے اعتبار سے جائز سے تاویلیں فرمائی ہیں تا کہ کم فہم سمجھ لیں مثلاً یہ کہ ممکن ہے استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت، تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔ البتہ جہت و مکان کا اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا ہم جائز نہیں سمجھتے اور یوں کہتے ہیں کہ وُہ جہت و مکانیت اور جملہ علاماتِ حدوث سے منزہ و عالی ہے۔"»»
المہند علی المفند مندرجہ بالا عبارت میں اپنے متقدمین علماء احناف ( یعنی قدیم دور کے علماء جیسے امام طحاوی وغیرہ) کا عقیدہ بیان کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی قسم کی تاویل کے قائل نہیں اوراس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کیفیت پر بحث نہ کرتے ہوئے بلاکیفیت اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل صحیح ہے اور یہ ہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔
مگر بعد میں آنے والے متاخرین صوفی علماء احناف جہمیہ اور معتزلہ کی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات میں تاویل کرتے ہیں کہ "ممکن ہے کہ استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت۔" اب یہ دیکھیں کہ ممکن ہے ، ہو سکتا ہے، شاید، ان کو خود یقین نہیں ۔ ان کا تو عقیدہ ہی شش و پنج میں مبتلا ہے اور ان کے متقدمین علماء کے خلاف ہے۔ اب یا تو علماء دیوبند اور متاخرین علماء احناف کا عقیدہ صحیح ہے یا متقدمین علماء احناف کا۔ یقیناً علماء دیوبند اور متاخرین علماء احناف کا صوفی ، جہمی ، معتزلی عقیدہ باطل اور گمراہی ہے۔
عنوان الکتاب : تقریرِ ترمذی
المؤلف : محمد اشرف علی تھانوی صاحب
تحقیق و تخریج و تحشیہ : مولانا مفتی عبدالقادر صاحب
تقدیم و نظر ثانی : مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
ناشر : ادارہ ِتالیفاتِ اشرفیہ ، چوک فوارہ ملتان پاکستان
صفحہ ۱۸۹ - ۱۹۰
««"مولانا صاحب رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بہت سے اہل علم یہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیثیں اپنے ظاہر پر رکھی جائیں یعنی یوں کہا جائے کہ اللہ کے ہاتھ بھی ہیں اور پیر بھی اور آنکھ اور کان سب چیزیں ہیں مگر ہم ان کی کیفیات سے آگاہ نہیں ہیں جیسا وہ خدائے بے مثل ہے اور جیسا اس کی ذات کا کما حقہ ادراک نہیں ہو سکتاایسے ہی اس کی صفات کا ادراک بھی محال ہے۔ اور سلف صالحین و علماء متقدمین کا یہی مذہب تھا اور جہمیہ جو ایک فرقہ اسلامیہ ہے وہ ان سب امور میں تاویل کرتے ہیں۔ مثلا ً يَدُ الله فوق ايديهم میں ید سے مراد قوت کہتے ہیں۔
اور متاخرین نے ان مبتدعین کے مذہب کو اختیار کیا ہے ایک خاص ضرورت سے اور وہ یہ ہے کہ نصاریٰ کے ساتھ مشابہت ہوتی تھی یعنی جیسا کہ وہ قائل ہیں کہ تین بھی خدا ہیں اور ایک بھی ہے مگر سمجھ میں نہیں آسکتا ہے ایسے اہل اسلام کے یہاں بھی ان امور کے باب میں گفتگو تھی تو اس اعتراض صوری کے رفع کرنے کو یہ طریق اختیار کیا گیا لیکن اعتقاد متاخرین کا وہی ہے جو مقتدمین (متقدمین) کا مذہب ہے بعض لوگ یوں سمجھ گئے ہیں کہ متاخرین کا مذہب وہ ہے جو مبتدین کا ہے یہ غلط ہے اور اصل امر وہ ہے جو مذکور ہوا اور بعض فرقوں کا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے اور عرش سے دو دو انگل باہر نکلا ہوا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کی شکل گھوڑے کی جیسی ہے معاذاللہ اور بعض کہتے ہیں کی اس کی شکل مثل انسان کے ہے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ سونے کا ہے۔ اور آج کل کے اہلسنت والجماعت تنزیہ کے قائل ہیں۔ یعنی حق تعالیٰ مکان اور زمان سے پاک ہے اور آج کل کے صوفیاء کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نہ من کل الوجوہ منزہ ہے اور نہ من کل الوجوہ مشابہ ہے سب باتیں ہیں۔
مولانا فرماتے تھے کہ اگر کسی کے دل میں خیال آئے کہ صوفیہ نے یہ برزخ کہاں سے نکالا ہے یا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پیر ہماری مثل ہوں گے یا بالکل نہ ہوں گے تو دل کو یہ جواب دینا چاہئے کہ ہمارے ہاتھ پیر وغیرہ مجازی ہیں اور حق سبحانہ و تعالیٰ کے حقیقی ہیں جیسا وہ خدا ہے ویسے ہی اس کے ہاتھ پیر بھی ہوں گے انتہی التقریر۔"»»
تقریر ترمذی از مولانا اشرف علی تھانوی ان دروس تقریر اور اقوال کا مجموعہ ہے جو مولانا اشرف علی تھانوی نے جامع ترمذی کے حوالے سے ادا کئے ہیں جنہیں ان کے شاگرد نے جمع کر کے تحریر کیا ہے۔ یہاں جو مولانا صاحب کہا گیا ہے یہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کا تذکرہ ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب یا تو سلف صالحین کے عقیدہ سے نا واقف اور جاہل ہیں یا پھر جان بوجھ کر دجل کر رہے ہیں ۔ کیونکہ نہ تو سلف صالحین اور نہ ہی متقدمین احناف کا یہ عقیدہ تھا کہ معاذ اللہ ! اللہ تعالیٰ کی سب چیزیں ہیں ۔ (تھانوی صاحب کو اندازہ نہیں کہ وہ اپنے باطل عقیدہ کے دفاع میں اور سلف صالحین اور سلف صالحین کے عقیدہ کے حامل اہل السنت والجماعت، اہل الحدیث ، سلفی عقیدہ کو مشکوک باور کروانے کی کوشش میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے متعلق کتنی غلط بات کہہ گئے ہیں۔ہم اس کو اپنی تحریر میں لانا بھی گوارا نہیں کرتے، اللہ قارئین کو اس عبارت کےفساد کو سمجھنے کی توفیق دے ۔ آمین ) بلکہ سلف صالحین اور متقدمین احناف کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات جوقرآن و حدیث میں وارد ہیں ان پر بلا کیفیت ایمان لاتے ہیں۔ اور جس کا تذکرہ نہیں اس کے بارے میں کوئی تخیلاتی کلام نہیں کرتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات توقیفیہ ہیں یعنی اس میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں۔
جہمیہ کا جو عقیدہ بیان کیا ہے کہ وہ ایک فرقہ ہے اور اسماء و صفات میں تاویل کرتا ہے ، یہ بات صحیح بیان کی ہے۔
یہ جملہ
" اور متاخرین نے ان مبتدعین کے مذہب کو اختیار کیا ہے" یاد رکھئے کہ تھانوی صاحب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ متاخرین احناف نے بدعتی فرقہ جہمیہ کا باطل عقیدہ اختیار کیا ہے۔ یاد رہے کہ متقدمین احناف کا بھی عقیدہ جہمی عقیدہ نہ تھا۔تھانوی صاحب نے اس بدعتی عقیدہ کو اختیار کرنے کی ایک وجہ بھی بیان کی کہ سلف صالحین کے عقیدہ میں نصاریٰ کے ساتھ مشابہت ہوتی تھی۔ یعنی بقول تھانوی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کی جماعت جسے سلف صالحین کہا جاتا ہے، ان کا عقیدہ نصاریٰ کے متاشبہ تھا۔ اور بدعتی فرقےبھی سلف صالحین کے عقیدہ پر کلام کرتے تھے۔ اب متاخرین احناف بجائے اس کے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ پر قائم رہتے ، بدعتی فرقہ جہمیہ کے عقیدہ کو اختیار کر لیا۔ تا کہ ان اعتراضات سے بچا جاسکے۔ نجانے کس حکیم نے ان متاخرین حنفیوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اعتراض کے رفع کرنے طریقہ یہ ہے کہ معترض کے عقیدہ کو اختیار کر لیا جائے اور ان کے آگے سرنگوں ہو جایا جائے۔ اب اس بات کے بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ
"لیکن اعتقاد متاخرین کا وہی ہے جو مقتدمین (متقدمین) کا مذہب ہے بعض لوگ یوں سمجھ گئے ہیں کہ متاخرین کا مذہب وہ ہے جو مبتدعین کا ہے یہ غلط ہے " اب یہ تو حنفی مقلد جو" ڈولے شاہ کے چوہے" ہیں وہ ہی تھانوی صاحب کی یہ بات مان سکتے ہیں کہ جہمیہ کا عقیدہ اختیار کرنے کے بعد بھی جو تھانوی صاحب نے کہا ہےکہ
"اور متاخرین نے ان مبتدعین کے مذہب کو اختیار کیا ہے "، متاخرین احناف اور متقدمین احناف کا عقیدہ ایک ہی ہے۔ کوئی بھی ذیشعور شخص اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا۔مولانا تھانوی کا یہ کہنا کہ
"اور آج کل کے اہلسنت والجماعت تنزیہ کے قائل ہیں۔ یعنی حق تعالیٰ مکان اور زمان سے پاک ہے" یہ بات بھی صحیح کہی مگر ایک دجل کے ساتھ کہ آج کل کے اہلسنت والجماعت نہیں بلکہ نام نہاد اہل سنت و الجماعت کا یہ عقیدہ ہے۔ جو درحقیقت جہمیہ اور معتزلہ ہیں ۔ تھانوی صاحب کے نزدیک عقیدہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ عقیدہ کبھی منسوخ نہیں ہوتا پچھلے تمام انبیاء اور امتوں کا بھی وہی عقیدہ تھا جو محمد رسول اللہﷺ کا اور اصحاب محمدرسول اللہﷺ کا بھی وہی عقیدہ تھا۔ اور آج کے اہل سنت و الجماعت کا بھی وہی عقیدہ ہے۔ کہ اللہ کے اسماء و صفات توقیفیہ ہیں یعنی اس میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اور وہ جو بھی قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں، اس پر بلا تعطیل، بلاتاویل، بلاتمثیل اور بلا کیفیت ایمان لاتے ہیں۔ اور یہ عقیدہ اہل الحدیث ، اہل الذکر، اہل الاثر، اہل سنت و الجماعت ، سلفیوں کا ہے۔ الحمداللہ
اس باب میں اللہ کی توفیق سے ہم بہت کچھ تحریر میں لا سکتے ہیں اور بہت سی کتابوں کے حوالاجات پیش کر سکتے ہیں لیکن جو کہا جاتا ہے کہ "عقل مند را اشارہ کافی " لہذا ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔
اللہ ہمیں ان تمام فتنوں سے محفوظ رکھے اور قرآن و حدیث سلف صالحین کے منہج پر قائم رکھے۔ آمین